وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًاحَسَنًا. وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیۡرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَخَیۡرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا.(المزمل ۷۳: ۲۰)
’’اور (اپنے شب و روز میں) نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور (دین و ملت کی ضرورتوں کے لیے) اللہ کو قرض دو، اچھا قرض۔ اور (یاد رکھو کہ) جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اُسے اللہ کے ہاں اُس سے بہتر اور ثواب میں برتر پاؤ گے۔‘‘
اِس آیت میں اوراِس کے علاوہ قرآ ن کے متعدد مقامات پرمسلمانو ں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے اموال میں سے زکوٰۃ ادا کریں ۔نماز کے بعد یہ دوسری اہم ترین عبادت ہے ۔ اپنے معبودوں کے لیے پرستش کے جو آداب انسان نے بالعموم اختیار کیے ہیں ، اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے مال ، مواشی اورپیداوار میں سے ایک حصہ اُن کے حضور میں نذر کے طور پر پیش کیا جائے ۔ اِسے صدقہ ، نیاز ، نذرانے اوربھینٹ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔انبیا علیہم السلام کے دین میں زکوٰۃ کی حیثیت اصلاً یہی ہے اور اِسی بنا پر اِسے عبادت قرار دیا جاتاہے ۔ چنانچہ قرآن نے کئی جگہ اِس کے لیے لفظ ’صدقہ‘ استعمال کیا ہے اور وضاحت فرمائی ہے کہ اِسے دل کی خستگی اورفروتنی کے ساتھ ادا کیا جائے ۔ ارشادفرمایا ہے :
الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَہُمْ رٰکِعُوْنَ.(المائدہ ۵: ۵۵)
’’جو عجز و نیاز مندی اور فروتنی کے ساتھ نماز کا اہتمام کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں۔‘ ‘
وَالَّذِیۡنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْاوَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ، اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَ.(المومنون ۲۳:۶۰)
’’اور جو اُس کی راہ میں دیتے ہیں تو جو کچھ دیتے ہیں، اِس طرح دیتے ہیں کہ اُن کے دل (اِس خیال سے) کانپتے ہیں کہ اُنھیں اپنے پروردگار کی طرف پلٹنا ہے۔‘‘
یہ مال کا حق ہے جو خدا کے لیے خاص کیا گیا ہے ۔ قرآن مجید میں’ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ‘ =305= کا حکم اِسی حقیقت کو واضح کرتا ہے ۔اِس کے بارے میں عام روایت یہ رہی ہے کہ نذر گزارنے کے بعد اِسے معبد سے اٹھا کر اُس کے خدام کو دیا جاتا تھا کہ وہ اِس سے عبادت کے لیے آنے والوں کی خدمت کریں ۔ ہماری شریعت میں یہ طریقہ باقی نہیں رہا۔اِس کی جگہ ہم کو ہدایت کی گئی ہے کہ نظم اجتماعی کی ضرورتوں کے لیے یہ مال ارباب حل وعقد کے سپرد کردیا جائے ۔تاہم اِس کی حقیقت میں اِس سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ یہ خدا ہی کے لیے خاص ہے اور اُس کے بندے جب اِسے ادا کرتے ہیں تو اِس کی پذیرائی کا فیصلہ بھی اُسی بارگاہ سے ہوتا ہے ۔ فرمایا ہے :
اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ ھُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ.(التوبہ ۹: ۱۰۴)
’’ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اُن کے صدقات کی پذیرائی فرماتا ہے۔‘‘
دین میں اِس عبادت کی اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نمازہی کی طرح اِسے بھی آدمی کے مسلمان سمجھے جانے کے شرائط میں سے قرار دیا ہے ۔ارشادفرمایا ہے : ’فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ‘ =306= ( سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں )۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد ایمان کا دوسرا ثمرہ یہی ہے۔ سورۂ مومنون اور سورۂ معارج کی جو آیات ہم نے اِس سے پہلے نماز کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نقل کی ہیں ، اُن سے یہ بات پو ری طرح واضح ہے کہ صالح اعمال کی فہرست میں نماز کے بعد اِسی کا درجہ ہے۔ چنانچہ قرآن میں یہ اِسی حیثیت سے مذکور ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ مشرکین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتے ،چنانچہ قیامت میں جواب دہی کے اصلی منکر بھی وہی ہیں:
وَوَیۡلٌ لِّلْمُشْرِکِیۡنَ الَّذِیۡنَ لاَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ.(حٰمٓ السجدہ ۴۱: ۶۔۷)
’’ اور (سن لو کہ) اِن مشرکوں کے لیے تباہی ہے جو زکوٰۃ (کی صورت میں لوگوں کا جو حق اِن پر عائد ہے، اُسے) ادا نہیں کرتے اور یہی آخرت کے منکر ہیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اِس کی یہ اہمیت اپنے ارشاد ات میں واضح فرمائی ہے۔
ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جسے اللہ نے مال دیا اوراُس نے اِس کی زکوٰۃ ادا نہیں کی ، اُس کا یہ مال اُس کے لیے گنجاسانپ بنا دیا جائے گا جس کی آنکھوں پردو سیاہ نقطے ہوں گے اورقیامت کے دن وہ اُس کی گردن میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔ پھر وہ اُس کی باچھیں پکڑ لے گا اورکہے گا : میں تیر ا مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ =307=
ابو ذر غفار ی کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کے پاس اونٹ ، گائیں اوربکریاں ہیں اور وہ اُن کا حق ادا نہیں کرتا ، قیامت کے دن وہ اِس طرح اُس کے سامنے لائی جائیں گی کہ بہت بڑی اوربہت موٹی ہوں گی ۔اُسے وہ اپنے پاؤ ں سے کچلیں گی اور سینگوں سے ماریں گی ۔پہلی گزر جائے گی تو دوسری اُ س کی جگہ لے لے گی ۔لوگوں کے مابین فیصلہ ہوجانے تک اُس کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا ۔ =308=
قرآن میں بیان ہواہے کہ یہی معاملہ زکوٰۃکے علاوہ اُن تما م حقوق ومطالبات اور مصارف خیر کابھی ہے جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَالَّذِیۡنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَایُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ، یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیۡھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُہُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ. ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَاکُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ.(التوبہ ۹: ۳۴۔۳۵)
’’ جو (اِن میں سے) سونا اور چاندی ڈھیر کر رہے ہیں اور اُسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ اُس دن جب اُن کے اِس سونے اور چاندی پر دوزخ میں آگ دہکائی جائے گی، پھر اُن کی پیشانیاں اور اُن کے پہلو اور اُن کی پیٹھیں اُس سے داغی جائیں گی یہی ہے جس کو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا، سو چکھو اُس کو جو تم جمع کرتے رہے ہو۔‘‘