HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

تقسیم وراثت

[۱]

کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ، اِنْ تَرَکَ خَیْرَانِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ. فَمَنْ بَدَّلَہٗ بَعْدَ مَا سَمِعَہٗ فَاِنَّمَآ اِثْمُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَہٗ، اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ. فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَھُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. (البقرہ ۲: ۱۸۰۔۱۸۲)
’’(اِسی طرح مال کے نزاعات سے بچنے کے لیے) تم پر فرض کیا گیا ہے کہ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کرے۔ اللہ سے ڈرنے والوں پر یہ حق ہے ۔ پھر جواِس وصیت کو اِس کے سننے کے بعد بدل ڈالے تو اِس کا گناہ اُن بدلنے والوں ہی پر ہو گا۔ (اُنھیں یاد رکھنا چاہیے کہ) یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ جس کو، البتہ کسی وصیت کرنے والے کی طرف سے جانب داری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو اور وہ اُن کے درمیان صلح کرادے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ بے شک ، اللہ بخشنے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اِن آیتوں میں والدین اور قرابت مندوں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اہل عرب کا دستور تھا۔ اِس کی جگہ بعد میں اُس قانون نے لے لی جو سورۂ نساء کی آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ والدین اور اقربا کے حصے اللہ تعالیٰ نے نساء کی اِن آیتوں میں خود متعین کر دیے ہیں اور اِنھیں اپنی وصیت قرار دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ انسان نہیں جانتا کہ اِن رشتہ داروں میں کون بہ لحاظ منفعت اُس سے قریب تر ہے۔ یہ حصے بالکل متعین ہیں اور اِن میں کمی بیشی کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ، وَلِلنِّسَآءِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالْاَقْرَبُوْنَ، مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ، نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا.(۴: ۷)
’’(تمھارے) ماں باپ اور اقربا جو کچھ چھوڑیں، اُس میں مردوں کا بھی ایک حصہ ہے اور (تمھارے) ماں باپ اور اقربا جوکچھ چھوڑیں، اُس میں عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، خواہ ترکہ کم ہو یا زیادہ، ایک متعین حصے کے طور پر۔‘‘

لہٰذا یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ہر مسلمان اب اِسی قانون کے مطابق وصیت کا پابند ہے اور دستور کے مطابق وصیت کا حکم باقی نہیں رہا، لیکن یہ جب دیا گیا تو اِس سے کیا چیز پیش نظر تھی؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

’’اِس آیت میں والدین اور اقربا کے لیے جو وصیت کا حکم دیا گیا ، وہ معروف کے تحت تھا اور اُس عبوری دور کے لیے تھا جب کہ اسلامی معاشرہ ابھی اِس استحکام کو نہیں پہنچا تھا کہ تقسیم وراثت کا وہ آخری حکم دیا جائے جو سورۂ نساء میں نازل ہوا ۔ اِس حکم کے نزول کے لیے حالات کے سازگار ہونے سے پہلے یہ عارضی حکم نازل ہوا اور اِس سے دو فائدے پیش نظر تھے : ایک تو فوری طور پر اُن حصہ داروں کے حقوق کا ایک حد تک تحفظ جن کے حقوق عصبات کے ہاتھوں تلف ہو رہے تھے ، اور دوسرے اُس معروف کو ازسرنو تازہ کرنا جو شرفاے عرب میں زمانۂ قدیم سے معتبر تھا ، لیکن اب وہ آہستہ آہستہ جاہلیت کے گردوغبار کے نیچے دب چلا تھا تاکہ یہ معروف اُس قانون کے لیے ذہنوں کو ہموار کر سکے جو اِس باب میں نازل ہونے والا تھا ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۳۹)

[۲]

۱۔ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ، فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ.(النساء ۴: ۱۱ )
’’تمھاری اولاد کے بارے میں اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ اُن میں سے لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ پھر اگر اولاد میں لڑکیاں ہی ہوں اور وہ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو اُنھیں ترکے کا دوتہائی دیا جائے اور اگر ایک ہی لڑکی ہو تو اُس کے لیے آدھا ہے۔‘‘

سورۂ نساء میں تقسیم وراثت کی یہی ہدایت ہے جس سے اوپر کی آیت کا حکم تبدیل ہواہے ۔ اِس میں سب سے پہلے اولاد کے حصے بیان ہوئے ہیں ۔

یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ‘، یہ جملہ ’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘ کے لیے بطور تمہید آیا ہے۔ ’ اَوْلَاد‘ کالفظ، ظاہر ہے کہ مرد و عورت، دونوں کے لیے عام ہے ۔ چنانچہ تالیف کلام اِس طرح ہو گی: ’للذکر منھم مثل حظ الأنثیین‘ یعنی اللہ تم کو تمھاری اولاد کے بارے میں ہدایت کرتا ہے کہ اُن میں سے لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا ۔

یہ حکم اگر’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘ ہی پر ختم ہو جاتا تو اِس کے معنی یہ تھے :

۱ ۔ مرنے والے کی اولاد میں اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہی ہو تو لڑکے کو لڑکی کا دونا ملے گا ۔

۲ ۔ لڑکے اور لڑکیاں اِس سے زیادہ ہوں تو میت کا ترکہ اِس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر رہے ۔

۳ ۔ اولاد میں صرف لڑکے یا لڑکیاں ہوں تو سارا ترکہ دونوں میں سے جو موجود ہو گا ،اُسے دیا جائے گا ۔

یہ تیسری بات بھی صاف واضح ہے کہ اِس اسلوب کا لازمی تقاضا ہے ۔ ہم اگر اپنی زبان میں یہ کہیں کہ یہ رقم فقیروں کے لیے ہے اور اِس میں سے فقیر مرد کا حصہ دو فقیر عورتوں کے برابر ہو گا تو اِس کے معنی ہی یہ ہیں کہ رقم درحقیقت فقیروں کے لیے دی گئی ہے ، لہٰذا اُن میں اگر فقیر مرد ہی ہوں گے تو ساری رقم اُن میں تقسیم کر دی جائے گی اور فقیر عورتیں ہی ہوں گی تو پھر بھی یہی کیا جائے گا۔ لیکن حکم یہاں ختم نہیں ہوا ، بلکہ اِس سے متصل ایک استثنا کے ذریعے سے قرآن نے وضاحت کر دی ہے کہ اُس کا منشا یہ نہیں ہے۔

فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ‘،یہ ’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘سے استثنا ہے، یعنی مرنے والے کی اولاد میں اگر لڑکیاں ہی ہوں تو خواہ دو ہوں یا دو سے زائد ،اُن کا حصہ ہر حال میں دو تہائی ہو گا۔

وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ یہ اِسی پر عطف ہوا ہے ،یعنی اگر ایک ہی لڑکی ہے تو وہ نصف کی حق دار ہو گی۔

