یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا، اِذَا تَدَایَنْتُمْ بِدَیْنٍ اِلآی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ وَلْیَکْتُبْ بَّیْنَکُمْ کَاتِبٌم بِالْعَدْلِ وَلَا یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ وَلْیُمْلِلِ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَلاَ یَبْخَسْ مِنْہُ شَیْءًا. فَاِنْ کَانَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْحَقُّ سَفِیْھًا اَوْ ضَعِیْفًا اَوْ لَا یَسْتَطِیْعُ اَنْ یُّمِلَّ ھُوَ فَلْیُمْلِلْ وَلِیُّہٗ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْھِدُوْا شَھِیْدَیْنِ مِنْ رِّجَالِکُمْ. فَاِنْ لَّمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَّامْرَاَتٰنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَآءِ اَنْ تَضِلَّ اِحْدٰھُمَا فَتُذَکِّرَ اِحْدٰھُمَا الْاُخْرٰی. وَلَا یَاْبَ الشُّھَدَآءُ اِذَا مَا دُعُوْا وَلَا تَسْءَمُوْٓا اَنْ تَکْتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا اِلآی اَجَلِہٖ. ذٰلِکُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاَقْوَمُ لِلشَّھَادَۃِ وَاَدْنٰٓی اَلَّا تَرْتَابُوٓا اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً حَاضِرَۃً تُدِیْرُوْنَھَا بَیْنَکُمْ. فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَلَّا تَکْتُبُوْھَا وَاَشْھِدُوْٓا اِذَا تَبَایَعْتُمْ. وَلَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَھِیْدٌ، وَ اِنْ تَفْعَلُوْا فَاِنَّہٗ فُسُوْقٌم بِکُمْ. وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ . وَاِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌ مَّقْبُوْضَۃٌ، فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ. وَلاَ تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ، وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ.(البقرہ ۲: ۲۸۲ ۔۲۸۳)
’’ایمان والو، تم کسی مقرر مدت کے لیے ادھار کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لو اور چاہیے کہ اُس کو تمھارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ۔ اور جسے لکھنا آتا ہو، وہ لکھنے سے انکار نہ کرے ، بلکہ جس طرح اللہ نے اُسے سکھایا ہے ، وہ بھی دوسروں کے لیے لکھ دے۔ اور یہ دستاویز اُسے لکھوانی چاہیے جس پر حق عائد ہوتا ہو اور وہ اللہ، اپنے پروردگار سے ڈرے اور اُس میں کوئی کمی نہ کرے ۔ پھر اگر وہ شخص جس پر حق عائد ہوتا ہے ، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اُس کے ولی کو چاہیے کہ وہ انصاف کے ساتھ لکھوا دے ۔ اور تم اِس پر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی گواہی کرالو، لیکن اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد او ردو عورتیں ہوں، تمھارے پسندیدہ گواہوں میں سے ۔ دو عورتیں اِس لیے کہ اگر ایک الجھے گی تو دوسری اُس کو یاددلا دے گی۔ اور یہ گواہ جب بلائے جائیں تو اُنھیں انکار نہیں کرنا چاہیے ۔ اور معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، اُس کے وعدے تک اُسے لکھنے میں کاہلی نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ زیادہ مبنی بر انصاف ہے، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور اِس سے تمھارے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔ ہاں ، اگر لین دین روبرو اور دست گرداں نوعیت کا ہو، تب اُس کے نہ لکھنے میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے ۔ اور سودا کرتے وقت بھی گواہ بنا لیا کرو، اور (متنبہ رہو کہ) لکھنے والے یا گواہی دینے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچایا جائے ، اور اگر تم ایسا کرو گے تو یہ وہ گناہ ہے جو تمھارے ساتھ چپک جائے گا۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو ، اور (اِس بات کو سمجھو کہ) اللہ تمھیں تعلیم دے رہا ہے ، اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور تمھیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو قرض کا معاملہ رہن قبضہ کرانے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔ پھر اگر ایک دوسرے پر بھروسے کی صورت نکل آئے تو جس کے پاس (رہن کی وہ چیز) امانت رکھی گئی ہے ، وہ یہ امانت واپس کر دے اور اللہ ، اپنے پروردگار سے ڈرتا رہے (اور اِس معاملے پر گواہی کرا لے)، اور گواہی (جس صورت میں بھی ہو ، اُس ) کو ہرگز نہ چھپاؤ اور (یاد رکھو کہ) جو اُسے چھپائے گا، اُس کا دل گناہ گار ہو گا ، اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ تم کرتے ہو ، اللہ اُسے جانتا ہے۔‘‘
اِن آیتوں میں مسلمانوں کو نزاعات سے بچنے کے لیے لین دین ،قرض اور اِس طرح کے دوسرے مالی معاملات میں تحریر و شہادت کے اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے ۔ اِن کے احکام کا جوخلاصہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’تدبر قرآن‘‘ میں بیان فرمایا ہے ، تفہیم مدعا کے لیے وہ ہم اُنھی کے الفاظ میں یہاں نقل کیے دیتے ہیں ۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’۱ ۔ جب کوئی قرض کا لین دین ایک خاص مدت تک کے لیے ہو تو اُس کی دستاویز لکھ لی جائے ۔
۲ ۔ یہ دستاویز دونوں پارٹیوں کی موجودگی میں کوئی لکھنے والا انصاف کے ساتھ لکھے ۔ اِس میں کوئی دغل فشل نہ کرے اور جس کو لکھنے کا سلیقہ ہو ،اُس کو چاہیے کہ وہ اِس خدمت سے انکار نہ کرے۔لکھنے کا سلیقہ اللہ کی ایک نعمت ہے ۔اِس نعمت کا شکر یہ ہے کہ آدمی ضرورت پڑنے پر لوگوں کے کام آئے ۔ اِس نصیحت کی ضرورت اِس وجہ سے پیش آئی کہ اُس زمانے میں لکھے پڑھے لوگ کم تھے۔ دستاویزوں کی تحریر اور اُن کی رجسٹری کا سرکاری اہتمام اُس وقت تک نہ عمل میں آیا تھا اور نہ اُس کا عمل میں آنا ایسا آسان تھا۔
۳ ۔ دستاویز کے لکھوانے کی ذمہ داری قرض لینے والے پر ہو گی ۔وہ دستاویز میں اعتراف کرے گا کہ میں فلاں بن فلاں کا اتنے کا قرض دار ہوں اور لکھنے والے کی طرح اُس پر بھی یہ ذمہ داری ہے کہ اِس اعتراف میں تقویٰ کو ملحوظ رکھے اور ہرگز صاحب حق کے حق میں کسی قسم کی کمی کرنے کی کوشش نہ کرے ۔
۴ ۔ اگر یہ شخص کم عقل ہو یا ضعیف ہو یا دستاویز وغیرہ لکھنے لکھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو تو جو اُس کا ولی ہو یا وکیل ہو ،وہ اُس کا قائم مقام ہو کر انصاف اور سچائی کے ساتھ دستاویز لکھوائے ۔
۵۔ اِس پر دومردوں کی گواہی ثبت ہو گی جن کے متعلق ایک ہدایت یہ ہے کہ وہ ’مِنْ رِّجَالِکُمْ‘، یعنی اپنے مردوں میں سے ہوں ،جس سے بیک وقت دو باتیں نکلتی ہیں : ایک یہ کہ وہ مسلمان ہوں۔ دوسری یہ کہ وہ اپنے میل جول اور تعلق کے لوگوں میں سے ہوں کہ فریقین اُن کو جانتے پہچانتے ہوں ۔ دوسری (ہدایت) یہ کہ وہ ’مِمَّنْ تَرْضَوْنَ‘یعنی پسندیدہ اخلاق و عمل کے ،ثقہ ،معتبر اور ایمان دار ہوں ۔
۶ ۔ اگر مذکورہ صفات کے دو مرد میسر نہ آ سکیں تو اِس کے لیے ایک مرد اور دو عورتوں کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ۔ دو عورتوں کی شرط اِس لیے ہے کہ اگر ایک سے کسی لغزش کا صدور ہو گا تو دوسری کی تذکیر و تنبیہ سے اُس کا سد باب ہو سکے گا ۔ یہ فرق عورت کی تحقیر کے پہلو سے نہیں ہے ،بلکہ اُس کی مزاجی خصوصیات اور اُس کے حالات و مشاغل کے لحاظ سے یہ ذمہ داری اُس کے لیے ایک بھاری ذمہ داری ہے ۔ اِس وجہ سے شریعت نے اِس کے اٹھانے میں اُس کے لیے سہارے کا بھی انتظام فرما دیا ہے ۔ =34=
۷۔ جو لوگ کسی دستاویز کے گواہوں میں شامل ہو چکے ہوں ، عند الطلب اُن کو گواہی سے گریز کی اجازت نہیں ہے،اِس لیے کہ حق کی شہادت ایک عظیم معاشرتی خدمت بھی ہے اور شہداء اللہ ہونے کے پہلو سے اِس امت کے فریضۂ منصبی کا ایک جزو بھی ہے۔
