HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نظم حکومت


وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ.(الشوریٰ ۴۲: ۳۸)
’’اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ کے جس قانون کا ذکر پیچھے ہوا ہے، اُس میں نظم حکومت کی اساس یہی آیت ہے۔ اِس سے پہلے کہ خدا کی بادشاہی جزیرہ نماے عرب میں قائم ہوتی، یہ حکم نازل ہو چکا تھا۔ اِس پر غور کیجیے، یہ تین لفظوں کا ایک جملہ ہے، لیکن اپنے اندر ایک جہان معنی سمیٹے ہوئے ہے۔ اِس کی تفصیل یہ ہے :

آیت میں پہلا لفظ ’اَمْر‘ہے ۔عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،لیکن آیۂ زیربحث میں اِس کا موقع و محل دلیل ہے کہ یہ نظام کے مفہوم میں ہے ۔یہ معنی اِس لفظ میں حکم ہی کے معنی میں وسعت سے پیدا ہوئے ہیں ۔حکم جب بہت سے لوگوں سے متعلق ہوتا ہے تو اپنے لیے حدود مقرر کرتا اور قواعد و ضوابط بناتا ہے۔ اُس وقت اِس کا اطلاق سیاسی اقتدار کے احکام اور جماعتی نظم، دونوں پر ہوتا ہے۔ لفظ ’نظام‘ ہماری زبان میں اِسی مفہوم کی تعبیر کے لیے بولا جاتا ہے ۔

پھر اِس مقام پر چونکہ قرآن مجید نے اِسے ضمیر غائب کی طرف اضافت کے سوا کسی دوسری صفت سے مخصوص نہیں کیا، اِس لیے نظام کا ہر پہلو اِس میں شامل سمجھا جائے گا ۔بلدیاتی مسائل، قومی و صوبائی امور ، سیاسی و معاشرتی احکام، قانون سازی کے ضوابط ،اختیارات کا سلب و تفویض، امرا کا عزل و نصب، اجتماعی زندگی کے لیے دین کی تعبیر ،غرض نظم اجتماعی کے تمام معاملات اِس آیت میں بیان کیے گئے قاعدے سے متعلق ہوں گے ۔اُس کا کوئی شعبہ اِس کے دائرے سے باہر اور کوئی حصہ اِس کے اثرات سے خالی نہ ہو گا ۔

اِس کے بعد ’شُوْرٰی‘ ہے ۔ یہ ’فعلی‘ کے وزن پر مصدر ہے اور اِس کے معنی مشورہ کرنے کے ہیں۔ آیت زیر بحث میں اِس کے خبر واقع ہونے سے جملے کا مفہوم اب وہ نہیں رہا جو ’شَاوِرْھُمْ فِی الْاَمْرِ، فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ‘ =7= میں ہے ۔ وہی بات کہنی مقصود ہوتی تو الفاظ غالباً یہ ہوتے: وفي الأمر ھم یشاورون‘ (اور معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے ) ۔ اِس صورت میں ضروری تھا کہ معاشرہ امیر و مامور میں پہلے سے تقسیم ہو چکا ہوتا ۔ امیر یا تو مامور من اللہ ہوتا یا قہر و تغلب سے اقتدار حاصل کر لیتا یا کوئی امام معصوم اُسے نامزد کر دیتا ۔ بہرحال وہ کہیں سے بھی آتا اور کسی طرح بھی امارت کے منصب تک پہنچتا ، صرف اِسی بات کا پابند ہوتا کہ قومی معاملات میں کوئی راے قائم کرنے سے پہلے لوگوں سے مشورہ کر لے ۔ اجماع یا اکثریت کا فیصلہ تسلیم کر لینے کی پابندی اُس پر نہیں لگائی جا سکتی تھی ۔ راے کے ردو قبول کا اختیار اُسی کے پاس ہوتا ۔ وہ چاہتا تو کسی کی راے قبول کر لیتا اور چاہتا تو بغیر کسی تردد کے اُسے رد کر دیتا۔

لیکن اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ کی صورت میں اسلوب میں جو تبدیلی ہوئی ہے ، اُس کا تقاضا ہے کہ خود امیر کی امارت مشورے کے ذریعے سے منعقد ہو ۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں ۔ جو کچھ مشورے سے بنے ،وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے۔ جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ لیا جائے ، ہر شخص کی راے اُس کے وجود کا جز بنے۔ اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی راے قبول کر لی جائے۔

ہم اپنی زبان میں مثال کے طور پر یہ کہیں کہ ’’اِس مکان کی ملکیت کا فیصلہ اِن دس بھائیوں کے مشورے سے ہوگا ‘‘ تو اِس کے صاف معنی یہی ہوں گے کہ دس بھائی ہی فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں اور اُن میں سے کسی کی راے کو دوسرے کی راے پر ترجیح حاصل نہیں ہے ۔ وہ سب بالاتفاق ایک ہی نتیجے پر پہنچ جائیں تو خیر ،ورنہ اُن کی اکثریت کی راے فیصلہ کن قرار پائے گی۔ لیکن یہی بات اگر اِس طرح کہی جائے کہ ’’مکان کی ملکیت کا فیصلہ کرتے وقت اِن دس بھائیوں سے مشورہ کیا جائے گا ‘‘تو اِس کے معنی یہ ہوں گے کہ فیصلہ کرنے کا اختیار اِن دس بھائیوں کو چھوڑ کر کسی اور شخص کے پاس ہے ۔ اصل راے اُسے قائم کرنی ہے اور اُسی کی راے نافذ العمل ہو گی ۔راے قائم کرنے سے پہلے ، البتہ اُسے چاہیے کہ اِن بھائیوں سے بھی مشورہ کرے ۔ اِس صورت میں ،ظاہر ہے کہ وہ اُن کے اجماع کا پابند ہو گا نہ اُن کی اکثریت کا فیصلہ قبول کرنا اُس کے لیے ضروری ہو گا ۔

