تزکیۂ معیشت کا جو قانون اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر کی وساطت سے انسانیت کو دیا ہے، اُس کی بنا اِس اصول پر قائم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے ۔ اِس وجہ سے اِس کا نظام اُس نے اِس طرح قائم کیا ہے کہ یہاں سب لوگ ایک دوسرے کے محتاج اور محتاج الیہ کی حیثیت سے پیدا ہوئے ہیں ۔ اِس دنیا میں اعلیٰ سے اعلیٰ شخصیتیں بھی اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں کی طرف رجوع کی محتاج ہیں اور ادنیٰ سے ادنیٰ انسانوں کی طرف بھی اِن ضرورتوں کے لیے رجوع کیا جاتا ہے ۔ یہاں ہرشخص کا ایک کردار ہے اور کوئی بھی دوسروں سے بے نیاز ہو کر زندہ نہیں رہ سکتا ۔عالم کے پروردگار نے یہاں ہر شخص کی ذہانت ،صلاحیت ،ذوق و رجحان اور ذرائع و وسائل میں بڑا تفاوت رکھا ہے ۔ چنانچہ اِس تفاوت کے نتیجے میں جو معاشرہ وجود میں آتا ہے ، اُس میں اگر ایک طرف وہ عالم اورحکیم پیدا ہوتے ہیں جن کی دانش سے دنیا روشنی حاصل کرتی ہے؛ وہ مصنف پیدا ہوتے ہیں جن کا قلم لفظ و معنی کے رشتوں کو حیات ابدی عطا کرتا ہے ؛وہ محقق پیدا ہوتے ہیں جن کے نوادر تحقیق پر زمانہ داد دیتا ہے ؛وہ لیڈر پیدا ہوتے ہیں جن کی تدبیر و سیاست سے حیات اجتماعی کے عقدے کھلتے ہیں؛ وہ مصلح پیدا ہوتے ہیں جن کی سعی و جہد سے انسانیت خود اپنا شعور حاصل کرتی ہے اور وہ حکمران پیدا ہوتے ہیں جن کا عزم و استقلال تاریخ کا رخ بدل دیتا ہے تو دوسری طرف وہ مزدور اور دہقان اور وہ خادم اور قلی اور خاک روب بھی پیدا ہوتے ہیں جن کی محنت سے کلیں معجزے دکھاتی، مٹی سونا اگلتی ،چولھے لذت کام و دہن کا سامان پیدا کرتے،گھر چاندی کی طرح چمکتے ،راستے پاؤں لینے کے لیے بے تاب نظر آتے،عمارتیں آسمان کی خبر لاتی اور غلاظتیں صبح دم اپنا بستر سمیٹ لیتی ہیں ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
نَحْْنُ قَسَمْنَا بَیْنَھُمْ مَّعِیْشَتَھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَھُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا، وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ. (الزخرف ۴۳: ۳۲)
’’دنیا کی زندگی میں اِن کی معیشت کا سامان تو اِن کے درمیان ہم نے تقسیم کیا ہے اور اِس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک کے درجے دوسرے پر بلند رکھے ہیں تاکہ یہ ایک دوسرے سے کام لے سکیں اور تیرے پروردگار کی رحمت اُس سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں۔‘‘
اِس فرق مراتب کے ساتھ دنیا کو پیدا کر کے عالم کا پروردگار یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ اعلیٰ و ادنیٰ،باہمی احترام اور باہم دگر تعاون سے صالح معاشرت اور صالح تمدن وجود میں لاتے ہیں یا ایک دوسرے کے خلاف اپنی شرارتوں اور حماقتوں سے اِس عالم کو سراسر فساد بنا دینے کی سعی میں مصروف ہو جاتے ہیں ، اور اِس طرح دنیا میں بھی رسوا ہوتے اور آخرت میں بھی اُس کے عذاب کے مستحق ٹھیرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً، وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ.(الانبیاء ۲۱: ۳۵)
’’ ہم اچھے اوربرے حالات سے تم لوگوں کو آزما رہے ہیں، پرکھنے کے لیے اور (ایک دن) تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
انسان کی یہی آزمایش ہے جس میں پورا اترنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اُس کی رہنمائی فرمائی اور معاشی عمل میں اُس کے تزکیہ و تطہیرکے لیے اُسے اپنا ایک قانون دیا ہے ۔
اِس قانون کا خلاصہ درج ذیل ہے :
۱ ۔ دوسروں کا مال باطل طریقوں سے کھانا ممنوع ہے ۔ سود اور جوا اِسی سلسلے کے جرائم ہیں۔ اِن کے علاوہ دوسرے تمام معاشی معاملات کے جواز اور عدم جواز کا فیصلہ کرتے وقت بھی یہی اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔
۲ ۔ وہ تمام اموال و املاک جو کسی فرد کی ملکیت نہیں ہیں یا نہیں ہو سکتے ، اُنھیں ریاست ہی کی ملکیت میں رکھا جائے تاکہ قوم کی یہ دولت دولت مندوں ہی میں گردش نہ کرے اور اِس کا فائدہ وہ لوگ بھی اٹھائیں جو اپنی ضرورتوں کے لیے دوسروں کی مدد کے محتاج ہیں ۔ اِسی طرح نظم اجتماعی سے متعلق بعض دوسری ذمہ داریاں بھی اِن اموال سے پوری کی جا سکیں۔
۳۔ لین دین ،قرض ،وصیت اور اِس طرح کے دوسرے مالی امور میں تحریر و شہادت کا اہتمام ضروری ہے ۔ اِس سے بے پروائی بعض اوقات بڑے اخلاقی فساد کا باعث بن جاتی ہے ۔
۴۔ ہر مسلمان کی دولت اُس کے مرنے کے بعد لازماً درج ذیل طریقے سے اُس کے وارثوں میں تقسیم کر دینی چاہیے:
مرنے والے کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے اُس کے ترکے میں سے وہ ادا کیا جائے گا ۔ پھر کوئی وصیت اگر اُس نے کی ہو تو وہ پوری کی جائے گی ۔ اِس کے بعد وراثت تقسیم ہو گی ۔
وارث کے حق میں وصیت نہیں ہوسکتی ، الاّ یہ کہ اُس کے حالات یا اُس کی کوئی خدمت یا ضرورت کسی خاص صورت حال میں اِس کا تقاضا کرے۔ اِسی طرح کوئی ایسا شخص کسی مرنے والے کا وارث نہیں ہوسکتا جس نے اُس کے ساتھ قرابت کی بنیاد ہی اپنے کسی قول و فعل سے باقی نہ رہنے دی ہو ۔
والدین اور بیوی یا شوہر کا حصہ دینے کے بعد ترکے کی وارث میت کی اولاد ہے ۔مرنے والے نے کوئی لڑکا نہ چھوڑا ہو اور اُس کی اولاد میں دو یا دو سے زائد لڑکیاں ہی ہوں تو اُنھیں بچے ہوئے ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا ۔ ایک ہی لڑکی ہو تو وہ اُس کے نصف کی حق دار ہو گی ۔ میت کی اولاد میں صرف لڑکے ہی ہوں تو یہ سارا مال اُن میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔ اولاد میں لڑکے لڑکیاں ، دونوں ہوں تو ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہو گا اور اِس صورت میں بھی سارا مال اُنھی میں تقسیم کیا جائے گا۔
اولاد کی غیرموجودگی میں میت کے بھائی بہن اولاد کے قائم مقام ہیں۔ والدین اور بیوی یا شوہر موجود ہوں تو اُن کا حصہ دینے کے بعد میت کے وارث یہی ہوں گے ۔ ذکورواناث کے لیے اُن کے حصے اور اُن میں تقسیم وراثت کا طریقہ وہی ہے جو اولاد کے لیے اوپر بیان ہوا ہے ۔
میت کے اولاد ہو یا اولاد نہ ہو اور بھائی بہن ہوں تو والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ دیا جائے گا ۔ بھائی بہن بھی نہ ہوں اور تنہا والدین ہی میت کے وارث ہوں تو ترکے کا ایک تہائی ماں اور دو تہائی باپ کا حق ہے۔
مرنے والا مرد ہو اور اُس کی اولاد ہو تو اُس کی بیوی کو ترکے کا آٹھواں حصہ ملے گا ۔ اُس کے اولاد نہ ہو تو وہ ایک چوتھائی ترکے کی حق دار ہو گی ۔ میت عورت ہو اور اُس کی اولاد نہ ہو تو نصف ترکہ اُس کے شوہر کا ہے، اور اگر اُس کے اولاد ہو تو شوہر کو چوتھائی ترکہ ملے گا ۔
اِن وارثوں کی عدم موجودگی میں مرنے والا اگر چاہے تو کسی کو ترکے کا وارث بنا سکتا ہے ۔ جس شخص کو وارث بنایا گیا ہو، وہ اگر رشتہ دار ہو اور اُس کا ایک بھائی یا بہن ہو تو چھٹا حصہ اور ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو ایک تہائی اُنھیں دینے کے بعد باقی ۶/ ۵ یا دو تہائی اُسے ملے گا ۔
ہم یہاں اِس قانون کی وضاحت کریں گے۔