HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

دعوت کی حکمت عملی


اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ. اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ. وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَلَءِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ.( ا لنحل ۱۶: ۱۲۵ ۔ ۱۲۶)
’’تم، (اے پیغمبر)، اپنے پروردگار کے راستے کی طرف دعوت دیتے رہو، حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور اِن کے ساتھ اُس طریقے سے بحث کرو جو پسندیدہ ہے۔ یقیناً تیرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون اُس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور وہ اُن کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت پانے والے ہیں۔ اگر تم لوگ (کسی وقت) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنا تمھارے ساتھ کیا گیا ہے، لیکن اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے ۔‘‘

سورۂ نحل کی اِن آیتوں کے مخاطب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ہیں اور اِس لحاظ سے یہ اصلاً پیغمبر کے انذار سے متعلق ہیں ،لیکن صاف واضح ہے کہ اِن کا حکم ہر لحاظ سے عام ہے ۔ چنانچہ دعوت کی ہر صورت کے لیے طریق کار اور حکمت عملی کا اصل اصول یہی آیتیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا جو حکم اِن میں بیان ہوا ہے ، وہ درج ذیل نکات پر مبنی ہے :

ایک یہ کہ دعوت ہمیشہ حکمت و موعظت اور مجادلۂ احسن کے اسلوب میں پیش کرنی چاہیے ۔ حکمت سے مراد اِن آیات میں دلائل و براہین ہیں اور موعظت حسنہ سے دردمندانہ تذکیر و نصیحت۔ مدعا یہ ہے کہ داعی جو بات بھی کہے، وہ دلیل و برہان اور علم و عقل کی روشنی میں کہے اور اُس کا انداز چڑھ دوڑنے اور دھونس جمانے کا نہیں ، بلکہ خیر خواہی اور شفقت و محبت کے ساتھ توجہ دلانے کا ہونا چاہیے ۔ یہاں تک کہ بحث و مباحثہ کی نوبت بھی اگر آ جائے تو اُس کے لیے پسندیدہ طریقے اختیار کیے جائیں اور اِس کے جواب میں حریف اشتعال انگیزی پر اتر آئے تو اُس کی اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجاے داعی حق ہمیشہ مہذب اور شایستہ ہی رہے ۔

دوسرے یہ کہ داعی کی ذمہ داری صرف دعوت تک محدود ہے، یعنی بات پہنچا دی جائے ،حق کو ہر پہلو سے واضح کر دیا جائے اور ترغیب و تلقین میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ اٹھا ر کھی جائے۔ اُس نے اگر اپنا یہ فرض صحیح طریقے سے ادا کر دیا تو وہ اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہوا ۔ لوگوں کی ہدایت و ضلالت کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے ۔ وہ اُن کو بھی جانتا ہے جو اُس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور اُن کو بھی جو ہدایت پانے والے ہیں ۔ لہٰذا ہر ایک کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جس کا وہ مستحق ہو گا ۔ داعی کو نہ داروغہ بننا چاہیے ،نہ اپنے مخاطبین کے لیے جنت اور جہنم کے فیصلے صادر کرنے چاہییں۔ یہ سب معاملات اللہ تعالیٰ سے متعلق ہیں۔ داعی حق کی ذمہ داری صرف ابلاغ ہے ۔ اُسے چاہیے کہ اپنی اِس ذمہ داری سے ہر گز کوئی تجاوز نہ کرے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں یہ حقیقت قرآن مجید نے بعض دوسرے مقامات پر اِس طرح واضح کی ہے :

اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ. (القصص ۲۸: ۵۶) 
’’(یہ اِس کے باوجود نہیں مانیں گے، اِس لیے زیادہ پریشان نہ ہو، اے پیغمبر)۔ تم جن کو چاہو، ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) ہدایت دیتا ہے اور وہی خوب جانتا ہے اُن کو جو ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ھُدٰھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ.(النحل ۱۶: ۳۷) 
’’تم اگر اِن کی ہدایت کے حریص ہو تو اِس سے کیا حاصل کر لو گے، (اے پیغمبر)، اِس لیے کہ اللہ اُن کو ہدایت نہیں دیا کرتا جنھیں وہ (اپنے قانون کے مطابق) گمراہ کر دیتا ہے اور اُن کا کوئی مددگار بھی نہیں بن سکتا ۔‘‘
اِتَّبِعْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ، لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ، وَاَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِکِیْنَ. وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَآ اَشْرَکُوْا، وَمَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ، وَمَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍ.( الانعام ۶: ۱۰۶۔۱۰۷) 
’’تم اُس چیز کی پیروی کرتے رہو، (اے پیغمبر)، جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر وحی کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اُس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور (یہ نہیں مانتے تو) اِن مشرکوں کو جانے دو۔ اگر اللہ چاہتا تو یہ کبھی شرک نہ کر پاتے۔ ہم نے اِن پر تمھیں نگران مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم اِن کے ضامن ہو۔‘‘
فَذَکِّرْ، اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ، لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۲۱۔ ۲۲) 
’’(اِس کے باوجود نہیں مانتے) تو تم یاددہانی کر دو، (اے پیغمبر)، تم یاددہانی کرنے والے ہی ہو، تم اِن پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔‘‘
فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابُ.(الرعد ۱۳: ۴۰) 
’’بہرکیف، تمھاری ذمہ داری صرف پہنچانا ہے اور اِن کا حساب لینا ہمارا کام ہے۔‘‘

