وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً ، فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ.(التوبہ ۹: ۱۲۲)
’’ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو (اُن کے اِن رویوں پر) خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے، اِس لیے کہ وہ خدا کی گرفت سے بچتے ۔‘‘
دعوت کا یہ حکم علما کے لیے ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن اُن کی ہرجماعت میں سے کچھ لوگوں کو لازماً اِس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر اُسے آخرت کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں ۔
سورۂ توبہ کی اِس آیت پر غور کیجیے تو اِس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دعوت کا جو حکم اِس میں بیان ہوا ہے ، اُس کا مکلف اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کو قرار نہیں دیا ۔ آیت کی ابتدا ہی اِس جملے سے ہوئی ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اِس کام کے لیے نکل کھڑے ہوں ۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک بدیہی حقیقت ہے ۔ سب لوگ نہ ایک جیسی صلاحیت لے کر پیدا ہوئے ہیں اور نہ اِس دنیا میں ایک جیسے مواقع اُنھیں حاصل ہوتے ہیں ۔ دین کا عالم بن کر اپنی قوم کو انذار کیا جائے، اِس کی توقع ہر مسلمان سے نہیں کی جا سکتی ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات اِس آیت میں صاف واضح کر دی ہے کہ تمام مسلمانوں کو نہیں ، بلکہ اُن کے ہر گروہ میں سے چند لوگوں کو اِس کام کے لیے نکلنا چاہیے۔
دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اِس کام کے لیے نکلنے کا حوصلہ کریں ، اُن کے لیے ضروری ہے کہ پہلے دین کا گہرا علم حاصل کریں ۔ اِس کے لیے آیت میں ’ لِیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ دین میں بصیرت پیدا کریں ، اُس کے فہم سے بہرہ مند ہوں اور اُس کی حقیقتوں کو سمجھیں ۔ لوگوں کے لیے اندھے راہ بتانے والے بن کر نہ اٹھیں ، بلکہ اٹھنے سے پہلے دین کو اُس طرح جان لیں، جس طرح کہ اُسے جاننے کا حق ہے ۔ یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب قرآن و سنت سے براہ راست تعلق پیدا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اِس کام کے لیے اٹھنے والے قرآن و سنت کے علوم میں گہری بصیرت پیدا کریں تاکہ پورے اعتماد کے ساتھ وہ لوگوں کے سامنے دین کی شرح و وضاحت کر سکیں ۔
تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دین کا علم حاصل کر لینے کے بعد دعوت کی جو ذمہ داری اُنھیں ادا کرنی ہے ، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ’’انذار‘‘ اور صرف ’’انذار‘‘ہے ، یعنی یہ کہ حیات اخروی کی تیاریوں کے لیے لوگوں کو بیدار کیا جائے۔ یہ اگر غور کیجیے تو بعینہٖ وہی کام ہے جو اللہ کے نبی اور رسول اپنی قوم میں کرتے ہیں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’انذار‘‘ کا کام آپ کے بعداِس امت کے علما کو منتقل ہوا ہے اور ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اب قیامت تک اُنھیں ہی ادا کرنی ہے ۔
چوتھی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اِس دعوت کے ہر داعی کے لیے اصل مخاطب کی حیثیت اُس کی اپنی قوم کو حاصل ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: ’وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ‘(اور اپنی قوم کے لوگوں کو خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے) ۔ آیت کا یہی حصہ ہے جس سے اِس دعوت کا دائرہ بالکل متعین ہو جاتا ہے اور اِس چیز کے لیے کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ اِس کے داعی اصل حق داروں کو چھوڑ کر یہ دولت جہاں تہاں دوسروں میں بانٹتے پھریں ۔
پانچویں بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اِس دعوت کا مقصد ہر حال میں یہی ہونا چاہیے کہ لوگ اللہ پروردگار عالم کے معاملے میں متنبہ رہیں ۔ آیت میں یہ مقصد ’لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ‘(تاکہ وہ خدا کی گرفت سے بچیں) کے الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔ یعنی لوگ محتاط رہیں کہ اُن کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین کے جو مطالبات بھی اُن سے متعلق ہوتے ہیں ، اُن کے بارے میں غفلت ،تساہل یا تمرد اور سرکشی کا رویہ دنیا اور آخرت میں اُن کے لیے ہلاکت کا باعث نہ بن جائے ۔ دنیا کی قیادت صالحین کو منتقل ہو جائے ، دین کا غلبہ قائم ہو جائے اور اللہ کی بات ہر بات سے اونچی قرار پائے، یہ بے شک، ہر داعی کی تمنا ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے، لیکن دعوت کا اصلی مقصد اِس آیت کی رو سے یہی ہے کہ لوگ آخرت کے عذاب سے بچیں اور قیامت میں اُنھیں کسی رسوائی سے دوچار نہ ہونا پڑے ۔
