انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے ،اُس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ وہ تمدن کو چاہتا ہے اور پھر اِس تمدن کو اپنے ارادہ و اختیار کے سوء استعمال سے بچانے کے لیے جلد یا بدیر اپنے اندر ایک نظم اجتماعی پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ میں سیاست و حکومت، انسان کی اِس خواہش اور اِس مجبوری ہی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے اور انسان جب تک انسان ہے، وہ اگر چاہے بھی تو اِس سے نجات حاصل کر لینے میں کامیاب نہیں ہو سکتا ، لہٰذا عقل کا تقاضا یہی ہے کہ اِس دنیا میں حکومت کے بغیر کسی معاشرے اور تمدن کا خواب دیکھنے کے بجاے وہ اپنے اِس نظم اجتماعی کو زیادہ سے زیادہ پاکیزہ بنانے کی کوشش کرے۔
الہامی صحائف کے علما جانتے ہیں کہ دنیا میں دو خطہ ہاے ارض ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے خاص کیے تھے: ایک فلسطین اور دوسرے جزیرہ نماے عرب۔ یہ اِس لیے خاص کیے گئے کہ عالمی سطح پر دین کی شہادت کے لیے اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ قومیں اِن خطہ ہاے ارض میں اُس کی توحید کے مراکز قائم کریں۔ یہ مراکز مکہ اور یروشلم میں دو مسجدوں کی صورت میں قائم کیے گئے جنھیں ’بیت الحرام‘ اور ’ہیکل سلیمانی‘ کہا جاتا ہے۔ اِن مراکز کی حفاظت اور اِن کے ذریعے سے دین کی دعوت اقصا ے عالم تک پہنچانے کے لیے فیصلہ کیا گیا کہ اِن خطہ ہاے ارض میں کسی دوسرے دین کے ماننے والے مستقل طور پر کبھی آباد نہیں ہوں گے۔ اِس کا لازمی نتیجہ وہاں اُن قوموں کی حکومت تھی جو اِس مقصد کے لیے منتخب کی گئیں۔ اِس حکومت کا نظم تاریخ میں بارہا خود پروردگار عالم کے ہاتھ میں رہا ہے۔ آخری مرتبہ یہ واقعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ رسالت میں ہوا۔ چنانچہ یہی موقع ہے جب خدا کی اِس حکومت کے لیے سیاست کا ایک قانون قرآن مجید میں نازل کیا گیاجس کے بعض پہلوؤں کی وضاحت خدا کے آخری پیغمبر نے فرمائی۔نظم اجتماعی کی تطہیر کے لیے یہ ایک رہنما قانون ہے۔ مسلمانوں کے لیے اِس باب میں شریعت کے احکام اب اِسی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔
ہم یہاں اِس قانون کی وضاحت کریں گے:
بنیادی اصول
اصل ذمہ داری
دینی فرائض
مسلمانوں کے حقوق
نظم حکومت