۸۔ قرض کے لین دین کا معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا ،اگر وہ کسی مدت کے لیے ہے ،دست گرداں نوعیت کا نہیں ہے تو اُس کو قیدتحریر میں لانے سے گرانی نہیں محسوس کرنی چاہیے ۔جو لوگ اِس کو زحمت سمجھ کر ٹال جاتے ہیں ، وہ سہل انگاری کی وجہ سے بسااوقات ایسے جھگڑوں میں پھنس جاتے ہیں جن کے نتائج بڑے دوررس نکلتے ہیں۔
۹۔ مذکورہ بالا ہدایات اللہ تعالیٰ کے نزدیک حق و عدالت سے قرین ،گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و نزاع سے بچانے والی ہیں ۔ اِس لیے معاشرتی صلاح و فلاح کے لیے اِن کا اہتمام ضروری ہے۔
۱۰ ۔ دست گرداں لین دین کے لیے تحریر و کتابت کی پابندی نہیں ہے ۔
۱۱ ۔ ہاں ،اگر کوئی اہمیت رکھنے والی خرید و فروخت ہوئی ہے تو اُس پر گواہ بنا لینا چاہیے تاکہ کوئی نزاع پیدا ہو تو اُس کا تصفیہ ہو سکے۔
۱۲۔ نزاع پیدا ہو جانے کی صورت میں کاتب یا گواہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کسی فریق کے لیے جائز نہیں ہے ۔ کاتب اور گواہ ایک اہم اجتماعی و تمدنی خدمت انجام دیتے ہیں ۔ اِس وجہ سے اُن کو بلاوجہ نقصان پہنچانے کی کوشش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ثقہ اور محتاط لوگ گواہی اور تحریر وغیرہ کی ذمہ داریوں سے گریز کرنے لگیں گے اور لوگوں کو پیشہ ور گواہوں کے سوا کوئی معقول گواہ ملنا مشکل ہو جائے گا ۔ اِس زمانے میں ثقہ اور سنجیدہ لوگ گواہی وغیرہ کی ذمہ داریوں سے جو بھاگتے ہیں ،اُس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی معاملہ نزاعی صورت اختیار کر لیتا ہے تو اُس کے گواہوں کی شامت آ جاتی ہے ۔ یہ بے چارے ہتک،اغوا اور نقصان مال و جایداد ،بلکہ قتل تک کی تعدیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ قرآن نے اِس قسم کی شرارتوں سے روکا کہ جو لوگ اِس قسم کی حرکتیں کریں گے ،وہ یاد رکھیں کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی نافرمانی نہیں ہے جو آسانی سے معاف ہو جائے گی،بلکہ یہ ایک ایسا فسق ہے جو اُن کے ساتھ چمٹ کے رہ جائے گا اور اِس کے برے نتائج سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔‘‘ (تدبر قرآن ۱ /۶۴۰)
آیات کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رہن کا حکم بیان فرمایا ہے کہ آدمی سفر میں ہو او رکوئی لکھنے والا نہ ملے تو قرض کا معاملہ رہن قبضہ کرانے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے ۔ اِس کے ساتھ یہ بات ، البتہ واضح کر دی گئی ہے کہ رہن کی اجازت صرف اُسی وقت تک ہے ، جب تک قرض دینے والے کے لیے اطمینان کی صورت پیدا نہیں ہو جاتی ۔ اللہ کا حکم ہے کہ یہ صورت پیدا ہو جائے تو قرض پر گواہی کرا کے رہن رکھی ہوئی چیز لازماً واپس کر دینی چاہیے ۔ استاذ امام اِس حکم کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’...جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ ایک دوسرے پر اعتماد کے لیے جو باتیں مطلوب ہیں ، وہ فراہم ہو جائیں ، مثلاً سفر ختم کر کے حضر میں آ گئے ، دستاویز کی تحریر کے لیے کاتب اور گواہ مل گئے ، اپنوں کی موجودگی میں قرض معاملت کی تصدیق ہو گئی اور اِس امر کے لیے کوئی معقول وجہ باقی نہیں رہ گئی کہ قرض دینے والا رہن کے بغیر اعتماد نہ کر سکے تو پھر اُس کو چاہیے کہ وہ رہن کردہ چیز اُس کو واپس کر دے اور اپنے اطمینان کے لیے چاہے تو وہ شکل اختیار کرے جس کی اوپر ہدایت کی گئی ہے ۔ یہاں رہن کردہ مال کو امانت سے تعبیر فرمایا ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرض دینے والے کے پاس رہن بطورامانت ہوتا ہے جس کی حفاظت ضروری اور جس سے کسی قسم کا انتفاع ناجائز ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۶۴۳)
دو مردوں اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کا جو ضابطہ اِن آیات میں بیان ہوا ہے ، اِس کا موقع اگرچہ متعین ہے ، لیکن ہمارے فقہا نے اِسے جس طرح سمجھا ہے ، اِس کی بنا پر ضروری ہے کہ یہ دو باتیں اِس کے بارے میں بھی واضح کر دی جائیں :
