HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اللہ پر ایمان


ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ، عٰلِمُ الْغَیْْبِ وَالشَّہَادَۃِ، ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ، ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ، اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ، سُبْحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ، ہُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ، لَہُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی، یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.(الحشر۵۹: ۲۲۔۲۴)
’’(وہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ) وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، بادشاہ ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب، بڑے زور والا، بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ اُن سے جو یہ شریک بتاتے ہیں۔وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت دینے والا۔ سب اچھے نام اُسی کے ہیں۔ زمین اور آسمانوں کی سب چیزیں اُس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ زبردست ہے، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘

اللہ اُس ہستی کا نام ہے جو زمین وآسمان اور تمام مخلوقات کی خالق ہے۔ اِس میں الف لام تعریف کے لیے ہے اور یہ نام ابتدا ہی سے پروردگار عالم کے لیے خاص رہا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب جاہلیت میں بھی یہ اِسی مفہوم کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دین ابراہیمی کے جو باقیات عربوں کو وراثت میں ملے تھے، یہ لفظ بھی اُنھی میں سے ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:

وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ: اللّٰہُ، فَاَنّٰی یُؤْفَکُوْنَ؟ اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗ، اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍٍ عَلِیْمٌ. وَلَءِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءًً فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ مِنْ بَعْدِ مَوْتِہَا لَیَقُوْلُنَّ: اللّٰہُ، قُلِ: الْحَمْدُ لِلّٰہِ، بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ.(العنکبوت ۲۹: ۶۱۔۶۳)
’’اگر تم اِن سے پوچھو کہ زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کررکھا ہے تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر کہاں سے اوندھے ہو جاتے ہیں!(کیا اِن کے معبود اِنھیں کھلاتے ہیں؟ ہرگز نہیں)، اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے، کشادہ کرتاہے اورجس کا چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک، اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ آسمان سے کس نے پانی برسایا، پھر اُس سے زمین کو اُس کے مردہ ہو چکنے کے بعد زندہ کر دیا تو ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو، شکر کا سزاوار بھی اللہ ہے، لیکن اِن میں سے اکثر سمجھتے نہیں ہیں۔‘‘

قرآن بتاتا ہے کہ خدا کی ربوبیت کا اقرار ایک ایسی چیز ہے جو ازل ہی سے انسان کی فطرت میں ودیعت کردی گئی ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ اِس کا اولین ظہور ایک عہدومیثاق کی صورت میں ہوا تھا۔ اِس عہد کا ذکر قرآن ایک امر واقعہ کی حیثیت سے کرتا ہے۔ انسان کو یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے، اِس لیے یہ واقعہ تو اُس کی یادداشت سے محو کر دیا گیا ہے، لیکن اِس کی حقیقت اُس کے صفحۂ قلب پر نقش اوراُس کے نہاں خانۂ دماغ میں پیوست ہے، اِسے کوئی چیز بھی محو نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ماحول میں کوئی چیز مانع نہ ہو اور انسان کو اِسے یاددلایاجائے تو وہ اِس کی طرف اِس طرح لپکتا ہے، جس طرح بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے، دراں حالیکہ اُس نے کبھی اپنے آپ کو ماں کے پیٹ سے نکلتے ہوئے نہیں دیکھا، اور اِس یقین کے ساتھ لپکتا ہے، جیسے کہ وہ پہلے ہی سے اُس کو جانتا تھا۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ خدا کا یہ اقرار اُس کی ایک فطری احتیاج کے تقاضے کا جواب تھا جو اُس کے اندر ہی موجود تھا۔ اُس نے اِسے پالیا ہے تو اُس کی نفسیات کے تمام تقاضوں نے بھی اِس کے ساتھ ہی اپنی جگہ پالی ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ انسان کے باطن کی یہ شہادت ایسی قطعی ہے کہ جہاں تک خدا کی ربوبیت کا تعلق ہے، ہر شخص مجرد اِس شہادت کی بنا پر اللہ کے حضور میں جواب دہ ہے۔ فرمایا ہے:

وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْم بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ، اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی، شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ: اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غٰفِلِیْنَ اَوْ تَقُوْلُوْٓا: اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَکُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ، اَفَتُہْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ؟ وَکَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ، وَلَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ.(الاعراف ۷: ۱۷۲۔۱۷۴)
’’(ایپیغمبر)، اِنھیں وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب تمھارے پروردگار نے بنی آدم کی پشتوں سے اُن کی نسل کو نکالا اور اُنھیں خود اُن کے اوپر گواہ ٹھیرایا تھا۔ (اُس نے پوچھا تھا): کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں؟ اُنھوں نے جواب دیا: ہاں،( آپ ہی ہمارے رب ہیں)، ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ یہ ہم نے اِس لیے کیا کہ قیامت کے دن تم کہیں یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اِس بات سے بے خبر ہی رہے یا اپنا یہ عذر پیش کرو کہ شرک کی ابتدا تو ہمارے باپ دادا نے پہلے سے کر رکھی تھی اور ہم بعد کو اُن کی اولاد ہوئے ہیں، پھر کیا آپ اِن غلط کاروں کے عمل کی پاداش میں ہمیں ہلاک کریں گے؟ ہم اِسی طرح اپنی آیتوں کی تفصیل کرتے ہیں، اِس لیے کہ لوگوں پر حجت قائم ہو اور اِس لیے کہ وہ رجوع کریں۔‘‘

