اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ، وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ، وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ، وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ، وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ، وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ، وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ، وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّآئِمٰتِ، وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ، وَالذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ، اَعَدَّ اللّٰہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا.(الاحزاب ۳۳: ۳۵)
’’ حقیقت یہ ہے کہ جو مرد اورجو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، بندگی کرنے والے ہیں، سچے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، اللہ کے آگے جھک کر رہنے والے ہیں، خیرات کرنے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے بھی مغفرت اور بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
انسان کے اخلاقی وجود کا حسن جب خلق اور خالق، دونوں کے معاملے میں درجۂ کمال کو پہنچتا ہے تو اُس سے جو اوصاف پیدا ہوتے ہیں یا قرآن مجید کی رو سے ہونے چاہییں، وہ یہی ہیں۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ خدا کی مغفرت اِن نفوس قدسیہ کی منتظر ہے اور اُس نے ایک اجر عظیم اِن کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ صوفیانہ مذاہب میں تو انسان کی تمام جدوجہد کا منتہاے کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرے: خدا علیم و خبیر ہے تو وہ بھی عالم الغیب والشہادہ بن کر جیے؛ خدا کی شان تجرد ہے تو وہ بھی اپنے اندر یہی شان پیدا کرے؛ خدا بے نیاز ہے تو وہ بھی بشری تقاضوں اورانسانی ضرورتوں سے بے نیاز ہو جائے؛ خدا انفس وآفاق میں تصرف کرتا ہے تو وہ بھی پانی پر چلے ،آگ سے کھیلے، بیماروں کو ہاتھ لگائے اورشفایاب کر دے، مردوں کو جلائے اور ارواح وقلوب میں جو تصرف چاہے، کرے۔ لیکن قرآن کا نقطۂ نظر یہ نہیں ہے۔ اُس نے کمال کا جو سب سے بڑا درجہ بیان کیا ہے، وہ خدا کی صفات کے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور اِس کے نتیجے میں اُن اوصاف کا حامل بن کر جینے کا ہے جو قرآن نے یہاں ایک ہی آیت میں جمع کر دیے ہیں۔ یہ دس چیزیں ہیں اور پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اِن پر کوئی اضافہ نہیں کیا۔ دین کا جمال وکمال قرآن کے نزدیک، یہی ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں کو اِسی تک پہنچنے اور اِسی کو پانے کی دعوت دیتاہے۔ اِس کے آگے اگر کوئی درجہ ہے تو وہ نبوت کا درجہ ہے اور اُس کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ اخذ و اکتساب کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوتا، بلکہ اللہ ہی نے جس کو چاہا ہے، یہ مرتبہ عطا فرمایا ہے۔
ہم یہاں اِن اوصاف کی وضاحت کریں گے: