اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتٰبًا مَّوْقُوْتًا.(النساء ۴: ۱۰۳)
’’بے شک، نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔ ‘‘
اسلام کی عبادات میں اہم ترین عبادت نما زہے ۔ دین کی حقیقت ، اگر غور کیجیے تو معبود کی معرفت اور اُس کے حضور میں خوف و محبت کے جذبات کے ساتھ خضوع و تذلل ہی ہے ۔ اِس حقیقت کا سب سے نمایاں ظہور پرستش ہے ۔ تسبیح و تحمید ، دعا و مناجات اور رکوع و سجود اِس پرستش کی عملی صورتیں ہیں ۔ نماز یہی ہے اور اِن سب کو غایت درجہ حسن توازن کے ساتھ اپنے اندر جمع کر لیتی ہے۔
پہلی یہ کہ ایمانیات میں جو حیثیت توحید کی ہے ، وہی اعمال میں نماز کی ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ آیات الٰہی کی تذکیر سے خدا کی جو معرفت حاصل ہوتی اور اُس سے اللہ تعالیٰ کے لیے محبت اور شکرگزاری کے جو جذبات انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں یا ہونے چاہییں، اُن کا پہلا ثمرہ یہی نماز ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ. تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ، یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ. (السجدہ ۳۲: ۱۵۔۱۶)
’’ہماری آیتوں پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں، (اے پیغمبر) کہ اُنھیں جب اِن کے ذریعے سے یاددہانی کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ ہرگز تکبر نہیں کرتے۔ اُن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘
یہی بات سورۂ روم کی اِن آیات سے بھی واضح ہوتی ہے :
فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ، فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا، لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ، ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ، مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ، وَاتَّقُوْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلاَ تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.(۳۰: ۳۰۔۳۱)
’’ سو ایک خدا کے ہو کر تم (اپنے باپ ابراہیم کی طرح اب ) اپنا رخ اُس کے دین کی طرف کیے رہو۔ تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔تم سب (اِسی دین کی پیروی کرو)اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز کا اہتمام رکھو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ۔‘‘
قرآن میں جہاں اجمال کا اسلوب ملحوظ ہے ، وہاں تو بے شک ، ایمان کے بعد ’ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘ کے الفاظ آئے ہیں، لیکن جہاں اِس اجمال کی تفصیل پیش نظر ہے ، وہاں سب سے پہلے نماز ہی کا ذکر کیا گیا ہے :
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ.(البقرہ ۲: ۳)
’’جوبن دیکھے مان رہے ہیں اور نماز کا اہتمام کر رہے ہیں ۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ .(البقرہ ۲: ۲۷۷)
’’ہاں ، جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے اور نماز کا اہتمام کیا۔ ‘‘
تزکیہ جسے قرآن میں دین کا مقصد قرار دیا گیا ہے ، اُس تک پہنچنے کے لیے بھی سب سے پہلے اِسی کی ہدایت ہوئی ہے :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی.(الاعلیٰ ۸۷: ۱۴۔۱۵)
’’البتہ فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اِس کے لیے اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی ۔‘‘
پھر یہی نہیں، قرآن نے جن مقامات پر اُن اعمال کا ذکر کیا ہے جو قیامت میں فوزوفلاح کے لیے ضروری ہیں ، وہاں بھی ابتدا نماز ہی سے کی ہے ۔سورۂ مومنون میں ہے :
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خٰشِعُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ ...وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ.(۲۳: ۱۔۹)
