یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ.(النساء ۴: ۲۹)
’’ایمان والو،ایک دوسرے کے مال آپس میں باطل طریقوں سے نہ کھاؤ، الاّ یہ کہ تمھاری باہمی رضامندی کی تجارت ہو، جس سے کوئی مال حاصل ہو جائے ۔‘‘
اِس آیت میں دوسروں کا مال اُن طریقوں سے کھانے کی ممانعت کی گئی ہے جو عدل و انصاف، معروف ،دیانت اور سچائی کے خلاف ہیں۔ اسلام میں معاشی معاملات سے متعلق تمام حرمتوں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا یہی حکم ہے ۔رشوت، چوری، غصب، غلط بیانی، تعاون علی الاثم ،غبن، خیانت اور لقطہ کی مناسب تشہیر سے گریز کے ذریعے سے دوسروں کا مال لے لینا، یہ سب اِسی کے تحت داخل ہیں ۔ اِن چیزوں پر مفصل بحث کی ضرورت نہیں ہے ،اِس لیے کہ اِن کا گناہ ہونا تمام دنیا کے معروفات اور ہر دین و شریعت میں ہمیشہ مسلم رہا ہے ۔ وہ معاملات جو دوسروں کے لیے ضرر و غرر ،یعنی نقصان یا دھوکے کا باعث بنتے ہیں،وہ بھی اِسی کی ایک فرع ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی جو صورتیں ،اپنے زمانے میں ممنوع قرار دیں، وہ یہ ہیں:
چیزیں بیچنا ،اِس سے پہلے کہ وہ قبضے میں آئیں۔ =1=
ڈھیر کے حساب سے غلہ خرید کر ،اُسے اپنے ٹھکانوں پر لانے سے پہلے بیچ دینا۔ =2=
دیہاتی کے لیے کسی شہری کی خریدو فروخت ۔ =3=
محض دھوکا دینے کے لیے ، ایک دوسرے سے بڑھ کر بولی دینا۔ =4=
کسی شخص کے سودے پر اپنا سودا بنانے کی کوشش کرنا۔ =5=
محاقلہ ، یعنی کوئی شخص اپنی کھیتی خوشوں میں بیچ دے۔ =6=
مزابنہ، یعنی کھجور کے درخت پر اُس کا پھل درخت سے اتری ہوئی کھجور کے عوض بیچنا۔ =7=
معاومہ ،یعنی درختوں کا پھل کئی سال کے لیے بیچ دینا ۔ =8=
ثنیا ،یعنی بیع میں کوئی مجہول استثنا باقی رکھا جائے ۔اِس کی صورت یہ تھی کہ غلہ بیچنے والا ،مثال کے طور پر ، یہ کہہ دیتا کہ میں نے یہ غلہ تیرے ہاتھ بیچ دیا ،مگر اِس میں سے تھوڑا نکال لوں گا۔ =9=
ملامسہ،یعنی ہر ایک دوسرے کا کپڑا بے سوچے سمجھے چھو لے اور اِس طرح اُس کی بیع منعقد ہو جائے۔ =10=
منابذہ،یعنی ہر ایک اپنی کوئی چیز دوسرے کی طرف پھینک دے اور اِس طرح اُس کی بیع منعقد قرار پائے۔ =11=
بیع الی حبل الحبلہ ،یعنی اونٹ اِس طرح بیچے جائیں کہ اونٹنی جو کچھ جنے ،پھر اُس کا وہ بچہ حاملہ ہو اور جنے تو اُس کا سودا طے ہو۱ ۔ =12=
بیع الحصاۃ ،یعنی کنکری کی بیع ۔اِس کی دو صورتیں بالعموم رائج تھیں : ایک یہ کہ اہل جاہلیت زمین کا سودا طے کر لیتے ،پھر کنکری پھینکتے اور جہاں تک وہ جاتی ،اُسے زمین کی مساحت قرار دے کر مبیع کی حیثیت سے خریدار کے حوالے کر دیتے۔ دوسری یہ کہ کنکری پھینکتے اور کہتے کہ یہ جس چیز پر پڑے گی ، وہی مبیع قرار پائے گی۔ =13=
درختوں کے پھل بیچ دینا ،اِس سے پہلے کہ اُن کی صلاحیت واضح ہو۔ =14=
بالی بیچ دینا ،اِس سے پہلے کہ وہ سفید ہو کر آفتوں سے محفوظ ہو جائے ۔ =15=
اپنے بھائی کے ہاتھ کوئی ایسی چیز بیچنا جس میں عیب ہو ،الاّیہ کہ اُسے واضح کر دیا جائے ۔ =16=
اونٹ یا بکری کا دودھ ،اُنھیں بیچنے سے پہلے اُن کے تھنوں میں روک کر رکھنا ۔ =17=
بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر تاجروں سے ملنا اور اُن کا مال خریدنے کی کوشش کرنا۔ =18=
کسی چیز کی پیشگی قیمت دے کر اِس طرح بیع کرنا کہ تیار ہونے پر وہ چیز لے لی جائے گی ، الاّ یہ کہ معاملہ ایک معین ماپ اور ایک معین تول کے ساتھ اور ایک معین مدت کے لیے کیا جائے۔ =19=
مخابرہ ،یعنی بٹائی کی وہ صورتیں اختیار کی جائیں جن میں کھیتی والے کا منافع معین قرار پائے ۔ =20=
زمین اِس طرح بٹائی پر دینا کہ زمین کے ایک معین حصے کی پیداوار زمین کے مالک کا حق قرار پائے۔ =21=
ایسی جایدادیں جو ابھی تقسیم نہ ہوئی ہوں، اُن کے شریکوں کو خریدنے کا موقع دیے بغیر اُنھیں بیچ دینا، الاّیہ کہ حدود متعین ہو جائیں اور راستے الگ کر دیے جائیں ۔ =22=
بیع و شرا اور مزارعت وغیرہ کی یہ صورتیں ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ممنوع قرار دی ہیں۔ اِن کے بارے میں یہ بات یہاں واضح رہنی چاہیے کہ ضرر و غرر کی جس علت پر یہ مبنی ہیں ، وہ اگر شرائط و احوال کی تبدیلی سے کسی وقت اِن میں مفقود ہو جائے تو جس طرح اِن کی ممانعت ختم ہو جائے گی ، اِسی طرح تمدن کے ارتقا کے نتیجے میں یہ علت اگر کسی حادث معاشی معاملے میں ثابت ہو جائے تو اُس کی اباحت بھی باقی نہ رہے گی ۔
سود اور جوا بھی اِسی اکل الاموال بالباطل میں داخل ہیں ۔ اِن کے بارے میں قرآن کا نقطۂ نظر ہم یہاں کسی قدر تفصیل سے بیان کریں گے :