HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

رسوم و آداب

انسان کی تہذیب نفس رہن سہن کے جن طریقوں اور تمدن کے جن مظاہر سے نمایاں ہوتی ہے، اُنھیں ہم اصطلاح میں ’رسوم و آداب‘ کہتے ہیں ۔انسانی معاشرت کا کوئی دور اِن رسوم و آداب سے خالی نہیں رہا۔ اِنھیں ہم ہر قبیلے، ہر قوم اور ہر تہذیب میں یکساں رائج اور ایک عمومی دستور کی حیثیت سے یکساں جاری دیکھتے ہیں ۔ اقوام و ملل کی پہچان ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ تر اِنھی سے قائم ہوتی ہے۔ انبیا علیہم السلام جو دین لے کر آئے ہیں، وہ بھی اپنے ماننے والوں کو بعض رسوم و آداب کا پابند کرتا ہے ۔ دین کا مقصد تزکیۂ نفس ہے ، لہٰذا دین کے یہ رسوم و آداب بھی اِسی مقصد کو سامنے رکھ کر مقرر کیے گئے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو اِن میں سے زیادہ تر دین ابراہیمی کی روایت کے طور پر عرب میں رائج تھے ۔ چند چیزوں کے سوا آپ نے اِن میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔ یہ قرآن سے پہلے ہیں اور اِن کی حیثیت ایک سنت کی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر و تصویب کے بعد صحابۂ کرام کے اجماع اور تواتر عملی سے امت کو منتقل ہوئی ہے ۔ اِن کا ماخذ اب امت کا اجماع ہے اور یہ سب اِسی بنیاد پر پوری امت میں ہر جگہ دین تسلیم کیے جاتے ہیں ۔ انبیا علیہم السلام کے مقرر کردہ یہی رسوم و آداب ہم تفصیل کے ساتھ یہاں بیان کریں گے۔

۱ ۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔

اِن میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے اعتراف و اقرار اور اُن میں برکت کی دعا کے لیے ہے اور دوسری چیز اِس حقیقت کی ہمہ وقت یاددہانی کے لیے کہ جنت کی نعمتیں قیامت کے دن جن لوگوں کو ملیں گی ، اُن کا نامۂ اعمال اُن کے دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا ۔بندۂ مومن جب اِس طرح کے مواقع پر دائیں کی رعایت کرتا ہے تو یہ گویا اُس کی طرف سے ایک طرح کا علامتی اظہار ہوتا ہے کہ قیامت میں بھی وہ اصحاب الیمین ہی کے زمرے میں شامل ہونا چاہتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں انبیا علیہم السلام کی اِس سنت پر عمل پیرا ہونے کی تاکید اِس طرح فرمائی ہے :

بسم اللّٰہ وکل بیمینک.(بخاری، رقم۵۳۷۶) 
’’ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ۔‘‘
إذا أکل أحدکم فلیأکل بیمینہ، وإذا شرب فلیشرب بیمینہ.(مسلم، رقم ۵۲۶۵) 
’’تم میں سے جب کوئی کھائے تو اُسے دائیں ہاتھ سے کھانا چاہیے اورپیے تو دائیں ہاتھ سے پینا چاہیے۔‘‘

۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم ‘اور اُس کا جواب ۔

یہ دنیا اور آخرت میں سلامتی کی دعا ہے جو مسلمان ملاقات کے موقع پر ایک دوسرے کے لیے کرتے ہیں ۔پہل کرنے والا اِس مقصد کے لیے ’السلام علیکم‘ اور جواب دینے والا ’وعلیکم السلام‘ کہتا ہے ۔اِس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہوا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی ۔ اِس کا ادب آپ نے یہ بیان فرمایا ہے :

یسلم الصغیر علی الکبیر والمار علی القاعد والقلیل علی الکثیر.(بخاری ، رقم ۶۲۳۱) 
’’چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا ،چلنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو سلام میں پہل کریں گے ۔‘‘

