لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا ، وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآٓ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا، اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلاَ تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا ، وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ: رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا. رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ ، اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا. وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا. اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا. وَاِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْھُمُ ابْتِغَآءَ رَحْمَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ تَرْجُوْھَا فَقُلْ لَّہُمْ قَوْلًا مَّیْسُوْرًا، وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا. اِنَّ رَبَّکَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ ، اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًام بَصِیْرًا. وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ، نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِیَّاکُمْ، اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا.
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنآی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآءَ سَبِیْلاً. وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ، وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ، اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا. وَلَا تَقْرَبُوْا مََالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ، وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ، اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْءُوْلًا. وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ، ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا. وَلَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ، اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓءِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْءُوْلاً.وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا، اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا. کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّءُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْھًا.
ذٰلِکَ مِمَّآ اَوْحٰٓی اِلَیْکَ رَبُّکَ مِنَ الْحِکْمَۃِ، وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۲۲۔۳۹)
’’(سنو)، تم اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بناؤ کہ (روز قیامت) ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھے رہ جاؤ۔تمھارے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ تنہا اُسی کی عبادت کرو اور ماں باپ کے ساتھ نہایت اچھا سلوک کرو۔اُن میں سے کوئی ایک یا دونوں اگر تمھارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو نہ اُن کو اف کہو اور نہ اُن کو جھڑک کر جواب دو، تم اُن سے ادب کے ساتھ بات کرو اور اُن کے لیے نرمی سے عاجزی کے بازو جھکائے رکھو اور دعا کرتے رہو کہ پروردگار، اُن پر رحم فرما، جس طرح اُنھوں نے (رحمت و شفقت کے ساتھ) مجھے بچپن میں پالا تھا۔ (لوگو)، تمھارے دلوں میں جو کچھ ہے ، اُسے تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے۔ اگر تم سعادت مند رہو گے تو پلٹ کر آنے والوں کے لیے وہ بڑا درگذر فرمانے والا ہے۔ تم قرابت دار کو اُس کا حق دو اور مسکین اور مسافر کو بھی، اور مال کو بے جا نہ اڑاؤ۔ اِس لیے کہ مال کو بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہوتے ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔ اور اگر اِن (ضرورت مندوں) سے اعراض کرنا پڑے، اِس لیے کہ ابھی تم اپنے پروردگار کی رحمت کے انتظار میں ہو، جس کی تمھیں امید ہے، تو اِن سے نرمی کی بات کہو۔ اپنا ہاتھ نہ گردن سے باندھے رکھو اور نہ اُس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ رہو۔ بے شک، تمھارا پروردگار ہی جس کے لیے چاہتا ہے، رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ وہ اپنے بندوں سے یقیناًبا خبر ہے، وہ اُنھیں دیکھ رہا ہے۔تم لوگ اپنی اولاد کو مفلسی کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم اُنھیں بھی روزی دیتے ہیں اور تمھیں بھی۔ اُن کا قتل یقیناًبہت بڑا جرم ہے۔