تیسرے یہ کہ دعوت کے مخاطبین اگر ظلم و زیادتی اور ایذا رسانی پر اتر آئیں تو داعی کو اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے اتنا بدلہ لینے کا حق ہے جتنی تکلیف اُسے پہنچائی گئی ہے ،لیکن اللہ تعالیٰ کو پسند یہی ہے کہ صبر سے کام لیا جائے ۔ اِس صبر کے معنی یہ ہیں کہ حق کے داعی ہر اذیت برداشت کر لیں ، لیکن نہ انتقام کے لیے کوئی اقدام کریں ، نہ مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبرا کر اپنے موقف میں کوئی ترمیم و تغیر کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس موقع پر صبر کرنے والوں کے لیے بڑی نعمت کا وعدہ ہے ۔ اِس کا نتیجہ دنیا میں بھی اُن کے لیے بہترین صورت میں ظاہر ہو گا اور قیامت میں بھی خدا نے چاہاتو وہ اِس کے بہترین نتائج دیکھیں گے ۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر دعوت کی جدوجہد میں برائی کا بدلہ نہ لینے اور اِس کے مقابلے میں بھلائی کا رویہ اختیار کرنے کی یہ تعلیم اِس طرح دی ہے :

وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ، فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَ بَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ. وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ. وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ ، اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۴ ۔ ۳۶) 4:@34
’’حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اور برائی، دونوںیکساں نہیں ہیں۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ تمھارے یہ منکرین اب برائی کے درپے ہیں، لیکن) تم برائی کے جواب میں وہ کرو جو اُس سے بہتر ہے تو دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت ہے، وہ گویا ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔ اور (یاد رکھو کہ) یہ دانش اُنھی کو ملتی ہے جو ثابت قدم رہنے والے ہوں اور یہ حکمت اُنھی کو عطا کی جاتی ہے جن کے بڑے نصیب ہیں۔ اور اگر شیطان کی طرف سے (کسی موقع پر) تمھارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا ہو جائے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈو۔ بے شک، وہی سننے والا ، جاننے والا ہے۔‘‘

یہ چیز ،ظاہر ہے کہ اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب حق کے داعی پہلے ہی قدم پر اِس حقیقت کو سمجھ کر میدان میں اتریں کہ اِس راہ میں آزمایش کے بعض ایسے مراحل بھی آتے ہیں جب مال لٹتا، باغات اجڑتے، مصائب ٹوٹتے،دست و بازو قلم ہوتے، سرجاتا اور جان جان آفریں کے سپرد کرنا پڑتی ہے؛ جب ترغیب و ترہیب کے سب حربوں کا رخ تنہا داعی حق کے سینے کی طرف ہو جاتا اور خوف و طمع کے سارے انداز تنہا اُسی کو اِس راہ سے ہٹانے کے لیے وقف ہو جاتے ہیں؛جب اُس کو حوالۂ زنداں کیا جاتا ، اُس کی پیٹھ پر تازیانے برستے ،اُس کے جوڑ بند الگ کر دیے جاتے ،اُسے کیچڑ بھرے حوض میں لٹکا دیا جاتا، اُسے عین مقدس اور قربان گاہ کے درمیان سنگ سار کر دیا جاتا اور اُس کا سر قلم کر کے رقاصاؤں کے حضور میں پیش کر دیا جاتا ہے ، اور اِس یقین کے ساتھ اتریں کہ جس مالک نے اُن کو ہدایت بخشی ہے اور اِس دعوت کی ذمہ داری اُن پر عائد کی ہے ، وہ اِس راہ کے تمام عقبات میں اُن کی مدد بھی ضرور کرے گا:

وَمَا لَنَآ اَلاَّ نَتَوَکَّلَ عَلَی اللّٰہِ وَقَدْ ھَدٰنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلٰی مَآ اٰذَیْتُمُوْنَا، وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ.(ابراہیم ۱۴: ۱۲)
’’ اور ہم کیوں نہ اللہ پر بھروسا رکھیں، جب کہ ہمارے اِن راستوں کی ہدایت اُسی نے ہمیں بخشی ہے۔ تم جو اذیت بھی ہمیں دے رہے ہو، ہم اُس پر ہر حال میں صبر کریں گے اور (اللہ پر بھروسا کریں گے، اِس لیے کہ) بھروسا کرنے والوں کو اللہ ہی پر بھروسا کرنا چاہیے۔‘‘

دعوت دین کے لیے یہی تین چیزیں لائحۂ عمل کی اساس ہیں ۔ اِن میں سے آخری دو تو اِس سے زیادہ کسی تفصیل کا تقاضا نہیں کرتیں ،لیکن حکمت و موعظت کے ساتھ دعوت پیش کرنے کے چند لوازم ہیں جن کا ماخذ دعوت حق میں انبیا علیہم السلام کا اسوہ ہے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی کتاب ’’دعوت دین اور اُس کا طریق کار‘‘ میں اِن کی وضاحت فرمائی ہے۔ اِس کا خلاصہ ہم یہاں بیان کریں گے۔

B