وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ، یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ لِّیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ. فَکُلُوْا مِنْھَا وََاَطْعِمُوا الْبَآءِسَ الْفَقِیْرَ ، ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَلْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.(الحج ۲۲: ۲۷۔۲۹)
’’ اور حکم دیا تھا کہ لوگوں میں حج کی منادی کرو، وہ تمھارے پاس پیدل بھی آئیں گے اور ہر طرح کی اونٹنیوں پر سوار ہو کر بھی کہ (سفر کی وجہ سے) دبلی ہو گئی ہوں گی۔ وہ (قافلوں کی آمدورفت سے) گہرے ہو چکے ہر دور دراز پہاڑی راستے سے آئیں گی۔ اِس لیے آئیں گے کہ اپنی منفعت کی جگہوں پر حاضر ہوں اور چند متعین دنوں میں اُن مواشی جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے اُنھیں بخشے ہیں۔ (تم اُن کو ذبح کرو) تو اُن سے خود بھی کھاؤ اور برے حال فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں، اپنی نذریں پوری کریں اور اِس قدیم گھر کا طواف کریں۔‘‘
یہ صدا ہے جو صدیوں پہلے بلند ہوئی اور جس کے جواب میں ’لبیک لبیک‘ کہتے ہوئے ہم ام القریٰ مکہ میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی اُس مسجد کے لیے عزم سفر کرتے ہیں جسے بیت الحرام کہا جاتا ہے۔یہ وہی بیت عتیق ہے جوامام فراہی کے الفاظ میں اِس وادی بطحا میں خدا کا پہلا گھر تھا اورجس کے حق میں ازل سے طے کردیا گیا تھا کہ توحید سے انحراف کرنے والوں کو دور پھینکتا رہے۔ چنانچہ اِس کے باشندوں نے جب بت پرستی اختیار کرلی اوراِس کے جوارسے منتشر ہوئے تو پرستش کی غرض سے اِس معبد کے پتھر بھی ساتھ لیتے گئے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام بابل سے ہجرت کے بعد اِس کو تلاش کرتے ہوئے یہاں پہنچے تو اِس کی پرانی تعمیر کا صرف ایک چمکتا ہوا پتھر باقی رہ گیا تھا۔اسمٰعیل کی قربانی کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُنھیں حکم دیا کہ اِس معبد کو دوبارہ تعمیر کریں۔ چنانچہ باپ بیٹے، دونوں نے مل کر اِسی یادگا ر پتھر کے نیچے زمین کھودنا شروع کی۔ پرانی بنیادیں کچھ تگ ودو کے بعد نکل آئیں تو اُنھیں بلند کیا اوراِس پتھر کو عمارت کے ایک گوشے میں نصب کردیا۔ اسمٰعیل اِسی گھر کی نذر کیے گئے تھے، لہٰذا وہ اِس کے خادم مقرر ہوئے اور اللہ کے حکم سے یہ صدا بلند کردی گئی کہ لوگ اب خداوند کی نذر چڑھانے کے لیے آئیں اوریہاں آکر توحید پرایمان کا جو عہد اُنھوں نے باندھ رکھا ہے، اُسے تازہ کریں۔ اصطلاح میں اِس عمل کا نام ’حج‘ و’ عمرہ‘ ہے۔یہ دونوں عبادات دین ابراہیمی میں عبادت کا منتہاے کمال ہیں۔ اپنے معبودکے لیے جذبۂ پرستش کا یہ آخری درجہ ہے کہ اُس کے طلب کرنے پر بندہ اپنا جان ومال، سب اُس کے حضور میں نذر کردینے کے لیے حاضر ہوجائے۔ حج وعمرہ اِسی نذر کی تمثیل ہیں۔ یہ دونوں ایک ہی حقیقت کو ممثل کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ اجمال ہے اور حج اِس لحاظ سے اُس کی تفصیل کردیتا ہے کہ اِس میں وہ مقصد بھی بالکل نمایاں ہو کرسامنے آجاتا ہے جس کے لیے جان ومال نذر کردینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ آدم کی تخلیق سے اُس کی جواسکیم دنیا میں برپا ہوئی ہے، ابلیس نے پہلے دن ہی سے اُس کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے : ’قَالَ: فَبِمَآ اَغْوَیْْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْم بَیْْنِ اَیْْدِیْہِمْ وَمِنْ خَلْفِہِمْ، وَعَنْ اَیْْمَانِہِمْ وَعَنْ شَمَآءِلِہِمْ، وَلَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ‘ =361= ( بولا: پھر اِس لیے کہ تو نے مجھے گمراہی میں ڈالا ہے، اب میں بھی اولاد آدم کے لیے ضرور تیری سیدھی راہ پر گھات میں بیٹھوں گا۔ پھر اِن کے آگے اور پیچھے، دائیں اور بائیں ، ہر طرف سے ضرور اِن پر تاخت کروں گااور تو اِن میں سے اکثرکو اپنا شکرگزار نہ پائے گا)۔ قرآن کا بیان ہے کہ ابلیس کا یہ چیلنج قبول کر لیا گیا ہے اور اللہ کے بندے اب قیامت تک کے لیے اپنے اِس ازلی دشمن اور اِس کی ذریت کے ساتھ برسرجنگ ہیں۔ =362= یہی اِس دنیا کی آزمایش ہے جس میں کامیابی اورناکامی پرہمارے ابدی مستقبل کا انحصار ہے۔ اپنا جان و مال ہم اِسی جنگ کے لیے اللہ کی نذر کرتے ہیں۔ انبیا علیہم السلام نے ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، کُوْنُوْٓا اَنصَارَ اللّٰہِ‘ =363= کی صدا تاریخ میں بارہا اِسی مقصد سے بلند کی ہے۔ ابلیس کے خلاف اِس جنگ کو حج میں ممثل کیا گیا ہے۔ یہ تمثیل اِس طرح ہے :
اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال ومتاع اوراُس کی لذتوں اورمصروفیتوں سے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
پھر’لبیک لبیک‘ کہتے ہوئے میدان جنگ میں پہنچتے اوربالکل مجاہدین کے طریقے پر ایک وادی میں ڈیرے ڈال دیتے ہیں۔
اگلے دن ایک کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے،اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے اور اپنے امام کا خطبہ سنتے ہیں۔
تمثیل کے تقاضے سے نمازیں قصر اورجمع کرکے پڑھتے اور راستے میں مختصر پڑاؤ کرتے ہوئے دوبارہ اپنے ڈیروں پرپہنچ جاتے ہیں۔
پھر شیطان پرسنگ باری کرتے، اپنے جانوروں کی قربانی پیش کرکے اپنے آپ کو خداوند کی نذر کرتے، سرمنڈاتے اور نذر کے پھیروں کے لیے اصل معبد اورقربان گاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں۔
پھر وہاں سے لوٹتے اوراگلے دویا تین دن اِسی طرح شیطان پر سنگ باری کرتے رہتے ہیں۔
اِس لحاظ سے دیکھیے تو حج وعمرہ میں احرام اِس بات کی علامت ہے کہ بندۂ مومن نے دنیا کی لذتوں، مصروفیتوں اور مرغوبات سے ہاتھ اٹھالیا ہے اور دو اَن سلی چادروں سے اپنا بدن ڈھانپ کر وہ برہنہ سر اور کسی حد تک برہنہ پا بالکل راہبوں کی صورت بنائے ہوئے اپنے پروردگار کے حضور میں پہنچنے کے لیے گھر سے نکل کھڑا ہوا ہے۔
تلبیہ اُس صدا کا جواب ہے جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیت الحرام کی تعمیر نو کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک پتھر پر کھڑے ہوکر بلند کی تھی۔ =364= اب یہ صدا دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچ چکی ہے اوراللہ کے بندے اُس کی نعمتوں کا اعتراف اور اُس کی توحید کا اقرار کرتے ہوئے اِس صدا کے جواب میں ’ لبیک ، اللّٰہم لبیک‘ کا یہ دل نواز ترانہ پڑھتے ہیں۔
طواف نذر کے پھیرے ہیں۔ دین ابراہیمی میں یہ روایت قدیم سے چلی آرہی ہے کہ جس کی قربانی کی جائے یا جس کو معبد کی خدمت کے لیے نذر کیا جائے، اُسے معبد یا قربان گاہ کے سامنے پھرایا جائے۔ تو رات کے مترجموں نے اِسی بات کو جگہ جگہ ہلانے کی قربانی اور خداوند کے آگے گزراننے سے تعبیر کیا ہے۔ مثال کے طور پر گنتی میں ہے:
’’ اورتو لاویوں کو خداوند کے آگے لا اوربنی اسرائیل اپنے ہاتھ اُن پررکھیں۔ اور ہارون لاویوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے ہلانے کی قربانی کی طرح خداوند کے آگے گزرانے، تب وہ خداوند کی خدمت کے لیے مخصوص ہوں گے۔ تب لاوی اپنے ہاتھ دونوں بیلوں کے سروں پر رکھیں۔ تب تو اُن میں سے ایک کو خطا کی قربانی کے لیے اوردوسرے کو خداوند کی سوختنی قربانی کے لیے لاویوں کے کفارے کے لیے گزران۔ اور تو لاویوں کو ہارون اور اُس کے بیٹوں کے سامنے کھڑا کر اور خداوندکی ہلانے کی قربانی کی طرح اُن کو گزران ،کیونکہ وہ بنی اسرائیل کے درمیان سے مجھے نذر کردیے گئے ہیں۔ میں نے بنی اسرائیل کے سب پہلوٹوں کے بدلے جو رحم کے کھولنے والے ہوں، اُن کو اپنے لیے لیا ہے۔‘‘ (۸: ۱۰۔۱۶)
بائیبل کے عربی ترجمے میں اِس کے لیے ’ ترددھم للرب‘ یا ’أمام الرب‘کی تعبیر اختیار کی گئی ہے جس سے یہ مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
حجراسود کا استلام تجدید عہد کی علامت ہے۔ اِس میں بندہ اِس پتھر کوتمثیلاً اپنے پروردگار کا ہاتھ قرار دے کر اِس ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا اورعہد ومیثاق کی قدیم روایت کے مطابق اِس کو چوم کر اپنے اِس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اسلام قبول کرکے وہ جنت کے عوض اپنا جان ومال ، سب اللہ تعالیٰ کے سپرد کرچکا ہے۔
