HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

روزہ


یّٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ. اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ، فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مََّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدََّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ،وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ، فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ، وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ، ھُدًی لِّلنَّاسِ، وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ، فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ، وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ. یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ، وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ، وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ، وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(البقرہ ۲: ۱۸۳۔۱۸۵)
’’ ایمان والو، تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے ، جس طرح تم سے پہلوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ ۔ یہ گنتی کے چند دن ہیں ۔اِس پر بھی جو تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے۔ اور جو اِس کی طاقت رکھتے ہوں (کہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں) تو اُن پر ہر روزے کا بدلہ ایک مسکین کا کھانا ہے۔ پھر جو شوق سے کوئی نیکی کرے تو یہ اُس کے لیے بہتر ہے ، اور روزہ رکھ لو تو یہ تمھارے لیے اور بھی اچھا ہے ، اگر تم سمجھ رکھتے ہو ۔ رمضان کا مہینا ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ، لوگوں کے لیے سراسر ہدایت بنا کر اور نہایت واضح دلیلوں کی صورت میں جو (اپنی نوعیت کے لحاظ سے) رہنمائی بھی ہیں اور حق و باطل کا فیصلہ بھی ۔ سو تم میں سے جو شخص اِس مہینے میں موجود ہو ، اُسے چاہیے کہ اِس کے روزے رکھے ۔ اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کر لے ۔ (یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھاے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے ۔ اور (فدیے کی اجازت) اِس لیے (ختم کر دی گئی ہے) کہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو، (اور جو خیرو برکت اُس میں چھپی ہوئی ہے ، اُس سے محروم نہ رہو)۔ اور (اِس مقصدکے لیے رمضان کا مہینا) اِس لیے (خاص کیا گیا ہے) کہ (قرآن کی صورت میں) اللہ نے جو ہدایت تمھیں بخشی ہے ، اُس پر اُس کی بڑائی کرو اور اِس لیے کہ تم اُس کے شکر گزار بنو۔ ‘‘

نماز اور زکوٰۃ کے بعد تیسری اہم عبادت روزہ ہے۔عربی زبان میں اِس کے لیے ’ صوم‘ کا لفظ آتا ہے، جس کے معنی کسی چیز سے رک جانے اور اُس کو ترک کردینے کے ہیں۔ گھوڑوں کو تربیت دینے کے لیے جب بھوکا اور پیاسا رکھا جاتا تھا تواہل عرب اِسے اُن کے صوم سے تعبیر کرتے تھے۔ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ خاص حدود وقیود کے ساتھ کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو زبان میں اِسی کو روزہ کہتے ہیں۔ انسان چونکہ اِس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے، اِس لیے اللہ تعالیٰ کے لیے اُس کا جذبۂ عبادت جب اُس کے اِس عملی وجود سے متعلق ہوتا ہے تو پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہوجاتا ہے۔ روزہ اِسی اطاعت کا علامتی اظہارہے۔ اِس میں بندہ اپنے پروردگار کے حکم پراور اُس کی رضا اور خوشنودی کی طلب میں بعض مباحات کو اپنے لیے حرام قرار دے کر مجسم اطاعت بن جاتا او راِس طرح گویا زبان حال سے اِس بات کا اعلان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے حکم سے بڑی کوئی چیز نہیں ہے۔وہ اگر قانون فطرت کی رو سے جائز کسی شے کو بھی اُس کے لیے ممنوع ٹھیرا دیتا ہے تو بندے کی حیثیت سے زیبا یہی ہے کہ وہ بے چون وچرا اِس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کر دے۔

