ایمان ایک قدیم دینی اصطلاح ہے۔ ’اٰمن‘ کا مادہ عبرانی زبان میں بھی موجود ہے اور صدق و اعتماد کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اِسی سے ’اٰمین‘ کا کلمہ ہے جس سے ہم کسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ قرآن میں یہ تعبیر اِسی مفہوم کے لیے آئی ہے۔ چنانچہ جب کسی چیز کو دل کے پورے یقین کے ساتھ تسلیم کر لیا جائے تو اُسے ایمان کہا جاتا ہے۔ اِس کی اصل خدا پر ایمان ہے۔ انسان اگر اپنے پروردگار کو اِس طرح مان لے کہ تسلیم و رضا کے بالکل آخری درجے میں اپنے دل و دماغ کو اُس کے حوالے کر دے توقرآن کی اصطلاح میں وہ مومن ہے۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے:
’’...پس وہ یقین جو خشیت، توکل اور اعتقاد کے تمام لوازم و شرائط کے ساتھ پایا جائے، ایمان ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر، اُس کی آیات پر، اُس کے احکام پر ایمان لائے ، اپنا سب کچھ اُس کو سونپ دے، اُس کے فیصلوں پر راضی ہو جائے، وہ مومن ہے۔‘‘ (نظام القرآن ۳۹۳)
ایمان کی یہی حقیقت ہے جس کی بنا پر قرآن تقاضا کرتا ہے کہ دل کی تصدیق کے ساتھ انسان کے قول و عمل کو بھی اُس پر گواہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ ہر نیکی کو وہ ایمان کا خاصہ اور ایمان والوں کا لازمی وصف بتاتا ہے۔ جن روایتوں میں اِس طرح کی چیزیں بیان ہوئی ہیں کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں، =1= اور ایمان کی ستر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں جن میں سے ایک شرم و حیا بھی ہے، =2= اور جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُسے چاہیے کہ ہم سایے سے حسن سلوک کرے، مہمان کی عزت کرے اور بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے، =3= وہ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر ایک طرح کی وضاحت کے طور پر آتا ہے او راِس کی نوعیت بالکل وہی ہے جو عام پر خاص کے عطف کی ہوتی ہے۔ امام فراہی لکھتے ہیں:
’’...ایمان کا محل دل اور عقل ہے اور عقل و دل کے معاملات میں انسان نہ صرف دوسروں کو دھوکا دے سکتا ہے، بلکہ بسااوقات خود بھی دھوکے میں رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ مومن ہے، حالاں کہ وہ مومن نہیں ہوتا۔ اِس وجہ سے ایمان کے دو شاہد قرار دیے گئے: ایک قول، دوسرے عمل۔ اور چونکہ قول بھی جھوٹ ہو سکتا ہے، اِس وجہ سے صرف زبان سے اقرار کرنے والا مومن نہیں قرا ردیا گیا، بلکہ ضروری ہوا کہ آدمی کا عمل اُس کے ایمان کی تصدیق کرے۔‘‘(نظام القرآن ۳۹۶)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ، الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ. اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا، لَہُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ.(الانفال ۸: ۲۔۴)
’’(یاد رکھو)، اہل ایمان تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُس کی آیتیں اُنھیں سنائی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ (ہر معاملے میں) اپنے پروردگار ہی پر بھروسا رکھتے ہیں۔ وہ جو نماز کا اہتمام کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُنھیں دیا ہے، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مومن ہیں۔ اِن کے پروردگار کے پاس اِن کے لیے درجے ہیں، مغفرت ہے اور عزت کی روزی ہے۔‘‘
اِسی طرح فرمایا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ. اُولٰٓءِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ.(الحجرات ۴۹: ۱۵)
’’ (یاد رکھو)، مومن تو درحقیقت وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے، پھر شک میں نہیں پڑے اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہی سچے لوگ ہیں۔‘‘
اِس میں شبہ نہیں کہ قانون کی نگاہ میں ہر وہ شخص مومن ہے جو زبان سے اسلام کا اقرار کرتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان کم یا زیادہ بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن جہاں تک حقیقی ایمان کا تعلق ہے، وہ ہرگز کوئی جامد چیز نہیں ہے۔ اوپر انفال کی جو آیات ہم نے نقل کی ہیں، اُن سے واضح ہے کہ اللہ کے ذکر اور اُس کی آیتوں کی تلاوت اور انفس و آفاق میں اُن کے ظہور سے اِس میں افزونی ہوتی ہے۔ قرآن مجید نے اِسے ایک ایسے درخت سے تشبیہ دی ہے جس کی جڑیں زمین کے اعماق میں اتری ہوئی اور شاخیں آسمان کی وسعتوں میں پھیلی ہوئی ہوں:
اَلَمْ تَرَکَیْْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً، کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ، اَصْلُہَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُہَا فِی السَّمَآءِ، تُؤْتِیْٓ اُکُلَہَا کُلَّ حِیْنٍ م بِاِذْنِ رَبِّہَا، وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.(ابراہیم ۱۴: ۲۴۔۲۵)
’’کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی ہے؟ وہ ایک شجرۂ طیبہ کے مانند ہے جس کی جڑیں زمین میں اتری ہوئی اور جس کی شاخیں فضا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کے اذن سے اپنا پھل ہر فصل میں دیتا رہتا ہے۔(یہ کلمۂ طیبہ کی مثال ہے) اور اللہ لوگوں کے لیے تمثیلیں بیان فرماتا ہے تاکہ وہ یاددہانی حاصل کریں۔‘‘
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس ارشاد خداوندی کی وضاحت اِس طرح فرمائی ہے:
’’آیات میں کلمۂ طیبہ سے مراد، ظاہر ہے کہ کلمۂ ایمان ہے۔ اِس کی تمثیل اللہ تعالیٰ نے ایسے ثمر بار درخت سے دی ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری اتری ہوئی اور اُس کی شاخیں فضا میں خوب پھیلی ہوئی ہوں اور وہ برابر ہر موسم میں اپنے رب کے فضل سے ثمر باری کر رہا ہو۔ زمین میں جڑوں کے گہرے اترنے سے مقصود فطرت انسانی کے اندر اُس کا رسوخ و استحکام ہے کہ وہ گھورے پر اگے ہوئے پودے کے مانند نہیں ہے جس کی کوئی جڑ نہ ہو، حوادث کا کوئی معمولی سا جھونکا بھی اُس کو اکھاڑ پھینکے، جیسا کہ کلمۂ کفر کی بابت فرمایا ہے کہ ’اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ، مَا لَھَا مِنْ قَرَارٍ‘ =4= (جو زمین کے اوپر ہی سے اکھاڑ لیا جائے، اُسے ذرا بھی ثبات حاصل نہ ہو)، بلکہ وہ ایک تناور درخت کے مانند اتنی پایدار اور گہری جڑیں رکھتا ہے کہ اگراُس پر سے طوفان بھی گزر جائیں، جب بھی وہ ذرا متاثر نہ ہو۔ پھر اُس کی فیض بخشی اور ثمر باری کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ٹھونٹھ درخت کے مانند نہیں ہے، جس سے نہ کسی کو سایہ حاصل ہو نہ پھل، بلکہ اُس کی فضا میں پھیلی ہوئی سایہ دار شاخوں کے سایے میں قافلے آرام کرتے اور ہر موسم میں اُس کے پھلوں سے غذا اور آسودگی حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ اُن فیوض و برکات کی طرف ہے جو ایک صاحب ایمان کے ایمان سے خود اُس کی زندگی اور اُس کے توسط سے اُن لوگوں کی زندگیوں پر مترتب ہوتے ہیں جو اُس سے کسی نوعیت سے قرب کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ یہ فیوض و برکات لازماً علمی اور عملی، دونوں ہی قسم کے ہوتے ہیں جو اُس کے ایمان کی شہادت دیتے ہیں اور اُن سے اُس کو اللہ تعالیٰ کی طرف رفعت و سرفرازی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (تزکیۂ نفس ۳۲۵)