انسان کے باطن کی اِس رہنمائی کے ساتھ یہ صلاحیت بھی اُسے دی گئی ہے کہ اپنے ظاہری حواس سے جو کچھ وہ دیکھتا، سنتا اور محسوس کرتا ہے، اُس سے بعض ایسے حقائق کا استنباط کرے جو ماوراے حواس ہیں۔ اِس کی ایک سادہ مثال قانون تجاذب (Law of Gravitation) ہے۔ سیب درخت سے ٹوٹتا ہے تو زمین پر گر پڑتا ہے۔ پتھر کو زمین سے اٹھانا ہو تو اِس کے لیے طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے۔ سیڑھیاں اترنے کے مقابلے میں چڑھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔ چاند اور تارے آسمان میں گردش کرتے ہیں۔ انسان اِن چیزوں کو صدیوں سے دیکھ رہا تھا، یہاں تک کہ نیوٹن نے ایک دن انکشاف کیا کہ یہ سب قانون تجاذب کا کرشمہ ہے۔ یہ قانون بذات خود ناقابل مشاہدہ ہے، لیکن اِس وقت پوری دنیا اِس کو ایک سائنسی حقیقت کے طور پر تسلیم کرتی ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ تمام معلوم حقائق سے ہم آہنگ ہے۔ اِس سے تمام مشاہدات کی توجیہ ہو جاتی ہے اور دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اِس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔

یہ، ظاہر ہے کہ محسوس سے غیر محسوس کا استنباط ہے۔ انسان جب اپنی اِس صلاحیت کو کام میں لا کر اپنا اور اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی کائنات کا مطالعہ کرتا ہے تو اُس کا یہ مطالعہ بھی اُس کے باطن میں نہاں اِسی حقیقت کی گواہی دیتا ہے۔

چنانچہ وہ دیکھتا ہے کہ اِس دنیا کی ہر چیز حسن تخلیق کا معجزانہ اظہار ہے؛ ہر چیز میں اتھاہ معنویت ہے، غیر معمولی اہتمام ہے؛ حکمت، تدبیر، منفعت اور حیرت انگیز نظم وترتیب ہے؛ بے مثال اقلیدس اور ریاضی ہے جس کی کوئی توجیہ اِس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ اِس کا ایک خالق ہے اور یہ خالق کوئی اندھی اور بہری طاقت نہیں ہے، بلکہ ایک لامحدود ذہن ہے۔ اِس لیے کہ طاقت کا ظہور اگر کسی علیم وحکیم ہستی کی طرف سے نہ ہو تو اُسے جبر محض ہونا چاہیے، مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسانہیں ہے، بلکہ اِس میں غایت درجہ موزونیت ہے، بے پناہ توافق ہے، اِس سے غیرمعمولی فوائد اور عجیب و غریب تغیرات پیدا ہوتے ہیں جو کسی اندھی اور بہری طاقت سے ہرگز پیدا نہیں ہو سکتے۔

یہ حقیقت ناقابل تردید ہے۔ اِس کو مانے بغیر انسان کی عقل کسی طرح مطمئن نہیں ہوتی۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اللہ پر ایمان ہی زمین وآسمان کی روشنی ہے۔ انسان کا سینہ اِسی سے مطلع انوار ہوتا ہے۔ یہ نہ ہوتو دنیا ایک عالم ظلمات اور اندھیر نگری ہے:

اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، مَثَلُ نُوْرِہٖ کَمِشْکٰوۃٍ فِیْہَا مِصْبَاحٌ، اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ، اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیْْتُوْنَۃٍ، لَّا شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ، یَّکَادُ زَیْْتُہَا یُضِیْٓءُُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ، نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ، یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُُ، وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ، وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْْءٍٍ عَلِیْمٌ.(النور۲۴: ۳۵)
’’ اللہ زمین اور آسمانوں کی روشنی ہے۔ (انسان کے دل میں) اُس کی اِس روشنی کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک طاق جس میں ایک چراغ ہے۔ چراغ شیشے کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے، جیسے ایک چمکتا ہوا تارا۔ وہ زیتون کے ایسے شاداب درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی۔ اُس کا تیل (ایسا شفاف ہے کہ) گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی بھڑک اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی! اللہ جس کو چاہتا ہے، اپنی اِس روشنی کی ہدایت بخشتاہے۔ اللہ یہ تمثیلیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘

یہ شواہد اگرچہ کافی تھے، مگر لوگوں پر اتمام حجت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مزید اہتمام یہ فرمایا کہ انسانیت کی ابتدا ایک ایسے انسان سے کی جس نے خدا کی بات سنی، اُس کے فرشتوں کو دیکھا اور اِس طرح حقیقت کے براہ راست مشاہدے کی گواہی دے کر دنیا سے رخصت ہوا تاکہ اُس کا یہ علم نسلاً بعد نسلٍ اُس کی ذریت کو منتقل ہوتا رہے اور خدا کا تصور انسانی زندگی کے کسی دور، زمین کے کسی خطے، کسی بستی، کسی پشت اور کسی نسل کے لیے کبھی اجنبی نہ ہونے پائے۔ قرآن کا بیان ہے کہ آدم وحوا کی تخلیق کے بعد اُن سے برتر بعض مخلوقات کو حکم دیا گیا کہ اُن کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں۔ اِس سے اُن کو یہ بتانا مقصود تھا کہ اصلی سرفرازی نور یا نار سے پیدا ہونے میں نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری میں ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ اِس حکم کی تعمیل میں یہ تمام مخلوقات سجدہ ریز ہو گئیں، مگر ابلیس نہیں مانااور اُس نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ اِس کے بعد آدم وحوا، دونوں کو ایک باغ میں رہنے کے لیے کہاگیا جہاں زندگی کی تمام ضرورتیں مہیا تھیں، مگر ایک درخت کا پھل اُن کے لیے ممنوع قرار دیا گیا۔ یہ وہی شجرۂ تناسل تھا جس کا پھل دنیا میں ہماری بقا کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِس سے اُنھیں روکا اور متنبہ کر دیا کہ ابلیس تمھارا کھلا ہوا دشمن ہے، وہ لازماً تمھیں نافرمانی پر آمادہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ چنانچہ یہی ہوا اور ابلیس نے ایک ناصح مشفق اور خیر خواہ کے بھیس میں آکر اُن سے کہا کہ حیات جاوداں اور ابدی بادشاہی کا راز اُسی درخت کے پھل میں ہے جس سے تمھیں محروم کر دیا گیا ہے۔ ابلیس کی اِس ترغیب وتحریص سے وہ آمادہ ہوئے اور اِس پھل کی خواہش میں جو غیر معمولی ہیجان انسان پر طاری ہوجاتا ہے، اُس سے مغلوب ہوکر اُسے کھا بیٹھے۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ زندگی میں جو سب سے بڑا امتحان اُنھیں پیش آئے گا، وہ انانیت اور جنسی جبلت کے راستے ہی سے پیش آئے گا۔ چنانچہ حکم دیاگیا کہ اِس باغ سے نکل کر زمین میں اتر جاؤ۔ اِس پر آدم کو ندامت ہوئی اور وہ اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہوگئے۔ اُن کے اِس رجوع کو دیکھ کر اللہ نے اُنھیں توبہ کی توفیق دی، اِس کے لیے نہایت موزوں الفاظ خود القا فرمائے اور اُن کی توبہ قبول کر لی۔ ارشاد فرمایا ہے:

وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلآئِکَۃِ: اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلآّ اِبْلِیْسَ، اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ. وَقُلْنَا: یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَکُلاَ مِنْہَا رَغَدًا حَیْْثُ شِئۡتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الْظّٰلِمِیْنَ. فَاَزَلَّہُمَا الشَّیْْطٰنُ عَنْہَا فَاَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ، وَقُلْنَا: اہْبِطُوْا، بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ، وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ، فَتَلَقّٰٓے اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْْہِ، اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.(البقرہ ۲: ۳۴۔۳۷)
’’اور (ہماری اِس اسکیم میں انسان کے امتحان کو سمجھنے کے لیے) وہ و اقعہ بھی اِنھیں سناؤ، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدہ ریز ہو گئے، ابلیس کے سوا۔ اُس نے انکارکر دیا اور اکڑ بیٹھا اور اِس طرح منکروں میں شامل ہوا۔ اور ہم نے کہا: اے آدم،تم اور تمھاری بیوی، دونوں اِس باغ میں رہو اور اِس میں سے جہاں سے چاہو، فراغت کے ساتھ کھاؤ۔ ہاں، البتہ تم دونوں اِس درخت کے پاس نہ جانا، ورنہ ظالم ٹھیروگے ۔پھر شیطان نے اُن کو وہاں سے پھسلا دیا اور جس حالت میں وہ تھے ، اُس سے اُنھیں نکلوا کر چھوڑا۔ اور ہم نے کہا : (یہاں سے) اتر جاؤ، اب تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمھیں ایک خاص وقت تک زمین پر ٹھیرنا ہے اور وہیں گزر بسرکرنی ہے۔ پھر آدم نے اپنے پروردگارسے (توبہ کے) چند الفاظ سیکھ لیے (اور اُن کے ذریعے سے توبہ کی) تو اُس کی توبہ اُس نے بڑی شفقت کے ساتھ قبول کر لی۔ بے شک، وہی بڑا معاف فرمانے والا ہے ، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ ‘‘

