HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جہاد کا اذن


اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا، وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰینَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ، نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ.( الحج ۲۲: ۳۹۔۰ ۴)
’’(چنانچہ) جن سے جنگ کی جائے، اُنھیں جنگ کی اجازت دے دی گئی ہے، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے۔ وہ جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، صرف اِس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔‘‘

یہ قرآن کی پہلی آیات ہیں جن میں مہاجرین صحابہ کو اِس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اگر چاہیں تو جارحیت کے جواب میں جنگ کا اقدام کر سکتے ہیں ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنھیں بالکل بے قصور محض اِس جرم پر اُن کے گھروں سے نکلنے کے لیے مجبور کر دیا گیا کہ وہ اللہ ہی کو اپنا رب قرار دیتے ہیں۔ قریش کے شدائد و مظالم کی پوری فرد قرارداد جرم ، اگر غور کیجیے تو اِس ایک جملے میں سمٹ آئی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے وطن اور گھر در کو اُس وقت تک چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا ، جب تک اُس کے لیے وطن کی سرزمین بالکل تنگ نہ کر دی جائے۔ ’بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا‘ کا اشارہ اِنھی مظالم کی طرف ہے اور قرآن نے اِنھی کی بنیاد پر مسلمانوں کو یہ حق دیا ہے کہ اب وہ جارحیت کے خلاف تلوار اٹھا سکتے ہیں ۔

یہ حق اُنھیں بحیثیت جماعت دیا گیا ہے۔ زبان کے اسالیب سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ قتال کی جو آیتیں بھی قرآن میں آئی ہیں، مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں اُن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ حدودوتعزیرات کی طرح اِن آیات کے مخاطب وہ بحیثیت جماعت ہیں۔ لہٰذا اِس معاملے میں کسی اقدام کا حق بھی اُن کے نظم اجتماعی ہی کو حاصل ہے۔ اُن کے اندر کا کوئی فرد یا گروہ ہرگز یہ حق نہیں رکھتا کہ اُن کی طرف سے اِس طرح کے کسی اقدام کا فیصلہ کرے۔ سورۂ حج کی زیربحث آیات میں ’اُذِنَ‘ کا لفظ اِسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ قتال سے متعلق پہلا مسئلہ جوازوعدم جواز کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قریش کی طرف سے ظلم و عدوان کے باوجود زمانۂ رسالت میں نظم اجتماعی کے قیام کی جس شرط کے پورا ہو جانے کے بعد مسلمانوں کو اِس کی اجازت دی ، اُس کے بغیر یہ اب بھی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہو سکتا۔ =4= نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے :

إنما الإمام جنۃ، یقاتل من وراۂ و یتقی بہ.( بخاری، رقم ۲۹۵۷) 
’’مسلمانوں کا حکمران اُن کی سپر ہے ، قتال اُسی کے پیچھے رہ کر کیا جاتا ہے اور لوگ اپنے لیے اُسی کی آڑ پکڑتے ہیں ۔‘‘

B

حواشی :

4 اِس زمانے میں بعض لوگ اِس کی تردید میں صلح حدیبیہ کے بعد قریش کے خلاف ابو بصیر رضی اللہ عنہ کی غارت گری سے استدلال کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ محض علم و نظر کا افلاس ہے ۔قرآن مجید نے سورۂ انفال (۸) کی آیت ۷۲ میں پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ جو لوگ ہجرت کر کے مدینہ منتقل نہیں ہو سکے ، اُن کے کسی معاملے کی کوئی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ریاست مدینہ کے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ پھر یہی نہیں، ایک روایت کے مطابق خود حضور نے ابو بصیر کے ایک اقدام پر یہ تبصرہ فرمایا ہے کہ ’ویل أمہ مسعر حرب لو کان لہ أحد‘ (اِس کی ماں پر آفت آئے ، اِسے کچھ ساتھی مل گئے ہوتے تو جنگ کی آگ بھڑکا دیتا)۔ اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِس معاملے میں آپ کی راے کیا تھی۔ ملاحظہ ہو: بخاری، رقم ۲۷۳۱ ۔۲۷۳۲۔