فَوْقَ اثْنَتَیْنِ‘کا مفہوم ہم نے اوپر دو یا دو سے زائد بیان کیا ہے ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس سے پہلے، ہمارے نزدیک ’اثْنَتَیْنِ‘ کا لفظ عربیت کی رو سے محذوف ہے ۔قرآن کی زبان میں اگر ہم ایک لڑکی اور دو یا دو سے زائد لڑکیوں کا حصہ اُن کے حصوں میں فرق کی وجہ سے الگ الگ بیان کرنا چاہیں تو اِس کے دو طریقے ہیں : ترتیب صعودی کے مطابق بیان کرنا پیش نظر ہو تو پہلے ایک لڑکی اور اِس کے بعد دو لڑکیوں کا حصہ بیان کیا جائے گا ۔ دو سے زائد کا حصہ اگر وہی ہے جو دو کا ہے تو اُسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ایک کے فوراً بعد جب دو کا حصہ اِس طرح بیان کیا جائے کہ وہ ایک کے حصے سے زیادہ ہو تو اِس کے صاف معنی یہ ہیں کہ دو سے زائد کا حکم بھی وہی ہے جو دو لڑکیوں کا ہے ۔ اِسی بات کو ہم ترتیب نزولی کے مطابق بیان کریں گے تو اِس کے لیے ’فَوْقَ اثْنَتَیْنِ اَوِ اثْنَتَیْنِ‘ کے الفاظ چونکہ عربیت کی رو سے موزوں نہ ہوں گے ،اِس لیے دو سے زائد کا حصہ بیان کرنے کے بعد ایک کا حصہ بیان کر دیا جائے گا۔ اِس اسلوب میں ’فَوْقَ اثْنَتَیْنِ ‘ سے کلام کا آغاز خود دلیل ہو گا کہ اِس سے پہلے ’اِثْنَتَیْنِ کا لفظ محذوف ہے ۔ غور کیجیے تو اِس کا قرینہ بالکل واضح ہے۔ اِس ترتیب کا حسن مقتضی ہے کہ ’فَوْقَ اثْنَتَیْنِ‘ سے پہلے ’اِثْنَتَیْنِ‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے اور صحت زبان کا تقاضا ہے کہ ’فَوْقَ اثْنَتَیْنِ‘سے بات شروع کی جائے تو بعد میں ’اِثْنَتَیْنِ‘ مذکور نہ ہو ۔ قرآن مجید نے یہ حصے یہاں ترتیب نزولی کے مطابق بیان کیے ہیں، اِس لیے حذف کا یہ اسلوب ملحوظ ہے ۔ سورۂ نساء کی آخری آیت میں یہی حصے ترتیب صعودی کے مطابق بیان ہوئے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لیجیے ، وہاں ’اِثْنَتَیْنِ‘ کے بعد ’ فَوْقَ اثْنَتَیْنِ‘ کا لفظ حذف کر دیا گیا ہے: ’اِنِ امْرُ ؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ. وَھُوَ یَرِثُھَآ، اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ. فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ‘۔  =35= 

۲۔ وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ، فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ.(النساء ۴: ۱۱)
’’لیکن ترکے کا چھٹا حصہ، (اِس سے پہلے) میت کے والدین میں سے ہر ایک کو ملنا چاہیے، اگر اُس کی اولاد ہو۔ اور اگر اولاد نہ ہو اور والدین ہی اُس کے وارث ہوں تو تیسرا حصہ اُس کی ماں کا ہے اور باقی اُس کے باپ کا۔ لیکن اُس کے بھائی بہن ہوں تو ماں کے لیے وہی چھٹا حصہ ہے اور باپ کے لیے بھی وہی چھٹا حصہ۔ یہ حصے اُس وقت دیے جائیں، جب وصیت جو اُس نے کی ہو، وہ پوری کر دی جائے اور قرض، (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے ۔‘‘

اولاد کے بعد یہ اب والدین کے حصے بیان ہوئے ہیں ۔

’ وَلِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ‘، یہ جملہ ’فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً‘ اور ’وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً‘ پر نہیں ،بلکہ اُس پورے حکم پر عطف ہوا ہے جو اوپر اولاد کے لیے بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ اِس میں عطف اب جمع کے لیے نہیں ہو گا ،اِسے استدراک کے لیے مانا جائے گا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘ میں یہ بات تو بیان ہوئی ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا ،لیکن یہ کتنا ہو گا ، اِسے متعین نہیں کیا گیا ۔ یہ اِسی طرح کا اسلوب ہے ،جس طرح مثال کے طور پر ہم اپنی زبان میں یہ کہیں کہ — ’’یہ روپے بچوں کے لیے ہیں ،لڑکوں کو لڑکیوں سے دونا دیجیے، اور اِس میں سے آدھی رقم آپ کے ابا کے لیے ہے‘‘ — اِن جملوں کو دیکھیے، اِن سے قائل کا مدعا بالکل واضح ہے ۔جو شخص بھی زبان آشنا ہو گا ، وہ اِن سے یہی مطلب سمجھے گا کہ روپے درحقیقت بچوں کے لیے دیے گئے ہیں، اِس لیے بات اگر پہلے دو جملوں ہی پر ختم ہو جاتی تو ساری رقم لڑکوں اور لڑکیوں میں اُسی نسبت سے تقسیم کر دی جاتی جو اِن جملوں میں بیان ہوئی ہے، لیکن قائل نے اِس کے بعد چونکہ آدھی رقم ابا کو دینے کے لیے کہا ہے ، اِس وجہ سے یہ ضروری ہے کہ ابا کا حصہ پہلے دیا جائے اور باقی جو کچھ بچے ،وہ اُس کے بعد بچوں میں تقسیم کیا جائے۔ ہم نے اوپر اولاد کے حصوں کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ’ فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً‘ ، ’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘ سے استثنا اور اِسی کے ایک پہلو کی وضاحت ہے ۔ ہماری یہ بات اگر صحیح ہے تو اِسے پھر ’وَلِاَبَوَیْہِ‘ کی طرح اپنے مقام پر مستقل نہیں مانا جا سکتا ۔اِس کا حکم وہی ہونا چاہیے جو ’لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ‘ کا ہے ۔ یہ اِسی طرح کی بات ہے ، جس طرح مثلاً ہم یہ کہیں کہ ’’یہ ساری رقم زید، عثمان اور علی کے لیے ہے اور اِس میں اُن کا حصہ بالکل برابر ہے ،لیکن اگر عثمان اور علی ہی ہوں تو پوری رقم کا دوتہائی عثمان اور ایک تہائی علی کو دیجیے ، اور اِس میں سے دس روپے ہماری بہن کو دے دیجیے گا‘‘ اِن جملوں پر غور کیجیے ،اِن میں اگرچہ زید کی عدم موجودگی میں عثمان اور علی کو بالترتیب پوری رقم کا دو تہائی اور ایک تہائی دینے کے لیے کہا گیا ہے، لیکن اِن کے خاتمہ پر جو استدراک ہوا ہے ، اُس کا لازمی تقاضا ہے کہ اِس رقم میں سے پہلے دس روپے بہن کو دیے جائیں ، اور اِس کے بعد جو کچھ بچے، وہ عثمان اور علی میں اُن کے حصوں کے مطابق تقسیم کر دیا جائے ۔