اور زنا کے قریب نہ جاؤ، اِس لیے کہ وہ کھلی بے حیائی اور بہت بری راہ ہے۔ خدا نے جس جان کی حرمت قائم کر دی ہے، اُسے ناحق قتل نہ کرو اور (یاد رکھو کہ) جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سووہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۔ تم یتیم کے مال کے قریب نہ پھٹکو۔ ہاں، مگر اچھے طریقے سے، یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے۔ اور عہد کو پورا کرو،اِس لیے کہ عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ تم پیمانے سے دو تو پورا بھر کر دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو۔یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی اچھا طریقہ ہے۔ تم اُس چیز کے پیچھے نہ پڑو جسے تم جانتے نہیں ہو، اِس لیے کہ کان، آنکھ اور دل، اِن سب کی پرسش ہونی ہے۔ اور زمین میں اکڑ کر نہ چلو، اِس لیے کہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ پہاڑوں کی بلندی کو پہنچ سکتے ہو۔ اِن سب باتوں کی برائی تمھارے پروردگار کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔
یہ اُنھی حکمت کی باتوں میں سے ہیں جو تمھارے پروردگار نے تمھاری طرف وحی کی ہیں۔ (اِنھیں مضبوطی سے پکڑو) اور (ایک مرتبہ پھر سن لو کہ) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ کہ راندہ اور ملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ۔‘‘
اِس سے پہلے جو بنیادی اصول بیان ہوا ہے، یہ اُسی کے اجمال کی شرح ہے جس میں اخلاق کے فضائل و رذائل بالکل متعین طریقے پر واضح کردیے گئے ہیں۔ اِن میں ،اگر غور کیجیے تو سلسلۂ بیان کی ابتدا بھی شرک کی ممانعت سے ہوئی ہے اوراُس کا خاتمہ بھی اِسی کی تاکید پر کیا گیاہے۔ قرآن میں یہ اسلوب کسی چیز کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔ یہاں اِس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ درمیان میں جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ، اُن کے لیے یہ عقیدہ گویاشہر پناہ ہے جس کے وجود سے شہر قائم رہتااور جس میں کوئی رخنہ پیدا ہوجائے تو پورا شہر خطرے کی زد میں آ جاتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جوحکمت اِن آیتوں میں بیان ہوئی ہے، اُس کے لیے توحیدکی حیثیت یہی ہے۔ یہ اُس عدل کا سب سے بڑا اور بنیادی تقاضا ہے جس کا حکم قرآن نے دیا ہے۔ چنانچہ شرک کو اِسی بنا پرظلم عظیم کہا گیا ہے =13= اوراِس کا یہ نتیجہ بھی قرآن نے پوری صراحت کے ساتھ واضح کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے جس کی پاداش میں لوگ راندہ اورملامت زدہ ہو کر جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ، وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرآی اِثْمًا عَظِیْمًا.(النساء ۴: ۴۸)
’’اللہ اِس بات کو نہیں بخشے گا کہ (جانتے بوجھتے کسی کو) اُس کا شریک ٹھیرایا جائے۔اِس کے نیچے، البتہ جس کے لیے جو گناہ چاہے گا، (اپنے قانون کے مطابق) بخش دے گا، اور (اِس میں تو کوئی شبہ ہی نہیں کہ) جو اللہ کا شریک ٹھیراتا ہے، وہ ایک بہت بڑے گناہ کا افترا کرتا ہے۔‘‘
یہ شرک کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو الٰہ بنایا جائے تو قرآن اپنی اصطلاح میں اُسے ’شرک‘ سے تعبیر کرتاہے ۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو خدا کی ذات سے یا خدا کو اُس کی ذات سے سمجھاجائے یا خلق میں یا مخلوقات کی تدبیر امورمیں کسی کا کوئی حصہ مانا جائے او راِس طرح کسی نہ کسی درجے میں اُسے اللہ تعالیٰ کا ہم سر بنادیا جائے۔
پہلی صورت کی مثا ل سیدنا مسیح ، سیدہ مریم اورفرشتوں کے بارے میں عیسائیوں اور مشرکین عرب کے عقائد ہیں۔ صوفیانہ مذاہب کا عقیدۂ وحدت الوجود بھی اِسی قبیل سے ہے۔
دوسری صورت کی مثال ہندوؤں میں برہما، وشنو، شیو اورمسلمانوں میں غوث،قطب ،ابدال ، داتا اور غریب نواز جیسی ہستیوں کا عقیدہ ہے۔ ارواح خبیثہ، نجوم و کواکب اورشیاطین کے تصرفات پرایمان کو بھی اِسی کے ذیل میں سمجھنا چاہیے ۔
ارشاد فرمایا ہے :
قُلْ: ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ، اَللّٰہُ الصَّمَدُ، لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.(الاخلاص ۱۱۲: ۱۔۴)
’’ تم اعلان کرو، (اے پیغمبر) ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ یکتا ہے۔ اللہ سب کا سہارا ہے۔ وہ نہ باپ ہے نہ بیٹا اور نہ اُس کا کوئی ہم سر ہے ۔‘‘