۳ ۔ چھینک آنے پر الحمد للّٰہاور اُس کے جواب میں ’ یرحمک اللّٰہ۔

انسان کے وجود میں چھینک ایک عام اختلال سے نجات کا ذریعہ ہے ۔اللہ تعالیٰ کے لیے اِس پر شکر گزاری اور اِس کے جواب میں رحمت کی دعا کا یہ طریقہ انبیا علیہم السلام کے دین میں اِس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ بندۂ مومن دین کی اِس حقیقت پر ہمیشہ متنبہ رہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت صرف اُس کے شکر گزار بندوں ہی کے لیے خاص ہے ۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کی ابتدا نفخ روح کے بعد سیدناآدم علیہ السلام کی اولین بیداری سے ہوئی۔ =1= عربی زبان میں اِس عمل کے لیے ’ تشمیت ‘ کا لفظ دلیل ہے کہ یہ ایک قدیم سنت ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں اِسی طرح برقرار رکھا ہے۔آپ کا ارشاد ہے :

إذا عطس أحدکم فلیقل: الحمد للّٰہ، و لیقل لہ أخوہ أو صاحبہ: یرحمک اللّٰہ، فإذا قال لہ: یرحمک اللّٰہ فلیقل: یھدیکم اللّٰہ و یصلح بالکم.(بخاری، رقم ۶۲۲۴) 
’’تم میں سے کسی کوچھینک آئے تو اُسےالحمد للّٰہ  =2= کہنا چاہیے اور اُس کا بھائی یاساتھی سنے تو اُسے جواب میں کہنا چاہیے:یرحمک اللّٰہ۔ =3= ‘ پھر جب وہیرحمک اللّٰہ کہے تو سننے والے کو چاہیے کہ وہ کہے : اللہ تمھیں ہدایت دے اور تمھارا حال درست رکھے۔‘‘

۴ ۔ مونچھیں پست رکھنا ۔ ۵ ۔زیر ناف کے بال مونڈنا۔۶ ۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۷۔بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا ۔ ۸ ۔لڑکوں کا ختنہ کرنا۔

یہ پانچوں چیزیں آداب کے قبیل سے ہیں ۔بڑی بڑی مونچھیں انسان کی ہیئت میں ایک نوعیت کا متکبرانہ تاثر پیدا کرتی ہیں ۔پھر کھانے اور پینے کی اشیا منہ میں ڈالتے ہوئے اُن سے آلودہ بھی ہو جاتی ہیں ۔ بڑھے ہوئے ناخن میل کچیل کو اپنے اندرسمیٹنے کے علاوہ درندوں کے ساتھ مشابہت کا تاثر نمایاں کرتے ہیں ۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ مونچھیں پست ہوں اور بڑھے ہوئے ناخن کاٹ دیے جائیں ۔ باقی سب چیزیں بدن کی طہارت کے لیے ضروری ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اِن کا اِس قدر اہتمام تھا کہ اِن میں سے بعض کے لیے آپ نے وقت کی تحدید فرمائی ہے ۔سیدنا انس کی روایت ہے:

وقت لنا في قص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الإبط وحلق العانۃ أن لا نترک أکثر من أربعین لیلۃ. (مسلم، رقم ۵۹۹) 
’’ہمارے لیے مونچھیں اور ناخن کاٹنے ، بغل کے بال صاف کرنے اور زیر ناف کے بال مونڈنے کا وقت مقرر کیا گیا کہ اُن پرچالیس دن سے زیادہ نہیں گزرنے چاہییں۔‘‘

زمانۂ بعثت سے پہلے بھی عرب بالعموم اِن پر عمل پیرا تھے۔ =4= یہ سنن فطرت ہیں جنھیں انبیا علیہم السلام نے تزکیہ وتطہیر کے لیے اِن کی اہمیت کے پیش نظر دین کا لازمی جز بنا دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

الفطرۃ خمس: الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الاٰباط.(بخاری، رقم۵۸۹۱) 
’’پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کرنا،زیر ناف کے بال مونڈنا،مونچھیں پست رکھنا، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا اور بغلوں کے بال صاف کرنا۔‘‘

