وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰھَا ، فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا ، قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا ، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا.(الشمس ۹۱: ۷۔۱۰)
’’اور نفس اور جیسا اُسے سنوارا،پھراُس کی بدی اور نیکی اُسے سجھا دی کہ روز قیامت شدنی ہے، (اِس لیے) فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُسے آلودہ کر ڈالا۔‘‘
انسان کے لیے خیرو شر کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ فلسفۂ اخلاق کا سب سے بنیادی سوال ہے۔ قرآن نے اِن آیتوں میں واضح کردیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو دیکھنے کے لیے آنکھیں اور سننے کے لیے کان دیے ہیں، بالکل اُسی طرح نیکی اوربدی کو الگ الگ پہچاننے کے لیے ایک حاسۂ اخلاقی بھی عطا فرمایا ہے۔ وہ محض ایک حیوانی اورعقلی وجود ہی نہیں ہے، اِس کے ساتھ ایک اخلاقی وجود بھی ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ خیرو شر کا امتیاز اورخیر کے خیر اورشر کے شر ہونے کا احساس انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی اُس کے دل ودماغ میں الہام کردیا گیا ہے۔ بعض دوسرے مقامات پر یہی حقیقت ’اِنَّا ھَدَیْنٰہُ السَّبِیْلَ‘ =6= (ہم نے اُسے خیر وشر کی راہ سجھا دی ) اور ’ھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ‘ =7= (ہم نے کیا اُس کو دونوں راستے نہیں سجھائے؟) کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے۔ یہ امتیاز واحساس ایک عالم گیر حقیقت ہے۔ چنانچہ برے سے برا آدمی بھی گناہ کرتاہے تو پہلے مرحلے میں اُسے چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردینے کے بعد اُس کی لاش چھپانے کی کوشش کی تھی تو ظاہر ہے کہ احساس گناہ ہی کی وجہ سے کی تھی۔ یہی معاملہ نیکی کا ہے۔ انسان اُس سے محبت کرتا ہے ، اُس کے لیے اپنے اندر عزت و احترام کے جذبات پاتاہے اوراپنے لیے جب بھی کوئی معاشرت پیدا کرتاہے، اُس میں حق وانصاف کے لیے لازماً کوئی نظام قائم کرتا ہے ۔ یہ اِس امتیاز خیر وشر کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ برائی کے حق میں انسان بعض اوقات بہانے بھی تراش لیتا ہے، لیکن جس وقت تراشتا ہے، اُسی وقت جانتا ہے کہ یہ بہانے وہ اپنی فطرت کے خلاف تراش رہا ہے، اِس لیے کہ وہی برائی اگر کوئی دوسرا اُس کے ساتھ کر بیٹھے تو بغیر کسی تردد کے وہ اُسے برائی ٹھیراتااوراُس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : نیکی حسن اخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تمھارے دل میں کھٹک پیدا کردے اورتم یہ پسند نہ کرو کہ دوسرے لوگ اُسے جانیں۔ ۸ =8= نفس انسانی کا یہی پہلو ہے جسے قرآن نے نفس لوامہ =9= سے تعبیر کیا ہے اورپھر پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے:
بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیرَۃٌ ، وَّلَوْ اَلْقٰی معَاذِیْرَہٗ.(القیامہ ۷۵: ۱۴۔۱۵)
’’بلکہ حق یہ ہے کہ انسان خود اپنے اوپر گواہ ہے، اگرچہ وہ اپنے لیے کتنے ہی بہانے بنائے۔‘‘
اِس الہام کی تعبیر میں، البتہ اشخاص، زمانے اورحالات کے لحاظ سے بہت کچھ اختلافات ہوسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ اِس کی گنجایش بھی اُس نے باقی نہیں رہنے دی اورجہاں کسی بڑے اختلاف کا اندیشہ تھا، اپنے پیغمبرو ں کے ذریعے سے خیرو شرکو بالکل واضح کردیاہے۔ اِن پیغمبرو ں کی ہدایت اب قیامت تک کے لیے قرآن مجید میں محفوظ ہے۔ انسان اپنے اندر جو کچھ پاتا ہے ، یہ ہدایت اُس کی تصدیق کرتی ہے اورانسان کاوجدانی علم، بلکہ تجربی علم، قوانین حیات اور حالات وجو د سے استنباط کیا ہوا علم اورعقلی علم ، سب اِس کی گواہی دیتے ہیں ۔ چنا نچہ اخلاق کے فضائل ورذائل اِس کے نتیجے میں پوری قطعیت کے ساتھ متعین ہوجاتے ہیں۔
روایتوں میں ایک تمثیل کے ذریعے سے یہی بات اِس طرح سمجھائی گئی ہے کہ تم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہو، اُس کے لیے ایک سیدھا راستہ تمھارے سامنے ہے جس کے دو نوں طرف دو دیواریں کھنچی ہوئی ہیں۔ دونوں میں دروازے کھلے ہیں جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اندر آجاؤ اورسیدھے چلتے رہو۔ اِس کے باوجود کوئی شخص اگر دائیں بائیں کے دروازوں کا پردہ اٹھانا چاہے تو اوپرسے ایک منادی پکار کرکہتاہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ فرمایا ہے کہ یہ راستہ اسلام ہے ، دیواریں اللہ کے حدود ہیں، دروازے اُس کی قائم کردہ حرمتیں ہیں، اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندۂ مومن کے دل میں ہے اور راستے کے سرے پر پکارنے والا قرآن ہے : =10=
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُْؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا.(بنی اسرائیل ۱۷: ۹)
’’(لوگو)،حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے۔ یہ ماننے والوں کو جو اچھے عمل کرتے ہیں، اِس بات کی بشارت دیتا ہے کہ اُن کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ ‘‘
دوسرا سوال یہ ہے کہ وہ اصل محرک کیا ہے جو انسان کو تزکیۂ اخلاق پر آمادہ کرتا ہے ؟ اِس سوال کا جواب قرآن نے اِن آیتوں میں یہ دیا ہے کہ وہ محرک اِسی الہام خیرو شر کی بنا پر انسان کا یہ احساس ہے کہ اِن دونوں کے نتائج اُس کے لیے یکساں نہیں ہو سکتے ۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا شعور اپنے وجود ہی سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اِن دونوں کا نتیجہ بھی اِنھی کے لحاظ سے سامنے آئے ۔ اِس سے یہ حقیقت اُس پر واضح ہوتی ہے کہ وہ کوئی شتربے مہار نہیں ہے اور اپنے اعمال کے صلے میں اُسے لازماً جزاو سزاسے دوچار ہونا ہے ۔ قرآن نے اِسی کو یہاں مراد کو پہنچنے اور نامراد ہو جانے سے تعبیر کیاہے ۔ اِس سے ظاہر ہے کہ خوف و طمع کا ایک احساس انسان کے اندر پیدا ہوتا اور اِس بات کا محرک بن جاتا ہے کہ اپنے طبعی رجحانات کے علی الرغم وہ اپنے اخلاق کو پاکیزہ بنائے۔ پھر جب وہ ایمان لے آتا ہے تو یہی احساس خدا سے متعلق ہو جاتا ہے ۔ اُس وقت قرآن اُس سے مطالبہ کرتا ہے کہ اچھے اخلاق کی پابندی اور برے اخلاق سے اجتناب کے لیے اصل محرک اب صرف اُس خدا کی محبت ، اُس کی رضا کی طلب اور اُس کی ناراضی کا خوف ہونا چاہیے جو عالم الغیب ہے، دانا ے راز ہے ، واقف اسرار ہے اور وجود کی ہر حرکت اور قلب و نظر کی ہر جنبش سے پوری طرح با خبر ہے ۔ قرآن میں یہ بات کئی جگہ بیان ہوئی ہے۔ اداے حقوق کی تاکید کے بعد ایک موقع پر فرمایا ہے:
فَاٰتِ ذَا الْقُرْ بٰی حَقَّہٗ وَالْمِسْکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ، ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ، وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(الروم ۳۰: ۳۸)
’’ سو (رزق میں کشادگی ہو تو) قرابت مند اور مسکین اور مسافر کو اُس کاحق دو۔ یہ اُن کے لیے بہتر ہے جو خدا کی رضا چاہتے ہیں اوروہی (آخرت میں) فلاح پانے والے ہیں۔ ‘‘
اِس کا بہترین نمونہ انبیا علیہم السلام ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے :
الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی، وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰٓی، اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْہِ رَبِّہِ الْاَعْلٰی.(اللیل ۹۲: ۱۸۔۲۰)
’’ جو اپنا مال اِس لیے دیتا ہے کہ اُسے تزکیہ حاصل ہو اور جس کی کوئی عنایت بھی کسی پر اِس لیے نہیں کہ اُسے بدلہ ملے، بلکہ صرف اپنے خداے برتر کی رضا جوئی کے لیے ہے۔‘‘
