یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ. لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِھِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ. وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ.لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا. فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ. ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ. وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ، اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ، قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْ ءٍ قَدْرًا. وَالّآءِیْ یَءِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ، اِنِ ارْتَبْتُمْ، فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ وَّالّآءِیْ لَمْ یَحِضْنَ، وَاُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ، وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا. ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَہٗٓ اِلَیْکُمْ، وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٓٗ اَجْرًا. اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ، وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ. فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ، وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی، لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآاٰتٰہُ اللّٰہُ، لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰھَا، سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا.(الطلاق ۶۵: ۱۔۷)
’’اے نبی، تم لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دو تواُن کی عدت کے حساب سے طلاق دو، اور عدت کا زمانہ ٹھیک ٹھیک شمار کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمھارا پروردگار ہے۔ (زمانۂ عدت میں) نہ تم اُنھیں اُن کے گھروں سے نکالو، نہ وہ خود نکلیں، الاّ یہ کہ وہ کسی صریح بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کریں گے، وہ یاد رکھیں کہ اُنھوں نے اپنی ہی جان پر ظلم ڈھایا ہے۔ تم نہیں جانتے، شاید اللہ اِس کے بعد کوئی اور صورت پیدا کر دے۔(اِسی طرح طلاق دو)،پھر جب وہ اپنی عدت کے خاتمے پر پہنچ جائیں تو اُنھیں بھلے طریقے سے نکاح میں رکھو یا بھلے طریقے سے رخصت کر دو۔ اور(نباہ کا ارادہ ہو یا جدائی کا، دونوں صورتوں میں) دو ثقہ آدمیوں کو اپنے میں سے گواہ بنا لو، اور (گواہوں کے لیے اللہ کا حکم ہے کہ گواہی دینے والو)، تم اِس گواہی کو اللہ کے لیے قائم رکھو۔ یہ بات ہے جس کی نصیحت (تم میں سے) اُن لوگوں کو کی جاتی ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اللہ سے ڈریں گے، (اُنھیں کوئی مشکل پیش آئی) تو اللہ اُن کے لیے نکلنے کا راستہ پیدا کر ے گا اور اُنھیں وہاں سے رزق دے گا، جدھر اُن کا گمان بھی نہ جاتا ہو۔ اور جو اللہ پر بھروسا کریں گے، وہ اُن (کی دست گیری) کے لیے کافی ہے۔ بے شک، اللہ اپنے ارادے پورے کرکے رہتا ہے۔ (ہاں، یہ ضرور ہے کہ) اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔تمھاری عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں، اور وہ بھی جنھیں (حیض کی عمر کو پہنچنے کے باوجود) حیض نہیں آیا، اُن کے بارے میں اگر کوئی شک ہے تو اُن کی عدت تین مہینے ہو گی۔ اور حاملہ عورتوں کی عدت یہ ہے کہ وہ حمل سے فارغ ہو جائیں۔ (یہ اللہ کی ہدایات ہیں، اِن کی پیروی کرو) اور(یاد رکھو کہ) جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے لیے اُس کے معاملے میں سہولت پیدا کر دے گا۔ یہ اللہ کا حکم ہے جو اُس نے تمھاری طرف نازل کیا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا، اللہ اُس کے گناہ اُس سے دور کرے گا اور اُس (کی نیکیوں) کا اجر بڑھا دے گا۔(زمانۂ عدت میں) اِن عورتوں کو وہیں رکھو، جہاں اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہواور اُن کو تنگ کرنے کے لیے ستاؤ نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو، جب تک وہ حمل سے فارغ نہ ہو جائیں۔ پھر اگر وہ (تمھارے بچے کو) تمھارے لیے دودھ پلائیں تو اُن کا معاوضہ اُنھیں دو اور یہ معاملہ دستور کے مطابق باہمی مشورے سے طے کرلو۔ اور اگر تم کوئی زحمت محسوس کرو تو بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلا لے گی۔ (تم میں سے) جو خوش حال ہو، وہ اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے اور جس کو نپا تلا ہی ملا ہے، وہ اُسی میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اُسے دیا ہے۔ اللہ نے جس کو جتنا دیا ہے، اُس سے زیادہ کا وہ اُس پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ (تم مطمئن رہو)، اللہ تنگ دستی کے بعد جلد کشادگی بھی عطا فرمائے گا۔ ‘‘
میاں بیوی میں نباہ نہ ہو سکے تو انبیا علیہم السلام کے دین میں علیحدگی کی گنجایش ہمیشہ رہی ہے ۔ اصطلاح میں اِسے ’طلاق‘ کہا جاتا ہے ۔ دین ابراہیمی کی روایات کے تحت عرب جاہلیت بھی اِس سے پوری طرح واقف تھے ۔ بعض بدعات اور انحرافات تو یقیناًراہ پا گئے تھے ، لیکن اُن کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کا قانون اُن کے ہاں بھی کم و بیش وہی تھا جواب اسلام میں ہے ۔ =23= سورۃ طلاق کی اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے چند ترامیم اور اضافوں کے ساتھ اِسی قانون پر عمل کی تاکید فرمائی ہے ۔ اِس کی بعض تفصیلات بقرہ و احزاب میں بھی بیان ہوئی ہیں، لیکن غور کیجیے تو صاف واضح ہوتا ہے کہ اِس میں اصل کی حیثیت سورۂ طلاق کی اِن آیات ہی کو حاصل ہے ۔
ہم یہاں اِس قانون کی وضاحت کریں گے :