یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا ، اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ، فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْہُ اِلیَ اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ، اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ. ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا.(النساء ۴: ۵۹)
’’ایمان والو، (یہ خدا کی بادشاہی ہے، اِس میں) اللہ کی اطاعت کرو اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی بھی جو تم میں سے معاملات کے ذمہ دار بنائے جائیں۔ پھر اگر کسی معاملے میں تمھارا اختلاف راے ہو تو (فیصلے کے لیے) اُسے اللہ اور اُس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے۔‘‘
یہ حکم خدا کی براہ راست حکومت کے لیے دیا گیا تھاجس کی سربراہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی اور جس کے اولی الامر آپ ہی کے مقرر کردہ عمال تھے، لیکن صاف واضح ہے کہ اللہ و رسول کی جو حیثیت اِس میں بیان ہوئی ہے ، وہ ابدی ہے۔ چنانچہ جن معاملات میں بھی کوئی حکم اُنھوں نے ہمیشہ کے لیے دے دیا ہے ، اُن میں مسلمانوں کے اولی الامر کو، خواہ وہ ریاست کے سربراہ ہوں یا پارلیمان کے ارکان ، اب قیامت تک اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ۔ اولی الامر کے احکام اِس اطاعت کے بعد اور اِس کے تحت ہی مانے جا سکتے ہیں ۔اِس اطاعت سے پہلے یا اِس سے آزاد ہو کر اُن کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ لہٰذا مسلمان اپنی حکومت میں کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتے جو اللہ و رسول کے احکام کے خلاف ہو یا جس میں اُن کی ہدایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہو ۔
تاہم اللہ اور رسول کی اِس اطاعت کے تحت اولی الامر کی اطاعت کے چند لوازم ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں واضح فرمایا ہے:
اول یہ کہ اُن کے تحت جو نظم ریاست قائم کیا جائے ،مسلمانوں کو اُس سے پوری طرح وابستہ رہنا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس نظم کو ’الجماعۃ‘اور ’السلطان‘سے تعبیر کیا ہے اور اِس کے بارے میں ہر مسلمان کو پابند کیا ہے کہ اِس سے کسی حال میں الگ نہ ہو ، یہاں تک کہ اِس سے نکلنے کو آپ نے اسلام سے نکلنے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ کوئی مسلمان اگر اِس سے الگ ہو کر مرا تو جاہلیت کی موت مرے گا ۔ آپ کا ارشاد ہے :
من راٰی من أمیرہ شیءًا یکرھہ فلیصبر علیہ، فإنہ من فارق من الجماعۃ شبرًا فمات إلا مات میتۃ جاھلیۃ.( بخاری، رقم ۷۰۵۴)
’’جس نے اپنے حکمران کی طرف سے کوئی ناپسندیدہ بات دیکھی، اُسے چاہیے کہ اُس پر صبر کرے،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے الگ ہوا اور اِسی حالت میں مر گیا ، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
یہی روایت ایک دوسرے طریق میں اِس طرح آئی ہے :
من کرہ من أمیرہ شیءًا فلیصبر، فإنہ من خرج من السلطان شبرًا مات میتۃ جاھلیۃ.(بخاری، رقم ۷۰۵۳)
’’جسے حکمران کی کوئی بات ناگوار گزرے ، اُسے صبر کرنا چاہیے ،کیونکہ جو ایک بالشت کے برابر بھی اقتدار کی اطاعت سے نکلا اور اِسی حالت میں مر گیا ، اُس کی موت جاہلیت پر ہوئی۔‘‘
سیاسی خلفشار اور فتنہ و فساد کے زمانے میں بھی آپ کی ہدایت ہے کہ کسی مسلمان کو نظم اجتماعی کے خلاف کسی اقدام میں نہ صرف یہ کہ شریک نہیں ہونا چاہیے ،بلکہ پوری وفاداری کے ساتھ اُس سے وابستہ رہنا چاہیے ۔امام مسلم کی ایک روایت میں سیدنا حذیفہ کے لیے آپ کا یہ ارشاد کہ :’تلزم جماعۃ المسلمین وإمامھم‘ =1= (اِس طرح کی صورت حال میں تم مسلمانوں کے نظم اجتماعی اور اُن کے حکمران سے وابستہ رہو گے )،ریاست سے متعلق دین کے اِسی منشا پر دلالت کرتا ہے ۔
دوم یہ کہ وہ قانون کے پابند رہیں ۔جو حکم دیا جائے،اُس سے گریز و فرار کے بجاے اُسے پوری توجہ سے سنیں اور مانیں۔ کوئی اختلاف ،کوئی ناپسندیدگی ،کوئی عصبیت اورکسی نوعیت کا کوئی ذہنی تحفظ بھی قانون سے انحراف کا باعث نہیں بننا چاہیے ،الاّ یہ کہ خدا کی معصیت میں کوئی قانون بنایا جائے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
علیک السمع والطاعۃ في عسرک ویسرک ومنشطک ومکرھک وأثرۃ علیک.(مسلم ، رقم ۴۷۵۴)
’’تم پر لازم ہے کہ اپنے حکمرانوں کے ساتھ سمع و طاعت کا رویہ اختیار کرو ،چاہے تم تنگی میں ہو یا آسانی میں اور چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور اِس کے باوجود کہ تم پر کسی کو ناحق ترجیح دی جائے۔‘‘
علی المرء المسلم السمع والطاعۃ فیما أحب وکرہ إلا أن یؤمر بمعصیۃ، فإن أمر بمعصیۃ فلا سمع ولاطاعۃ.(مسلم، رقم ۴۷۶۳)
’’ مسلمان پر لازم ہے کہ خواہ اُسے پسند ہو یا ناپسند ، وہ ہر حال میں اپنے حکمران کی بات سنے اور مانے ، سواے اِس کے کہ اُسے کسی معصیت کا حکم دیا جائے ۔ پھر اگر معصیت کا حکم دیا گیا ہے تو وہ نہ سنے گا اور نہ مانے گا۔‘‘
اسمعوا وأطیعوا وإن استعمل علیکم عبد حبشي کأن رأسہ زبیبۃ.(بخاری، رقم ۷۱۴۲)
’’سنو اور مانو ،اگرچہ تمھارے اوپر کسی حبشی غلام کو حکمران بنا دیا جائے جس کا سر منقا جیسا ہو۔‘‘
اولی الامر کی اطاعت کا یہ حکم ، ظاہر ہے کہ صرف مسلمان حکمرانوں کے لیے ہے۔ سورۂ نساء کی زیر بحث آیت کے سیاق سے یہی بات معلوم ہوتی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ و رسول کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر لینے کے بعد اطاعت کا یہ حکم اُن سے متعلق نہیں رہتا ۔ عبادہ بن صامت کی روایت ہے :
دعانا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعناہ، فقال: فیما أخذ علینا أن بایعنا علی السمع والطاعۃ في منشطنا ومکرھنا و عسرنا و یسرنا وأثرۃ علینا وأن لا ننازع الأمر أھلہ، ’’إلا أن تروا کفرًا بواحًا، عندکم من اللّٰہ فیہ برھان‘‘.(بخاری، رقم ۷۰۵۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیعت کے لیے بلایا تو ہم نے آپ سے بیعت کی۔ راوی کا بیان ہے کہ اُس میں جن باتوں کا عہد لیا گیا ، وہ یہ تھیں کہ ہم سنیں گے اور مانیں گے، چاہے یہ رضا و رغبت کے ساتھ ہو یا بے دلی کے ساتھ اور چاہے ہم تنگی میں ہوں یا آسانی میں اور اِس کے باوجود کہ ہم پر کسی کو ناحق ترجیح دی جائے اور یہ بھی کہ ہم اپنے حکمرانوں سے اقتدار کے معاملے میں کوئی جھگڑا نہ کریں گے۔ (فرمایا): تم اُن سے جھگڑا صرف اُس صورت میں کر سکتے ہو، جب کوئی کھلا کفر اُن کی طرف سے دیکھو اور تمھارے پاس اِس معاملے میں اللہ کی واضح حجت موجود ہو۔‘‘
اِسی طرح بعض روایتوں میں ہے :
إنہ یستعمل علیکم أمراء فتعرفون و تنکرون، فمن کرہ فقد برۂ ومن أنکر فقد سلم، ولکن من رضي و تابع، قالوا: یا رسول اللّٰہ، ألا نقاتلھم؟ قال: ’’لا، ما صلوا‘‘.(مسلم، رقم ۴۸۰۱)
’’تم پر ایسے لوگ حکومت کریں گے جن کی بعض باتیں تمھیں اچھی لگیں گی اور بعض بری۔ پھر جس نے بری باتوں کو ناپسند کیا ، وہ بری الذمہ ہوا اور جس نے اُن کا انکار کیا ، وہ بھی محفوظ رہا ۔ مگر جو اُن پر راضی ہوا اور پیچھے چل پڑا تو اُس سے پوچھا جائے گا۔صحابہ نے پوچھا : یہ صورت ہو تو یا رسول اللہ ، کیا ہم اُن سے جنگ نہ کریں؟ آپ نے فرمایا:نہیں، جب تک وہ نماز پڑھتے ہوں۔‘‘
شرار أئمتکم الذین تبغضونھم ویبغضونکم، و تلعنونھم و یلعنونکم ، قیل: یا رسول اللّٰہ، أفلا ننابذھم بالسیف؟ فقال: ’’لا، ما أقاموا فیکم الصلٰوۃ‘‘.(مسلم، رقم ۴۸۰۴)
’’تمھارے بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔ تم اُن پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ پوچھا گیا : اے اللہ کے رسول ،یہ صورت ہو تو کیا ہم اُن کے خلاف تلوار نہ اٹھائیں ؟ فرمایا : نہیں، جب تک وہ تم میں نماز قائم کرتے رہیں۔‘‘
تاہم اِس حد کو پہنچ جانے کے بعد بھی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کا حق کسی شخص کو اُس وقت تک حاصل نہیں ہوتا ،جب تک مسلمانوں کی واضح اکثریت اُس کی تائید میں نہ ہو ۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پھر حکومت کے خلاف نہیں ،بلکہ مسلمانوں کے خلاف بغاوت قرار پائے گی جو اسلامی شریعت کی رو سے فساد فی الارض ہے اور جس کی سزا قرآن میں قتل مقرر کی گئی ہے ۔ =2= نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من أتاکم وأمرکم جمیع علی رجل واحد، یرید أن یشق عصاکم أو یفرق جماعتکم فاقتلوہ.(مسلم، رقم ۴۷۹۸)
’’تم کسی شخص کی امارت پر جمع ہو اور کوئی تمھاری جمعیت کو پارہ پارہ کرنے یا تمھارے نظم اجتماعی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے اُٹھے تو اُسے قتل کر دو۔‘‘
پھر یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ یہ بغاوت اگر مسلح بغاوت ہے تو اِس پر وہ تمام شرائط بھی آپ سے آپ عائد ہو جائیں گے جو اسلامی شریعت میں جہاد و قتال کے لیے بیان ہوئے ہیں ۔ لہٰذا کسی مسلمان کے لیے جائز نہ ہو گا کہ وہ اُنھیں پورا کیے بغیر اِس نوعیت کا کوئی اقدام اپنے حکمرانوں کے خلاف کرے۔