ہمارے نزدیک چونکہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کی اساس ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ہے ، اِس لیے اُن کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی راے کو رد کر دیں ۔

صاحب ’’تفہیم القرآن‘‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی اِس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’ ’ اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘کا قاعدہ خود اپنی نوعیت اور فطرت کے لحاظ سے پانچ باتوں کا تقاضا کرتا ہے :
اول یہ کہ اجتماعی معاملات جن لوگوں کے حقوق اور مفاد سے تعلق رکھتے ہیں، اُنھیں اظہارراے کی پوری آزادی حاصل ہو اور وہ اِس بات سے پوری طرح باخبر رکھے جائیں کہ اُن کے معاملات فی الواقع کس طرح چلائے جا رہے ہیں اور اُنھیں اِس امر کا بھی پورا حق حاصل ہو کہ اگر وہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اُس پر ٹوک سکیں ، احتجاج کر سکیں اور اصلاح ہوتی نہ دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں ۔ لوگوں کا منہ بند کر کے اور اُن کے ہاتھ پاؤں کس کر اور اُن کو بے خبر رکھ کر اُن کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے ،جسے کوئی شخص بھی ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ کے اصول کی پیروی نہیں مان سکتا ۔
دوم یہ کہ اجتماعی معاملات کو چلانے کی ذمہ داری جس شخص پر بھی ڈالنی ہو ، اُسے لوگوں کی رضا مندی سے مقرر کیا جائے اور یہ رضا مندی اُن کی آزادانہ رضا مندی ہو ۔ جبر اور تخویف سے حاصل کی ہوئی یا تحریص و اطماع سے خریدی ہوئی یا دھوکے اور فریب اور مکاریوں سے کھسوٹی ہوئی رضا مندی ، درحقیقت رضا مندی نہیں ہے ۔ ایک قوم کا صحیح سربراہ وہ نہیں ہوتا جو ہرممکن طریقے سے کوشش کر کے اُس کا سربراہ بنے، بلکہ وہ ہوتا ہے جس کو لوگ اپنی خوشی اور پسند سے اپنا سربراہ بنائیں ۔
سوم یہ کہ سربراہ کار کو مشورہ دینے کے لیے بھی وہ لوگ مقرر کیے جائیں جن کو قوم کا اعتماد حاصل ہو اور ظاہر بات ہے کہ ایسے لوگ کبھی صحیح معنوں میں حقیقی اعتماد کے حامل قرار نہیں دیے جا سکتے جو دباؤ ڈال کر یا مال سے خرید کر یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر یا لوگوں کو گمراہ کر کے نمایندگی کا مقام حاصل کریں۔
چہارم یہ کہ مشورہ دینے والے اپنے علم اور ایمان و ضمیر کے مطابق راے دیں اور اِس طرح کے اظہارراے کی اُنھیں پوری آزادی حاصل ہو ۔ یہ بات جہاں نہ ہو ،جہاں مشورہ دینے والے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر یا کسی جتھا بندی میں کسے ہوئے ہونے کی وجہ سے خود اپنے علم اور ضمیر کے خلاف راے دیں ، وہاں درحقیقت خیانت اور غداری ہو گی ، نہ کہ ’اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ‘ کی پیروی ۔
پنجم یہ کہ جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق راے) سے دیا جائے یا جسے اُن کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اُسے تسلیم کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ: ’’اُن کے معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے‘‘بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ: ’’اُن کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔‘‘اِس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہو جاتی ،بلکہ اِس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو ،اُسی کے مطابق معاملات چلیں ۔‘‘(۴/ ۵۰۹)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی اصول پر اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے یہ فیصلہ کیا کہ حکومت کے لیے آپ کے جانشین آپ کے بعد انصار کے بجاے قریش ہوں گے۔ آ پ نے فرمایا:

إن ھذا الأمر في قریش ، لا یعادیھم أحد إلاکبہ اللّٰہ في النار علی وجھہ ما أقاموا الدین.(بخاری، رقم ۷۱۳۹)
’’ہمارا یہ اقتدار قریش کو منتقل ہو جائے گا، جب تک وہ دین پر قائم رہیں ۔ اِس معاملے میں جو شخص بھی اُن کی مخالفت کرے گا ، اللہ اُسے اوندھے منہ آگ میں ڈال دے گا ۔‘‘

اپنے اِس فیصلے کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی:

الناس تبع لقریش في ھذا الشان، مسلمھم تبع لمسلمھم، وکافرھم تبع لکافرھم.(بخاری، رقم ۳۴۹۵)
’’لوگ اِس معاملے میں قریش کے تابع ہیں۔ عرب کے مومن اُن کے مومنوں کے پیرو ہیں اور اُن کے کافر اُن کے کافروں کے۔‘‘

اِس طرح یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح کر دی کہ عرب کے مسلمانوں کا اعتماد چونکہ قریش کو حاصل ہے، اِس لیے قرآن مجید کی ہدایت — اَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ — کی روشنی میں امامت عامہ کا مستحق پورے عرب میں اُن کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا اور انتقال اقتدار کا یہ فیصلہ کسی نسبی تفوق یا نسلی ترجیح کی بنا پر نہیں، بلکہ اُن کی اِس حیثیت ہی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

B

حواشی :

7 آل عمران ۳: ۱۵۹۔ ’’ اور معاملات میں اِن سے مشورہ لیتے رہو۔ پھر جب فیصلہ کرلو تو اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘  =7=