HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قانون جہاد

امن اور آزادی انسانی تمدن کی ناگزیر ضرورت ہے ۔ فرد کی سرکشی سے اُس کی حفاظت کے لیے تادیب اور سزائیں ہیں ، لیکن اگر قومیں شوریدہ سر ہو جائیں تو ہر شخص جانتا ہے کہ اُن کے خلاف تلوار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔ نصیحت اور تلقین جب تک کارگر ہو ، تلوار اٹھانے کو کوئی شخص بھی جائز قرار نہ دے گا ،مگر جب کسی قوم کی سرکشی اور شوریدہ سری اِس حد کو پہنچ جائے کہ اُسے نصیحت اور تلقین سے صحیح راستے پر لانا ممکن نہ رہے تو انسان کا حق ہے کہ اُس کے خلاف تلوار اٹھائے اور اُس وقت تک اٹھائے رکھے، جب تک امن اور آزادی کی فضا دنیا میں بحال نہ ہو جائے ۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ تلوار اٹھانے کی یہ اجازت اگر نہ دی جاتی تو قوموں کی سرکشی اِس انتہا کو پہنچ جاتی کہ تمدن کی بربادی کا تو کیا ذکر ، معبد تک ویران کر دیے جاتے اور اُن جگہوں پر خاک اڑتی ، جہاں اب شب و روز اللہ پروردگار عالم کا نام لیا جاتا اور اُس کی عبادت کی جاتی ہے:

وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا.(الحج ۲۲: ۴۰)
’’(یہ اجازت اِس لیے دی گئی کہ)اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کنیسے اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھائے جاچکے ہوتے۔‘‘

یہ جہاد و قتال  =1= ہے ، لیکن اِس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:

ایک ،ظلم و عدوان کے خلاف ،

دوسرے ، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔

پہلی صورت شریعت کا ابدی حکم ہے اور اِس کے تحت جہاد اُسی مصلحت سے کیا جاتا ہے جو اوپر بیان ہوئی ہے ۔ دوسری صورت کا تعلق شریعت سے نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے قانون اتمام حجت سے ہے جو اِس دنیا میں ہمیشہ اُس کے براہ راست حکم سے اوراُنھی ہستیوں کے ذریعے سے روبہ عمل ہوتا ہے جنھیں وہ رسالت کے منصب پر فائز کرتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں یہ منصب آخری مرتبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوا ہے :

وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.(یونس ۱۰: ۴۷)
’’ ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘

اِس قانون کی رو سے اللہ کی حجت جب اِن رسولوں کے ذریعے سے کسی قوم پر پوری ہو جاتی ہے تو اِن کے منکرین پر اِسی دنیا میں عذاب آ جاتا ہے۔ یہ عذاب آسمان سے بھی آتا ہے اور بعض حالات میں اہل حق کی تلواروں کے ذریعے سے بھی ۔ پھر اِس کے نتیجے میں منکرین لازماً مغلوب ہو جاتے ہیں اور اُن کی سرزمین پر حق کا غلبہ پوری قوت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ۔ =2= رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اتمام حجت کے بعد یہی دوسری صورت پیش آئی ۔ چنانچہ آپ کو اور آپ کے صحابہ کو جس طرح ظلم و عدوان کے خلاف قتال کا حکم دیا گیا ، اِسی طرح اِس مقصد کے لیے بھی تلوار اٹھانے کی ہدایت ہوئی۔ یہ خدا کا کام تھا جو انسان کے ہاتھوں سے انجام پایا ۔ اِسے ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے۔ انسانی اخلاقیات سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’یُعَذِّبْھُمُ اللّٰہُ بِاَیْدِیْکُمْ‘  =3= ( اللہ تمھارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دے گا) کے الفاظ میں یہی حقیقت بیان ہوئی ہے۔

B

حواشی :

1 جہاد کے معنی کسی جدوجہد میں پوری قوت صرف کر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں یہ تعبیر جس طرح اللہ کی راہ میں عام جدوجہد کے لیے استعمال ہوئی ہے ،اِسی طرح قتال فی سبیل اللہ کے لیے بھی آئی ہے ۔ یہاں اِس کا یہی دوسرا مفہوم پیش نظر ہے۔  =1=  


2 ابراہیم ۱۴: ۱۳۔۱۴۔ المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱۔  =2=


3 التوبہ ۹: ۱۴۔  =3=