اِس سے واضح ہے کہ سورۂ توبہ کی یہ آیت دین میں بصیرت رکھنے والوں کو اِس بات کا مکلف ٹھیراتی ہے کہ ’جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ‘ =20= کے جذبے سے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق امت کی ہر بستی اور ہر قوم میں اِس دعوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں ۔ وہ اپنی قوم اور اُس کے ارباب حل و عقد کو اُن کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں پوری دردمندی اور دل سوزی کے ساتھ خبردار کرتے رہیں۔ اُن کے لیے ہر سطح پر دین کی شرح و وضاحت کریں۔ اُنھیں ہر پہلو اور ہر سمت سے حق کی طرف بلائیں۔ اُس سے اعراض کے نتائج سے خبردار کریں اور جب تک زندہ رہیں ، اِن نتائج سے اُنھیں خبردار کرتے رہیں ، یہاں تک کہ ظالم حکمرانوں کا ظلم بھی اُنھیں اِس کام سے باز نہ رکھ سکے۔ دین کے علما کے لیے یہی سب سے بڑا جہاد ہے جو اِس دنیا میں وہ ہمیشہ کر سکتے ہیں۔
امت کی تاریخ میں دعوت و عزیمت کے عنوان سے جو کام ہمیشہ ہوتے رہے ہیں ،اُن کا ماخذ درحقیقت یہی آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دور اُن لوگوں سے خالی نہیں رہا جو بدعت و ضلالت کے تہ بہ تہ اندھیروں میں اپنے چراغ کی لو تیز کر کے سر راہ کھڑے ہو جاتے ہیں اور دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو کر لوگوں کو حق کی راہ دکھاتے ہیں۔وہ اِس بات کی کوئی پروا نہیں کرتے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں اور کن چیزوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ اُن کی ساری دل چسپی بس حق ہی سے ہوتی ہے اور وہ اِسی کے تقاضے دنیا کو بتانے کے لیے اپنے دل و دماغ کی ساری قوتیں صرف کر دیتے ہیں۔ وہ لوگوں سے کچھ نہیں مانگتے ، بلکہ اپنے پروردگار سے جو کچھ پاتے ہیں، بڑی فیاضی کے ساتھ اُن کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں ۔ چنانچہ ہر دور میں وہ ہستی کا ضمیر ، وجود کا خلاصہ اور زمین کا نمک قرار پاتے ہیں۔
اِس دعوت کی یہی نوعیت ہے جس کے پیش نظر یہ چند باتیں اِس میں لازماً ملحوظ رہنی چاہییں:
اول یہ کہ اِس کے لیے اٹھنے والے جس حق کو لے کر اٹھیں ، اُس پر اُن کا اپنا ایمان بالکل راسخ ہونا چاہیے ۔ وہ جو بات بھی لوگوں کے سامنے پیش کریں ، اُس پر اُن کے دل و دماغ کو اِس طرح مطمئن ہونا چاہیے کہ وہ خود بھی محسوس کریں کہ یہ اُن کے دل کی آواز اور روح کی صدا ہے جو اُن کی زبان پر آئی ہے ۔ وہ اپنی ساری شخصیت کو اپنے رب کے حوالے کر کے اِس میدان میں اتریں اور جس چیز کی طرف لوگوں کو بلائیں ، اُس کے بارے میں سب سے پہلے خود یہ اعلان کریں کہ وہ پورے دل اور پوری جان سے اُس پر ایمان لائے ہیں :
قُلْ: اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۲۔۱۶۳)
’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے۔ اُس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اِسی کا حکم ملا ہے اور میں سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا ہوں۔‘‘
دوم یہ کہ اُن کے قول و عمل میں کسی پہلو سے کوئی تضاد نہ ہو ۔ وہ جس چیز کے علم بردار بن کر اٹھیں ، سب سے پہلے خود اُسے اپنائیں اور جس حق کی لوگوں کو دعوت دیں ، اُن کا عمل بھی اُسی کی شہادت دے ۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ یہ بے عمل واعظوں کا نہیں،بلکہ اُن ارباب عزیمت کا کام ہے جو اپنی نصیحت کا مخاطب سب سے پہلے اپنے نفس کو بناتے اور پھر اُسے مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ بالکل آخری درجے میں اُس حق کو اختیار کرے جو اُن کے پروردگار کی طرف سے اُن پر واضح ہوا ہے ۔ چنانچہ اُس نے علماے یہود کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ تم دین و شریعت کے عالم ہو اور خوب جانتے ہو کہ عقل و نقل کی رو سے تم پر عمل کی ذمہ داری دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ ہے ،لیکن تم پر افسوس ہے کہ عوام کو تو بڑے زوروں سے حقوق و فرائض ادا کرنے کی تلقین کرتے ہو ،مگر اپنے آپ کو بالکل بھول جاتے ہو :
اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ؟ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟(البقرہ ۲: ۴۴)
’’ کیا تم لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ، دراں حالیکہ تم کتاب الٰہی کی تلاوت کرتے ہو ؟ پھرکیا تم سمجھتے نہیں ہو ؟‘‘