ایک یہ کہ واقعاتی شہادت کے ساتھ اِس ضابطے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ صرف دستاویزی شہادت سے متعلق ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ دستاویزی شہادت کے لیے گواہ کا انتخاب ہم کرتے ہیں اور واقعاتی شہادت میں گواہ کاموقع پر موجود ہونا ایک اتفاقی معاملہ ہوتا ہے ۔ ہم اگر کوئی دستاویز لکھتے ہیں یا کسی معاملے میں کوئی اقرار کرتے ہیں تو ہمیں اختیار ہے کہ اُس پر جسے چاہیں ، گواہ بنائیں۔ لیکن زنا ، چوری ، قتل، ڈاکا اور اِس طرح کے دوسرے جرائم میں جو شخص بھی موقع پر موجود ہوتا ہے ، وہی گواہ قرار پاتا ہے ۔ چنانچہ شہادت کی اِن دونوں صورتوں کا فرق اِس قدر واضح ہے کہ اِن میں سے ایک کو دوسری کے لیے قیاس کا مبنیٰ نہیں بنایا جا سکتا ۔
دوسری یہ کہ آیت کے موقع و محل اور اسلوب بیان میں اِس بات کی گنجایش نہیں ہے کہ اِسے قانون و عدالت سے متعلق قرار دیا جائے ۔ اِس میں عدالت کو مخاطب کر کے یہ بات نہیں کہی گئی کہ اِس طرح کا کوئی مقدمہ اگر پیش کیا جائے تو مدعی سے اِس نصاب کے مطابق گواہ طلب کرو۔ اِس کے مخاطب ادھار کا لین دین کرنے والے ہیں اور اِس میں اُنھیں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر ایک خاص مدت کے لیے اِس طرح کا کوئی معاملہ کریں تو اُس کی دستاویز لکھ لیں اور نزاع اور نقصان سے بچنے کے لیے اُن گواہوں کا انتخاب کریں جو پسندیدہ اخلاق کے حامل ، ثقہ، معتبر اور ایمان دار بھی ہوں اور اپنے حالات و مشاغل کے لحاظ سے اِس ذمہ داری کو بہتر طریقے پر پورا بھی کر سکتے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ اِس میں اصلاً مردوں ہی کو گواہ بنانے اور دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد کے ساتھ دو عورتوں کو گواہ بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ گھر میں رہنے والی یہ بی بی اگر عدالت کے ماحول میں گھبراہٹ میں مبتلا ہو تو گواہی کو ابہام و اضطراب سے بچانے کے لیے ایک دوسری بی بی اُس کے لیے سہارا بن جائے۔ اِس کے یہ معنی ، ظاہر ہے کہ نہیں ہیں اور نہیں ہو سکتے کہ عدالت میں مقدمہ اُسی وقت ثابت ہو گا ، جب کم سے کم دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اُس کے بارے میں گواہی دینے کے لیے آئیں ۔ یہ ایک معاشرتی ہدایت ہے جس کی پابندی اگر لوگ کریں گے تو اُن کے لیے یہ نزاعات سے حفاظت کا باعث بنے گی ۔ لوگوں کو اپنی صلاح و فلاح کے لیے اِس کا اہتمام کرنا چاہیے ، لیکن مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لیے یہ کوئی نصاب شہادت نہیں ہے جس کی پابندی عدالت کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ اِس سلسلہ کی تمام ہدایات کے بارے میں فرمایا ہے کہ یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، گواہی کو زیادہ درست رکھنے والا ہے اور اِس سے شبہوں میں پڑنے کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ، حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ، اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ، اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ، تَحْبِسُوْنَھُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ، اِنِ ارْتَبْتُمْ، لَا نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَلَا نَکْتُمُ شَھَادَۃَ اللّٰہِ، اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ. فَاِنْ عُثِرَ عَلآی اَنَّھُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَھُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ: لَشَھَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَآ، اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ. ذٰلِکَ اَدْنآی اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّھَادَۃِ عَلٰی وَجْھِھَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌ م بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاسْمَعُوْا، وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.(المائدہ ۵: ۱۰۶۔۱۰۸)
’’ ایمان والو، تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اُس کے لیے تمھارے درمیان گواہی اِس طرح ہو گی کہ تم میں سے دو ثقہ آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم کہیں سفر میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت آپہنچے تو تمھارے غیروں میں سے دو گواہ لے لیے جائیں۔ (پہلی صورت میں)، اگرتمھیں (اُن کے بارے میں) کوئی شبہ ہو جائے تو تم اُنھیں نماز کے بعد روک لو گے، پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم اِس گواہی کے بدلے میں کوئی قیمت قبول نہ کریں گے، اگرچہ کوئی قرابت مند ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہم اللہ کی گواہی کو چھپائیں گے۔ ہم نے ایسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے۔ پھر اگر پتا چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اُن کی جگہ دو دوسرے آدمی اُن لوگوں میں سے کھڑے ہوں، جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے۔ پھر وہ اللہ کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی اِن دونوں کی گواہی سے زیادہ برحق ہے اور ہم نے اپنی گواہی میں کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ ہم نے ایسا کیا ہو تو ہم ظالموں میں سے ہوں گے۔ اِس طریقے سے زیادہ توقع ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا کم سے کم اِس بات سے ڈریں کہ اُن کی قسمیں دوسروں کی قسم کے بعد رد ہو جائیں گی۔ اللہ سے ڈرو اور (جو حکم دیا جائے، اُس کو)سنو۔ (ایسا نہیں کرو گے تو یہ صریح نافرمانی ہے) اور اللہ نافرمان لوگوں کو کبھی راستہ نہیں دکھاتا ۔‘‘
اِن آیات میں وصیت سے متعلق اُسی اہتمام کی ہدایت کی گئی ہے جو اوپر لین دین اور قرض کے بارے میں بیان ہوا ہے ۔ اِس کا خلاصہ درج ذیل ہے :
۱۔ کسی شخص کی موت آ جائے اور اُسے اپنے مال سے متعلق کوئی وصیت کرنی ہو تو اُسے چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں میں سے دو ثقہ آدمیوں کو گواہ بنا لے ۔
۲ ۔ موت کا یہ مرحلہ اگرکسی شخص کو سفر میں پیش آئے اور گواہ بنانے کے لیے وہاں دومسلمان میسر نہ ہوں تو مجبوری کی حالت میں وہ دو غیر مسلموں کو بھی گواہ بنا سکتا ہے۔
۳۔ مسلمانوں میں سے جن دو آدمیوں کو گواہی کے لیے منتخب کیا جائے،اُن کے بارے میں اگر یہ اندیشہ ہو کہ کسی شخص کی جانب داری میں وہ اپنی گواہی میں کوئی ردو بدل کر دیں گے تو اِس کے سدباب کی غرض سے یہ تدبیر کی جا سکتی ہے کہ کسی نماز کے بعد اُنھیں مسجد میں روک لیا جائے اور اُن سے اللہ کے نام پرقسم لی جائے کہ اپنے کسی دنیوی فائدے کے لیے یا کسی کی جانب داری میں ، خواہ وہ اُن کا کوئی قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو ، وہ اپنی گواہی میں کوئی تبدیلی نہ کریں گے اور اگر کریں گے تو گناہ گار ٹھیریں گے۔
۴ ۔ گواہوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ گواہی ’شَھَادَۃُ اللّٰہِ‘ یعنی اللہ کی گواہی ہے ، لہٰذا اِس میں کوئی ادنیٰ خیانت بھی اگر اُن سے صادر ہوئی تو وہ نہ صرف بندوں کے ، بلکہ خدا کے بھی خائن قرار پائیں گے ۔
۵ ۔ اِس کے باوجود اگر یہ بات علم میں آ جائے کہ اِن گواہوں نے وصیت کرنے والے کی وصیت کے خلاف کسی کے ساتھ جانب داری برتی ہے یا کسی کی حق تلفی کی ہے تو جن کی حق تلفی ہوئی ہے ، اُن میں سے دو آدمی اٹھ کر قسم کھائیں کہ ہم اِن اولیٰ بالشہادت گواہوں سے زیادہ سچے ہیں ۔ ہم نے اِس معاملے میں حق سے کوئی تجاوز نہیں کیا اور ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو خدا کے حضور میں ہم ظالم قرار پائیں ۔
۶ ۔ گواہوں پر اِس مزید احتساب کا فائدہ یہ ہے کہ اِس کے خیال سے ،توقع ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک گواہی دیں گے ۔ ورنہ اُنھیں ڈر ہو گا کہ اُنھوں نے اگر کسی بدعنوانی کا ارتکاب کیا تو اُن کی قسمیں دوسروں کی قسموں سے باطل قرار پائیں گی اور اولیٰ بالشہادت ہونے کے باوجود اُن کی گواہی رد ہو جائے گی ۔