HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

ذریت ابراہیم کی دعوت


وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ، ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ، مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ، ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا، لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.(الحج ۲۲: ۷۸)
’’اور (مزید یہ کہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ — ابراہیم — کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے چن لیا ہے کہ رسول تم پر (اِس دین کی) گواہی دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) گواہی دینے والے بنو۔‘‘

یہ دعوت وہی شہادت ہے جس کا ذکر اِس سے پہلے پیغمبرکی دعوت میں ہوا ہے ۔ سورۂ حج کی اِس آیت میں قرآن نے بتایا ہے کہ ذریت ابراہیم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اِس شہادت کے لیے اُسی طرح منتخب کیا اور اِس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کا حکم دیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ.(آل عمران ۳: ۳۳)
’’ اِ س میں شبہ نہیں کہ اللہ نے آدم اور نوح کو، اور ابراہیم اور عمران کے خاندان کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اُن کی رہنمائی کے لیے) منتخب فرمایا۔‘‘

’’پیغمبر کی دعوت‘‘ کے زیرعنوان ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ شہادت محض دعوت و تبلیغ نہیں ، بلکہ اِس کے ساتھ خدا کی دینونت کا ظہور بھی ہے۔ قرآن مجید اور دوسرے الہامی صحیفوں میں اِس کی جو تاریخ بیان ہوئی ہے ، اُس کا خلاصہ یہ ہے کہ اِس کا پہلا ظہور سیدنا نوح علیہ السلام کی دعوت میں ہوا۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دنیا کی تمام قوموں میں وقتاً فوقتاً اپنے رسول اِسی دینونت کے ظہور کے لیے بھیجے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابراہیم کی بعثت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ اب یہ منصب اُن کی ذریت کو بھی بحیثیت جماعت عطا ہو گا اور اُن کے ذریعے سے دین کی حجت سارے عالم پر قائم کی جائے گی۔ قرآن اور بائیبل ، دونوں میں اِس عالمی دینونت کی سرگذشت بڑی تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے ۔ قرآن نے تین و زیتون ، طور سینین اور مکہ کے شہر امین کی قسم میں اِسی کا حوالہ دیا ہے۔ زیتون وہ پہاڑ ہے جہاں سیدنا مسیح علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد اُن کے منکرین پر قیامت تک کے لیے عذاب کا فیصلہ سنایا گیا اور بنی اسرائیل میں سے اُن کے ماننے والوں کی ایک نئی امت ، نصاریٰ کی ابتدا ہوئی ۔ تین اِسی پر واقع ایک گاؤں ہے۔ =19= جبل طور کے بارے میں معلوم ہے کہ بنی اسرائیل نے بحیثیت امت اپنی زندگی اِسی پہاڑ سے شروع کی۔ ام القریٰ مکہ سے بنی اسمٰعیل نے اپنی قومی زندگی کا آغاز کیا اور خدا کی زمین پر اُس کی عبادت کے اولین مرکز، بیت الحرام کی تولیت اُنھیں عطا کی گئی ۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ تینوں ذریت ابراہیم کے لیے خدا کی دینونت کے مقامات ظہور ہیں ۔ قرآن نے اِن کی شہادت پیش کر کے فرمایا ہے کہ دنیا میں اِس جزا و سزا کو دیکھنے کے بعد وہ کیا چیز ہے جو قیامت میں خدا کی جزاو سزا کو جھٹلا سکتی ہے ؟ ارشاد فرمایا ہے :

وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ، وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ، وَھٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ، لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ، ثُمَّ رَدَدْنٰہُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ ، اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَھُمْ اَجْرٌ غَیْرُ مَمْنُوْنٍ. فَمَا یُکَذِّبُکَ بَعْدُ بِالدِّیْنِ؟ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَحْکَمِ الْحٰکِمِیْنَ ؟(التین ۹۵: ۱۔۸)
’’تین اور زیتون کے پہاڑ گواہی دیتے ہیں اور طور سینین اور تمھارا یہ شہر امین بھی کہ انسان کو ہم نے (اِن مقامات پر) پیدا کیا تو اُس وقت وہ بہترین ساخت پر تھا۔ پھر ہم نے اُسے پستی میں ڈال دیا، جب کہ وہ خود پستیوں میں گرنے والا ہوا۔رہے وہ جو ایمان پر قائم رہے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے تو اُن کے لیے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہو گا۔سو،(اے پیغمبر)، اِس کے بعد کیا چیز ہے جو روز جزا کے بارے میں تمھیں جھٹلاتی ہے؟ (اِن سے پوچھو)، کیا اللہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا نہیں ہے؟‘‘

سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسمٰعیل کو اِسی بنا پر درمیان کی جماعت ’ اُمَّۃً وَّسَطًا‘ قرار دیا ہے جس کے ایک طرف خدا اور اُس کا رسول اور دوسری طرف ’ النَّاس‘ ،یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں اور فرمایا ہے کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تمھیں دینا ہو گی :

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا.(۲: ۱۴۳)
’’اِسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔‘‘

یہی بات آل عمران میں اِس طرح واضح فرمائی ہے :

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ، تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ.(۳: ۱۱۰)
’’(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں (پر حق کی شہادت) کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔‘‘

ذریت ابراہیم کا یہی منصب ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہو اور اُسے بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتی رہے تو اُن کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالیٰ اِن قوموں پر اُسے غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اِس سے انحراف کرے تو اِنھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کر دیتے ہیں ۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمٰعیل، دونوں اِس وقت اِسی عذاب سے دوچار ہیں۔

سورۂ زمر میں قیامت کی جزا و سزا کے موقع پر جن ’شُھَدَاء‘ کے بلائے جانے کا ذکر ہوا ہے ، اُن سے مراد بھی ہمارے نزدیک یہی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شہادت کا جو منصب اُنھیں دنیا میں عطا فرمایا ، اُس کی بنا پر قیامت میں وہ اُسی طرح شہادت کے لیے بلائے جائیں گے ، جس طرح انبیا علیہم السلام کو بلایا جائے گا اور سب سے پہلے اُنھی سے پوچھا جائے گا کہ حق کے معاملے میں اُن کا رویہ کیا رہا ہے اور اُسے لوگوں تک پہنچانے کی جو ذمہ داری اُن پر عائد کی گئی تھی ، وہ کیا فی الواقع اُنھوں نے ادا کر دی؟ ارشاد فرمایا ہے :

وَ نُفِخَ فِی الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ مَنْ شَآءَ اللّٰہُ ، ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَا ھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ، وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْٓ ءَ بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّھَدَآءِ وَ قُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.(۳۹: ۶۸۔۶۹)
’’(اُس دن ساری خدائی کا حال یہ ہو گا کہ) صور میں پھونکا جائے گا تو زمین اور آسمانوں میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، سواے اُن کے جنھیں اللہ چاہے۔ پھر اُس میں دوبارہ پھونکا جائے گا تو دفعتاً وہ کھڑے ہو کردیکھنے لگیں گے اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک اٹھے گی اور اعمال کی کتاب رکھ دی جائے گی اور (گواہی کے لیے) پیغمبر حاضر کیے جائیں گے اور وہ بھی جو گواہی کے منصب پر فائز کیے گئے اور لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جائے گا۔ ‘‘

B

حواشی :

19  اِس کا ذکر انجیل میں Beth Phage کے نام سے ہوا ہے ۔ اِس میں Phage وہی Fig ہے جسے عربی زبان میں تین کہتے ہیں۔ لوقا ۱۹: ۲۹ میں ہے کہ مسیح علیہ السلام جب یروشلم آئے تو شہر میں داخل ہونے سے پہلے اِسی جگہ ٹھیرے۔  =19=