یہی اسلوب آیۂ زیر بحث میں بھی ہے ۔ چنانچہ یہ اگر ملحوظ رہے تو اِس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہوتی کہ ’ وَاِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ ‘ کے بعد والدین اور زوجین کے جو حصے حرف ’و‘ سے اولاد کے حصوں پر عطف ہوئے ہیں ،وہ سب لازماً پہلے دیے جائیں گے اور اِس کے بعد جو کچھ بچے گا ، صرف وہی اولاد میں تقسیم ہو گا ۔لڑکے اگر تنہا ہوں تو اُنھیں بھی یہی ملے گا اور لڑکے اور لڑکیاں، دونوں ہوں تو اُن کے لیے بھی یہی قاعدہ ہو گا ۔اِسی طرح میت کی اولاد میں اگر تنہا لڑکیاں ہی ہوں تو اُنھیں بھی اِس بچے ہوئے ترکے ہی کا دو تہائی یا آدھا دیا جائے گا ،اُن کے حصے پورے ترکے میں سے کسی حال میں ادا نہ ہوں گے ۔

آیت کا صحیح مدعا یہی ہے ۔ جو شخص بھی ’وَلاَِبَوَیْہِ‘ میں حرف ’و‘ اور ’فَاِنْ کُنَّ نِسَآءً‘ میں حرف ’ف‘ کی دلالت کو سمجھتے ہوئے اِس آیت کو پڑھے گا ،کلام کا یہ مدعا بغیر کسی تکلف کے اُس پر واضح ہو جائے گا ۔

اِس کے بعد اب آیت کا باقی حصہ دیکھیے :

اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ‘ اور ’فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ‘ میں ’وَلَد‘ کا لفظ ذکورو اناث ،دونوں کے لیے عام ہے ۔عربی زبان میں یہ اِس معنی میں معروف ہے ۔ یہ لفظ یہاں اور ازواج کے حصوں میں بھی استعمال ہوا ہے ۔ ہمارے نزدیک ہر جگہ اِس کا مفہوم یہی ہے ۔اہل لغت بالصراحت کہتے ہیں کہ :’ھو یقع علی الواحد و الجمع والذکر والأنثی‘۔ اِن آیات میں اِسے اولاد ذکور کے لیے خاص کرنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے ۔ لڑکا لڑکی ایک ہوں یا دو ،اولاد میں صرف لڑکے ہوں یا صرف لڑکیاں ہوں ،نفی و اثبات میں اِس شرط کا اطلاق بہرحال ہو گا۔

فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ‘ کے بعد عربیت کے قاعدے کے مطابق ’ولأبیہ الثلثان‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ محذوف ہیں ۔اِس حذف کا قرینہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے اِس تقسیم کے لیے ’وَوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ کی شرط عائد کی ہے ۔ اِس طرح یہ مذکور محذوف پر خود دلیل بن گیا ہے ۔ ہم اگر یہ کہیں کہ — ’’اِس رقم کے وارث زید اور علی ہی ہوں تو زید کا حصہ ایک تہائی ہو گا‘‘ — تو اِس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ — ’’باقی دو تہائی علی کے لیے ہے ۔‘‘

’ فَاِنْ کَانَ لَہٓٗ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ‘کے بعد بھی ہمارے نزدیک ’ولأبیہ‘ یا اِس کے ہم معنی الفاظ حذف ہو گئے ہیں ۔ اِس کا قرینہ بھی بالکل واضح ہے ۔ بھائی بہن موجود ہوں تو ماں کا حصہ وہی ہے جو اوپر اولاد کی موجودگی میں بیان ہوا ہے۔ یہ مذکور اِس بات پر خود دلیل ہے کہ باپ کا حصہ بھی وہی ہونا چاہیے ۔ اِس کو الفاظ میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی ۔ پڑھنے والا قرآن کی زبان کا ذوق رکھتا ہو تو بغیر کسی تکلف کے سمجھ لے گا کہ ماں کا حصہ اصل کی طرف لوٹ گیا ہے تو باپ کا حصہ خود بخود لوٹ جائے گا۔

اِس کلام کی تالیف اِس طرح ہے :

’’اولاد ہو تو ماں باپ میں سے ہر ایک کے لیے ۶/ ۱ ہے ۔اولاد نہ ہو اور والدین ہی وارث ہوں توماں کے لیے ۳/ ۱، لیکن اگر بھائی بہن ہوں تو ماں کے لیے وہی ۶/ ۱ ۔‘‘

دیکھ لیجیے ، کلام خود پکار رہا ہے کہ — ’’اور باپ کے لیے بھی وہی ۶/ ۱۔‘‘

اِس حکم سے واضح ہے کہ اولاد کی غیرموجودگی میں اللہ تعالیٰ نے بہن بھائیوں کو اُن کا قائم مقام ٹھیرایا ہے ۔ہماری اِس راے کی تائید اِسی سورہ کی آخری آیت سے بھی ہوتی ہے ، لیکن اِس کی وضاحت ہم آگے اِس کے محل میں کریں گے ۔

اِخْوَۃ‘ کا لفظ اِس آیت میں ،ہمارے نزدیک محض وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ اِس سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بھائی بہنوں کی موجودگی میں ، عام اِس سے کہ وہ ایک ہوں یا دو یا دو سے زیادہ ہوں ، والدین کا حصہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا۔ اِس طرح کے اسلوب میں جمع بیان عدد کے لیے نہیں ،محض بیان وجود کے لیے آتی ہے ۔ ایک حماسی کا شعر ہے :

إیاک والأمر الذي إن توسعت       مواردہ ضاقت علیک المصادر
’’اُس معاملے سے بچو جس میں داخل ہونے کے راستے اگر کشادہ ہیں تو نکلنے کی راہیں تنگ ہوں۔‘‘

شاعر نے یہاں ’موارد‘ اور ’ مصادر‘ کے الفاظ جمع استعمال کیے ہیں ۔ بڑا ستم کرے گا وہ شخص جو اِس کا مفہوم یہ بیان کرے کہ اِس شعر میں ایک ایسے معاملے سے بچنے کے لیے کہا گیا ہے جس کے موارد اور مصادر بہرحال تین یا تین سے زیادہ ہوں ۔ اِس شعر سے معاملے میں موردو مصدر کا وجود تو بے شک، ثابت ہوتا ہے ،لیکن یہ واضح ہے کہ اُن کی تعداد کا تعین شاعر کے پیش نظر ہی نہیں ہے ۔کسی معاملے میں ہاتھ ڈالنے اور اُس سے الگ ہو جانے کا طریقہ ایک بھی ہو سکتا ہے اور یہ طریقے دس بیس بھی ہو سکتے ہیں۔ اِسی طرح مرنے والا اپنے پیچھے ایک بھائی یا بہن چھوڑ کر بھی رخصت ہو سکتا ہے اور اُس کے بہن بھائی پانچ دس بھی ہو سکتے ہیں ۔ ’اِخْوَۃ‘ کالفظ اِن سب صورتوں کا احاطہ کر لیتا ہے ۔اِس مفہوم کے لیے جمع کا یہ اسلوب ہر زبان میں عام ہے ۔ہم اگر یہ کہیں کہ — ’’آپ کے ہاں بچے ہوں تو یہ مٹھائی اُن کو دے دیجیے گا ‘‘ — تو کوئی شخص اِس سے یہ مراد نہیں لے گا کہ اگر مخاطب کے ایک ہی بچہ ہو تو چونکہ متکلم نے لفظ ’’بچے‘‘ جمع استعمال کیا ہے ، اِس لیے وہ کسی حال میں مٹھائی کا حق دارنہیں ہوسکتا ۔ اِس جملے کا یہ مطلب وہی شخص لے سکتا ہے جو زبان کو اسالیب بیان کے بجاے منطق اور ریاضی کے اصولوں سے سمجھتا ہو ۔

مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ‘ ،حکم کے آخر میں اِس ہدایت کا منشا یہ ہے کہ اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے اُس کے ترکے میں سے وہ دیا جائے گا ۔ پھر اگر کوئی وصیت مرنے والے نے کی ہو تو وہ پوری کی جائے گی اور اِس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی ۔ آیت میں قرض اگرچہ لفظاً موخر ہے ،لیکن حکم کے لحاظ سے اُسے مقدم ہی مانا جائے گا ۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ قرض خواہ کا حق مرنے والے کی زندگی میں قائم ہو جاتا ہے اور جن کے لیے وصیت کی گئی ہے ،اُن کا حق مورث کی موت سے پہلے قائم نہیں ہوتا ۔ رہی آیت میں وصیت کی تقدیم تو یہ محض حسن بیان کے لیے ہے ۔

۳۔ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ، لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ، فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا. (النساء ۴: ۱۱ )
’’تم نہیں جانتے کہ تمھارے ماں باپ اور تمھاری اولاد میں سے کون بہ لحاظ منفعت تم سے قریب تر ہے۔ یہ حصے اِسی بنا پر اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اِس لیے کہ اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘

سلسلۂ کلام کے بیچ میں یہ آیت جس مقصد کے لیے آئی ہے ، وہ یہ ہے کہ لوگوں پر یہ بات واضح کر دی جائے کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تقسیم وراثت کے معاملے میں وہ انصاف پر مبنی کوئی فیصلہ کر سکتا۔ والدین اور اولاد میں سے کون بہ لحاظ منفعت اُس سے قریب تر ہے، وہ نہیں جانتا۔ علم و عقل میں اِس کے لیے کوئی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی، اِس لیے یہ فیصلہ اُس کا پروردگار ہی کر سکتا تھا۔ چنانچہ جن رشتہ داروں کو اُس نے کسی میت کے وارث قرار دیا ہے ، اُن کے بارے میں مبنی بر انصاف قانون وہی ہے جو اُس نے خود بیان فرما دیا ہے ۔ اللہ کی طرف سے اِس قانون کے نازل ہو جانے کے بعد اب کسی مرنے والے کو رشتہ داری کی بنیاد پر اللہ کے ٹھیرائے ہوئے وارثوں کے حق میں وصیت کا اختیار باقی نہیں رہا ۔ یہ تقسیم اللہ کے علم و حکمت پر مبنی ہے ۔ اُس کے ہر حکم میں گہری حکمت ہے اور اُس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔ انسان اپنی بلندپروازیوں کے باوجود اُس کے علم کی وسعتوں کو پا سکتا ہے اور نہ اُس کی حکمتوں کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے ۔ وہ اگر بندۂ مومن ہے تو اُس کے لیے زیبا یہی ہے کہ اُس کا حکم سنے اور اُس کے سامنے سر جھکا دے ۔

تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وارثوں کی کوئی ضرورت یا اُن میں سے کسی کی کوئی خدمت یا اِس طرح کی کوئی دوسری چیز تقاضا کرے تو اِس صورت میں بھی اُن کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔ آیت میں جس منفعت کے کم یا زیادہ ہونے کا علم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص قرار دیا گیا ہے، وہ رشتہ داری کی منفعت ہے۔ اِس کا اُن ضرورتوں اور منفعتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے جو ہمارے لیے معلوم اور متعین ہوتی ہیں۔ اِس لیے یہ وصیت کی جا سکتی ہے، مگر اللہ کی وصیت کے مقابلے میں کوئی مسلمان اب رشتہ داری کی بنیاد پر اپنی کوئی وصیت پیش کرنے کی جسارت نہیں کرسکتا۔’مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ کے جو الفاظ اِن آیتوں میں بار بار آئیں گے، اُن سے مراد بھی ایسی ہی کوئی وصیت ہے جو وارثوں کے سوا کسی دوسرے کے حق میں ہو یا وارثوں کی کسی ضرورت کے لیے یا اُن کی کسی خدمت کے صلے میں خود اُن کے حق میں کی جائے۔

آیت کا اصل مدعا یہی ہے ،لیکن اگر غور کیجیے تو اِس سے یہ بات بھی نہایت لطیف طریقے سے واضح ہو گئی ہے کہ وراثت کا حق جس بنیاد پر قائم ہوتا ہے ، وہ قرابت نافعہ ہے اور حصوں میں فرق کی وجہ بھی اُن کے پانے والوں کی طرف سے مرنے والے کے لیے اُن کی منفعت کا کم یا زیادہ ہونا ہی ہے ۔ ہرشخص جانتا ہے کہ لڑکیوں کی منفعت شادی کے بعد بیش تر اُن کے شوہر کی طرف منتقل ہو جاتی ہے۔ اِسی طرح بیوی شوہر کو رفاقت مہیا کرتی ہے، لیکن شوہر رفاقت کے ساتھ اُس کے نان و نفقہ کی ذمہ داری بھی اٹھاتا ہے ۔چنانچہ لڑکوں کا حصہ اِسی بنا پر لڑکیوں سے اور شوہر کا حصہ بیوی سے دوگنا رکھا گیا ہے۔ والدین، اولاد، بھائی بہن ،میاں بیوی اور دوسرے اقربا کے تعلق میں یہ منفعت بالطبع موجود ہے اور عام حالات میں یہ اِسی بنا پر بغیر کسی تردد کے وارث ٹھیرائے جاتے ہیں ،لیکن اِن میں سے کوئی اگر اپنے مورث کے لیے منفعت کے بجاے سراسر اذیت بن جائے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علت حکم کا یہ بیان تقاضا کرتا ہے کہ اُسے وراثت سے محروم قرار دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے پیش نظر جزیرہ نماے عرب کے مشرکین اور یہود و نصاریٰ کے بارے میں فرمایا:

لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم.( بخاری ،رقم ۶۷۶۴)
’’نہ مسلمان اِن میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ یہ کافر کسی مسلمان کے۔‘‘

یعنی اتمام حجت کے بعد جب یہ منکرین حق خدا اور مسلمانوں کے کھلے دشمن بن کر سامنے آ گئے ہیں تو اِس کے لازمی نتیجے کے طور پر قرابت کی منفعت بھی اِن کے اور مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی ۔ چنانچہ یہ اب آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے ۔

