HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

فرشتوں پر ایمان


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، جَاعِلِ الْمَلآءِکَۃِ رُسُلاً اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ، مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ، یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآءُ، اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْْءٍ قَدِیْرٌ.(فاطر ۳۵: ۱)
’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے، زمین اور آسمانوں کا خالق، فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا، جن کے دو دو ، تین تین، چار چار پر ہیں۔ وہ خلق میں جو چاہے، اضافہ کر دیتا ہے۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ جن ہستیوں کے ذریعے سے مخلوقات کے لیے اپنا حکم نازل کرتے ہیں، اُنھیں فرشتے کہاجاتا ہے۔ قرآن میں اُن کے لیے ’الْمَلآئِکَۃ‘ کا لفظ آیا ہے۔ یہ ’ملک‘ کی جمع ہے جس کی اصل ’ملأک‘ ہے۔ اِس کے معنی پیام بر کے ہیں۔ سورۂ فاطر کی جو آیت سرعنوان ہے، اُس میں خود قرآن نے اشارہ کر دیا ہے کہ اُنھیں ملائکہ کا نام اِسی مفہوم کو پیش نظر رکھ کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ قرآن ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم لاہوت کے ساتھ اِس عالم ناسوت کا رابطہ اُن کی وساطت سے قائم ہوتا اور اِس کا تمام کاروبار اللہ تعالیٰ اُنھی کے ذریعے سے چلاتے ہیں۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بارگاہ خداوندی سے جو حکم اُنھیں القا کیا جاتا ہے، اُس کو وہ ایک محکوم محض کی طرح اُس کی مخلوقات میں جاری کر دیتے ہیں۔ اِس میں اُن کا کوئی ذاتی اختیار اور ذاتی ارادہ کارفرما نہیں ہوتا۔ وہ سرتاپا اطاعت ہیں، ہر وقت اپنے پروردگار کی حمدوثنا میں مصروف رہتے ہیں اور اُس کے حکم سے سرمو انحراف نہیں کرتے:

وَہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ، یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ.(النحل ۱۶: ۴۹۔۵۰)
’’وہ کبھی سرتابی نہیں کرتے۔ وہ اپنے اوپر اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا اُنھیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘

فرشتوں پر ایمان کا تقاضا جن وجوہ سے کیا گیا ہے، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اپنی تفسیر میں اِس طرح بیان فرمائے ہیں:

’’...ایمان بالکتاب اور ایمان بالرسل کا ایک غیر منفک جزو ایمان بالملائکہ ہے۔ ملائکہ کو مانے بغیر خدا اور اُس کے نبیوں کے درمیان کا واسطہ غیر واضح اور غیر معین رہ جاتا ہے، جس کے غیر واضح رہنے سے نہ صرف سلسلۂ علم وہدایت کی ایک نہایت اہم کڑی گم شدہ رہ جاتی ہے، بلکہ ہدایت آسمانی کے باب میں عقل انسانی کو گمراہی کی بہت سی راہیں بھی مل جاتی ہیں۔یہ بات تو دنیا ہمیشہ سے مانتی آئی ہے کہ خدا ہے اور یہ بات بھی اُس نے ہمیشہ محسوس کی ہے کہ جب وہ ہے تو اُسے اپنی مرضیات سے اپنے بندوں کو آگاہ بھی کرنا چاہیے، لیکن جب وہ کبھی بے نقاب اور رودررو ہوکر ہمارے سامنے نہیں آتا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ ذریعہ اور واسطہ کیا ہے جس سے وہ خلق کو اپنے احکام و ہدایات سے آگاہ کرتا ہے؟ اگر اِس مقصد کے لیے اُس نے اپنے خاص خاص بندوں کو منتخب کیا ہے، جن کو انبیا ورسل کہتے ہیں تو بعینہٖ یہی سوال اُن کے بارے میں بھی اٹھتا ہے کہ اِن نبیوں اور رسولوں کو وہ اپنے علم وہدایت سے آگاہ کرنے کا کیا ذریعہ اختیار کرتا ہے۔ کیا رودررو ہو کر خود اُن سے بات کرتا ہے یا کوئی اور ذریعہ اختیار فرماتا ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبیوں کے درمیان علم کا واسطہ وحی ہے جو وہ اپنے فرشتوں، بالخصوص اپنے مقرب فرشتے جبریل کے ذریعہ سے بھیجتا ہے۔ یہ فرشتے خدا کی سب سے زیادہ پاکیزہ اور برتر مخلوق ہیں۔ اِن کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ یہ براہ راست خدا سے وحی اخذ کر سکتے ہیں... وحی ورسالت کے ساتھ فرشتوں کے اِس گہرے تعلق کی وجہ سے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانے کے لیے اِن پر ایمان لانا بھی ضروری ہوا۔ یہ خدا اور اُس کے نبیوں اور رسولوں کے درمیان رسالت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور اِس اعتبار سے یہ ناگزیر ہیں کہ یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہوت اور عالم ناسوت، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں۔ یہ اپنی نورانیت کی وجہ سے خدا کے انواروتجلیات کے بھی متحمل ہو سکتے ہیں اور اپنی مخلوقیت کے پہلو سے انسانوں سے بھی اتصال پیدا کرسکتے ہیں۔ اِن کے سوا کوئی اور مخلوق خدا تک رسائی کا یہ درجہ اور مقام نہیں رکھتی۔ اِس وجہ سے ضروری ہوا کہ نبیوں اور رسولوں پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ اُن رسولوں پر بھی ایمان لایا جائے جو خدا اور اُس کے رسولوں کے درمیان رسالت کا واسطہ ہیں۔‘‘ (تدبرقرآن ۱/ ۴۲۳)

