اِنَّ اللّٰہَ یَاْ مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلآی اَھْلِھَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ، اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا.(النساء ۴: ۵۸)
’’(ایمان والو، اللہ نے تمھیں ایک عظیم بادشاہی عطا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اِس موقع پر) اللہ تمھیں ہدایت کرتا ہے کہ امانتیں اُن کے حق داروں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ نہایت اچھی بات ہے یہ جس کی اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔ بے شک، اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔‘‘
سورۂ نساء میں جہاں اللہ و رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا وہ بنیادی اصول بیان ہوا ہے جس کی وضاحت ہم نے اوپر کی ہے ، اُس سے متصل پہلے یہ آیت اِس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ اِس اصول کی بنیاد پر جو حکومت قائم ہو گی، اُس کی اصل ذمہ داری یہی ہے کہ قوم کی امانتیں اہلیت (merit)کی بنیاد پر لوگوں کے سپرد کرے اور عدل و انصاف کو زندگی کے ہر شعبے میں اور اُس کی آخری صورت میں قائم کر دینے کی جدوجہد کرتی رہے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس آیت کی تفسیر میں ’وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ‘ کے تحت لکھتے ہیں :
’’...یہ امانت کے سب سے اہم پہلو کی تفصیل بھی ہے اور اقتدار کے ساتھ جو ذمہ داری وابستہ ہے، اُس کی وضاحت بھی۔ جن کو اللہ تعالیٰ اپنی زمین میں اقتدار بخشتا ہے ،اُن پر اولین ذمہ داری جو عائد ہوتی ہے ، وہ یہی ہے کہ وہ لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے جھگڑوں کو عدل و انصاف کے ساتھ چکائیں۔ عدل کا مطلب یہ ہے کہ قانون کی نگاہ میں امیر و غریب، شریف و وضیع، کالے اور گورے کا کوئی فرق نہ ہو۔ انصاف خریدنی و فروختنی چیز نہ بننے پائے۔ اُس میں کسی جانب داری،کسی عصبیت، کسی سہل انگاری کو راہ نہ مل سکے۔کسی دباؤ،کسی زور و اثر اور کسی خوف و طمع کو اُس پر اثر انداز ہونے کا موقع نہ ملے۔
جن کو بھی اللہ تعالیٰ نے زمین میں اقتدار بخشا ہے ،اِسی عدل کے لیے بخشا ہے ۔ اِس وجہ سے سب سے بڑی ذمہ داری اِسی چیز کے لیے ہے ۔خدا کے ہاں عادل حکمران کا اجر بھی بہت بڑا ہے اور غیرعادل کی سزا بھی بہت سخت ہے ۔ اِس وجہ سے تنبیہ فرمائی ہے کہ یہ بہت ہی اعلیٰ نصیحت ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں کر رہا ہے ، اِس میں کوتاہی نہ ہو ۔ آخر میں اپنی صفات سمیع و بصیر کا حوالہ دیا ہے کہ یاد ر کھو کہ خدا سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے ،کوئی مخفی سے مخفی ناانصافی بھی اُس سے مخفی رہنے والی نہیں ۔‘‘ ( تدبر قرآن ۲ /۳۲۳ )
صحابۂ کرام نے جب روم و ایران کی سلطنتوں پر تاخت کی تو یہی حقیقت ہے جسے اِن الفاظ میں بیان فرمایا کہ ہم اِس دعوت کے ساتھ اٹھے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے انسانوں کی بندگی سے نکل کر خدا کی بندگی اور دنیا کی تنگی سے نکل کر اُس کی وسعت اور ادیان کے ظلم سے نکل کر اسلام کے عدل کی طرف آ جائے ۔ =3=
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی کے پیش نظر اصرار فرمایا کہ حکومت کا کوئی منصب کسی ایسے شخص کو نہ دیا جائے جو اُس کا حریص ہو ،اِس لیے کہ اُس سے پھر معاملات میں عدالت کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ آپ کا ارشاد ہے :
إنا، واللّٰہ، لا نولي علی ھذا العمل أحدًا سألہ ولا أحدًا حرص علیہ.(مسلم، رقم ۴۷۱۷)
’’ہم ، بخدا کسی ایسے شخص کو اِس نظام میں کوئی منصب نہ دیں گے جو اُسے مانگے اور اُس کے لیے حریص ہو۔‘‘
صحابہ کو بھی آپ نے نصیحت کی کہ وہ اِس معاملے میں خدا سے ڈرتے رہیں اور امارت کے طالب نہ بنیں۔ آپ نے فرمایا:
لا تسأل الإمارۃ، فإنک إن أوتیتھا عن مسألۃ وکلت إلیھا و إن أوتیتھا من غیر مسألۃ أعنت علیھا.(بخاری، رقم ۶۶۲۲)
’’امارت کے طالب نہ ہو ۔ اگر یہ تمھاری خواہش کے نتیجے میں تمھیں دی گئی تو تم اِسی کے حوالے کر دیے جاؤ گے اور اگر بغیر خواہش کے حاصل ہوئی تو اللہ کی طرف سے اِس میں تمھاری مدد کی جائے گی۔‘‘
چنانچہ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اِسی عدل کو قائم کر دینے کے لیے خلفاے راشدین نے اپنے دروازے فریاد اور اعتراض کرنے والوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے ،فقیرانہ زندگی اختیار کی، یہاں تک کہ پیوند لگے کپڑے پہنے ،بوریے کو تخت بنایا اور اپنے عوام کے اندر اُنھی کی طرح اور اُنھی کے معیار پر اِس طرح جیے کہ زمین و آسمان پکار اٹھے:
سلطنت اہل دل فقر ہے، شاہی نہیں