HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

نبیوں پر ایمان


اِنَّآ اَوْحَیْْنَآ اِلَیْْکَ کَمَآ اَوْحَیْْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنْم بَعْدِہٖ، وَاَوْحَیْْنَآ اِلآی اِبْرٰہِیْمَ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ وَالْاَسْبَاطِ، وَعِیْسٰی وَاَیُّوْبَ وَیُوْنُسَ وَہٰرُوْنَ وَسُلَیْْمٰنَ، وَاٰتَیْْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا، وَرُسُلاً قَدْ قَصَصْنٰہُمْ عَلَیْْکَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلاً لَّمْ نَقْصُصْہُمْ عَلَیْْکَ، وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا، رُسُلاً مُّبَشِّرِیْنَ وَمُنْذِرِیْنَ لِءَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌم بَعْدَ الرُّسُلِ، وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا.(النساء ۴: ۱۶۳۔۱۶۵)
’’(اِن کی پروانہ کرو، اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف اُسی طرح وحی کی ہے، جس طرح نوح کی طرف اور اُس کے بعد آنے والے پیغمبروں کی طرف کی تھی۔ ہم نے ابراہیم، اسمٰعیل، اسحق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی کی اور داؤد کو ہم نے زبور عطافرمائی تھی۔ہم نے اُن رسولوں کی طرف بھی اِسی طرح وحی بھیجی جن کا ذکر تم سے پہلے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں کی طرف بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا اور موسیٰ سے تو اللہ نے کلام کیا تھا، جس طرح کلام کیا جاتا ہے۔ یہ رسول جو بشارت دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تاکہ لوگوں کے لیے اِن رسولوں کے بعد اللہ کے سامنے کوئی عذر پیش کرنے کے لیے باقی نہ رہے۔اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے جن ہستیوں کے ذریعے سے بنی آدم کے لیے اتمام ہدایت کا اہتمام کیا ہے، اُنھیں نبی کہا جاتا ہے۔ یہ انسان ہی تھے، لیکن اللہ نے اپنے علم و حکمت کی بنیاد پر اُنھیں اِس منصب کے لیے منتخب فرمایا۔ اِسے ایک موہبت ربانی سمجھنا چاہیے، تعلیم و تربیت اور اخذ و اکتساب سے اِس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔  =32= سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملنے کا واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے۔ وہ مدین سے واپسی پر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ وادی سینا میں پہنچے تو رات کا وقت تھا۔ راستے کا بھی کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا اور سردی بھی ، معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سخت تھی۔ اتنے میں ایک طرف شعلہ سا لپکتا ہوا نظر آیا۔ موسیٰ علیہ السلام کے سوا اُس کو شاید کسی نے دیکھا بھی نہیں۔ اُنھوں نے گھر والوں سے کہا کہ تم لوگ یہاں ٹھیرو، مجھے ایک شعلہ سا دکھائی دیا ہے۔ میں وہاں جاتا ہوں، تاپنے کے لیے کچھ آگ لے آؤں گا یا وہاں کچھ لوگ ہوئے تو اُن سے آگے کا راستہ معلوم کرلوں گا۔ یہ کہہ کر وہ اُس جگہ پہنچے تو آواز آئی کہ موسیٰ، میں تمھارا پروردگار ہوں، اِس لیے جوتے اتار دو۔ تم اِس وقت طویٰ کی مقدس وادی میں ہو۔ میں نے تمھیں فریضۂ نبوت و رسالت کے لیے منتخب کر لیا ہے، لہٰذا جو وحی تم پر کی جا رہی ہے، اُس کو پوری توجہ کے ساتھ سنو۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس کے بعد اُنھیں وہی تعلیم دی گئی جو تمام نبیوں کو دی گئی ہے:

اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّآٓ اَنَا، فَاعْبُدْنِیْ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ، اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعٰی فَلاَ یَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لاَّ یُؤْمِنُ بِہَا وَاتَّبَعَ ہَوٰہُ فَتَرْدٰی.(طٰہٰ ۲۰: ۱۴۔۱۶)
’’اِس میں شبہ نہیں کہ میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز کا اہتمام رکھو۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامت ضرور آنے والی ہے — میں اُس کو چھپائے رکھنے کو ہوں — اِس لیے آنے والی ہے کہ ہر شخص کو اُس کے عمل کا بدلہ دیا جائے۔ چنانچہ کوئی ایسا شخص جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتا اور اپنی خواہشوں کا پیرو ہے، تم کو نماز سے روک نہ دے کہ تم ہلاک ہو جاؤ۔‘‘

یہ موسیٰ علیہ السلام کا خاص شرف ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن سے براہ راست ہم کلام ہوا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پہلی وحی کا واقعہ قرآن مجید کی سورۂ نجم میں بیان ہوا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ منصب اللہ کے مقرب فرشتے جبریل امین کے ذریعے سے دیا گیا۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس موقع پر وہ اپنی اصلی صورت میں افق اعلیٰ پر نمودار ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھلی آنکھوں سے اُنھیں دیکھا۔ پھر وہ آپ کو تعلیم دینے کے لیے آپ کے قریب آئے اور جس طرح ایک شفیق استاد اپنے عزیز و محبوب شاگرد پر غایت شفقت سے جھک پڑتا ہے، اِسی طرح آپ کے اوپر جھک پڑے اور اتنے قریب ہو گئے کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ اِس کے بعد حضور کو وہ وحی اُنھوں نے کی جو اُنھیں کرنے کی ہدایت کی گئی تھی:

عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی، ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی، وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی، ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ اَوْ اَدْنٰی، فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی.(النجم ۵۳: ۵۔۱۰)
’’اُس کو ایک زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب کردار، بڑا صاحب حکمت ہے۔ چنانچہ وہ نمودار ہوا، اِس طرح کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔ پھر قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔‘‘

یہ نبی ہر قوم کی طرف بھیجے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ اُن کی ذریت کی رہنمائی کے لیے وہ خود اپنی طرف سے ہدایت نازل کرے گا۔ یہ ہدایت اِنھی نبیوں کے ذریعے سے بنی آدم کو دی گئی۔ وہ آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتاتے، اُس کے ماننے والوں کو اچھے انجام کی خوش خبری دیتے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرتے تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے قرآن نے ایک جگہ فرمایا ہے:

اِنَّآ اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا، وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ.(فاطر ۳۵: ۲۴)
’’ ہم نے تمھیں حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔(اِس سے پہلے بھی) کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس کے اندر کوئی خبردار کرنے والا نہ گزرا ہو۔‘‘

B

حواشی :

32  الانعام ۶: ۱۲۴۔  =32=