سعی اسمٰعیل علیہ السلام کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیم نے صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہوکر اِس قربان گاہ کو دیکھا تھا اورپھر حکم کی تعمیل کے لیے ذرا تیزی کے ساتھ چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ بائیبل میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:
’’تیسرے دن ابراہیم نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دور سے دیکھا۔ تب ابراہیم نے اپنے جوانوں سے کہا: تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو۔ میں اور یہ لڑکا ، دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کرکے پھر تمھارے پاس لوٹ آئیں گے۔‘‘(پیدایش ۲۲: ۴۔۵)
چنانچہ صفا ومروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہی ہیں جو پہلے معبد کے سامنے اور اُس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔ تورات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ جس طرح قربانی سے پہلے لگائے جاتے تھے، اِسی طرح قربانی کے بعد بھی اُس کا کوئی حصہ ہاتھ میں لے کر لگائے جاتے تھے۔ خروج میں ہے:
’’اور تو ہارون کے تخصیصی مینڈھے کا سینہ لے کر اُس کو خداوند کے روبرو ہلانا تاکہ وہ ہلانے کا ہدیہ ہو۔ یہ تیرا حصہ ٹھیرے گا۔‘‘ (۲۹: ۲۶)
عرفات معبد کا قائم مقام ہے، جہاں شیطان کے خلاف اِس جنگ کے مجاہدین جمع ہوتے، اپنے گناہوں کی معافی مانگتے اور اِس جنگ میں کامیابی کے لیے دعا ومناجات کرتے ہیں۔
مزدلفہ راستے کا پڑاؤ ہے، جہاں وہ رات گزارتے اور صبح اٹھ کر میدان میں اترنے سے پہلے ایک مرتبہ پھر دعاو مناجات کرتے ہیں۔
رمی ابلیس پر لعنت اور اُس کے خلاف جنگ کی علامت ہے ۔ یہ عمل اِس عزم کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ بندۂ مومن ابلیس کی پسپائی سے کم کسی چیز پر راضی نہ ہوگا۔ یہ معلوم ہے کہ انسان کا یہ ازلی دشمن جب وسوسہ انگیزی کرتا ہے تو اِس کے بعد خاموش نہیں ہوجاتا، بلکہ یہ سلسلہ جاری رکھتا ہے۔ تاہم مزاحمت کی جائے تو اِس کی تاخت بتدریج کمزور ہوجاتی ہے۔ تین دن کی رمی اوراِس کے لیے پہلے بڑے اور اِس کے بعد چھوٹے جمرات کی رمی سے اِسی بات کو ظاہر کیا گیا ہے۔
قربانی جان کا فدیہ ہے اور سر کے بال مونڈنا اِس بات کی علامت ہے کہ نذرپیش کردی گئی ہے اور اب بندہ اپنے خداوند کی اطاعت اور دائمی غلامی کی اِس علامت کے ساتھ اپنے گھر لوٹ سکتا ہے۔ یہ دین ابراہیمی کی ایک قدیم روایت ہے۔ چنانچہ تورات میں یہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی نذر کیا جائے، وہ اپنے سر کے بال اُس وقت تک نہ منڈوائے، جب تک نذر کے دن پورے نہ ہوجائیں۔ گنتی میں ہے:
’’اوراُس کی نذارت کی منت کے دنوں میں اُس کے سر پر استرہ نہ پھیرا جائے، جب تک وہ مدت جس کے لیے وہ خداوند کا نذیر بنا ہے، پوری نہ ہو تب تک وہ مقدس رہے اور اپنے سر کے بالوں کی لٹوں کو بڑھنے د ے ۔ ‘‘(۶: ۵)
’’اور نذیر کے لیے شرع یہ ہے کہ جب اُس کی نذارت کے دن پورے ہوجائیں تو وہ خیمۂ اجتماع کے دروازے پر حاضر کیا جائے ...پھر وہ نذیرخیمۂ اجتماع کے دروازے پراپنی نذارت کے بال منڈوائے۔‘‘(۶: ۱۳، ۱۸)
اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کس قدر غیر معمولی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پرزندگی میں کم سے کم ایک مرتبہ فرض قرار دی گئی ہے ۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ایمان اور جہاد کے بعد اِسی کی فضیلت بیان کی ہے۔ =365= نیز فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے حج کرے، پھر اُس میں کوئی شہوت یا نافرمانی کی بات نہ کرے تو وہ حج سے اِس طرح لوٹتا ہے، جس طرح اُس کی ماں نے اُسے آج جنا ہے۔ =366= اِسی طرح آپ کا ارشاد ہے: عمرے کے بعدعمرہ اِن کے درمیان میں ہونے والے گناہوں کے لیے کفارہ ہے اور سچے حج کا بدلہ تو صرف جنت ہی ہے۔ =367=