ایمان کے بعد دین کا اہم ترین مطالبہ تزکیۂ اخلاق ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ انسان خلق اور خالق ، دونوں سے متعلق اپنے عمل کو پاکیزہ بنائے ۔ یہی وہ چیز ہے جسے ’عمل صالح‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تمام شریعت اِسی کی فرع ہے۔ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ شریعت تو بے شک، تبدیل بھی ہوئی ہے، لیکن ایمان اور عمل صالح اصل دین ہیں، اِن میں کوئی ترمیم وتغیر کبھی نہیں ہوا۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ جو شخص اِن دونوں کے ساتھ اللہ کے حضور میں آئے گا، اُس کے لیے جنت ہے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَمَنْ یَّاْتِہٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصّٰلِحٰتِ، فَاُولٰٓءِکَ لَھُمُ الدَّرَجٰتُ الْعُلٰی ، جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا ، وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا مَنْ تَزَکّٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۷۵۔۷۶)
’’ اِس کے برخلاف جو مومن ہو کر اُس کے حضور آئیں گے ، جنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے تو یہی لوگ ہیں جن کے لیے اونچے درجے ہیں۔ ہمیشہ رہنے والے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اُن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ صلہ ہے اُن کا جو پاکیزگی اختیار کریں۔‘‘
یہی عمل صالح ہے جسے فضائل اخلاق سے، اور اِس کے مقابل میں غیر صالح اعمال کو اُس کے رذائل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے :’إنما بعثت لأتمم صالح الأخلاق‘ =1= (میں اخلاق عالیہ کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیاہوں)۔ نیز فرمایا ہے کہ تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں۔ =2= یہی لوگ مجھے سب سے زیادہ محبوب بھی ہیں۔ =3= قیامت کے دن آدمی کی میزان میں سب سے زیادہ بھاری چیز اچھے اخلاق ہی ہوں گے، =4= اور بندۂ مومن وہی درجہ حسن اخلاق سے حاصل کرلیتا ہے جو کسی شخص کو دن کے روزوں اور رات کی نمازوں سے حاصل ہوتا ہے۔=5=