سوم یہ کہ حق کے معاملے میں وہ کبھی مداہنت سے کام نہ لیں ۔ دین کی چھوٹی سے چھوٹی حقیقت بھی جو اُن پر واضح ہو جائے ، اُسے دل سے قبول کریں ، زبان سے اُس کی گواہی دیں اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا کیے بغیر اُسے بے کم و کاست دنیا کے سامنے پیش کردیں ۔ وہ کسی حال میں بھی اُس میں کوئی ترمیم و اضافہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں ۔ پورا حق جس طرح کہ قرآن و سنت سے ثابت ہے ، اُس کی ساری ہدایت اور سارے احکام سمیت لوگوں کو بتائیں اور ہر وہ چیز جو کسی پہلو سے اُس کے خلاف ہو ،اُس کو بغیر کسی تردد کے رد کر دیں ۔ دین کے بارے میں جو بات بھی اُن سے پوچھی جائے، وہ اگر دین میں ہے تو اُسے ہرگز نہ چھپائیں اور اُس کو اُسی طرح پیش کریں جس طرح کہ وہ فی الواقع ہے اور جس طرح کہ وہ اُسے مانتے ہیں ۔ تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ موقع بے موقع ہر بات کہتے رہیں۔اِس میں شبہ نہیں کہ حق کو ہمیشہ صحیح طریقے سے، صحیح موقع پر اور صحیح مخاطب کے سامنے ظاہر ہونا چاہیے ،لیکن کسی ذاتی مفاد ،کسی خطرے ،کسی عصبیت یا کسی مصلحت کی خاطر اُسے چھپانا اور اُس کی گواہی سے احتراز کرنا ،یہ وہ چیز نہیں ہے کہ جس کی گنجایش کم سے کم اِن اہل دعوت کے لیے دین میں مانی جائے ۔
چنانچہ اللہ کے جو نبی اِس کام کے لیے مبعوث ہوئے ، اُن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ایک قانون کی حیثیت سے بیان کی ہے کہ اللہ نے جو حالات و مراحل بھی اُن کے لیے مقسوم کیے ہیں، وہ کسی زحمت کے لیے نہیں کیے ، اِس وجہ سے اُن کے لیے یہی زیبا ہے کہ اپنی ذمہ داری ملامت کرنے والوں کی ملامت سے بے پروا ہو کر ادا کریں اور اِس معاملے میں اللہ کے سوا کسی سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں :
مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہٗ، سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ ، وَکَانَ اَمْرُ اللّٰہِ قَدَرًا مَّقْدُوْرَانِ الَّذِیْنَ یُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰہِ وَیَخْشَوْنَہٗ وَلاَ یَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلاَّ اللّٰہَ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا.(الاحزاب ۳۳: ۳۸۔۳۹)
’’نبی کے لیے جو بات اللہ نے ٹھیرا دی ہو، اُس میں اُس پر کوئی تنگی نہیں ہے۔ (اُس کے پیغمبر)جو پہلے گزرے ہیں، اُن کے معاملے میں بھی اللہ کی یہی سنت رہی ہے اور اللہ کا حکم ایک طے شدہ فیصلہ ہوتا ہے۔وہ جو اللہ کے پیغام پہنچاتے تھے اور اُسی سے ڈرتے تھے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ (لہٰذا تم بھی اُسی سے ڈرو، اے پیغمبر، اور مطمئن رہو کہ) حساب کے لیے اللہ کافی ہے ۔‘‘
سورۂ مائدہ میں خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرکے فرمایا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ، وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسالَتَہٗ، وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ، اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ.(۵: ۷ ۶)
’’(اِن کی پروا نہ کرو)، اے پیغمبر، (اور) جو کچھ تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، وہ اِنھیں پہنچا دو، جس طرح کہ پہنچانے کا حق ہے اور (یاد رکھو کہ) اگر تم نے ایسا نہ کیا تو یہی سمجھا جائے گا کہ تم نے خدا کا پیغام نہیں پہنچایا۔ (تم مطمئن رہو)، اللہ اِن لوگوں سے تمھاری حفاظت کرے گا، اِس لیے کہ اللہ اِس منکر قوم کو ہرگز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔‘‘
چہارم یہ کہ اپنے انذار کا ذریعہ وہ قرآن مجید کو بنائیں ۔ ’فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُُوَعِیْدِ‘ =21= اور ’جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا‘ =22= کے الفاظ میں قرآن نے اِسی کا حکم دیا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی بنا پر پوری دنیا کے لیے نذیر ہیں اور علما درحقیقت آپ ہی کے اِس انذار کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں: تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا =23= ۔ چنانچہ فرمایا ہے :
وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لاُِنْذِرَکُمْ بِہٖ وَمَنْم بَلَغَ. (الانعام ۶: ۱۹)
’’اور میری طرف یہ قرآن اِس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کردوں اور اُنھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