یہ بات عام طور پر مانی جاتی ہے کہ اچھے عمل کی بنیاد اچھا ارادہ ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’إنما الأعمال بالنیات‘ =11= (انسان کے اعمال اُس کی نیت پر موقوف ہیں ) کے بلیغ الفاظ میں یہی بات فرمائی ہے ۔ یہ محرک انسان کی اِس نیت کو بالکل آخری درجے میں پاکیزہ بنا دیتا ہے ۔ چنانچہ اُس کا کوئی عمل بھی اِس کے بعد فخر ، نمایش ، ریا اور دکھاوے کے لیے نہیں ہوتا، اور اگر ہوتا ہے تو جلد یا بدیر وہ اُس کو اِن آلایشوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔قرآن کی اِس تعلیم کا سب سے موثر بیان وہ ہے جسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: قیامت کے دن سب سے پہلے اُن لوگوں کا فیصلہ کیا جائے گا جوقرآن کے عالم تھے یا جہاد میں مارے گئے یا جنھیں اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تھا ۔ اُنھیں لایا جائے گا ، پھر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اُنھیں یاد دلائے گا ۔ وہ اُن کا اقرار کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا :تم اِن میں کیا کرتے رہے ؟ عالم کہے گا: میں نے علم سیکھا اور سکھایا اور لوگوں کو آپ کی طرف بلانے کے لیے قرآن سناتا رہا ؛مجاہد کہے گا : میں آپ کی راہ میں لڑا اور مارا گیا؛ دولت مند عرض کرے گا : میں نے ہر اُس موقع پرخرچ کیا ، جہاں آپ خرچ کرنا پسند کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تم سب جھوٹے ہو ۔ تم تو یہ سب اِس لیے کرتے رہے کہ لوگ تمھیں عالم اور بہادر اور سخی کہیں۔ سو دنیا میں تمھیں یہ کہہ دیا گیا ہے۔ چنانچہ حکم دیا جائے گا اور وہ منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیے جائیں گے۔ =12=
فلسفۂ اخلاق کا تیسرا اہم سوال یہ ہے کہ اِس سعی و عمل کی غایت اور اِس کا مقصود کیا ہے ؟ اِس کے مختلف جوابات لوگوں نے دیے ہیں ۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ خوشی ہے ۔ دوسرے کے نزدیک کمال ہے ۔ تیسرے کے نزدیک فرض براے فرض ہے ۔ سورۂ شمس کی اِن آیتوں سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ قرآن کے نزدیک وہ مقصود تزکیہ ہے جس کے نتیجے میں خدا کی ابدی بادشاہی انسان کو حاصل ہو جائے گی ۔ اِس میں ، اگر غور کیجیے تو علماے اخلاقیات کے جوابات بھی آپ سے آپ شامل ہو جاتے ہیں ۔ اِس لیے کہ علم وعمل کی پاکیزگی ہی وہ چیز ہے جس سے انسان اپنے کمال کو پہنچتا ہے، حقیقی خوشی بھی اِسی سے حاصل ہوتی ہے اور اداے فرض کا عمل بھی اگر کبھی اِس درجہ بے غرض ہوتا ہے کہ اُسے فرض براے فرض کہا جا سکے تو اِسی سے ہوتا ہے ۔ اِس کا صلہ انسان کو اُسی وقت حاصل ہو جاتا ہے، جب وہ اپنے پروردگار کی طرف لوٹتا ہے اور اُسے ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کی بشارت دی جاتی ہے:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ، ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ.(الفجر ۸۹: ۲۷۔۳۰)
’’اے نفس مطمئن،اپنے رب کی طرف لوٹ، اِس حال میں کہ تو اُس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی۔ سو میرے بندوں میں شامل ہو اور میری جنت میں داخل ہو۔‘‘
استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’... یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحسین و آفرین کا کلمہ ہے ۔ اِن لوگو ں کو خطاب کرکے ارشاد ہوگا کہ شاباش!تمھارے رب نے جس میدان امتحان میں تمھیں اتارا ، اُس میں تمھاری بازی نہایت کامیاب رہی ۔ اب تم اپنے رب کی طرف اِس سرخ روئی کے ساتھ لوٹو کہ تم نے ثابت کر دیا کہ تم ہر طرح کے نرم وگرم حالات میں اپنے رب سے راضی و مطمئن رہے اور ساتھ ہی تمھیں یہ سرفرازی بھی حاصل ہوئی کہ تم اپنے رب کی نظروں میں بھی پسند یدہ ٹھیرے ۔ جس طرح تم اپنے رب سے کسی مرحلے میں گلہ مند نہیں ہوئے ، اُسی طرح تمھارے رب نے تم کو بھی کسی مرحلے میں اپنے معیار سے فروتر نہیں پایا ۔ تم اُس سے راضی، وہ تم سے راضی۔‘‘(تدبرقرآن ۹/ ۳۶۲)