اللہ کی عظمت و جلالت اور اُس کی بزرگی و کبریائی کے احساس واعتراف کی یہ حالت، اگر غور کیجیے تو اُس کی شکر گزاری کا حقیقی اظہار بھی ہے۔چنانچہ قرآن نے اِسی بنا پر روزے کو خدا کی تکبیر اور شکر گزاری قرار دیا اور فرمایاہے کہ اِس مقصد کے لیے رمضان کا مہینا اِس لیے خاص کیا گیا ہے کہ قرآن کی صورت میں اللہ نے جو ہدایت اِس مہینے میں تمھیں عطا فرمائی ہے اور جس میں عقل کی رہنمائی اورحق وباطل کے مابین فرق و امتیاز کے لیے واضح اورقطعی حجتیں ہیں ، اُس پراللہ کی بڑائی کرو اور اُس کے شکرگزار بنو:’وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ‘۔روزے کی یہی حقیقت ہے جس کے پیش نظر کہا گیا ہے کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور وہی اُس کی جزا دے گا۔یعنی بندے نے جب بغیر کسی سبب کے محض اللہ کے حکم کی تعمیل میں بعض جائز چیزیں بھی اپنے لیے ممنوع قرار دے لی ہیں تو اب وہ ناپ تول کر اور کسی حساب سے نہیں،بلکہ خاص اپنے کرم اور اپنی عنایت سے اُس کا اجر دے گا اور اِس طرح بے حساب دے گا کہ وہ نہال ہوجائے گا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم جو نیکی بھی کرتا ہے، اُس کی جزا اُسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک دی جاتی ہے، لیکن روزہ اِس سے مستثنیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’فإنہ لي وأنا أجزي بہ‘، یہ میرے لیے ہے اور میں ہی اِس کی جزا دوں گا، اِس لیے کہ بندہ اپنے کھانے پینے اوراپنی جنسی خواہشات کو اِس میں صرف میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ =323= چنانچہ فرمایا ہے کہ روزہ رکھنے والوں کے لیے خوشی کے دو وقت ہیں:ایک جب وہ روزہ کھولتے ہیں، دوسراجب وہ اپنے پروردگار سے ملاقات کریں گے۔ =324= اِس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اِس عبادت کی اہمیت کس قدر غیر معمولی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

لخلوف فم الصائم أطیب عند اللّٰہ من ریح المسک.(بخاری، رقم ۱۸۹۴)
’’روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘

نیز فرمایا ہے:

إن في الجنۃ بابًا، یقال لہ الریّان، یدخل منہ الصائمون یوم القیٰمۃ، لا یدخل منہ أحد غیرہم، یقال: أین الصائمون؟ فیقومون لا یدخل منہ أحد غیرھم، فإذا دخلوا أغلق فلم یدخل منہ أحد.(بخاری، رقم ۱۸۹۶)
’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریّان کہا جاتا ہے۔ روزہ دار قیامت کے دن اُس سے جنت میں داخل ہوں گے، اُن کے ساتھ کوئی دوسرا اُس سے داخل نہ ہوسکے گا۔ پوچھا جائے گا : روزہ دار کہا ں ہیں ؟اِس پر وہی اٹھیں گے، کوئی دوسرا اُن کے ساتھ اُس سے داخل نہ ہو گا۔ پھر جب داخل ہو جائیں گے تو اُسے بند کردیا جائے گا۔ اِس کے بعد کوئی اُس دروازے سے داخل نہ ہوگا۔‘‘

اِس عبادت کا منتہاے کمال شریعت میں یہ بتایا گیاہے کہ آدمی روزے کی حالت میں اپنے اوپر کچھ مزید پابندیاں عائد کر کے اوردوسروں سے الگ تھلگ ہو کر چند دنوں کے لیے مسجد میں بیٹھ جائے اور زیادہ سے زیادہ اللہ کی عبادت کرے۔ اصطلاح میں اِسے ’اعتکاف‘ کہا جاتا ہے۔ =325= یہ اگرچہ رمضان کے روزوں کی طرح لازم تو نہیں کیا گیا، لیکن تزکیۂ نفس کے نقطۂ نظر سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ روزہ ونماز اور تلاوت قرآن کے امتزاج سے ’آمیختن بہ بادۂ صافی گلاب را ‘کی جو خاص کیفیت اِس سے پیدا ہوتی اور نفس پر تجرد وانقطاع اورتبتل الی اللہ کی جو حالت طاری ہو جاتی ہے، اُس سے روزے کااصلی مقصود درجۂ کمال پرحاصل ہوتا ہے۔ رمضان کے آخری دس دنوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اِسی بنا پرہر سال اپنی مسجد میں معتکف ہوجاتے =326= اوراپنے روزو شب دعا و مناجات، رکوع وسجود اور تلاوت قرآن کے لیے وقف کردیتے تھے۔ سیدہ عائشہ کا بیان ہے:

کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخل العشر، شدّ مئزرہ وأحیا لیلہ وأیقظ أھلہ.(بخاری، رقم ۲۰۲۴)
’’ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر عبادت کے لیے کس لیتے، خودبھی شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کوبھی اِس کے لیے اٹھاتے تھے۔‘‘

روزے کی یہ عبادت مسلمانوں پررمضان کے مہینے میں لازم کی گئی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ نفس کے میلانات کبھی ختم نہیں ہوتے اوراِس دنیا کی ترغیبات بھی ہمیشہ باقی رہتی ہیں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس مہینے میں اپنا خاص کرم یہ فرماتے ہیں کہ شیاطین جن کے لیے لوگوں کو بہکانے کے تمام راستے بالکل بند کردیتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے: رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جہنم کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اورشیاطین کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں۔ =327= چنانچہ اِس مہینے میں ہر شخص کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ اگر چاہے تو بغیر کسی خارجی رکاوٹ کے اپنے لیے خیروفلاح کے حصول کی جدوجہد کرسکے۔ اِس کا صلہ روایتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آدمی کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ توبہ و اصلاح کے بارے میں یہ قرآن کا عام قانون ہے۔ تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص رمضان کے حوالے سے لوگوں کو اِس کی بشارت اِس طرح دی ہے:

من صام رمضان إیمانًا واحتسابًا، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری، رقم ۲۰۰۹)
’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، اُس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘
من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا، غفرلہ ما تقدم من ذنبہ.(بخاری، رقم ۳۷)
’’ جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا، اُس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘

یہی بات لیلۃ القدر میں قیام کے متعلق بھی کہی گئی ہے۔  =328= یہ نزول قرآن کی رات ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ فرشتے اورروح الامین اِس میں ہر معاملے کی اجازت لے کر اترتے ہیں، لہٰذا امور مہمہ کی تنفیذکے ساتھ خاص ہونے کی وجہ سے جو رحمتیں، برکتیں اور قرب الٰہی کے جومواقع اِس ایک رات میں حاصل ہوتے ہیں، وہ ہزاروں راتوں میں بھی نہیں ہوسکتے۔ اِسی بنا پر ارشاد ہوا ہے کہ ’لَیْْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ‘ =329= (فیصلوں کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے)۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِسے رمضان کے آخری عشرے، خاص کر اِس کی طاق راتوں میں تلاش کرنا چاہیے۔ =330=

عبادت کے لیے ایام واوقات کی یہ تعیین کیا اہمیت رکھتی ہے؟ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر ’’ تدبر قرآن‘‘ میں اِس کی وضاحت اِس طرح فرمائی ہے:

’’...جس طرح اِس مادی دنیا میں فصلوں، موسموں اوراوقات کا اعتبار ہے، اِسی طرح روحانی عالم میں بھی اِن کا اعتبار ہے۔ جس طرح خاص خاص چیزوں کے بونے کے لیے خاص خاص موسم اور مہینے ہیں، اِن میں آپ بوتے ہیں تو وہ پروان چڑھتی اور مثمر ہوتی ہیں، اور اگر اِن موسموں اورمہینوں کو آپ نظر اندازکردیتے ہیں تو دوسرے مہینوں کی طویل سے طویل مدت بھی اِن کا بدل نہیں ہوسکتی، اِسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لیے خاص موسم اور خاص اوقات وایام مقرر ہیں۔ اگر اِن اوقات وایام میں وہ کام کیے جاتے ہیں تووہ مطلوبہ نتائج پیداکرتے ہیں، اوراگر وہ ایام واوقات نظرانداز ہو جاتے ہیں تو دوسرے ایام واوقات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی اُن کی صحیح قائم مقامی نہیں کرسکتی۔ اِس کومثال سے یوں سمجھیے کہ جمعہ کے لیے ایک خاص دن ہے، روزوں کے لیے ایک خاص مہینا ہے، حج کے لیے خاص مہینا اورخاص ایام ہیں، وقوف عرفہ کے لیے معینہ دن ہے۔ اِن تمام ایام و اوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی عبادتیں مقرر کررکھی ہیں جن کے اجروثواب کی کوئی حدونہایت نہیں ہے، لیکن اِن کی ساری برکتیں اپنی اصلی صورت میں تبھی ظاہر ہوتی ہیں، جب یہ ٹھیک ٹھیک اِن ایام و اوقات کی پابندی کے ساتھ عمل میں لائی جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوتو وہ برکت فوت ہوجاتی ہے جو اِن کے اندر مضمرہوتی ہے۔‘‘(۹/ ۴۶۸)

B

حواشی :

323  بخاری، رقم ۱۸۹۴۔ مسلم، رقم ۲۷۰۷۔  =323=

324  بخاری، رقم ۱۹۰۴۔ مسلم، رقم ۲۷۰۷۔  =324=

325  یہ بھی ایک قدیم عبادت ہے اور انبیا علیہم السلام کے دین میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔  =325=

326  بخاری، رقم ۲۰۲۵، ۲۰۲۶۔ مسلم، رقم ۲۷۸۲۔  =326=

327  بخاری، رقم ۱۸۹۹۔  =327=

328  بخاری، رقم ۱۹۰۱۔ مسلم، رقم ۱۷۸۱۔  =328=

329  القدر ۹۷: ۱۔۳۔  =329=

330  بخاری، رقم ۲۰۱۶، ۲۰۱۷، ۲۰۲۰۔ مسلم ، رقم ۲۷۶۳، ۲۷۶۴، ۲۷۶۹۔  =330=