۹۔ ناک ، منہ اور دانتوں کی صفائی ۔

انبیا علیہم السلام اپنے ماننے والوں میں پاکیزگی اور طہارت کا جو ذوق پیدا کرنا چاہتے ہیں، یہ اُسی کا تقاضا ہے کہ اِس صفائی کو بھی اُنھوں نے ایک سنت کی حیثیت دی ہے ۔ تاریخ میں اِس کا ذکر اہل عرب کے دینی شعار کے طور پرہوتا ہے۔ =5= نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی جو روایت امت کو منتقل ہوئی ہے ،اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر وضو کے موقع پر آپ نہایت اہتمام کے ساتھ ’ مضمضۃ =6= اور استنشاق =7= کرتے تھے ۔ دانتوں کی صفائی کا بھی آپ کو ایسا ہی اہتمام تھا ۔یہاں تک کہ آپ نے فرمایا :

لولا أن أشق علی أمتي لأمرتہم بالسواک مع کل صلٰوۃ.(بخاری ، رقم۸۸۷) 
’’مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت کو مشقت میں ڈال دوں گا تو ہر نماز کے وقت اُنھیں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔‘‘

۱۰ ۔ استنجا ۔

بول و براز کے بعد پوری احتیاط کے ساتھ جسم کی صفائی بھی دین ابراہیمی کے سنن میں سے ہے۔  =8= حالات کے لحاظ سے یہ صفائی پانی سے بھی ہو سکتی ہے اور مٹی کے ڈھیلوں یا اِس طرح کی کسی دوسری چیز سے بھی۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس مقصد کے لیے بالعموم پانی ہی استعمال کرتے تھے ۔ سیدنا ابو ہریرہ کا بیان ہے :

کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أتی الخلاء، أتیتہ بماء في تور أو رکوۃ فاستنجی ثم مسح یدہ علی الأرض.(ابوداؤد ، رقم ۴۵) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے جاتے تو میں کسی برتن یا چھاگل میں پانی لے کر آتا ، آپ اُس سے استنجا کرتے اور صفائی کے لیے ہاتھ زمین پر رگڑتے ۔‘‘

۱۱۔ حیض و نفاس کے بعد غسل ۔

یہ بھی ایک قدیم سنت ہے ۔ حیض و نفاس کے بعد خون آنا بند ہو جائے تو عورتوں کو طہارت کے لیے یہ غسل لازماًکرنا چاہیے ۔ قرآن میں بھی اللہ تعالیٰ نے جہاں اِس حالت میں زن و شو کے تعلق کا حکم بیان کیا ہے ، وہاں اِس کا ذکر اِس طرح فرمایا ہے :

وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ، قُلْ: ھُوَ اَذًی، فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ ، فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ، اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ.(البقرہ ۲: ۲۲۲) 
’’اور (نکاح کا ذکر ہوا ہے تو) وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ (عورتوں کے) حیض کا کیا حکم ہے ؟کہہ دو: یہ ایک طرح کی نجاست ہے۔ چنانچہ حیض کی حالت میں عورتوں سے الگ رہو اور جب تک وہ خون سے پاک نہ ہو جائیں ، اُن کے قریب نہ جاؤ۔ پھر جب وہ نہا کر پاکیزگی حاصل کر لیں تو اُن سے ملاقات کرو، جہاں سے اللہ نے تمھیں (اُس کا) حکم دیا ہے۔ یقیناً اللہ اُن لوگوں کو پسند کرتا ہے جو توبہ کرنے والے ہوں اور اُن کو جو پاکیزگی اختیار کرنے والے ہوں۔‘‘

استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’اِس آیت میں طُھْر اور ’ تَطَھُّر دو لفظ استعمال ہوئے ہیں ۔’ طُھْر کے معنی تو یہ ہیں کہ عورت کی ناپاکی کی حالت ختم ہو جائے اور خون کا آنا بند ہو جائے اور تَطَھُّر کے معنی یہ ہیں کہ عورت نہا دھو کر پاکیزگی کی حالت میں آ جائے ۔ آیت میں عورت سے قربت کے لیے ’ طُھْرکو شرط قرار دیا ہے اور ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ جب وہ پاکیزگی حاصل کر لیں تب اُن کے پاس آؤ، جس سے یہ بات نکلتی ہے کہ چونکہ قربت کی ممانعت کی اصلی علت خون ہے ،اِس وجہ سے اُس کے انقطاع کے بعد یہ پابندی تو اٹھ جاتی ہے ،لیکن صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب عورت نہا دھو کر پاکیزگی حاصل کر لے تب اُس سے ملاقات کرو۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۵۲۶)

۱۲۔ غسل جنابت ۔

انبیا علیہم السلام کے دین میں اِس غسل کا حکم بھی ہمیشہ رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے خاص کر نماز سے پہلے اِس کی تاکید اِس طرح فرمائی ہے :

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، لاَ تَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ، وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا.(النساء ۴: ۴۳) 
’’ایمان والو، تم نشے میں ہو تو نماز کی جگہ کے قریب نہ جاؤ،یہاں تک کہ جو کچھ کہہ رہے ہو، اُسے سمجھنے لگو اور اِسی طرح جنابت کی حالت میں بھی، جب تک غسل نہ کر لو، الاّ یہ کہ صرف گزر جانا پیش نظر ہو۔‘‘

سورۂ مائدہ میں یہی حکم ’ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا  =9= کے الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔جنابت سے یہاں نجاست کی وہ حالت مراد ہے جو کسی شخص کو مجامعت یا انزال سے لاحق ہوتی ہے ۔ اِس کے بعد طہارت کے لیے غسل ضروری ہے ۔ یہ غسل پورے اہتمام کے ساتھ کرنا چاہیے ۔قرآن میں ’ اِطَّھَّرُوْا‘ اورتَغْتَسِلُوْاکے الفاظ عربیت کی رو سے اِسی پر دلالت کرتے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اسوہ اِس غسل سے متعلق روایتوں میں بیان ہوا ہے ،اُس کی تفصیل یہ ہے :

پہلے ہاتھ دھوئے جائیں ،

پھر شرم گاہ کو بائیں ہاتھ سے دھو کر اچھی طرح صاف کیا جائے ،

پھر پورا وضو کیا جائے ،سواے اِس کے کہ پاؤں آخر میں دھونے کے لیے چھوڑ دیے جائیں،

پھر بالوں میں انگلیاں ڈال کر سر پر اِس طرح پانی ڈالا جائے کہ وہ اُن کی جڑوں تک پہنچ جائے،

پھر سارے بدن پر پانی بہایا جائے،

آخر میں پاؤں دھولیے جائیں۔

اِس سلسلہ کی جو روایات امہات المومنین سیدہ عائشہ اور سیدہ میمونہ سے ہم تک پہنچی ہیں ، وہ ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں :

عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنھا قالت : کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا اغتسل من الجنابۃ یبدأ فیغسل یدیہ، ثم یفرغ بیمینہ علی شمالہ فیغسل فرجہ ، ثم یتوضأ وضوء ہ للصلٰوۃ ، ثم یأخذ الماء فیدخل أصابعہ في أصول الشعر حتی إذا راٰی أن قد استبرأ حفن علی رأسہ ثلاث حفنات، ثم أفاض علی سائر جسدہ، ثم غسل رجلیہ.( مسلم، رقم ۷۱۸) 
’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے ، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈال کر اُس سے اپنی شرم گاہ صاف کرتے ،پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر پانی لیتے اور اپنی انگلیاں بالوں کی جڑوں میں ڈال دیتے، یہاں تک کہ جب دیکھ لیتے کہ پانی جلد تک پہنچ گیا ہے تو اپنے سر پر تین چلو پانی انڈیلتے،پھر سارے جسم پر پانی بہا لیتے، پھر دونوں پاؤں دھوتے۔‘‘
عن ابن عباس ، قال: حدثتني خالتي میمونۃ قالت: أدنیت لرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم غسلہ من الجنابۃ ، فغسل کفیہ مرتین أو ثلاثًا، ثم أدخل یدہ في الإناء ، ثم أفرغ بہ علی فرجہ وغسلہ بشمالہ، ثم ضرب بشمالہ الأرض فدلکھا دلکًا شدیدًا، ثم توضأ وضوء ہ للصلٰوۃ ، ثم أفرغ علی رأسہ ثلاث حفنات ملء کفہ، ثم غسل سائر جسدہ، ثم تنحی عن مقامہ ذلک فغسل رجلیہ. (مسلم، رقم ۷۲۲) 
’’ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میری خالہ سیدہ میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غسل جنابت کے لیے پانی رکھا تو آپ نے پہلے دونوں ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور اُس سے اپنی شرم گاہ پر پانی بہایا اور اُسے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنا یہ ہاتھ زمین پر اچھی طرح رگڑا، پھر نماز کے لیے جس طرح وضو کرتے ہیں ، اُس طرح وضو کیا، پھر چلو میں بھر کر تین مرتبہ پانی سر پر بہایا، پھر سارا بدن دھویا، پھر اُس جگہ سے ہٹے اور دونوں پاؤں دھوئے ۔‘‘

۱۳۔ میت کا غسل ۔

یہ غسل بھی انبیا علیہم السلام کے سنن میں سے ہے۔  =10= اِس کا تقاضا اگرچہ بدن پر اچھی طرح پانی بہا دینے ہی سے پورا ہو جاتا ہے، لیکن دین میں تزکیہ وتطہیر کی جو اہمیت ہے ،اُس کے پیش نظر میت کو ،جس حد تک ممکن ہو ،پورے اہتمام کے ساتھ غسل دینا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر جو ہدایات اِس کے لیے دی ہیں، وہ یہ ہیں:

اغسلنھا ثلاثًا أو خمسًا أو أکثر من ذلک، إن رأیتن ذلک بماء وسدر، واجعلن في الاٰخرۃ کافورًا او شیئًا من کافور. (بخاری ، رقم ۱۲۵۸) 
’’اِس (بچی) کو تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ یا اگر مناسب سمجھو تو اِس سے بھی زیادہ مرتبہ پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دو اور آخری مرتبہ کے غسل میں کافور یا فرمایا کہ کچھ کافور بھی پانی میں شامل کر لو۔‘‘
اغسلنہا وترًا: ثلاثًا أوخمسًا أوسبعًا، ابدأن بمیامنہا ومواضع الوضوء منہا.( بخاری، رقم ۱۲۵۴) 
’’اِس (بچی) کو طاق عدد میں غسل دو : تین یا پانچ یا سات مرتبہ اور دائیں سے شروع کرو اور اُن اعضا سے جن پر وضو کیا جاتا ہے۔‘‘

۱۴۔ تجہیز و تکفین ۔

غسل کے بعد میت کو کفن دینا بھی دین ابراہیمی کی سنت ہے ۔ یہ اگرچہ کپڑے کی ایک چادر بھی ہو سکتی ہے جو اُسے پہنا دی جائے ،لیکن میت کے اکرام کا تقاضا ہے کہ اِس میں بھی اہتمام کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سوتی کپڑے کی تین یمنی چادروں کاکفن پہنایا گیا جن میں کوئی قمیص یا عمامہ نہیں تھا۔ =11= چنانچہ آپ کا ارشاد ہے:

إذا کفن أحدکم أخاہ فلیحسن کفنہ.(مسلم، رقم ۲۱۸۵) 
’’تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اُسے اچھا کفن دینا چاہیے۔‘‘

۱۵۔ تدفین ۔

میت کو اُس کی منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے انبیا علیہم السلام کے دین میں اُسے زمین میں قبر بنا کر دفن کیا جاتا ہے۔  =12= اس کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کیا گیا ۔سیدھا گڑھا کھود کر اُس پر چھت ڈال دی جائے، اُس کے پہلو میں شگاف بنا کر مردے کو اُس میں لٹا دیا جائے یا تابوت میں ڈال کر سپرد خاک کیا جائے ، یہ سب طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے البتہ ،قبر پختہ بنانے اوراُس پر کوئی عمارت تعمیر کرنے کو پسند نہیں فرمایا۔ =13=

۱۶۔ عید الفطر۔ ۱۷ ۔ عید الاضحی۔ 

یہ دونوں تہوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق مسلمانوں کے لیے مقرر فرمائے ہیں۔ اسلام سے پہلے یوم السبع ،یوم السباسب اور اِس طرح کی بعض دوسری عیدوں کا ذکر مشرکین عرب کی روایات میں ملتا ہے۔ بنی اسرائیل کی شریعت میں بھی عید کے ایام تھے، لیکن تورات اور دوسرے صحیفوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا تعلق زیادہ تر اُن کی تاریخ کے اہم واقعات سے تھا ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری شریعت بنی آدم کو دی تو عید کے یہ دو تہوار ٹھیرائے اور دونوں کو اسلام اور تقویٰ کے دو عظیم مظاہر سے متعلق کر دیا۔ عید الفطر ہر سال رمضان کے اختتام پر شوال کی پہلی تاریخ کو روزوں کی عبادت کے پایۂ تکمیل تک پہنچنے کے بعد اور عید الاضحی ۱۰؍ ذوالحجہ کے دن سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے ۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں تہوار ہجرت کے بعد مدینہ میں مقرر کیے گئے ۔ سیدنا انس کا بیان ہے :

