HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نظم اجتماعی کی دعوت


وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلیَ الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۴)
’’اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ جو یہ کریں گے ) وہی فلاح پائیں گے۔‘‘

آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں ، بلکہ اجتماعی حیثیت میں اُس کے مخاطب ہیں، لہٰذا یہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو جب اِس سرزمین میں سیاسی خود مختاری حاصل ہو گئی ہے تو اُن کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو اِس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں، برائی سے روکیں اور بھلائی کی تلقین کریں۔

یہ ذمہ داری ، ظاہر ہے کہ بعض معاملات میں تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے اور بعض معاملات میں قانون کی طاقت سے پوری کی جائے گی ۔ پہلی صورت کے لیے جمعہ کا منبر ہے جو اِسی مقصد سے ارباب حل و عقد کے لیے خاص کیا گیا ہے ۔ د وسری صورت کے لیے پولیس کا محکمہ ہے جومسلمانوں کی حکومت میں اِس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا جاتا اور اپنے لیے متعین کردہ حدود کے مطابق اِس کام کو انجام دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتا ہے ۔

اِس حکم سے واضح ہے کہ قرآن مجید کی رو سے مسلمانوں میں قیام حکومت کے بعد یہ فرض اُن کے ارباب حل و عقد پر عائد ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلاتے، منکر سے روکتے اور معروف کی تلقین کرتے رہیں ۔ اُن پر لازم ہے کہ نظم ریاست سے متعلق دوسری تمام فطری ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے ساتھ اپنی یہ ذمہ داری بھی ہر حال میں پوری کریں :

اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ.(الحج ۲۲: ۴۱)
’’ وہی کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔‘‘

B