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ، ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ، یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا، وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖ، اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ، تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۵۴)
’’(لوگو)، حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا ،پھر اپنے عرش پر متمکن ہوا۔وہ رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے جو اُس کے پیچھے دوڑتی چلی آتی ہے۔ اور اُس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کیے ہیں جو اُس کی حکم برداری میں لگے ہوئے ہیں۔ سنو، خلق بھی اُسی کی ہے اور حکم بھی اُسی کا ہے۔ بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، جہانوں کا پروردگار۔ ‘‘
اِن عقائد کے ماننے والے اِس کے ساتھ بالعموم یہ بھی مانتے ہیں کہ اِن ہستیوں کو خدا نے یہ حیثیت دے رکھی ہے کہ یہ جب چاہیں کسی غیب پر مطلع ہوسکتی اوراپنی سفارش سے اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو دنیا اورآخرت میں تبدیل کراسکتی ہیں۔ قرآن نے اِن دونوں ہی باتوں کی تردید کردی ہے۔
پہلی بات کے بارے میں فرمایا ہے :
وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَمَا٘ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ، اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ.(النحل۱۶: ۷۷)
’’(حقیقت یہ ہے کہ) زمین اور آسمانوں کا سارا غیب اللہ ہی کے اختیار میں ہے اور قیامت کا معاملہ تو اتنا ہی ہے، جیسے آنکھ جھپک جائے یا اُس سے بھی پہلے۔ (یہ اُس کے لیے کچھ مشکل نہیں)، اِس لیے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ‘‘
دوسری بات کے بارے میں فرمایا ہے :
قُلْ: لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا، لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. (الزمر ۳۹: ۴۴)
’’کہو کہ سفارش تمام تر اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اُسی کی ہے۔ پھر تم اُسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
اپنے اوہام کو یہ لوگ تصویروں اورمجسموں میں بھی ڈھالتے ہیں۔ قرآن نے اِسے اصنام و اوثان کی نجاست قرار دیا اور اِس سے بچنے کی ہدایت فرمائی ہے:’فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ، وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ. =14= ‘( سوبتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بھی جو اُن کے حوالے سے اللہ پر باندھتے ہو)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی بنا پر فرمایا ہے کہ قیامت کے دن یہ تصویریں اورمجسمے بنانے والے شدیدترین عذاب سے دو چار ہوں گے اوراِن سے تقاضا کیا جائے گا کہ اپنے زعم کے مطابق جن زندہ اورنافع وضار ہستیوں کی تصویریں تم بناتے رہے ہو، اِن میں اب جان ڈال کردکھاؤ۔ آپ کا ارشاد ہے:
إن الذین یصنعون ھذہ الصور یعذبون یوم القیٰمۃ، یقال لھم: أحیوا ما خلقتم. (بخاری، رقم ۵۹۵۱)
’’ اِس طرح کی تصویریں جو لوگ بناتے ہیں، اُنھیں قیامت میں عذاب دیا جائے گا، اُن سے کہا جائے گا کہ جو کچھ تم نے بنایا ہے ، اُسے اب زندہ کرو۔‘‘ =15=
اِن ہستیوں سے استمداد پرمبنی تعویذ گنڈوں میں بھی یہی نجاست ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اِس طرح کی جھاڑ پھونک ، گنڈے اور میاں بیوی میں جدائی ڈالنے کے تعویذ، سب شرک ہیں۔ =16=
اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کو بھی آپ نے اِسی کے تحت رکھا ہے ، اِس لیے کہ اِس میں بھی آدمی جس کی قسم کھاتا ہے، اُسے درحقیقت کسی واقعے پر گواہ بناتا ہے اور اِس طرح گویا اُسے خدا ہی کی طرح عالم الغیب قرار دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
من حلف بغیر اللّٰہ فقد أشرک. (ابو داؤد، رقم۳۲۵۱)
’’ جس نے اللہ کے سوا کسی اور کے نام کی قسم کھائی ، اُس نے شرک کا ارتکاب کیا۔‘‘
اِس ضمن میں بعض مشرکانہ رویے بھی قابل توجہ ہیں:
اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کی تمثیل بیان فرمائی ہے جو اپنی دولت وثروت ، جمعیت وعصبیت اورخدم و حشم کی کارفرمائیوں کے غرور میں مبتلا ہوکر یہ سمجھے بیٹھا تھاکہ اُسے جو کچھ حاصل ہے، یہ اُس کی صلاحیت و قابلیت کا کرشمہ اور اُس کے علم وتدبرکا ثمرہ ہے ۔ یہ ہمیشہ اُسی کے پاس رہے گا ، قیامت اول تو آئے گی نہیں اوراگر آئی تو یہی سب ، بلکہ اِس سے بہت کچھ زیادہ اُسے وہاں بھی حاصل ہو جائے گا ۔ قرآن کا بیان ہے کہ اُس کا لہلہاتا باغ جب ایک دن تباہ ہوگیا تو اِن اصنام کی حقیقت کھل گئی اوروہ پکار اٹھا کہ ہائے ، میر ی کم بختی، میں نے کیوں اِن چیزوں کو اپنے پروردگا رکا شریک ٹھیرایا تھا :