’’اپنی مراد کو پہنچ گئے ایمان والے جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں، جو لغویات سے دور رہنے والے ہیں اور جو زکوٰۃ ادا کرنے والے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں... اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‘‘
اِسی طرح معارج میں فرمایاہے :
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا، اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَآئِمُوْنَ، وَالَّذِیْنَ فِیْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّآءِلِ وَالْمَحْرُوْمِ، وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ، اِنَّ عَذَابَ رَبِّھِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ... وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَہْدِھِمْ رَاعُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِشَھٰدٰتِھِمْ قَآءِمُوْنَ، وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰیصَلاَتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ، اُولٰٓءِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ. (۷۰: ۱۹۔۳۵)
’’(یہ اِسی طرح جلدی مچاتے رہیں گے، تم اِن کی پروا نہ کرو)۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان بہت بے صبرا پیدا ہوا ہے۔ اُس پر جب مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو سخت بخیل بن جاتا ہے۔ ہاں، مگر وہ نہیں جو نمازی ہیں، جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں، جن کے مالوں میں سائل و محروم کے لیے ایک مقرر حق ہے، جو روز جزا کو برحق مانتے ہیں، جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے رہتے ہیں — اِس لیے کہ اُن کے پروردگار کا عذاب ایسی چیز نہیں ہے کہ اُس سے کوئی نڈر ہو جائے— جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ... جو (خلق اور خالق، دونوں کے معاملے میں) اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں، جو اپنی گواہی پر قائم رہتے ہیں اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہی ہیں جو (بہشت کے) باغوں میں ہوں گے، بڑی عزت کے ساتھ۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اعمال میں کیا چیز اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے فرمایا : وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا ۔ =1=
سیدنا عمر نے اپنے عمال کے نام ایک خط میں لکھا ہے : تمھارے دینی معاملات میں میرے نزدیک ،سب سے اہم نماز ہے۔ جو اِس کی حفاظت کرے گا ، وہ پورے دین کی حفاظت کرے گا، اور جو اِسے ضائع کر دے گا ، وہ باقی دین کو سب سے بڑھ کر ضائع کر دے گا ۔ =2=
دوسری یہ کہ نماز آدمی کے مسلمان سمجھے جانے کے شرائط میں سے ہے ۔ قرآن نے یہ بات پوری صراحت کے ساتھ واضح کر دی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں صرف وہی لوگ مسلمان کی حیثیت سے حقوق کا مطالبہ کر سکیں گے جو نماز ادا کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے ۔ سورۂ توبہ میں مشرکین عرب کے خلاف کارروائی کے موقع پر اعلان فرمایا ہے :
فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ.(۹: ۱۱)
’’سو اگر توبہ کر لیں اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو تمھارے دینی بھائی ہیں ۔‘‘
اِس سے یہ بات نکلتی ہے کہ قیامت میں بھی لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ ہونا چاہیے ۔ سورۂ قیامہ میں قرآن نے نہایت بلیغ اسلوب میں اِسے واضح کر دیاہے :
فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی، وَلٰکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی، ثُمَّ ذَھَبَ اِلآی اَھْلِہٖ یَتَمَطّٰی، اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی، ثُمَّ اَوْلٰی لَکَ فَاَوْلٰی.(۷۵: ۳۱۔۳۵)
’’لیکن (انسان کو دیکھو)، اِس نے نہ تو قیامت کے اچھے انجام کو سچ مانا نہ نماز پڑھی، بلکہ جھٹلا دیا اور منہ موڑا۔ پھر اکڑتا ہوا اپنے لوگوں میں چل دیا۔ افسوس ہے، تجھ پر افسوس ہے! پھر افسوس ہے ، تجھ پر افسوس ہے !‘‘
اِس میں ’صَلّٰی‘ کے مقابل میں ’تَوَلّٰی‘ اور ’ثُمَّ ذَھَبَ اِآٰی اَھْلِہٖ یَتَمَطّٰی‘ کے الفاظ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ نماز کو یہ حیثیت اِس لیے دی گئی ہے کہ اللہ کے نزدیک، نماز نہ پڑھنا درحقیقت بندے کا خدا کے مقابلے میں استکبار ہے اور قرآن نے دوسری جگہ بتا دیا ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکتا ہے ، لیکن مستکبر ین جنت میں داخل نہیں ہو سکتے ۔ =3=
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
بین الرجل و بین الشرک والکفر ترک الصلٰوۃ.(مسلم ، رقم ۲۴۷)
’’آدمی کے کفر و شرک اور ایمان کے درمیان حد فاصل نماز چھوڑ دینا ہے ۔ ‘‘
اِسی طرح آپ کا ارشاد ہے :
خمس صلوٰت افترضھن اللّٰہ تعالٰی عز وجل: من أحسن وضوء ھن وصلاھن لوقتھن وأتم رکوعھن وخشوعھن کان لہ علی اللّٰہ عھد أن یغفر لہ، ومن لم یفعل فلیس لہ علی اللّٰہ عھد، إن شاء غفر لہ وإن شاء عذبہ.(ابوداؤد ، رقم ۴۲۵)
’’یہ پانچ نمازیں ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر فرض کیا ہے : جس نے اِن کے لیے اچھے طریقے سے وضو کیا، اِنھیں وقت پر ادا کیا اور اپنا ظاہر و باطن اِن میں پوری طرح اپنے پروردگار کے سامنے جھکا دیا ، اُس کے لیے اللہ کا عہد ہے کہ اُسے بخش دے گا اور جس نے یہ نہیں کیا، اُس کے لیے اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے۔ اللہ چاہے گا تو اُسے بخشے گا اور چاہے گا تو عذاب دے گا۔ ‘‘
تیسری یہ کہ نماز دین پر قائم رہنے کا ذریعہ ہے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ جو لوگ خدا کی یاد سے غافل ہو جاتے اور اُس سے اعراض کر لیتے ہیں ، اُن پر ایک شیطان مسلط کر دیا جاتا ہے جو شب و روز کے لیے اُن کا ساتھی بن جاتا ہے : ’وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ‘ =4= ۔ نماز اِسی غفلت اور اعراض سے انسان کو بچاتی اور شیطان سے اُس کی حفاظت کرتی ہے ۔ سورۂ مومنون اور سورۂ معارج کی جو آیات اوپر نقل ہوئی ہیں ، اُن میں دیکھ لیجیے ، جن باتوں کی ابتدا نماز سے ہوئی ہے ، اُن کا خاتمہ بھی نماز ہی پر ہوا ہے ۔ اِس سے یہ اشارہ صاف نکلتا ہے کہ درحقیقت نمازوں کی حفاظت ہی ہے جو انسان کے دین پر قائم رہنے کی ضمانت ہے ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان کے حملے اِس کے بعد بھی جاری رہتے ہیں ، لیکن نماز پر مداومت کے نتیجے میں اُس کے لیے مستقل طور پر انسان کے دل میں ڈیرے ڈال دینا ممکن نہیں ہوتا ۔ نماز اُسے مسلسل دور بھگاتی اور ایک حصار کی طرح اُس کے حملوں سے انسان کے دل و دماغ کی حفاظت کرتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطرے کی حالت میں بھی تاکید کی گئی ہے کہ پیدل یا سواری پر ، جس طرح ممکن ہو ، اِسے لازماً ادا کیا جائے ۔ سورۂ بقرہ میں قانون و شریعت کی فصل کے خاتمے پر یہ حقیقت اِس طرح بیان فرمائی ہے :
حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ. فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا، فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ.(۲: ۲۳۸۔۲۳۹)
’’(یہ خدا کی شریعت ہے۔ اِس پر قائم رہنا چاہتے ہو تو) اپنی نمازوں کی حفاظت کرو، خاص کر اُس نماز کی جو (دن اور رات کی نمازوں کے) بیچ میں آتی ہے ، (جب تمھارے لیے اپنی مصروفیتوں سے نکلنا آسان نہیں ہوتا)، اور (سب کچھ چھوڑ کر) اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔ پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر ، جس طرح چاہے پڑھ لو ۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے سے یاد کرو، جو اُس نے تمھیں سکھایا ہے ، جسے تم نہیں جانتے تھے۔ ‘‘
