HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

روز جزا پر ایمان


اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا، وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا، وَقَالَ الْاِنْسَانُ: مَالَہَا؟ یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا، یَوْمَءِذٍ یَّصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتًا لِّیُرَوْا اَعْمَالَہُمْ، فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْْرًا یَّرَہٗ، وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ. (الزلزال ۹۹: ۱۔۸)
’’جب زمین ہلا دی جائے گی، جس طرح اُسے ہلانا ہے اور زمین اپنے سب بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی،اور انسان کہے گا: اِس کو کیا ہوا؟ اُس دن وہ اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی، اِس لیے کہ تیرے پروردگار نے اُسے ایما کیا ہو گا۔ اُس دن لوگ الگ الگ نکلیں گے، اِس لیے کہ اُن کے اعمال اُنھیں دکھائے جائیں۔ پھر جس نے ذرہ برابر بھلائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہے، وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘

دین جن حقائق کو ماننے کا مطالبہ کرتا ہے، اُن میں روز جزا کی اہمیت غیر معمولی ہے۔ انبیا علیہم السلام کی دعوت میں اِسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ تمام شریعت، نیکی اور خیر کی اساس یہی عقیدہ ہے۔ نبوت و رسالت کی بنا اِسی پر قائم ہے۔ نبی اِس لیے نبی ہے کہ وہ اِس نبا ء عظیم کی خبر دیتا ہے۔ رسول اِس لیے رسول ہے کہ وہ اِس کا پیغام لے کر آتا ہے۔ یوحنا و مسیح اور ابراہیم و موسیٰ، سب نے اِس کی منادی کی ہے۔ تورات میں اِس کے اشارے ہیں، زبور میں اِس کی تصریحات ہیں۔ انجیل میں سیدنا مسیح نے خبر دار کیا ہے کہ اِس دن وہی لوگ خدا کی بادشاہی میں داخل ہوں گے جو میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلتے ہیں۔ قرآن اِسی روز جزا کے لیے ایک صحیفۂ انذار و بشارت ہے۔ وہ لوگوں کو بتاتا ہے کہ جس طرح تم سو کر اٹھ جاتے ہو؛ =65= جس طرح مردہ زمین پر پانی برستا ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے زندہ ہو جاتی ہے؛ =66= جس طرح تم کچھ نہیں ہوتے، مگر ایک قطرۂ آب سے جیتے جاگتے انسان بن جاتے ہو، =67= اِسی طرح ایک دن قبروں سے اٹھا کر زندہ کر دیے جاؤ گے۔ اِس میں تمھارے پروردگار کو ذرا بھی مشکل پیش نہ آئے گی۔ اُس کے مخاطبین اِسے مستبعد سمجھتے اور کہتے ہیں کہ اِن سڑی ہوئی بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا تو وہ جواب دیتا ہے کہ وہی جس نے پہلی مرتبہ اِنھیں بنایا تھا۔ =68= ایک لفظ بولنا جتنا آسان ہے، اُس کے لیے یہ اتنا ہی آسان ہے:

فَوَرَبِّ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ، اِنَّہٗ لَحَقٌّ مِّثْلَ مَآ اَنَّکُمْ تَنْطِقُوْنَ.(الذاریات ۵۱: ۲۳)
’’ سو قسم ہے آسمان و زمین کے پروردگار کی، اُس کا آنا یقیناً حق ہے، اُسی طرح جیسے تم بول دیتے ہو۔‘‘

وہ کہتا ہے کہ یہ تمھاری فطرت کا تقاضا ہے، تمھارے اندر خیر و شر کے شعور کا تقاضا ہے، انصاف کے لیے تمھاری طلب کا تقاضا ہے۔ تم خدا کو مانتے ہو تو یہ اُس کے عدل کا تقاضا ہے، اُس کی ربوبیت کا تقاضا ہے، اُس کی رحمت، قدرت اور حکمت کا تقاضا ہے، اُس کے قوانین اور سنن کا تقاضا ہے۔ اِس پر ایمان کے بغیر دین خواہش نفس کے سوا کچھ نہیں۔ نیکی، تقویٰ، عدل و قسط اور جزا و سزا کے تمام تصورات بالکل بے معنی ہیں۔ یہ دن نہ ہو تو کائنات کھلنڈرے کا کھیل، رام کی لیلا اور یزداں کی تماشا گاہ بن کر رہ جائے۔

اِس دن کے شواہد، علامات اور احوال و مقامات قرآن و حدیث، دونوں میں مذکور ہیں۔

B

حواشی :

65 الزمر ۳۹: ۴۲۔  =65=


66 الاعراف ۷: ۵۷۔ فاطر ۳۵: ۹۔  =66=


67 القیامہ ۷۵: ۳۶۔۴۰۔  =67=


68 یٰس۳۶: ۷۸۔  =68=