۱۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ. (التوبہ ۹: ۱۱)
’’ سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں۔‘‘
۲۔ فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ.(التوبہ ۹: ۵ )
’’پھراگر یہ توبہ کر لیں اور نمازکا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو اِن کی راہ چھوڑ دو۔‘‘
یہ دونوں آیتیں سورۂ توبہ میں ایک ہی سلسلۂ بیان میں آئی ہیں ۔ قرآن نے فرمایا ہے کہ حج کے موقع پر یہ اعلان کر دیا جائے کہ مشرکین عرب میں سے جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں ، وہ دین میں تمھارے بھائی ہیں اور تمھارے لیے اللہ کا حکم یہ ہے کہ اِس کے بعد اُن کی راہ چھوڑ دو :
اولاً ،کفر و شرک سے توبہ کر کے وہ اسلام قبول کر لیں ۔
ثانیاً ،اپنے ایمان و اسلام کی شہادت کے طور پر نماز کا اہتمام کریں ۔
ثالثاً، حکومت کا نظم چلانے کے لیے اُس کے بیت المال کو زکوٰۃ ادا کریں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے اِسی حکم کی وضاحت میں فرمایا ہے :
أمرت أن أقاتل الناس حتی یشھدوا أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ و أن محمدًا رسول اللّٰہ ویقیموا الصلٰوۃ ویؤتوا الزکٰوۃ. فإذا فعلوہ عصموا مني دماء ھم وأموالھم إلا بحقھا وحسابھم علی اللّٰہ.(مسلم ، رقم ۱۲۹)
’’مجھے حکم دیا گیا کہ میں اِن لوگوں سے جنگ کروں، =5= یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ وہ یہ شرائط تسلیم کر لیں تو اُن کی جانیں اور اُن کے مال مجھ سے محفوظ ہو جائیں گے ، الاّ یہ کہ وہ اُن سے متعلق کسی حق کے تحت اِس حفاظت سے محروم کر دیے جائیں۔ =6= رہا اُن کا حساب تو وہ اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘
یہ حکم مشرکین عرب کے لیے تھا، لیکن صاف واضح ہے کہ جن پر خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کیا گیا، جب اُن سے براہ راست خدا اور رسول کی حکومت میں کوئی مطالبہ اِس سے زیادہ نہیں کیا گیا تو بعد کے لوگوں سے بدرجۂ اولیٰ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ مسلمانوں کے حقوق سے متعلق جو بنیادی اصول قرآن کی اِن آیتوں سے متعین ہوتے ہیں، وہ یہ ہیں:
اول یہ کہ جو لوگ یہ تین شرطیں پوری کر دیں ، اِس سے قطع نظر کہ اللہ کے نزدیک اُن کی حیثیت کیا ہے، قانون و سیاست کے لحاظ سے وہ مسلمان قرار پائیں گے اور وہ تمام حقوق اُنھیں حاصل ہو جائیں گے جو ایک مسلمان کی حیثیت سے، اُن کی حکومت میں اُن کو حاصل ہونے چاہییں۔
دوم یہ کہ عام مسلمان ہوں یا ارباب اقتدار ،اِن شرطوں کے پورا کر دینے کے بعد اُن کا باہمی تعلق لازماً اخوت ہی کا ہے، وہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اِس طرح قانونی حقوق کے لحاظ سے بالکل برابر ہیں۔ اُن کے درمیان کسی فرق کے لیے اسلام میں کوئی گنجایش نہیں مانی جا سکتی۔ قرآن نے اِس مدعا کے لیے ’فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، یعنی وہ دین میں تمھارے بھائی بن جائیں گے ۔ ’الدِّیْن‘ کے لفظ سے ظاہر ہے کہ یہاں اسلام مراد ہے اور ’فَاِخْوَانُکُمْ‘کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو خطاب کر کے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اِن تین شرطوں کے پورا ہو جانے کے بعد تمھاری اور اِن نئے ایمان لانے والوں کی حیثیت بالکل برابر ہو گی۔اِن کے اور تمھارے قانونی حقوق میں کسی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیا جائے گا ۔
سوم یہ کہ اخوت کا یہ رشتہ قائم ہو جانے کے بعد سب مسلمانوں پر ،خواہ وہ عوام میں سے ہوں یا ارباب حل و عقد میں سے، وہ تمام ذمہ داریاں خودبخود عائد ہو جاتی ہیں جو عقل و فطرت کی رو سے ایک بھائی پر اُس کے بھائی کے بارے میں عائد ہونی چاہییں ۔
چہارم یہ کہ آخرت میں جواب دہی کے لحاظ سے اسلام کے مطالبات اپنے ماننے والوں سے خواہ کچھ ہوں، مسلمانوں کے ارباب حل و عقد جو مطالبات اُن سے کر سکتے ہیں،وہ بس یہ تین ہی مطالبات ہیں جو اِن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے پوری وضاحت کے ساتھ خود بیان فرما دیے ہیں۔ اِن میں نہ کمی کے لیے کوئی گنجایش ہے اور نہ بیشی کے لیے ۔ عالم کے پروردگار نے اِن پر خود اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ اِس وجہ سے کوئی قانون ،کوئی ضابطہ ،کوئی حکومت ،کوئی شوریٰ ،کوئی پارلیمان اب قیامت تک اِن شرائط کے پورا کر دینے کے بعد مسلمانوں کی جان ،مال ،آبرو اورعقل وراے کے خلاف کسی نوعیت کی کوئی تعدی نہیں کر سکتی۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں کے پہلے حکمران سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جب مانعین زکوٰۃ کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تو لوگوں کے معارضہ پر یہ حقیقت پوری قطعیت کے ساتھ اِس طرح واضح فرمائی:
قال اللّٰہ تعالٰی: ’فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ‘. واللّٰہ، لا أسئل فوقھن ولا أقصر دونھن .(احکام القرآن ،الجصاص ۳/ ۸۲)
’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد اگر وہ توبہ کر لیں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو اُن کی راہ چھوڑ دو ، (اِس لیے) خدا کی قسم، میں اِن شرطوں پر کسی اضافے کا مطالبہ کروں گا اور نہ اِن میں کوئی کمی برداشت کروں گا۔‘‘
اِس سے واضح ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اُن کو کسی جرم کے ارتکاب سے روک سکتے اور اُس پر سزا تو دے سکتے ہیں، لیکن دین کے ایجابی تقاضوں میں سے نماز اور زکوٰۃ کے علاوہ کسی چیز کو بھی قانون کی طاقت سے لوگوں پر نافذ نہیں کرسکتے ۔ وہ، مثال کے طور پر ،اُنھیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ اُن میں سے کسی شخص کے بارے میں یہ معلوم ہو جانے کے باوجود کہ وہ صاحب استطاعت ہے ، اُسے حج پر جانے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے ۔ جہاد و قتال کے لیے جبری بھرتی کا کوئی قانون نافذ نہیں کر سکتے۔ مختصر یہ کہ جرائم کے معاملے میں اُن کا دائرۂ اختیار آخری حد تک وسیع ہے ،لیکن شریعت کے اوامر میں سے اِن دو نماز اور زکوٰۃ کے سوا باقی سب معاملات میں یہ صرف ترغیب و تلقین اور تبلیغ و تعلیم ہی ہے جس کے ذریعے سے وہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرسکتے ہیں ۔ اِس طرح کے تمام معاملات میں اِس کے سوا کوئی چیز اُن کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں اِسی بنا پر فرمایا :
إن دماء کم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا في شہرکم ہذا في بلدکم ہذا. (بخاری، رقم ۶۷)
’’تمھاری جانیں ،تمھارے مال اور تمھاری آبروئیں، تم پر اُسی طرح حرام ہیں، جس طرح تمھارے اِس دن (یوم النحر)کی حرمت تمھارے اِس مہینے (ذوالحجہ) میں اورتمھارے اِس شہر (ام القریٰ مکہ) میں ۔‘‘
یہ حرمت، ظاہر ہے کہ جس طرح عام لوگوں کے لیے ہے، اُسی طرح حکمرانوں کے لیے بھی ہے۔ چنانچہ زکوٰۃ کے علاوہ جس کی شرح اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے مختلف اموال میں مقرر کر دی ہے، وہ نہ مسلمانوں پر اُن کی رضامندی کے بغیر کسی نوعیت کا کوئی ٹیکس عائد کر سکتے ہیں نہ ایک مٹھی بھر گندم، ایک پیسا، ایک حبہ اُن کے اموال میں سے، کسی بھی مد میں، بالجبر لینے کی جسارت کر سکتے ہیں۔