قدم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ ولھم یومان یلعبون فیھما، فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ما ھذان الیومان‘‘؟ قالوا : کنا نلعب فیھما في الجاھلیۃ، قال: ’’إن اللّٰہ عزوجل قد أبدلکم بھما خیرًا منھما: یوم الفطر ویوم النحر‘‘.( احمد، رقم ۱۳۲۱۰) 
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں لوگوں نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ کھیل کود سے دل بہلاتے تھے۔ آپ نے پوچھا : یہ کیا دن ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ جاہلیت میں یہ ہمارے کھیل تماشے کے دن رہے ہیں۔ حضور نے اِس پر فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اِن کی جگہ تمھارے لیے اِن سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: عید الفطراور عیدالاضحی۔‘‘

اِن میں جو اعمال سنت کے طور پر جاری کیے گئے ہیں اور جن کی تفصیلات ہم اِسی کتاب میں ’’قانون عبادات ‘‘ کے تحت بیان کر چکے ہیں، وہ یہ ہیں :

۱۔ صدقۂ فطر ،

۲۔ نماز اور خطبہ،

۳۔ قر بانی ،

۴ ۔ ایام تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیریں ۔

عید الفطر اور عید الاضحی کے یہ دونوں تہوار ذکر ،شکر اور تفریحات کے لیے خاص ہیں ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر جب اُن کے والد سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے اُن کے گھر میں گانا گاتے ہوئے لونڈیوں کو منع کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

یا أبا بکر، إن لکل قوم عیدًا وھذا عیدنا. (بخاری ، رقم ۹۵۲) 
’’ابوبکر، (اِنھیں گانے دو)، ہر قوم کے لیے ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘

B

حواشی :

1  ترمذی، رقم ۳۳۶۸۔  =1=


2 ’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے ۔‘‘  =2=


3 ’’اللہ تم پر رحمت فرمائے ۔‘‘  =3=


4 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۶/ ۳۴۶ ۔  =4=


5 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۶/ ۳۴۶۔  =5=


6 منہ کی صفائی کے لیے اُس میں پانی پھرانا ۔  =6=


7 ناک صاف کرنے کے لیے اُس میں پانی ڈالنا۔  =7=


8 المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۶/ ۳۴۶۔  =8=


9 المائدہ ۵: ۶۔  =9=


10  عام حالات میں یہ ہر مسلمان کو دینا ضروری ہے ،لیکن کسی غیرمعمولی صورت حال میں اگر میت کا غسل اور اُس کی تجہیز و تکفین باعث زحمت ہو جائے تو اُسے غسل اور تجہیز و تکفین کے بغیر بھی دفن کیا جا سکتا ہے ۔ بخاری (رقم ۱۳۴۷) میں ہے کہ احد کے شہدا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی طرح دفن کر دینے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ہمارے فقہا نے اِسے شہادت کی موت سے متعلق قرار دیا ہے ، دراں حالیکہ یہ ایک عام استثنا ہے جو دین میں رخصت کے اُسی اصول پر مبنی ہے جو اُس کے تمام احکام میں ملحوظ ہے۔  =10=


11 بخاری، رقم ۱۲۶۴ ۔ مسلم، رقم ۲۱۷۹۔  =11=


۱۲؂  یہ طریقہ بھی عام حالات کے لیے ہے ،چنانچہ اگر بحری جہاز یا کشتی میں موت واقع ہو جائے اور ساحل تک پہنچنے میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ میت کو پانی میں بہا دیا جائے۔  =12=


۱۳؂  مسلم ، رقم ۲۲۴۵۔  =13=