وَاُحِیْطَ بِثَمَرِہٖ فَاَصْبَحَ یُقَلِّبُ کَفَّیْہِ عَلٰی مَآ اَنْفَقَ فِیْھَا وَھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَیَقُوْلُ: یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُشْرِکْ بِرَبِّیْٓ اَحَدًا.( الکہف ۱۸: ۴۲)
’’ (چنانچہ یہی ہوا) اور اُس کا سارا پھل (عذاب کے) پھیر میں آگیا۔ سو جو کچھ اُس نے باغ پر خرچ کیا تھا، وہ اُس پر اپنے ہاتھ ملتا رہ گیا۔ اُس کا باغ اپنی ٹٹیوں پر گرا پڑا تھا اور وہ کہہ رہا تھا: اے کاش، میں اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراتا۔‘‘
یہی معاملہ ریا کا ہے۔ وہ کام جو صرف خداکے لیے ہونے چاہییں، اگر دوسروں کے لیے ہونے لگیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ اِن دوسروں نے خدا کی جگہ لے لی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلمکا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : میں تمام شریکوں میں سب سے زیادہ شرکت سے بے نیاز ہوں، لہٰذا جس نے اپنے کسی کام میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا، میں اُس سے الگ ہو ں اوروہ اُسی کا ہے جس کو اُس نے میرا شریک بنایا ہے۔ =17=
انسان کے توہمات کی حقیقت بھی یہی ہے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اِن پر متنبہ فرمایاہے۔ اِسی طرح سدذریعہ کے اصول پر بعض اُن چیزوں سے بھی روکا ہے جو اگرچہ شرک تو نہیں ہیں، لیکن اُس تک لے جانے کا باعث ہوسکتی ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک رات تارا ٹوٹا توآپ نے دریافت فرمایا: زمانۂ جاہلیت میں تم اِن کے بارے میں کیا کہتے تھے؟ لوگوں نے عرض کیا: ہم سمجھتے تھے کہ جب کوئی بڑا شخص مرجاتا ہے یا پیدا ہوتا ہے تو تارے ٹوٹتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں، کسی کے مرنے یا پیداہونے سے تارے نہیں ٹوٹتے ۔ =18=
زیدبن خالد کا بیان ہے کہ حدیبیہ کے موقع پر اتفاق سے رات کو بارش ہوئی۔ صبح کو نماز کے بعد آپ لوگوں سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: جانتے ہو، تمھارے رب نے کیا کہا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا : اللہ اوراُس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ ارشادہوا: اللہ نے فرمایا ہے کہ آج صبح کو میرے بندوں میں سے کچھ مومن ہو کر اٹھے اورکچھ کافر ہو کر، جنھوں نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل و رحمت سے ہوئی ہے، وہ میرے ماننے والے اور تاروں کے منکرہیں اور جنھوں نے یہ کہا کہ ہم پر پانی فلاں نچھتر سے برساہے، وہ میرے منکر اورتاروں کے ماننے والے ہیں۔ =19=
ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سورج اورچاند کسی کے مرنے یا جینے سے نہیں گہناتے، یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا اِنھیں دیکھوتو نماز پڑھو۔ =20=
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجۂ محترمہ کا بیان ہے کہ آپ نے فرمایا : جو اپنی کسی چیز کا پتا پوچھنے کسی عراف =21= کے پاس جائے گااور اُسے سچا سمجھے گا، اُس کی چالیس دن کی نماز قبول نہ ہوگی۔ =22=
سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ لوگوں نے کاہنوں کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ کچھ نہیں ہیں۔ اُنھوں نے عرض کیا: یارسول اللہ، اُن کی بعض باتیں سچی بھی نکل آتی ہیں۔ فرمایا : شیطان ایک آدھ بات سن لیتا ہے اورمرغی کی طرح قرقر کر کے اپنے دوستوں کے کانوں میں ڈالتا ہے۔ پھر وہ سو جھوٹ اُس کے ساتھ ملا کر لوگوں سے بیان کرتے ہیں۔ =23=
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے : نہ چھوت ہے، نہ بدفالی ہے، نہ پیٹ میں بھوک کا سانپ ہے اورنہ مردے کی کھوپڑی سے پرندہ نکلتا ہے۔ =24=
جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ اِس کے ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ غول بیابانی بھی کچھ نہیں ہے۔ =25=
سیدنا عمر کابیان ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری شان میں اُس طرح مبالغہ نہ کرو، جس طرح نصاریٰ نے مسیح علیہ السلام کی شان میں کیا ہے۔ میں تو بس خداکا بندہ ہوں ،اِس لیے مجھے خدا کا بندہ اور اُس کا رسول ہی کہا کرو۔ =26=
ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر سلسلۂ کلام میں کہا : جو اللہ چاہے اورآپ چاہیں۔ آپ نے اُسے فوراً روکااور فرمایا: تم نے مجھے خدا کا ہم سر بنا دیا ہے ؟ نہیں، بلکہ یہ کہو کہ جو تنہا اللہ چاہے۔ =27=
اِس کے علاوہ جو احکام اَن آیتوں میں بیان ہوئے ہیں ، اُن کی تفصیلات درج ذیل ہیں: