HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اصل الاصول


۔اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی، وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ، یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.(النحل ۱۶: ۹۰)
’’بے شک، اللہ (اِس میں) عدل اور احسان اور قرابت مندوں کو دیتے رہنے کی ہدایت کرتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے روکتا ہے۔وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاددہانی حاصل کرو۔‘‘

یہ اِس باب میں قرآ ن کی ہدایت کا بنیادی اصول ہے ۔ انسان کی فطرت جن فضائل اخلاق کو پانے اور جن رذائل سے بچنے کا تقاضا کرتی ہے، اُن کی بنیادیں اِس میں واضح کر دی گئی ہیں ۔خیر و شر کے یہ اصول بالکل فطری ہیں، لہٰذا خدا کے دین میں بھی ہمیشہ مسلم رہے ہیں۔ تور ات کے احکام عشرہ اِنھی پر مبنی ہیں اور قرآن نے بھی اپنے تمام اخلاقی احکام میں اِنھی کی تفصیل کی ہے۔

ہم یہاں اِن کی وضاحت کریں گے:

پہلی چیز جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے ، عدل ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جس کا جو حق واجب کسی پر عائد ہوتا ہے، اُسے بے کم و کاست اور بے لاگ طریقے سے اداکر دیا جائے، خواہ صاحب حق کمزور ہو یا طاقت ور اور خواہ ہم اُسے پسند کریں یا ناپسند ۔ چنانچہ فر مایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ، اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا ، فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ،وَاِنْ تَلْوٓٗا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.(النساء ۴: ۱۳۵)
’’ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا زیادہ حق دار ہے (کہ اُس کے قانون کی پابندی کی جائے)، اِس لیے (اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر) تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جاؤ اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گے تو اُس کی سزا لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔‘‘
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ، وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا، اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(المائدہ ۵: ۸)
’’ ایمان والو،(اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے۔‘‘

دوسری چیز احسان ہے ۔ یہ عدل سے زائد ایک چیز اور تمام اخلاقیات کا جمال و کمال ہے ۔ اِس سے مراد صرف یہ نہیں کہ حق ادا کر دیا جائے ، بلکہ مزید برآں یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں سے باہمی مراعات اور فیاضی کا رویہ اختیار کریں۔ اُن کے حق سے اُنھیں کچھ زیادہ دیں اور خود اپنے حق سے کچھ کم پر راضی ہو جائیں ۔ یہی وہ چیز ہے جس سے معاشرے میں محبت و مودت، ایثار و اخلاص ، شکر گزاری، عالی ظرفی اور خیر خواہی کی قدریں نشوونما پاتی اور زندگی میں لطف و حلاوت پیدا کرتی ہیں ۔

تیسری چیز قرابت مندوں کے لیے انفاق ہے ۔ یہ احسان ہی کی ایک نہایت اہم فرع ہے اور اُس کی ایک خاص صورت متعین کرتی ہے ۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قرابت مندصرف اِسی کے حق دار نہیں ہیں کہ اُن کے ساتھ عدل و احسان کا رویہ اختیار کیا جائے ، بلکہ اِس کے بھی حق دار ہیں کہ لوگ اپنے مال پر اُن کا حق تسلیم کریں ، اُنھیں کسی حال میں بھوکا ننگا نہ چھوڑیں اور اپنے بال بچوں کے ساتھ اُن کی ضرورتیں بھی جس حد تک ممکن ہو، فیاضی کے ساتھ پوری کرنے کی کوشش کریں ۔

اِن کے مقابلے میں بھی تین ہی چیزیں ہیں جن سے اس آیت میں روکا گیا ہے:

پہلی چیز ’فَحْشَآء‘ ہے ۔ اس سے مراد زنا ، اغلام اور اِن کے متعلقات ہیں ۔

دوسری چیز’مُنْکَر‘ ہے ۔ یہ معروف کا ضد ہے ۔ یعنی وہ برائیاں جنھیں انسان بالعموم برا جانتے ہیں،ہمیشہ سے برا کہتے رہے ہیں اور جن کی برائی ایسی کھلی ہوئی ہے کہ اِس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مذہب و ملت اور تہذیب و تمدن کی ہر اچھی روایت میں اُنھیں برا ہی سمجھا جاتا ہے ۔ قرآن نے ایک دوسرے مقام پر اِس کی جگہ ’اِثْم‘ کا لفظ استعمال کر کے واضح کر دیا ہے کہ اِس سے مراد یہاں وہ کام ہیں جن سے دوسروں کے حقوق تلف ہوتے ہوں ۔

تیسری چیز’ بَغْی‘ہے ۔ اِس کے معنی سرکشی اور تعدی کے ہیں ۔ یعنی آدمی اپنی قوت ،طاقت اور زور و اثر سے ناجائز فائدہ اٹھائے، حدود سے تجاوز کرے اور دوسروں کے حقوق پر، خواہ وہ حقوق خالق کے ہوں یا مخلوق کے ، دست درازی کرنے کی کوشش کرے ۔

ارشاد فرمایا ہے:

قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ، مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ، وَالْاِثْمَ وَالْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ.(الاعراف ۷: ۳۳)
’’کہہ دو، میرے پروردگار نے تو صرف فواحش کو حرام کیا ہے، خواہ وہ کھلے ہوں یا چھپے اور حق تلفی اور ناحق زیادتی کو حرام کیا ہے۔‘‘

B