اِسی طرح یہ رہنمائی بھی ضمناً اِس آیت سے حاصل ہوتی ہے کہ ترکے کا کچھ حصہ اگر بچا ہوا رہ جائے اور مرنے والے نے کسی کو اُس کا وارث نہ بنایا ہو تو اُسے بھی ’أقرب نفعًا ‘ کو ملنا چاہیے ۔ بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات فرمائی ہے :

ألحقوا الفرائض بأھلھا، فما ترکت الفرائض فلأولٰی رجل ذکر.(رقم ۶۷۴۶)
’’وارثوں کو اُن کا حصہ دو ،پھر اگر کچھ بچے تو وہ قریب ترین مرد کے لیے ہے۔‘‘
۴۔ وَلَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ، اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ. فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ. وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ، اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ. (النساء ۴: ۱۲)
’’اور تمھاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو ، اُس کا آدھا حصہ تمھیں ملے گا، اگر اُن کے اولاد نہیں ہے۔ اور اگر اولاد ہے تو اُن کے ترکے کا ایک چوتھائی تمھارا ہے، جب کہ وصیت جو اُنھوں نے کی ہو، وہ پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔ اور وہ تمھارے ترکے میں سے ایک چوتھائی کی حق دار ہیں، اگر تمھارے اولاد نہیں ہے۔ اور اگر اولاد ہے تو تمھارے ترکے کا آٹھواں حصہ اُن کا ہے، جب کہ وصیت جو تم نے کی ہو، وہ پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے۔‘‘

یہ زوجین کے حصے ہیں اور ہر لحاظ سے واضح ہیں ۔ اِن میں لفظ و معنی کے اعتبار سے کوئی مشکل نہیں ہے۔ ’وَلِاَبَوَیْہِ‘ پر عطف کی وجہ سے مرنے والے کی وصیت کی تعمیل اور اُس کا قرض ادا کر دینے کے بعد والدین کے حصوں کی طرح یہ حصے بھی پورے ترکے میں سے دیے جائیں گے ۔

۵۔ وَاِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَ ۃٌ وَّلَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ، فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْ دَیْنٍ، غَیْرَ مُضَآرٍّ، وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ. ( النساء ۴: ۱۲)
’’اور (اِن وارثوں کی عدم موجودگی میں) اگر کسی مرد یا عورت کو اُس سے رشتہ داری کی بنا پر وارث بنا دیا جاتا ہے اور اُس کا ایک بھائی یا بہن ہے تو بھائی اور بہن، ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر وہ ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے اور باقی اُس کو ملے گا جسے وارث بنایا گیا ہے، جب کہ وصیت جو کی گئی ہو، پوری کر دی جائے اور قرض (اگر ہو تو) ادا کر دیا جائے، بغیر کسی کو نقصان پہنچائے۔ یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ جاننے والا ہے، وہ بڑا نرم خو ہے۔‘‘

اولاد ،والدین اور زوجین کے بعد اب یہ دوسرے قرابت مندوں سے متعلق ہدایت فرمائی ہے۔ ’کَلٰلَۃ‘ اِس آیت میں اہم ترین لفظ ہے ۔ اپنی اصل کے لحاظ سے یہ ’کلال‘ ،یعنی ضعف و عجز کے معنی میں مصدر ہے۔ اعشیٰ کا مصرع ہے :

فآلیت لا أرثي لھا من کلالۃ
’’تب میں نے قسم کھائی کہ میں اُس پر اُس کے ضعف و عجز کی وجہ سے رحم نہ کروں گا ۔‘‘

متمم بن نویرہ کہتا ہے:

فکأنھا بعد الکلالۃ والسری       علج تغالیہ قذور ملمع
’’وہ اونٹنی رات کے سفر اور تھکاوٹ کے بعد گویا وہ جنگلی گدھا ہے جس سے گابھن گدھی بھی آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘

باعتبار مجاز ائمۂ لغت نے بالعموم اِس کے تین معنی بیان کیے ہیں :

ایک وہ شخص جس کے پیچھے اولاد اور والد ، دونوں میں سے کوئی نہ ہو ؛

دوسرے وہ قرابت جو اولاد اور والد کی طرف سے نہ ہو؛

تیسرے کسی شخص کے وہ رشتہ دار جن کا تعلق اُس کے ساتھ اولاد اور والد کا نہ ہو ۔

زمخشری ’’الکشاف‘‘ میں لکھتے ہیں :

یطلق علی ثلاثۃ: علی من لم یخلف ولدًا ولا والدًا، وعلی من لیس بولد ولا والد من المخلفین، و علی القرابۃ من غیر جھۃ الولد والوالد. و منہ قولھم: ما ورث المجد عن کلالۃ کما تقول: ما صمت عن عيّ، وما کف عن جبن. والکلالۃ في الأصل مصدر بمعنی الکلال وھوذھاب القوۃ من الإعیاء. قال الأعشٰی: فآلیت لا أرثي لھا من کلالۃ، فاستعیرت للقرابۃ من غیر جھۃ الولد والوالد لأنھا بالإضافۃ إلی قرابتھما کآلۃ ضعیفۃ، وإذا جعل صفۃ للموروث أوالوارث فبمعنی ذي کلالۃ کما تقول: فلان من قرابتي، ترید من ذوي قرابتي، و یجوز أن تکون صفۃ کالھجاجۃ والفقاقۃ للأحمق.( ۱/ ۵۱۶)
’’کلالہ کے تین معنی ہیں: یہ اُس شخص کے لیے اسم صفت ہے جس کے پیچھے اولاد اور والد، دونوں میں سے کوئی نہ ہو اور اُن پس ماندگان کے لیے بھی جن کا تعلق مرنے والے سے اولاد اور والد کا نہ ہو ۔ اِس کا اطلاق اُس قرابت پر بھی ہوتا ہے جو اولاد اور والد کی طرف سے نہ ہو۔ عرب کہتے ہیں: ’ما ورث المجد عن کلالۃ (وہ دور کے تعلق سے بزرگی کا وارث نہیں ہوا )۔ اِسی طرح تم کہتے ہو: ’ما صمت عن عيّ ‘ (وہ گفتگو میں عاجز رہ جانے کی وجہ سے خاموش نہیں ہوا) اور ’ماکف عن جبن‘(وہ بزدلی کی وجہ سے نہیں رکا)۔ اور کلالہ اصل میں ’کلال‘ کے معنی میں مصدر ہے اور کلال‘ کے معنی ہیں: عجز کی وجہ سے قوت کا جاتے رہنا ۔ اعشیٰ کا مصرع ہے : ’فآلیت لاأرثي لھا من کلالۃ‘ (تب میں نے قسم کھائی کہ میں اُس پر اُس کے ضعف و عجز کی وجہ سے رحم نہ کروں گا)۔ پھر یہ مجازی طور پر اُس قرابت کے لیے مستعمل ہوا جو والد اور اولادکی طرف سے نہ ہو ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرابت اُس قرابت کی نسبت ضعیف ہے جو والد اور اولاد کی طرف سے ہوتی ہے۔ اور اِسے جب مورث یا وارث کے لیے صفت قرار دیا جاتا ہے تو یہ ’ذوکلالۃ‘ کے معنی میں ہوتا ہے ۔ اِسی طریقے پر تم ’فلان من قرابتي ،یعنی ’فلان من ذوي قرابتي بولتے ہو۔اور یہ ’ھجاجۃ‘ اور ’فقاقۃ‘ بمعنی احمق کی طرح اسم صفت بھی ہو سکتا ہے۔‘‘

پہلے معنی ،یعنی اُس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد ، دونوں میں سے کوئی نہ ہو ، اِس کا استعمال اگرچہ اصول عربیت کے مطابق ہے ،لیکن اِس کی کوئی نظیر کلام عرب میں ہم کو نہیں مل سکی۔

دوسرے معنی ، یعنی اُس قرابت کے لیے جو اولاد اور والد کی طرف سے نہ ہو ، اِس کے استعمال کے نظائر کلام عرب میں عام ہیں ۔

طرماح کہتا ہے :

یھز سلاحًا لم یرثہ کلالۃ       یشک بہ منھا غموض المغابن
’’وہ اپنا ہتھیار ہلاتا ہے جس کا وارث وہ دور کے تعلق سے نہیں ہوا ۔ وہ اِس سے اُس کی رانوں کے چھپے ہوئے حصے کو چھید ڈالتا ہے ۔‘‘

عامر بن طفیل کا مصرع ہے :

وما سودتني عامر عن کلالۃ
’’اور قبیلۂ عامر نے مجھے دور کے تعلق کی وجہ سے سردار نہیں بنایا۔ ‘‘

لسان العرب میں ہے:

والعرب تقول: لم یرثہ کلالۃ أي لم یرثہ عن عرض، بل عن قرب واستحقاق. ( ۱۱/ ۵۹۲ )
’’عرب کہتے ہیں :’ لم یرثہ کلالۃ‘ یعنی وہ دور کے تعلق سے وارث نہیں ہوا، بلکہ اُس نے وراثت قرب و استحقاق کی وجہ سے پائی ہے۔‘‘

تیسرے معنی ، یعنی کسی شخص کے اُن رشتہ داروں کے لیے جن کے ساتھ اُس کا تعلق اولاد اور والد کا نہ ہو ، اِس کا استعمال قطعی شواہد سے ثابت ہے ۔

حماسی شاعر یزید بن الحکم الثقفی اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے :

والمرء یبخل بالحقو       ق وللکلالۃ ما یسیم
’’انسان حقوق ادا کرنے میں بخل سے کام لیتا ہے اور اُس کے مرنے کے بعد اُس کے جنگل میں چرنے والے جانور دور کے رشتہ دار لے جاتے ہیں ۔‘‘

ازہری نے ایک شاعر کا شعر نقل کیا ہے :

فإن أبا المرء أحمی لہ       ومولی الکلالۃ لا یغضب
’’آدمی پر ظلم کیا جائے تو اُس کی حمایت میں اُس کا باپ ہی سب سے بڑھ کر غضب ناک ہوتا ہے ۔ کلالہ رشتہ دار آدمی کے لیے اُس کے باپ کی طرح غضب ناک نہیں ہوتے ۔‘‘

ایک اعرابی کا قول ہے :

مالي کثیر ویرثني کلالۃ متراخ نسبھم.(لسان العرب ۱۱/ ۵۹۲)
’’میرے پاس مال بہت زیادہ ہے اور میرے وارث دور کے رشتہ دار ہیں۔‘‘

امام مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں اُن کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں :

یا رسول اللّٰہ، إنما یرثني کلالۃ. (رقم ۴۱۴۸)
’’اے اللہ کے رسول ، میرے وارث صرف کلالہ ہیں۔‘‘

بہت سی تفسیری روایتوں میں بھی یہ معنی بیان ہوئے ہیں ۔ ابوبکر جصاص ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں:

وروي عن أبي بکر الصدیق، و علي، وابن عباس في إحدی الروایتین أن الکلالۃ ما عدا الوالد والولد، وروی محمد بن سالم عن الشعبي عن ابن مسعود أنہ قال: الکلالۃ ماخلا الوالد والولد، و عن زید بن ثابت مثلہ.(۲/ ۸۷)
’’سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی سے روایت ہے کہ باپ اور اولاد کے سوا سب کلالہ ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِس باب میں دو روایتیں ہیں۔ اُن میں سے ایک میں یہی مضمون ہے۔ محمد بن سالم نے شعبی سے اور اُنھوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کیا ہے کہ اُنھوں نے فرمایا:باپ اور اولاد کے سوا، سب کلالہ ہیں۔ اور حضرت زید بن ثابت سے بھی یہی معنی روایت ہوئے ہیں ۔‘‘

اب آیۂ زیر بحث میں دیکھیے،جہاں تک پہلے معنی کا تعلق ہے ،فقہا نے اگرچہ یہاں بالاتفاق وہی مراد لیے ہیں ،لیکن آیت ہی میں دلیل موجود ہے کہ یہ معنی یہاں مراد لینا کسی طرح ممکن نہیں ہے ۔

غور فرمائیے ، ’یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ‘ سے جو سلسلۂ بیان شروع ہوتا ہے ،اُس میں اولاد اور والدین کا حصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وصیت پر عمل درآمد کی تاکید ’مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ‘ کے الفاظ میں کی ہے۔ زوجین کے حصوں میں اِسی مقصد کے لیے ’مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ ‘اور ’ مِّنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘ کے الفاظ آئے ہیں ۔ تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو اِن سب مقامات پر فعل مبنی للفاعل (معروف) استعمال ہوا ہے اور ’یُوْصِیْ‘، یُوْصِیْنَ‘ اور ’تُوْصُوْنَ‘ میں ضمیر کا مرجع ہر جملے میں بالصراحت مذکور ہے ۔لیکن قرآن کا ایک طالب علم اِس حقیقت سے صرف نظر نہیں کر سکتا کہ کلالہ کے احکام میں یہی لفظ مبنی للمفعول (مجہول) ہے ۔یہ تبدیلی صاف بتا رہی ہے کہ ’اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ ‘ میں ’یُوْصِیْ‘ کا فاعل ،یعنی مورث مذکور نہیں ہے ،اِس وجہ سے اِس آیت میں ’کَلٰلَۃ‘ کو کسی طرح مرنے والے کے لیے اسم صفت قرار نہیں دیا جا سکتا ۔یہ تغیر حجت قاطع ہے کہ قرآن مجید نے یہ لفظ یہاں پہلے معنی میں ،یعنی اُس شخص کے لیے جس کے پیچھے اولاد اور والد ، دونوں میں سے کوئی نہ ہو ، استعمال نہیں کیا ہے۔