اِن کے جو فرائض اور ذمہ داریاں قرآن میں بیان ہوئی ہیں، وہ یہ ہیں:

۱۔ وہ خدا کا حکم اُس کی مخلوقات میں جاری کرتے ہیں:

تَنَزَّلُ الْمَلآئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا بِاِذْنِ رَبِّہِمْ مِّنْ کُلِّ اَمْرٍ.(القدر ۹۷: ۴)
’’ اُس میں فرشتے اور روح الامین اپنے پروردگار کے اذن سے ہر معاملے کا حکم لے کر اترتے ہیں۔‘‘

۲۔ وہ جس طرح حکم لے کر اترتے ہیں، اِسی طرح بارگاہ خداوندی میں پیشی کے لیے عروج بھی کرتے ہیں:

تَعْرُجُ الْمَلآئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ.(المعارج ۷۰: ۴)
’’(یہ ہر چیز کو اپنے پیمانوں سے ناپتے اور پھرجلدی مچادیتے ہیں۔ اِنھیں بتا ؤ کہ) فرشتے اور رُوح الامین (تمھارے حساب سے) پچاس ہزار سال کے برابر ایک دن میں اُس کے حضور چڑھ کر پہنچتے ہیں۔‘‘

۳۔ وہ نبیوں پر وحی نازل کرتے ہیں:

یُنَزِّلُ الْمَلآئِکَۃَ بِالْرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اََنَا فَاتَّقُوْنِ. (النحل ۱۶: ۲)
’’ وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے، اپنے حکم کی وحی کے ساتھ فرشتے اتارتا ہے، اِس ہدایت کے ساتھ کہ لوگوں کو خبردار کر دو کہ میرے سوا (تمھارا) کوئی معبود نہیں ہے، لہٰذا مجھی سے ڈرو۔‘‘

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وحی بالعموم جبریل امین لے کر آتے ہیں۔ فرشتوں میں وہ سب سے زیادہ بلند مرتبہ اور مقرب ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں اُنھیں براہ راست رسائی حاصل ہے۔ اُن کے اور صاحب عرش کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہیں ہوسکتا۔ قرآن میں اُنھیں صاحب قوت، مطاع اور امین بھی کہا گیا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ جو ذمہ داری اُنھیں دی گئی ہے، وہ اُس کے لیے تمام قوتوں اور صلاحیتوں سے بھرپور ہیں۔ لہٰذا اِس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوت یا ارواح خبیثہ اُنھیں کسی بھی درجے میں متاثر یا مرعوب کر سکیں یا خیانت پر آمادہ کر لیں یا خود اُن سے اُس وحی میں کوئی اختلاط یا فروگذاشت ہو جائے۔ اِس طرح کی تمام کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ نے اُنھیں محفوظ کر رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:

عَلَّمَہٗ شَدِیْدُ الْقُوٰی، ذُوْ مِرَّۃٍ فَاسْتَوٰی، وَہُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی، ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی، فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْْنِ اَوْ اَدْنٰی، فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِہٖ مَآ اَوْحٰی. (النجم ۵۳: ۵۔۱۰)  
’’اُس کو ایک زبردست قوتوں والے نے تعلیم دی ہے جو بڑا صاحب کردار، بڑا صاحب حکمت ہے۔ چنانچہ وہ نمودار ہوا، اِس طرح کہ وہ آسمان کے اونچے کنارے پر تھا۔ پھر قریب ہوا اور جھک پڑا، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اُس سے کچھ کم فاصلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے وحی کی اپنے بندے کی طرف جو وحی کی۔‘‘

۴۔ وہ انسانوں کے علم و عمل کی نگرانی کرتے اور اُن کا دفتر عمل محفوظ رکھتے ہیں:

وَاِنَّ عَلَیْْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ، کِرَامًا کَاتِبِیْنَ، یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ.(الانفطار ۸۲: ۱۰۔۱۲)
’’ دراں حالیکہ تم پر نگران مقرر ہیں، بڑے معززلکھنے والے، وہ جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔‘‘