سورۂ مریم میں قرآن نے اِسی بنا پر شہوات کی پیروی کا ذکر اِس طرح کیا ہے کہ گویا وہ نمازیں ضائع کردینے کا لازمی نتیجہ ہے: ’فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ‘ =5= (پھر اُن کے بعد وہ نا خلف اُن کے جانشین ہوئے جنھوں نے نماز ضائع کر دی اور خواہشوں کے پیچھے چل پڑے )۔ سورۂ عنکبوت میں اِس سے واضح تر الفاظ میں فرمایا ہے:
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ، اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ.(۲۹: ۴۵) 29:@25
’’ اور نماز کا اہتمام رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ ‘‘
یعنی ایک واعظ کی طرح نماز آدمی کو متنبہ کرتی ہے کہ جذبات کے غلبے ، شہوات کی یورش اورخواہشوں کے ہجوم میں اُسے یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک دن خدا کو منہ دکھانا ہے اور اُس کے روبرو کھڑے ہو کر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے ۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے :
’’...جو لوگ نماز اُس کے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتے ہیں ، خواہ خلوت کی نماز ہو یا جلوت کی ، اُن کی نماز اپنے ظاہر و باطن، دونوں سے ، اُن کو اُن حقائق کی یاددہانی کرتی رہتی ہے جن کی یاددہانی زندگی کو صحیح شاہ راہ پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے ۔ خاص طور پر خلوت کی نمازیں انسان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُس کی مثال اُس ڈرائیور کی ہے جو اپنی زندگی کی گاڑی پوری رفتار سے چلا تو رہا ہے ،لیکن اُس کی رہنمائی کے لیے داہنے بائیں جو نشانات اُس کو صحیح راہ بتانے اور خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے لگے ہوئے ہیں ، اُن سے بالکل بے پروا اور بے خبر ہے ۔ ایسا ڈرائیور، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اپنی گاڑی کس کھڈ میں گرائے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۶/ ۵۳)
چوتھی یہ کہ نماز گناہوں کو مٹا دیتی ہے ۔ بندہ جب صحیح شعور کے ساتھ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو خدا کے ساتھ اپنے عہد کی تجدید کرتا ہے کہ وہ اُس کی معصیت سے اجتناب کرے گا ۔ اِس کے نتیجے میں وہ ایک نماز سے دوسری نماز تک کی لغزشوں پر لازماًندامت محسوس کرتا اور اُن سے بچنے کے لیے ایک نئے عزم اور ارادے کے ساتھ زندگی کی مصروفیتوں کی طرف لوٹتا ہے ۔ غور کیجیے تو توبہ کی حقیقت بھی یہی ہے اور توبہ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ بندے کو گناہوں سے پاک کر دیتی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ہے :
وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ، اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ، ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ.(ہود ۱۱: ۱۱۴)
’’اور دیکھو، (اے پیغمبر، اِس راہ میں ثابت قدمی کے لیے) دن کے دونوں حصوں میں نماز کا اہتمام کرو اور رات کے اوائل میں بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے اُن کے لیے جو یاددہانی حاصل کرنے والے ہوں۔‘‘
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر ایک نہر ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہائے تو کیا اُس کے جسم پر میل نام کی کوئی چیز باقی رہ جائے گی ؟ لوگوں نے عرض کیا: اِس صورت میں تو یقیناًمیل کا کوئی شائبہ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے فرمایا : یہ پانچ نمازوں کی مثال ہے ۔ اللہ اِن کے ذریعے سے بالکل اِسی طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ =6=
پانچویں یہ کہ نماز مشکل کشا ہے ۔ یہود کو جب قرآن نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا عہد ازسرنو استوار کرنے کی دعوت دی تو اُس کی ذمہ داریوں کے تحمل کے لیے نماز ہی کے ذریعے سے مدد چاہنے کی ہدایت فرمائی ۔ =7= بعینہٖ یہی معاملہ بنی اسمٰعیل کے اہل ایمان کے ساتھ ہوا۔ چنانچہ فرمایا :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ، اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.(البقرہ ۲: ۱۵۳)
’’ایمان والو ، (یہ نعمت تمھیں عطا ہوئی ہے تو اب تمھارے مخالفین کی طرف سے جومشکلیں بھی پیش آئیں، اُن میں ) ثابت قدمی اور نماز سے مدد چاہو ۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (مشکلات کے مقابلے میں) ثابت قدم رہنے والے ہوں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معاندین اور اشرار کی دل آزاریوں اور شرارتوں کے مقابلے میں صبر و استقامت کے لیے اِسی کی تلقین کی گئی :
فَاصْبِرْعَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِ، وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ.(ق ۵۰: ۳۹۔۴۰)
’’سو جو کچھ یہ کہتے ہیں، اُس پر صبر کرو، (اے پیغمبر)، اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے رہو، سورج کے نکلنے اور اُس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات میں بھی اُس کی تسبیح کرو اور سورج کے سجدہ ریز ہو جانے کے بعد بھی۔‘‘
اِس کے معنی یہ ہیں کہ نماز اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہوتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے۔ =8= لوگوں نے بارش کے لیے درخواست کی تو آپ نماز پڑھ کر اِس کے لیے دست بدعا ہوئے۔ سورج اور چاند گرہن کے موقع پر اللہ کی گرفت کا اندیشہ محسوس ہواتو آپ نے نماز پڑھی۔ بدرواحزاب کے معرکوں میں مسلمان اپنے دشمنوں کے مقابلے میں صف آرا ہوئے تو آپ نے اِسی کا سہارا لیا اور اِسی کے ذریعے سے اپنے پروردگار کی مدد چاہی۔
چھٹی یہ کہ نماز دعوت حق کی پہچان ہے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اُس کے نزدیک، مصلحین وہی ہیں جو کتاب الٰہی کو اللہ تعالیٰ کے میثاق اور حق و باطل کے لیے میزان کی حیثیت سے پوری مضبوطی کے ساتھ تھامتے اور نماز کا اہتمام کرتے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَالَّذِیْنَ یُمَسِّکُوْنَ بِالْکِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ، اِنَّا لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِیْنَ.(الاعراف ۷: ۱۷۰)
’’ہاں، جو کتاب الٰہی کو مضبوطی سے تھامتے اور نماز کا اہتمام رکھتے ہیں، (وہی اصلاح کرنے والے ہیں اور ) اصلاح کرنے والوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے۔‘‘
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کی وضاحت میں لکھا ہے :
’’قرآن حکیم کا یہ بیان تجدید دین و اصلاح ملت کی تمام تحریکات اور تمام دعوتوں کے جانچنے کے لیے ایک کسوٹی فراہم کرتا ہے ۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف وہ دعوت یا تحریک اصلاح ملت کی صحیح دعوت یا تحریک ہے جس کے مبدأ و معاد ، جس کی ابتدا اور انتہا ، جس کے عقیدہ اور عمل، جس کے نصب العین اور پروگرام ، دونوں میں نماز اور اقامت نماز کو وہی اولیت اور اہمیت حاصل ہو جو اللہ کے عہد اور اُس کی اقامت کی جدوجہد میں فی الواقع ازروے قرآن اُس کو حاصل ہے ۔ جس دعوت یا تحریک میں نماز کو یہ اولیت و اہمیت حاصل نہ ہو ، وہ تجدید دین اور اصلاح ملت کے نقطۂ نظر سے ایک بے برکت ، بلکہ لاحاصل کام ہے ، کیونکہ وہ اُس ریڑھ کی ہڈی سے بھی محروم ہے جس پر تجدید دین کی دعوت کا قالب کھڑا ہوتا ہے اور اُس روح سے بھی محروم ہے جس سے اِس قالب کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۲۰۳)
ساتویں یہ کہ نماز راہ حق میں استقامت کا ذریعہ ہے ۔ اِس راہ کے سالکین جانتے ہیں کہ اِس میں استقامت خدا کی معیت سے حاصل ہوتی ہے اور نماز خدا سے اِس درجہ قریب ہے کہ وہ دنیا میں گویا ہمارے لیے خدا کی قائم مقام ہے ۔ سورۂ علق کی آیت ’وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ‘ =9= ( سجدہ ریز رہو اور اِس طرح میرے قریب ہو جاؤ) میں یہی حقیقت واضح فرمائی ہے ۔ لہٰذااللہ کی راہ میں جدوجہد کے لیے اللہ کی معیت اگر حاصل ہو سکتی ہے تو اُس کی کتاب اور اُس کے حضور میں نماز ہی سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ اِس مقصد کے لیے سب سے زیادہ اہمیت قیام اللیل ، یعنی نماز تہجد کی ہے ۔ چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب انذار عام کا حکم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِس قول ثقیل کا تحمل اور اِس کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا مقصود ہے تو رات کی نمازوں میں قرآن کی تلاوت کی جائے ۔ اِس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ وقت دل و دماغ کے فراغ اور فہم قرآن کے لیے سب سے زیادہ موزوں ہے ۔ استاذ امام کے الفاظ میں یہ وقت چونکہ دماغ کے سکون اور دل کی بیداری کا خاص وقت ہے ، اِس وجہ سے زبان سے جو بات نکلتی ہے ، تیر بہ ہدف اور ’ازدل خیزد بردل ریزد‘ کا مصداق بن کر نکلتی ہے ۔ آدمی خود بھی اُس کو اپنے دل کی گواہی کی طرح قبول کرتا ہے اور دوسرے سننے والوں کے دلوں پر بھی اُس کی تاثیر بے خطا ہوتی ہے ۔ =10= ارشاد فرمایاہے:
یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ ، قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلاً، نِّصْفَہٓٗ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً. اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً، اِنَّ نَاشِءَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلاً، اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلاً، وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً.(المزمل ۷۳: ۱۔۸)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر بیٹھنے والے، رات کو کھڑے رہو، مگر تھوڑا۔ آدھی رات یا اُس سے کچھ کم کر لو یا اُس پر کچھ بڑھا دو اور( اپنی اِس نماز میں) قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھو۔ اِس لیے کہ عنقریب ایک بھاری بات کا بوجھ ہم تم پر ڈال دیں گے۔ رات کا یہ اٹھنا، درحقیقت دل کی جمعیت اور بات کی درستی کے لیے بہت موزوں ہے۔ اِس لیے کہ دن میں تو (اِس کام کی وجہ سے) تمھیں بہت مصروفیت رہے گی۔ (لہٰذا اِس وقت پڑھو) اور اپنے رب کے نام کا ذکر کرو اور (رات کی اِس تنہائی میں) سب سے ٹوٹ کر اُسی کے ہو رہو۔ ‘‘
بعض روایتوں میں ہے کہ اِس دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کی خاص توجہ کا وقت بھی یہی ہے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ہر رات ہمارے قریبی آسمان کی طرف نزول فرماتے ہیں ، یہاں تک کہ جب ایک تہائی رات باقی رہ جاتی ہے تو ارشاد ہوتا ہے: کون دعا کر رہا ہے کہ میں اُسے قبول کروں؟ کون مانگتا ہے کہ اُسے دوں؟ کون مغفرت چاہتا ہے کہ اُسے بخش دوں؟ =11=
آٹھویں یہ کہ نماز کائنات کی فطرت ہے ۔ انسان کی آنکھیں ہوں اور وہ اُن سے دیکھتا بھی ہو تو اِس حقیقت کو سمجھنے میں اُسے کوئی تردد نہیں ہوتا کہ اِس عالم کا ذرہ ذرہ فی الواقع اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کرتا اور اُس کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے۔ وہ اگرچہ اِس تسبیح و تحمید کو نہیں سمجھتا ، مگر دیکھ تو سکتا ہے کہ دنیا کی سب چیزوں کا ظاہر جس طرح ہر لحظہ خدا کے سامنے سرافگندہ اور اُس کے حکم کی تعمیل میں سرگرم ہے ، اُن کا باطن بھی اِس سے مختلف نہیں ہو سکتا ۔ زمین پر چلتے ہوئے جانور، باغوں میں لہلہاتے ہوئے درخت، فضاؤں میں چہکتے ہوئے پرندے ، سمندروں میں تیرتی ہوئی مچھلیاں اور آسمان پر چمکتے ہوئے تارے اور سورج اور چاند، سب اپنے وجود سے اِس بات کی گواہی دیتے ہیں :
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ، وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ .(بنی اسرائیل ۱۷: ۴۴)
’’ ساتوں آسمان اور زمین اور جو اُن میں ہیں، سب اُسی کی تسبیح کرتے ہیں۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اُس کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، مگر تم اُن کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو ۔ ‘‘
یہ سب اپنی اپنی نماز اور تسبیح سے پوری طرح واقف ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی اُس سے غافل نہیں ہوتے ۔ انسان دیکھے تو دیکھ سکتا ہے کہ پرندے جب پر پھیلائے ہوئے فضاؤں میں محوپرواز ہوتے ہیں تو خدا کے سامنے کمال عجز کے ساتھ گویا بچھے ہوئے ہوتے ہیں :
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالطَّیْرُ صٰٓفّٰتٍ؟ کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ وَ تَسْبِیْحَہٗ ، وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ.(النور ۲۴: ۴۱)
’’تم نے دیکھا نہیں کہ جو زمین اور آسمانوں میں ہیں، سب اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے بھی، پروں کو پھیلائے ہوئے؟ ہر ایک نے اپنی نماز اور اپنی تسبیح خوب جان رکھی ہے۔ (تم نہیں جانتے تو کیا ہوا، مگر) اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں :
’’اِس کائنات کی ہر چیز اپنی تکوینی حیثیت میں ابراہیمی مزاج رکھتی ہے ۔ سورج، چاند، ستارے ، پہاڑ اور چوپایے، سب خدا کے امر و حکم کے تحت مسخر ہیں ۔ اِن میں سے کوئی چیز بھی سرموخدا کے مقرر کیے ہوئے قوانین سے انحراف نہیں اختیار کرتی ۔ سورج ، جس کو نادانوں نے معبود بنا کر سب سے زیادہ پوجا ہے ، خود اپنے وجود سے گواہی دے رہا ہے کہ وہ شب و روز اپنے رب کے آگے قیام ، رکوع اور سجدے میں ہے ۔ طلوع کے وقت وہ سجدے سے سر اٹھاتا ہے ، دوپہر تک وہ قیام میں رہتا ہے ، زوال کے بعد وہ رکوع میں جھک جاتا ہے اور غروب کے وقت وہ سجدے میں گر جاتا ہے اور رات بھر اِسی سجدے کی حالت میں رہتا ہے ۔ اِسی حقیقت کا مظاہرہ چاند اپنے عروج و محاق سے اور ستارے اپنے طلوع و غروب سے کرتے ہیں ۔ پہاڑوں ، درختوں اور چوپایوں کا بھی یہی حال ہے ۔ اِن میں سے ہر چیز کا سایہ ہر وقت قیام ، رکوع اور سجود میں رہتا ہے اور غور کیجیے تو یہ حقیقت بھی نظر آئے گی کہ اِس سایے کی فطرت ایسی ابراہیمی ہے کہ یہ ہمیشہ آفتاب کی مخالف سمت میں رہتا ہے ۔ اگر سورج مشرق کی سمت میں ہے تو سایہ مغرب کی جانب پھیلے گا اور اگر مغرب کی جانب ہے تو ہر چیز کا سایہ مشرق کی طرف پھیلے گا۔ گویا ہر چیز کا سایہ اپنے وجود سے ہمیں اِس بات کی تعلیم دے رہا ہے کہ سجدہ کا اصل سزاوار آفتاب نہیں ، بلکہ خالق آفتاب ہے ۔ ‘‘ (تدبر قرآن ۵/ ۲۲۹)
ارشاد فرمایا ہے :
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْ ءٍ، یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآءِلِ سُجَّدًا لِّلّٰہِ وَھُمْ دٰخِرُوْنَ؟ وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلآءِکَۃُ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ.(النحل ۱۶: ۴۸۔۴۹)
’’ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے، کیا یہ اُس کو نہیں دیکھتے کہ اُس کے سایے اللہ کو سجدہ کرتے ہوئے دائیں اور بائیں سے پلٹتے ہیں اور (جن کے یہ سایے ہیں)، اُن پر فروتنی طاری ہوتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں جتنے جان دار ہیں، وہ سب خدا ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور خدا کے فرشتے بھی، وہ کبھی سرتابی نہیں کرتے۔ ‘‘
چنانچہ انسان جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا پورے عالم کی طرف سے تسبیح و تحمید اور رکوع و سجود کی اِس دعوت پر لبیک کہتا ہے ۔ وہ اپنی فطرت کا ساز اِس ساز سے ہم آہنگ کر دیتا ہے اور اپنے اِس عمل سے اعلان کرتا ہے کہ وہ بھی کسی سے پیچھے نہ رہے گا اور اپنا جسم ہی نہیں ، اپنی روح بھی اُس پروردگار کے حضور میں جھکا دے گاجس نے اُسے پیدا کیا ہے ۔ ساری کائنات سے الگ ہو کر وہ ایسی کوئی راہ نہیں نکالے گا جس میں اُس کا کوئی ہم سفر نہیں ہے اور اگر ہیں تو وہی ہیں جن کے لیے خدا کا عذاب لازم ہو چکا ہے :
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ؟ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ، وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ.(الحج ۲۲: ۱۸)
’’کیا دیکھتے نہیں ہو کہ جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سب اللہ ہی کے آگے سر بہ سجود ہیں؟ اور سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپایے اور بہت سے لوگ بھی۔ اور بہت سے وہ بھی ہیں کہ جن پرخدا کا عذاب لازم ہو چکا ہے۔ ‘‘
نویں یہ کہ نماز ہی حقیقی زندگی ہے ۔ انبیا علیہم السلام جو دعوت لے کر آتے ہیں ، اُسے قرآن میں زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے: ’یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِاِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ =12= ،(ایمان والو، اللہ اور اُس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہو، جب کہ رسول تمھیں اُس چیز کی طرف بلا رہا ہے جو تم کو زندگی بخشنے والی ہے)۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینے کو تو سب جیتے ہیں ، لیکن وہ حقیقی زندگی جسے نور، سکینت اور ایمان کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ، صرف اللہ کی یاد سے ملتی ہے۔ انبیا علیہم السلام اِسی کی دعوت دیتے ہیں اور اُس میں سب سے پہلے نماز کے لیے بلاتے ہیں ۔ نماز کیا ہے؟ خدا کی معرفت ، اُس کا ذکر و فکر اور اُس کی قربت کا احساس جب اپنے منتہاے کمال کو پہنچتا ہے تو نماز بن جاتا ہے۔ دنیا کے سب عارفوں کا فیصلہ ہے کہ اصل زندگی دل کی زندگی ہے اور دل کی زندگی یہی معرفت ، ذکر و فکر اور قربت الٰہی ہے۔ یہ زندگی انسان کو صرف نماز سے حاصل ہوتی ہے اور نماز ہی سے باقی رہتی ہے۔ قرآن نے ایک جگہ نماز کے مقابل میں زندگی اور قربانی کے مقابل میں موت کو رکھ کر یہی حقیقت واضح کی ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
قُلْ: اِنَّ صَلاَتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.(الانعام ۶: ۱۶۲)
’’کہہ دو کہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا، سب اللہ پروردگارعالم کے لیے ہے ۔ ‘‘
انسان اِس حقیقت کو پالے تو اپنے شب و روز میں وہ نماز کے لیے اِسی طرح منتظر رہتا ہے ، جس طرح صبح و شام کے کھانے اور پینے کا منتظر رہتا ہے اور اِسی طرح بے تاب ہوتا ہے، جس طرح پیاسا پانی کے لیے اور بھوکا روٹی کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ نماز اُس کے لیے خداوند عالم کا رزق بن جاتی ہے ۔ وہ اِسی سے آسودہ ہوتا اور اِسی سے قوت پاتا ہے ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے فرمایا ہے: انسان صرف روٹی سے نہیں جیتا، بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے ۔ =13= لوگ جس طرح انواع و اقسام کے کھانوں سے لذت کام و دہن کا سامان کرتے ہیں ، وہ اِسی طرح قرآن کے مختلف مقامات اور متنوع تسبیحات اور دعاؤں سے اپنی روح کے لیے لذت کا سامان کرتا ہے ۔ مصائب کے حبس میں نماز ہی نسیم جاں فزا، گناہ کی آلایشوں میں نماز ہی ہواے عطر بیز، مایوسیوں کی پت جھڑ میں نماز ہی نوید بہار اور مخالفتوں کے ہجوم میں نماز ہی اُس کے لیے پناہ کی چٹان ہوتی ہے ۔ اِسے شاعری نہ سمجھیے ۔ نماز سے متعلق یہ اُسی مقام کی کیفیات ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’قم یا بلال، فأرحنا بالصلٰوۃ‘ =14= (بلال، اٹھو اور ہمیں نماز کے ذریعے سے راحت پہنچاؤ) اور ’جعلت قرۃ عیني في الصلٰوۃ‘ =15= (میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے) جیسے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