HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

محرمات


وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ، اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّمَقْتًا وَسَآءَ سَبِیْلًا. حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَاُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَاَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَاُمَّھٰتُ نِسَآءِکُمْ وَرَبَآءِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآءِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ، فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ، وَحَلَآءِلُ اَبْنَآءِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا، وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسآءِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ، کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ.(النساء ۴: ۲۲۔ ۲۴)
’’اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نکاح کر چکے ہوں، اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا، سو ہو چکا ۔ بے شک، یہ کھلی ہوئی بے حیائی ہے، سخت قابل نفرت بات ہے اور نہایت برا طریقہ ہے۔تم پر تمھاری مائیں، تمھاری بیٹیاں، تمھاری بہنیں، تمھاری پھوپھیاں، تمھاری خالائیں، تمھاری بھتیجیاں اور تمھاری بھانجیاں حرام کی گئی ہیں اور تمھاری وہ مائیں بھی جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا اور رضاعت کے اِس تعلق سے تمھاری بہنیں بھی۔ اِسی طرح تمھاری بیویوں کی مائیں حرام کی گئی ہیں اور تمھاری بیویوں کی لڑکیاں حرام کی گئی ہیں جو تمھاری گودوں میں پلی ہیں اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تم نے خلوت کی ہو، لیکن اگر خلوت نہ کی ہو توتم پرکچھ گناہ نہیں اور تمھارے صلبی بیٹوں کی بیویاں بھی ۔اور یہ بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ہی نکاح میں جمع کرو، مگر جو ہو چکا سو ہو چکا۔ اللہ یقیناًبخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی کے نکاح میں ہوں، الاّ یہ کہ وہ تمھاری ملکیت میں آجائیں۔ یہ اللہ کا قانون ہے جس کی پابندی تم پر لازم کی گئی ہے۔‘‘

یہ اُن عورتوں کی فہرست ہے جن سے نکاح ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔ اِس کی تمہید سوتیلی ماں کے ساتھ نکاح کی حرمت سے اٹھائی گئی ہے اور خاتمہ اُن عورتوں سے نکاح کی ممانعت پر ہوا ہے جو کسی دوسرے کے عقد میں ہوں ۔ اِس تمہید و خاتمہ کے درمیان جو حرمتیں بیان ہوئی ہیں ، وہ رشتہ داری کے اصول ثلاثہ ، یعنی نسب ، رضاعت اور مصاہرت پر مبنی ہیں۔

عرب جاہلی کے بعض طبقوں میں رواج تھا کہ باپ کی منکوحات بیٹے کو وراثت میں ملتی تھیں اور بیٹے اُنھیں بیوی بنا لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے ۔ قرآن نے فرمایا کہ یہ کھلی ہوئی بے حیائی ، نہایت قابل نفرت فعل اور انتہائی برا طریقہ ہے ، لہٰذا اِسے اب بالکل ممنوع قرار دیا جاتا ہے ۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، لیکن آیندہ کسی مسلمان کو اِس فعل شنیع کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے ۔

یہی معاملہ اُس عورت کا ہے جو کسی شخص کے نکاح میں ہو ۔ شوہر سے باقاعدہ علیحدگی کے بغیر کوئی دوسرا شخص اُس سے نکاح کا حق نہیں رکھتا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح کا طریقہ خاندان کے جس ادارے کو وجود میں لانے کے لیے اختیار کیا گیا ہے ، وہ اِس کے نتیجے میں ہرگز وجود میں نہیں آ سکتا ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اِسے ممنوع ٹھیرا یا ہے ۔ وہ عورتیں، البتہ اِس سے مستثنیٰ تھیں جو جنگ میں پکڑی ہوئی آئیں۔ اُن کے لیے قانون یہ تھا کہ وہ اگر کسی سے نکاح کرنا چاہیں تو شادی شدہ ہونے کے باوجود کر سکتی تھیں۔ اِس لیے کہ اُس زمانے کے رواج کے مطابق کسی کی ملکیت میں آجانا ہی اُن کے پہلے نکاح کو آپ سے آپ کالعدم قرار دے دیتا تھا ۔ ’اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ‘ کے استثنا سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے بھی اِسے باقی رکھا تاکہ اِس طرح کی عورتیں اگر چاہیں تو بغیر کسی رکاوٹ کے مسلمان معاشرے کا حصہ بن سکیں۔

اِس کے بعد اب باقی حرمتوں کو لیجیے ۔


B