۵۔ وہ لوگوں کے لیے بشارت اور عذاب لے کر اترتے ہیں:

وَلَقَدْ جَآءَ تْ رُسُلُنَآ اِبْرٰہِیْمَ بِالْبُشْرٰی، قَالُوْا: سَلٰمًا، قَالَ: سَلٰمٌ، فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ، فَلَمَّا رَاآ اَیْْدِیَہُمْ لاَ تَصِلُ اِلَیْْہِ نَکِرَہُمْ وَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً، قَالُوْا: لاَ تَخَفْ، اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمِ لُوْطٍ.(ہود۱۱: ۶۹۔۷۰) 
’’اور(لوط کے معاملے میں یہ ہوا کہ پہلے) ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر پہنچے تھے۔ اُنھوں نے کہا: سلامتی ہو۔ ابراہیم نے جواب دیا: تم پر بھی سلامتی ہو۔ پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیم بھنا ہوا بچھڑا (اُن کی ضیافت کے لیے) لے آیا۔لیکن جب دیکھا کہ اُن کے ہاتھ اُس کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں تو اُن سے اجنبیت محسوس کی اور دل میں اُن سے کچھ ڈرنے لگا۔ اُنھوں نے کہا: ڈرو نہیں، ہم قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں۔‘‘

سورۂ ہود کی اِس آیت سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ فرشتے انسانوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور اُن کی طرح کھانے پینے اور اِس طرح کی دوسری ضرورتوں سے اِس کے باوجود منزہ رہتے ہیں۔

۶۔ وہ خدا کی تسبیح وتہلیل میں مصروف رہتے اور زمین والوں کے لیے اُس کے حضور میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں:

وَالْمَلآءِکَۃُ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ وَیَسْتَغْفِرُوْنَ لِمَنْ فِی الْاَرْضِ. اَلَآ، اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ. (الشوریٰ ۴۲: ۵)
’’ اور فرشتے، وہ تو اپنے پروردگار کی( خشیت کے سبب سے اُس کی) حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح اور زمین والوں کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ سنو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔‘‘

۷۔ وہ لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں:

قُلْ، یَتَوَفّٰکُمْ مَّلَکُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بِکُمْ، ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ تُرْجَعُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۱)
’’اِن سے کہو، تمھاری جان وہی موت کا فرشتہ قبض کرے گا جو تم پر مقرر کیا گیا ہے، پھر تم اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘

۸۔ وہ دنیا اور آخرت، دونوں میں ایمان والوں کے رفیق ہیں اور موت کے وقت اُنھیں جنت کی بشارت دیتے ہیں:

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا: رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلآءِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ، وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْٓ اَنْفُسُکُمْ، وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ.(حٰم السجدہ ۴۱: ۳۰۔۳۱)
’’اِس کے برخلاف جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے، پھر (تمام مخالفتوں سے بے پروا ہو کر) اُس پر ثابت قدم رہے، (اُن کی تسلی کے لیے قیامت کے دن، اِس سے پہلے کہ فیصلہ ہو) اُن پر، یقیناًفرشتے نازل ہوں گے اور کہیں گے کہ اب نہ کوئی اندیشہ کرو، نہ غم اور اُس جنت کی خوش خبری قبول کرو، جس کا وعدہ تم سے کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی رہے اور آخرت کی زندگی میں بھی تمھارے ساتھی ہیں۔ (ہم جس جنت کی خوش خبری تمھیں دے رہے ہیں)، اُس میں تمھارے لیے ہر وہ چیز موجود ہے جسے تمھارا دل چاہے گا اور ہر وہ چیز حاضر ہے جو تم طلب کرو گے۔‘‘

۹۔ قیامت میں وہ بارگاہ خداوندی کے حاضر باش اور تخت الٰہی کو اٹھائے ہوئے ہوں گے:

وَتَرَی الْمَلآئِکَۃَ حَآفِّیْنَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ یُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّہِمْ.(الزمر ۳۹: ۷۵) 
’’(اُس دن، جب زمین اپنے رب کے نور سے روشن ہو گی) اور تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ عرش الٰہی کے گرد حلقہ بنائے ہوئے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کر رہے ہیں۔‘‘
وَالْمَلَکُ عَلآی اَرْجَآءِہَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ.(الحاقہ ۶۹: ۱۷)
’’اور فرشتے اُس کے کناروں پر (سمٹے ہوئے) ہوں گے اور تمھارے پروردگار کا تخت اُس دن آٹھ فرشتے اپنے اوپر اُٹھائے ہوں گے۔‘‘

۱۰۔ دوزخ کا نظم ونسق بھی اُنھی کے سپرد ہوگا:

عَلَیْْہَا مَلآئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ، لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ. (التحریم ۶۶: ۶) 
’’جس پر تند خواور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے۔ اللہ جو بات اُنھیں فرمائے گا، اُس کی تعمیل میں نافرمانی نہ کریں گے اور وہی کریں گے جس کا حکم اُنھیں دیا جائے گا۔‘‘

قرآن کے اشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی صورت جنت میں بھی ہوگی۔

اِن فرائض اور ذمہ داریوں کے ساتھ قرآن نے جگہ جگہ اُن غلط تصورات کی تردید بھی کی ہے جو لوگوں نے فرشتوں کے بارے میں قائم کر لیے تھے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ وہ ہرگز خدا کی بیٹیاں نہیں ہیں، جس طرح کہ یہ احمق سمجھتے ہیں، بلکہ اُس کے مقرب بندے ہیں۔ اُن کو یہ تقرب اِس لیے حاصل نہیں ہوا کہ وہ زورواثر یا نازوتدلل سے کوئی بات خدا سے منوا سکتے ہیں، بلکہ خدا کی بندگی اور وفاداری کے ہر معیار پر پورے اترنے کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔اِس طریقے سے کوئی بات منوا لینا تو ایک طرف، وہ خدا کے آگے بات کرنے میں پہل بھی نہیں کرتے اور اُسی وقت زبان کھولتے ہیں، جب اُنھیں اجازت ملتی ہے۔ پھر جو کچھ پوچھا جائے، اُس کا جواب بھی ہمیشہ حدادب کے اندر رہ کر دیتے ہیں اور خلاف حق کوئی بات نہیں کہتے۔ وہ نہ کسی کی سفارش کر سکتے ہیں اور نہ بطور خود کوئی اقدام کر سکتے ہیں، بلکہ ہر وقت حکم کے منتظر اور خدا کے خوف سے لرزاں وترساں رہتے ہیں:

قَالُوا: اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا، سُبْحٰنَہٗ، بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ لَا یَسْبِقُوْنَہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ، یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ اَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ، وَمَنْ یَّقُلْ مِنْہُمْ: اِنِّیْٓ اِلٰہٌ مِّنْ دُوْنِہٖ، فَذٰلِکَ نَجْزِیْہِ جَہَنَّمَ، کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ. (الانبیاء ۲۱: ۲۶۔۲۹)
’’یہ کہتے ہیں کہ خداے رحمن کے اولاد ہے۔ وہ (اِس تہمت سے) پاک ہے۔ (فرشتے، جن کو یہ احمق خدا کی بیٹیاں سمجھتے ہیں)، وہ اُس کی اولاد نہیں، بلکہ مقرب بندے ہیں۔ وہ اُس کے حضور کبھی بڑھ کر نہیں بولتے اور اُس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اُن کے آگے اور پیچھے جو کچھ ہے، سب اُس کو معلوم ہے۔ وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے، اُس کے سوا جس کے لیے اللہ پسند فرمائے اور اُس کی ہیبت سے لرزتے رہتے ہیں۔ اُن میں سے جو یہ کہنے کی جسارت کرے کہ اللہ کے سوا میں الٰہ ہوں تو اُس کو ہم جہنم کی سزا دیں گے۔ ہم ظالموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۔‘‘

استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...عقل انسانی عالم لاہوت سے تعلق رکھنے والی ارواح کے تجسس میں ہمیشہ سے رہی ہے اور اِس ضرورت کو اُس نے اِس شدت کے ساتھ محسوس کیا ہے کہ اِس تلاش میں اگر اُس کو کوئی صحیح چیز نہیں مل سکی ہے تو جو غلط سے غلط چیز بھی اُس کے ہاتھ آگئی ہے، اُسی کا دامن اُس نے پکڑ لیا ہے۔ عرب کے کاہن وساحر جنات، شیاطین اور ہاتف غیبی کو عالم لاہوت سے تعلق کا ذریعہ سمجھتے تھے، ہندوستان کے جوتشی اور منجم ستاروں کی گردشوں کے اندر غیب کے اسرار ڈھونڈتے تھے۔ چین کے مندروں کے پجاری اپنے باپ دادا کی ارواح کے توسط سے عالم غیب سے توسل پیدا کرتے تھے۔ قرآن نے اِن تمام غلط وسائل اور واسطوں کی نفی کردی اور اِن کے ذریعہ سے حاصل شدہ علم کو رطب و یابس کا مجموعہ ٹھیرایا اور ساتھ ہی یہ حقیقت واضح فرمائی کہ علم الٰہی کا قابل اعتماد ذریعہ صرف ملائکہ ہیں جو انبیا کے پاس آتے ہیں اور جتنا کچھ خدا اُن کو دیتا ہے، وہ بے کم وکاست اُن کو پہنچا دیتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن ۱/ ۴۲۴)

B