پھر یہی نہیں، آدم وحوا کو دنیا میں بھیجنے کے بعد بھی ایک عرصے تک یہ اہتمام کیا گیا کہ بنی آدم اگر اپنے ایمان وعمل کی قبولیت یا عدم قبولیت اِسی دنیا میں جاننا چاہیں تو جان لیں۔ یہ گویا حقیقت کو اُس زمانے کے ہر شخص کے لیے تجربے اور مشاہدے کے درجے تک پہنچا دینا تھا تاکہ اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی اِس گواہی میں شامل ہو جائے۔اِس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور قربانی پیش کرتے، پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور قبولیت کی علامت کے طور پر اُسے کھالیتی تھی۔ سورۂ آل عمران (۳) کی آیت ۱۸۳ میں اِس نوعیت کی قربانی کا ذکر ہے۔ آدم کے بیٹے ہابیل کا قتل اِسی طرح کے ایک واقعے کے نتیجے میں ہوا تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ہابیل بھیڑ بکریوں کا چرواہا اور قابیل کسان تھا۔ ایک دن قابیل اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خدا کے حضور میں لایا اور ہابیل اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا۔ یہ ہدیے پیش کیے گئے تو ہابیل اور اُس کا ہدیہ قبول کرلیاگیا، لیکن قابیل اور اُس کا ہدیہ قبول نہیں کیاگیا۔ اِس پر قابیل نہایت غضب ناک ہوااور اُس نے اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ قرآن میں یہ واقعہ اِس طرح بیان ہوا ہے:

وَاتْلُ عَلَیْْہِمْ نَبَاَ ابْنَیْْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِ. قَالَ: لَاَقْتُلَنَّکَ، قَالَ: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ، لَئِنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ، مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْْکَ لِاَقْتُلَکَ، اِنِّیْٓ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ. اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ تَبُوْٓاَ بِاِثْمِیْ وَاِثْمِکَ فَتَکُوْنَ مِنْ اَصْحٰبِ النَّارِ وَذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ، فَطَوَّعَتْ لَہٗ نَفْسُہٗ قَتْلَ اَخِیْہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.(المائدہ۵: ۲۷۔۳۰)
’’اِنھیں آدم کے دو بیٹوں کا قصہ سناؤ، ٹھیک ٹھیک، جب اُن دونوں نے قربانی پیش کی تو اُن میں سے ایک کی قربانی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی۔ (پھر جس کی قربانی قبول نہیں کی گئی)، اُس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ دوسرے نے جواب دیا: اللہ تو اپنے اُنھی بندوں کی قربانی قبول کرتا ہے جو اُس سے ڈرنے والے ہوں۔ تم مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ مجھ پر اٹھاؤ گے تو بھی میں تمھارے قتل کے لیے تم پر اپنا ہاتھ اٹھانے والا نہیں ہوں، میں اللہ رب العٰلمین سے ڈرتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ (تم نے میرے قتل کا ارادہ کر لیا ہے تو) اپنے اور میرے گناہ کا بار تمھی لے جاؤ اور دوزخی بن کر رہو۔ اِس طرح کے ظالموں کی یہی سزا ہے۔ (اِس پر بھی وہ باز نہیں آیا اور ) اُس کے نفس نے بالآخر اپنے بھائی کے قتل پر اُس کو آمادہ کر لیا اور اُسے مار کر وہ اُن لوگوں میں شامل ہو گیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘

اِس سے واضح ہے کہ خدا کا وجود ایک بدیہی حقیقت ہے جس کا تصور انسان اپنے آبا سے لے کر آیا ہے اور جس کی گواہی نفس اور مادہ، دونوں اپنے وجود سے دیتے ہیں۔ لیکن خداکی ذات کیا ہے؟ اُس کی صفات کیا ہیں؟ وہ سنن کیا ہیں جو اُس نے اپنی ذات کے لیے مقرر کر رکھے ہیں؟انسان اگر اپنے پروردگار کی معرفت حاصل کرنا چاہے تو یہ سوالات اُس کے ذہن میں لازماً پیدا ہوتے ہیں۔ ایمان کے لیے یہ معرفت ضروری ہے۔


B