یہی معاملہ ایمان میں کمی کا ہے ۔انسان اگر اپنے ایمان کو علم نافع اور عمل صالح سے برابر بڑھاتے رہنے کے بجاے اُس کے تقاضوں کے خلاف عمل کرنا شروع کر دے تو یہ کم بھی ہوتا ہے، بلکہ بعض حالات میں بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ’ھُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَءِذٍ اَقْرَبُ مِنْھُمْ لِلْاِیْمَانِ‘ =5= (اُس دن ایمان سے زیادہ وہ کفر کے قریب تھے) اور اِس طرح کی دوسری آیات سے یہی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ قرآن نے صراحت فرمائی ہے کہ جو لوگ گناہ ہی کو اوڑھنا اور بچھونا بنا لیتے اور وہ اُن کی زندگی کا احاطہ کر لیتا ہے یا اِس حد تک سرکش ہو جاتے ہیں کہ حدود الٰہی کو جانتے بوجھتے پامال کرتے ہیں یا کسی مسلمان کو عمداً قتل کر دیتے ہیں، اُن کے ایمان کا اعتبار نہ ہو گا اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں ڈال دیے جائیں گے، =6= الاّ یہ کہ اللہ ہی اپنی حکمت کے مطابق کسی کے لیے عفو و درگذر کا فیصلہ کرے۔ =7= چنانچہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ پیغمبر کی اطاعت سے انحراف کے بعد ایمان کا کوئی دعویٰ بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہے:
فَلاَ وَرَبِّکَ، لاَ یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْْنَہُمْ، ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.(النساء ۴: ۶۵)
’’ لیکن نہیں ،(اے پیغمبر)، تمھارے پروردگار کی قسم، یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہوسکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اُس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور دل و جان سے اُس کے آگے سرتسلیم خم کر دیں۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات بھی اِسی حقیقت کی وضاحت کرتے ہیں۔ فرمایا ہے:
زانی جب زنا کرتا ہے تو اُس وقت وہ مومن نہیں ہوتا اور چور جب چوری کرتا ہے تو اُس وقت وہ مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا جب شراب پیتا ہے تو اُس وقت وہ مومن نہیں ہوتا۔ =8=
تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُس کے بیٹے، اُس کے باپ اور دوسرے سب لوگوں سے اُس کو زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ =9=
اُس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، بندہ اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔=10=
آدمی (اپنے دائرۂ اختیار میں) برائی دیکھے تو اُس کو ہاتھ سے مٹا دے، اِس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرے، یہ بھی نہ کر سکے تو دل میں برا سمجھے، لیکن اِس کے بعد پھر ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔=11=
اِس سے واضح ہے کہ ایمان اور عمل لازم و ملزوم ہیں۔ لہٰذا جس طرح ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے، اُسی طرح عمل کے ساتھ ایمان بھی ضروری ہے۔ نجات کے لیے قرآن نے ہر جگہ اِسے شرط اولین قرار دیا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اگر جانتے بوجھتے اپنے پروردگار کو اور اُس کی آیتوں کو ماننے سے انکار کر دے یا اُس پر افترا کرے اور کسی کو اُس کا شریک ٹھیرادے تو یہ استکبار ہے اور استکبار کے بارے میں قرآن نے صاف کہہ دیا ہے کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں داخل ہو سکتا ہے، لیکن کوئی مستکبر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا:
اِنَّ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَاسْتَکْبَرُوْا عَنْہَا لاَ تُفَتَّحُ لَہُمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلاَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ، وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُجْرِمِیْنَ. لَہُمْ مِّنْ جَہَنَّمَ مِہَادٌ وَّمِنْ فَوْقِہِمْ غَوَاشٍ، وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف ۷: ۴۰۔۴۱)
’’یہ قطعی ہے کہ جنھوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور تکبر کرکے اُن سے منہ موڑا ہے، اُن کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے، جب تک اونٹ سوئی کے ناکے سے نہ گزر جائے۔ (سن لو)، ہم مجرموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۔ اُن کے لیے دوزخ کا بچھونا اور اوپر سے اُسی کا اوڑھنا ہو گا۔ (سن لو)، ہم ظالموں کو اِسی طرح سزا دیتے ہیں۔ ‘‘
چنانچہ فرمایا ہے کہ ایمان سے محرومی کے بعد ہر عمل بے بنیاد ہے۔ اُس کی مثال پھر اُس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑا کر بالکل صاف کر دیا ہو۔ قیامت کے دن اُس کا ایک ذرہ بھی اُن کے پاس اِس لائق نہ رہے گا کہ اُسے خدا کے حضور پیش کر سکیں۔ اُن کی ساری کمائی وہاں خاک ہو جائے گی، صرف اُس کا وبال باقی رہے گا:
مَثَلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّہِمْ اَعْمَالُہُمْ کَرَمَادِنِ اشْتَدَّتْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍ، لاَ یَقْدِرُوْنَ مِمَّا کَسَبُوْا عَلٰی شَیْْءٍ. ذٰلِکَ ہُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ.(ابراہیم۱۴: ۱۸)
’’جن لوگوں نے اپنے پروردگار سے کفر کیا ہے، اُن کے اعمال کی مثال اُس راکھ کی سی ہے جس پر آندھی کے دن تند و تیز ہوا چل جائے۔ اُنھوں نے جو کچھ کیا ہو گا، اُس میں سے کچھ بھی نہ پا سکیں گے۔ یہی دور کی گمراہی ہے۔‘‘
سورۂ نور میں ایمان کی دولت سے محروم لوگوں کے اعمال کی مثال کسی چٹیل صحرا کے سراب سے دی گئی ہے جس کی حقیقت فریب نظر سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پیاسا پانی سمجھ کر اُس کی طرف لپکتا ہے، مگر جب اُس کے قریب پہنچتا ہے تو راز کھلتا ہے کہ جس چیز کو وہ لہریں لیتا ہوا دریا سمجھ رہا تھا، وہ درحقیقت چمکتی ہوئی ریت تھی:
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَعْمَالُہُمْ کَسَرَابٍم بِقِیْعَۃٍ یَّحْسَبُہُ الظَّمْاٰنُ مَآءً حَتّآی اِذَا جَآءَ ہٗ لَمْ یَجِدْہُ شَیْْءًا وَّوَجَدَ اللّٰہَ عِنْدَہٗ فَوَفّٰہُ حِسَابَہٗ، وَاللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.(۲۴: ۳۹)
’’اِس کے برخلاف جو لوگ (اِس روشنی کے) منکر ہیں، اُن کے اعمال کی تمثیل یہ ہے کہ جیسے چٹیل صحرا میں سراب جس کو پیاسا پانی گمان کرے، یہاں تک کہ جب اُس کے پاس آئے تو اُسے کچھ نہ پائے۔ البتہ وہاں اللہ کو پائے، پھر وہ اُس کا حساب پورا پوراچکا دے اور اللہ کو حساب چکاتے کبھی دیر نہیں لگتی۔‘‘
یہ ایمان ہے جس کا تقاضا قرآن اپنے ماننے والوں سے کرتا ہے اور یہ پانچ چیزوں سے عبارت ہے :
۱۔اللہ پر ایمان
۲۔فرشتوں پر ایمان
۳۔ نبیوں پر ایمان
۴۔ کتابوں پر ایمان
۵۔روزجزا پر ایمان
ارشاد فرمایا ہے:
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ، لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ، وَقَالُوْا: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، غُفْرَانَکَ رَبَّنَا، وَاِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ.(البقرہ۲: ۲۸۵)
’’ ہمارے پیغمبر نے تو اُس چیز کو مان لیا جو اُس کے پروردگار کی طرف سے اُس پر نازل کی گئی ہے ، اور اُس کے ماننے والوں نے بھی ۔ یہ سب اللہ پر ایمان لائے ، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ۔(اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا ۔ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور (جانتے ہیں کہ) ہمیں لوٹ کر تیرے ہی حضور میں پہنچنا ہے۔‘‘