اب رہے دوسرے اور تیسرے معنی تو اِن میں سے جو بھی مراد لیے جائیں ، آیت کا مدعا چونکہ ایک ہی رہتا ہے ،اِس لیے ترجیح محض حسن تالیف کے لحاظ سے ہو گی۔

چنانچہ آیت میں ’یُوْرَثُ‘ ہمارے نزدیک ،باب افعال سے مبنی للمفعول ہے ۔ ’کَلٰلَۃً‘ اُس سے مفعول لہ ہے ۔ ’کَانَ‘ یہاں ناقصہ ہے، ’ رَجُلٌ اَوِ امْرَاَۃٌ‘، ’کَانَ‘ کے لیے اسم ہیں اور ’یُوْرَثُ‘ اُس کی خبر واقع ہوا ہے ۔ اِس تالیف کی رو سے اِس کا ترجمہ یہ ہو گا :

’’اور اگر کسی مرد یا عورت کو اُس کے کلالہ تعلق کی بنا پر وارث بنایا جاتا ہے ۔‘‘

وارث بنانے کا اختیار ،ظاہر ہے کہ مرنے والے کو ہو گا اور ’یُوْرَثُ‘کے معنی اِس سیاق میں یہی ہو سکتے ہیں کہ اُن وارثوں کی عدم موجودگی میں ترکے کا وارث بنا دیا جاتا ہے جن کے حصے اوپر بیان ہوئے ہیں ۔

وَلَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ، فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنْ م بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘،یعنی ایک ہی رشتہ کے متعلقین میں سے اگر کسی ایک مرد یا عورت کو وارث بنایا جاتا ہے تو جس کو وارث بنایا جائے گا ، اُس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو اُس مال کا چھٹا حصہ جس کا اُسے وارث بنایا گیا ہے ، اُس کے بھائی یا بہن کو دیا جائے گا اور اگر اُس کے بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی میں برابر کے شریک ہوں گے۔ اِس کے بعد یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ باقی ۶/ ۵ یا دو تہائی اُس مرد یا عورت کو دیا جائے گا جسے وارث بنایا گیا ہے۔ ہم اگر یہ کہیں کہ ’’زید نے اِس رقم کا وارث آپ کے بیٹے کو بنایا ہے ،لیکن اُس کا کوئی بھائی ہو تو ایک تہائی کا حق دار وہ ہو گا‘‘ تو اِس جملے کا مطلب ہر شخص یہی سمجھے گا کہ بھائی کا حصہ دینے کے بعد باقی روپیہ اُس بیٹے کو دیا جائے گا جسے رقم کا وارث بنایا گیا ہے ۔

قرآن مجید کی یہ ہدایت بڑی حکمت پر مبنی ہے ۔مرنے والا کلالہ رشتہ داروں میں سے اپنے کسی بھائی ، بہن ،ماموں، پھوپھی یا چچا وغیرہ کو وارث بنا سکتا ہے ۔ لیکن ،ظاہر ہے کہ جس بھائی یا ماموں کو وارث بنایا جائے گا ،مرنے والے کے بھائی اور ماموں اُس کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ یہی معاملہ چچا ،پھوپھی اور خالہ وغیرہ کا ہے ۔کوئی شخص اپنے ذاتی رجحان کی بنا پر کسی ایک ماموں یا پھوپھی کو ترجیح دے سکتا ہے ، مگر اللہ تعالیٰ نے اِس کو پسند نہیں فرمایا کہ ایک ہی رشتہ کے دوسرے متعلقین بالکل محروم کر دیے جائیں ۔ چنانچہ اِس کے لیے یہ ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص اگر ،مثال کے طور پر ، اپنے چچا زید کو باقی ترکے کا وارث بنا دیتا ہے اور اُس کے چچا عثمان اور احمد بھی ہیں تو ترکے کے جس حصے کا وارث زید کو بنایا گیا ہے ، اُس کا ایک تہائی عثمان اور احمد میں تقسیم کرنے کے بعد باقی ترکہ زید کو دیا جائے گا ۔

غَیْرَ مُضَآرٍّ، وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ‘، آیت کے آخر میں یہ الفاظ اِس تنبیہ کے لیے آئے ہیں کہ وارث بنانے کا یہ عمل کسی حق دار کے لیے ضرر کا موجب نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے وصیت میں ضرررسانی کو روکنے کے لیے اصل وارثوں کے حصے خود مقرر فرما دیے ہیں،لیکن آیت کلالہ کی رو سے چونکہ مرنے والا اپنی مرضی سے کسی رشتہ دار کو وارث بنا سکتا ہے ، اِس لیے یہ حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اِس حق کو استعمال کرتے ہوئے کسی کی حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ہماشما کا مشورہ نہیں ہے، پروردگار عالم کی وصیت ہے ۔اُس کا بندہ جانتے بوجھتے کسی حق دار کو محروم کرتا ہے تو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ اُس کے ہر عمل سے باخبر ہے اور اگر بے جانے بوجھے اُس سے کوتاہی ہو جاتی ہے تو اُس کا خالق بردبار ہے ، اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے ۔وہ نرم خو ہے ، بندوں پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔ اُس کے حکموں میں اُن کے لیے سہولت ہے ،تنگی اور مشقت نہیں ہے۔


۶۔ یَسْتَفْتُُوْنَکَ، قُلِ: اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ، اِنِ امْرُؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّلَہٗٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ، وَھُوَ یَرِثُھَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ، فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ، وَ اِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالاً وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ. یُُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا، وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ.(النساء ۴: ۱۷۶)  
’’وہ تم سے فتویٰ پوچھتے ہیں۔ اِن سے کہو کہ اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے: اگر کوئی شخص بے اولاد مرے اور اُس کی ایک بہن ہی ہوتو اُس کے لیے ترکے کا آدھا ہے اور اگر بہن بے اولاد مرے تو اُس کا وارث اُس کا بھائی ہے۔ اور بہنیں اگر دو ہوں تو اُس کے ترکے میں سے دو تہائی پائیں گی اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔ اللہ تمھارے لیے وضاحت کرتا ہے تا کہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے۔‘‘

اِس سے پہلے ’اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً‘ کی جو تاویل اوپر بیان ہوئی ہے ،اُس کی رو سے چونکہ بہن بھائی ،چچا ماموں ،خالہ پھوپھی وغیرہ، سب کلالہ ہیں اور مورث اُن میں سے جس کو چاہے، ترکے کا وارث بنا سکتا ہے ، اِس لیے ہو سکتا تھا کہ وہ کسی چچا ماموں یا خالہ پھوپھی وغیرہ کو اپنے بھائی بہنوں پر ترجیح دے ۔یہ صورت مناسب معلوم نہیں ہوتی، اِس لیے کہ اولاد کے بعد باقی سب قرابت مندوں میں بھائی بہن ہی اقرب ہیں ۔عقل تقاضا کرتی ہے کہ اِس صورت میں ترکے کا بڑا حصہ اُنھیں ملنا چاہیے ۔ اِس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ بہن بھائی ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا ۔ یہ حصہ چونکہ وہی ہے جو اُنھیں اولاد کی موجودگی میں ملتا ہے ، اِس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس صورت میں بھی کیا مرنے والے کو یہ اختیار ہے کہ وہ چاہے تو بھائی بہنوں کو وارث بنائے اور چاہے تو اُنھیں محروم کر دے ؟ ہم نے آیات کی شرح کرتے ہوئے اوپر ایک جگہ لکھا ہے کہ اسلوب بیان سے یہ بات نکلتی ہے کہ اولاد کی غیرموجودگی میں میت کے وارث اُس کے بھائی بہن ہیں ،لیکن اسلوب بیان کی یہ دلالت ،ظاہر ہے کہ دلالت الفاظ کی طرح ہر احتمال سے خالی نہیں ہے کہ اِس مسئلے پر بحث کی گنجایش باقی نہ رہے ۔ اولاد موجود نہ ہو تو بھائی بہنوں کے بارے میں یہ سوال آج بھی پیدا ہو سکتا ہے اور عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی پیدا ہوا ۔ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے :

یقول: جاء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعودني، وأنا مریض لا أعقل فتوضأ وصب عليّ من وضوۂ فعقلت، فقلت: یا رسول اللّٰہ، لمن المیراث، إنما یرثني کلالۃ؟ فنزلت آیۃ الفرائض.(بخاری، رقم۱۹۴)
’’وہ فرماتے ہیں : میں بیمار تھا اور مجھ پر بے ہوشی کا غلبہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں عیادت کے لیے تشریف لائے ۔ آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی سے میرے اوپر چھینٹا دیا ۔ مجھے ہوش آیا تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ، میرا ترکہ کون پائے گا، میرے وارث صرف کلالہ ہیں؟اِس پر آیت میراث =36= نازل ہوئی۔‘‘

اِس حدیث کے الفاظ : ’إنما یرثني کلالۃ فنزلت آیۃ الفرائض‘ سے یہ بات صاف واضح ہوتی ہے کہ سوال کلالہ رشتہ داروں میں سے بالخصوص بھائی بہنوں کی میراث کے بارے میں تھا اور سورۂ نساء کی یہ آخری آیت اِسی استفتا کے جواب میں نازل ہوئی ہے ۔

قرآن کا ایک خاص اسلوب یہ ہے کہ اُس میں سوالات نہایت اجمال کے ساتھ نقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ سوال کی نوعیت، اُس کا موقع و محل اور اطراف و جوانب بالعموم اُس جواب سے واضح ہوتے ہیں جو اِس کے بعد قرآن دیتا ہے ۔ اِس چیز کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے لوگوں کو ’ قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ‘ کی تاویل میں بڑی الجھنیں پیش آئی ہیں، دراں حالیکہ یہاں بھی سوال کو اگر جواب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو متکلم کا منشا بغیر کسی ابہام کے واضح ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اِس میں اگر غور کیجیے تو وہی اسلوب ہے جو یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ ‘ میں ہے ۔ وہاں وصیت میت کی وارث اولاد کے بارے میں ہے اور یہاں فتویٰ میت کے وارث کلالہ رشتہ داروں کے بارے میں ہے ۔ لفظ ’الْکَلٰلَۃ‘ پر الف لام دلیل ہے کہ سوال کلالہ وارثوں میں سے کچھ مخصوص اقربا سے متعلق ہے اور جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقربا میت کے بھائی بہن ہیں ۔ تمام کلالہ رشتہ داروں، مثلاً چچا ماموں ،بھائی بہن ،خالہ پھوپھی میں سے کسی کو وارث بنا دینے کی اجازت آیات میراث میں بیان ہو چکی ہے۔یہاں عام کے بعد خاص کا ذکر ہے ۔یہ چیز ملحوظ رہے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا: کہہ دو ،اللہ تمھیں کلالہ رشتہ داروں میں سے بھائی بہنوں کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے ۔ اِس اسلوب کی نظیر سورۂ بقرہ کی آیت ’یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَھِلَّۃِ‘ =37= میں موجود ہے ۔

اِنِ امْرُؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ‘ ،یہ بھائی بہنوں کے میراث پانے کے لیے اُسی طریقے پر شرط ہے، جس طرح ’فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ‘ میں ہے ۔ وہاں معنی یہ ہیں کہ میت بے اولاد ہو اور ماں باپ ہی وارث ہوں تو اُن کا حصہ یہ ہو گا اور یہاں مفہوم یہ ہے کہ مرنے والے کے اولاد نہ ہو اور اُس کے بھائی بہن ہوں تو اُن کا حصہ اِس طرح ہے ۔ اِس شرط سے واضح ہے کہ بھائی بہن صرف اولاد کی غیرموجودگی میں وارث ہوتے ہیں ۔ اولاد موجود ہو تو میت کے ترکہ میں اُن کا کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، الّا یہ کہ مرنے والا نساء کی آیت ۱۲ میں کلالہ کے حکم عام کے تحت اُن میں سے کسی کو بچے ہوئے ترکے کا وارث بنا دے۔

بھائی بہنوں کے جو حصے یہاں بیان ہوئے ہیں ، اُن میں اور اولاد کے حصوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ’اِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ‘ کا اسلوب دلیل ہے کہ یہ حصے بھی والدین اور احدالزوجین کا حصہ دینے کے بعد باقی ترکے میں سے دیے جائیں گے ۔ اِس کے دلائل ہم اولاد کے حصوں کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کر چکے ہیں۔ چنانچہ ترکے کا جو حصہ بھائی بہنوں میں تقسیم کیا جائے گا ،میت کی صرف بہنیں ہی ہوں تو قرآن کی ہدایت کے مطابق، اُنھیں بھی اُسی کا دو تہائی اور اُسی کا نصف ادا ہو گا ۔

یہ بات ، جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ،آیات ۱۱ ۔۱۲ سے بھی واضح تھی کہ اولاد کی عدم موجودگی میں بھائی بہن اُس کے قائم مقام ہیں ، لیکن نساء کی اِس آیت تبیین نے اِسے بالفاظ صریح بیان کر دیا ہے ۔ وہاں ممکن تھا کہ اسلوب بیان کی دلالت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ غلطی میں پڑ جاتے۔ اِس وضاحت کے بعد یہ احتمال باقی نہیں رہا ۔ چنانچہ فرمایا ہے: یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا، وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۔



B

حواشی :

35  ۴: ۱۷۶۔


36  مسلم، رقم ۴۱۴۸ میں وضاحت ہے کہ آیت میراث سے مراد یہاں سورۂ نساء کی یہی آخری آیت ہے جس میں بھائی بہنوں کے حصے بیان ہوئے ہیں ۔ اِسی طرح بخاری، رقم ۶۷۴۳ میں یہ بات بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہے کہ اُن کے وارثوں میں صرف بہنیں تھیں۔


37  ۲: ۱۸۹۔ ملاحظہ ہو :تدبر قرآن،امین احسن اصلاحی ۱/ ۴۷۱۔