HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

قومی املاک


مَآ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآءِ مِنْکُمْ.( الحشر ۵۹: ۷)
’’(اِس لیے) اِن بستیوں کے لوگوں سے اللہ جو کچھ اپنے رسول کی طرف پلٹائے، وہ اللہ اور رسول اور قرابت مندوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا تاکہ وہ تمھارے دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتا رہے۔‘‘

یہ آیت جس سیاق میں آئی ہے ، اُسے سورۂ حشر میں دیکھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ ر سالت میں جب لوگوں نے اُن اموال، زمینوں اور جایدادوں کے بارے میں جو دشمن سے بغیر کسی جنگ کے حاصل ہوئی تھیں ، یہ مطالبہ کیا کہ وہ اُن میں تقسیم کر دی جائیں تو قرآن نے اِسے ماننے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اِنھیں نجی ملکیت میں دینے کے بجاے دین و ملت کی اجتماعی ضرورتوں اور قوم کے غربا و مساکین کی مدد اور کفالت کے لیے وقف رہنا چاہیے تاکہ یہ دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرتی رہیں۔

یہ اموال چونکہ مسلمانوں کی کسی مدد کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کی قوت قاہرہ سے حاصل ہوئے تھے، اِس وجہ سے سب کے سب اِس مقصد کے لیے خاص کیے گئے ۔جزیرہ نماے عرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جہادو قتال کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اُس زمانے کے عام غنائم بھی اللہ و رسول ہی کی ملکیت تھے،  =27= لیکن اُن کے حصول میں چونکہ لوگوں نے آپ کی مدد کی تھی اور اُنھیں اُس زمانے میں ذاتی اسلحہ، گھوڑے اور اونٹ وغیرہ جنگ میں استعمال کرنا پڑتے تھے ،یہاں تک کہ اپنے زاد راہ کا بندوبست بھی خود ہی کرنا ہوتا تھا ،اِس لیے ضروری تھا کہ وہ مجاہدین میں تقسیم کر دیے جائیں ۔تاہم قرآن نے حکم دیا کہ اُن میں سے بھی پانچواں حصہ اِس مقصد کے لیے نکال لیا جائے :

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ.(الانفال ۸: ۴۱)
’’ (تم نے پوچھا تھا تو) جان لو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا تھا، اُس کا پانچواں حصہ اللہ کے لیے، اُس کے پیغمبر کے لیے، (پیغمبر کے) اقربا اور یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے خاص رہے گا۔‘‘

اِس سے یہ رہنمائی مسلمانوں کے ہر نظم اجتماعی کو بھی حاصل ہوتی ہے کہ وہ تمام اموال و املاک جو کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے جیسے زمین اور اُس کے خزائن اُنھیں قوم ہی کی ملکیت میں رہنا چاہیے اور نظم اجتماعی سے متعلق بعض دوسری ذمہ داریوں کے ساتھ اُن لوگوں کی ضرورتیں بھی اُن سے پوری کرنی چاہییں جو اپنی خلقی کمزوریوں یا اسباب و وسائل سے محرومی کے باعث دوسروں کی مدد کے محتاج ہو جاتے ہیں۔

رہا اِن املاک کے بندوبست کا معاملہ تو اِسے شریعت نے حالات و مصالح پر چھوڑ دیا ہے ، لہٰذا مسلمانوں کے اولی الامر اُن کے ارباب حل و عقد کے مشورے سے اِس کے لیے جو طریقہ چاہیں اختیار کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ یہ معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے زمانے میں خیبر کی زمینیں اِسی مقصد سے بٹائی پر دیں۔  =28= بعض رقبے جن افراد کے لیے خاص کیے ، اُنھی کے تصرف میں رہنے دیے، =29= بعض کو حمیٰ قرار دیا،  =30= بعض چیزوں میں سب مسلمان یکساں شریک ٹھیرائے، =31= بعض چشموں اور نہروں سے انتفاع کے لیے ’الأقرب فالأقرب‘ کا قاعدہ مقرر کیا  =32= اور سیدنا فاروق رضی اللہ عنہ نے عراق و شام کی مفتوحہ زمینیں اپنے عہد خلافت میں اُن کے پرانے مالکوں ہی کے تصرف میں چھوڑ کر اُن کی پیداوار کے لحاظ سے ایک متعین رقم اُن پر بطورخراج عائد کر دی ۔ =33=

B

حواشی :

27  الانفال ۸: ۱ ۔  =27=


28  مسلم، رقم ۳۹۶۷ ۔  =28=


29  ابو داؤد، رقم ۳۰۵۸۔  =29=


30  بخاری، رقم ۲۳۷۰۔ احمد ، رقم ۱۶۲۲۷۔  =30=


31  ابن ماجہ ، رقم ۲۴۷۳۔ ابوداؤد، رقم ۳۴۷۷۔ ابن ابی شیبہ، رقم ۲۳۱۹۴۔  =31=


32  بخاری ، رقم ۲۳۶۱۔  =32=


33  کتاب الخراج، ابو یوسف ۲۶۔۲۹۔  =33=