HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

چوری


وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآءًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ. فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ، فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ، اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(المائدہ ۵: ۳۸۔ ۳۹)
’’(یہ خدا کی شریعت ہے، اِسے مضبوطی سے پکڑو) اور چور مرد ہو یا عورت، (اُن کا جرم ثابت ہو جائے تو) اُن کے ہاتھ کاٹ دو ، اُن کے عمل کی پاداش میں اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا کے طور پر اور (یاد رکھو کہ) اللہ سب پر غالب ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔ پھر جس نے اپنے اِس ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلی تو اللہ اُس پر عنایت کی نظر کرے گا۔ بے شک، اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘

اِن آیات میں چوری کی سزا کا جو قانون بیان ہوا ہے ،وہ درج ذیل نکات پر مبنی ہے :

۱۔ ’ قطع ید ‘ ، یعنی ہاتھ کاٹ دینے کی یہ سزا چور مرد اور چور عورت کے لیے ہے ۔قرآن نے اِس کے لیے ’سَارِق‘ اور ’سَارِقَۃ‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔ عربی زبان کے اسالیب بلاغت سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ یہ صفت کے صیغے ہیں جو وقوع فعل میں اہتمام پر دلالت کرتے ہیں۔ لہٰذا اِن کا اطلاق فعل سرقہ کی کسی ایسی ہی نوعیت پر کیا جا سکتا ہے جس کے ارتکاب کو چوری اور جس کے مرتکب کو چور قرار دیا جا سکے ۔ چنانچہ اگر کوئی بچہ اپنے باپ یا کوئی عورت اپنے شوہر کی جیب سے چند روپے اڑا لیتی ہے یا کوئی شخص کسی کی بہت معمولی قدروقیمت کی کوئی چیز چرا لے جاتا ہے یا کسی کے باغ سے کچھ پھل یا کسی کے کھیت سے کچھ سبزیاں توڑ لیتا ہے یا بغیر کسی حفاظت کے کسی جگہ ڈالا ہوا کوئی مال اچک لیتا ہے یا آوارہ چرتی ہوئی کوئی گائے یا بھینس ہانک کر لے جاتا ہے یا کسی اضطرار اور مجبوری کی بنا پر اِس فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے تو بے شک ، یہ سب ناشایستہ افعال ہیں اور اِن پر اُسے تادیب و تنبیہ بھی ہونی چاہیے ، لیکن یہ وہ چوری نہیں ہے جس کا حکم اِن آیات میں بیان ہوا ہے ۔لہٰذا یہ انتہائی سزا ہے اور صرف اُسی صورت میں دی جائے گی جب مجرم اپنے جرم کی نوعیت اور اپنے حالات کے لحاظ سے کسی رعایت کا مستحق نہ رہا ہو۔

۲۔ قطع ید کی یہ سزا ’ جَزَآءًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ‘ہے ۔لہٰذا مجرم کو دوسروں کے لیے عبرت بنا دینے میں عمل اور پاداش عمل کی مناسبت جس طرح یہ تقاضا کرتی ہے کہ اُس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، اُسی طرح یہ تقاضا بھی کرتی ہے کہ اُس کا دایاں ہاتھ ہی کاٹا جائے،اِس لیے کہ انسانوں میں آلۂ کسب کی حیثیت ،اگر غور کیجیے تو اصلاً اِسی کو حاصل ہے ۔پھر یہ بھی واضح ہے کہ لفظ ’یَدْ‘کے قطعی اطلاق کی بنا پر اِسے ہمیشہ پونچے ہی سے کاٹا جائے گا۔

۳۔ جَزَآءًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ، یہ اِس سزا کا مقصد ہے ۔ یعنی یہ پاداش عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بھی کہ وہ اِس سزا کو دیکھ کر جان لیں کہ جس خدا کی عقوبت دنیا میں یہ ہے ، وہ آخرت میں اپنے نافرمانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ چنانچہ دنیا کی حرص میں اپنی آخرت برباد نہ کریں۔

سزا کا اصلی مقصد یہی ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس طرح کی سزائیں کسی معاشرے میں نافذ ہوں تو اِس سے جرائم کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک ضمنی فائدہ ہے ،اِس کو بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...(اِس )میں قطع ید کے دو سبب بیان ہوئے ہیں : ایک یہ کہ یہ مجرم کے جرم کی سزا ہے ،دوسرا یہ کہ یہ نَکَال‘ ہے۔ ’نَکَال‘کے معنی کسی کو ایسی سزا دینے کے ہیں جس سے دوسرے عبرت پکڑیں ۔اِن دونوں کے درمیان حرف عطف کا نہ ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں باتیں اِس سزا میں بہ یک وقت مطلوب ہیں ۔ یعنی یہ پاداش عمل بھی ہے اور دوسروں کے لیے سامان عبرت بھی ۔ جو لوگ اِس کے اِن دونوں پہلوؤں پر بہ یک وقت نظر نہیں ڈالتے، وہ بسا اوقات اِس خلجان میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ جرم کے اعتبار سے سزا زیادہ سخت ہے ۔ حالاں کہ اِس سزا میں متعین اِس جرم ہی کی سزا نہیں ہے جو مجرم سے واقع ہوا ، بلکہ اُن بہت سے جرائم کی روک تھام بھی اِس میں شامل ہے جن کا وہ اپنے فعل سے محرک بن سکتا ہے ، اگر اُس کو ایسی سزا نہ دی جائے جو دوسروں کے حوصلے پست کر دے ۔جنس کی طرح مال کی بھوک بھی انسان کے اندر بڑی شدید ہے۔ اگر اِس حرص کو ذرا ڈھیل مل جائے تو پھر اِس کے نتائج کیا کچھ نکل سکتے ہیں، اِس کا اندازہ کرنے کے لیے موجودہ زمانے کے حالات میں کافی سامان بصیرت موجود ہے ، بشرطیکہ دیکھنے والی آنکھیں موجود ہوں ۔ اِس زمانے کے کسی متمدن سے متمدن ملک کے صرف ایک سال کے وہ ہول ناک جرائم جمع کر لیے جائیں جو محض چوری کی وجہ سے پیش آئے تو وہ آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں ، لیکن تہذیب جدید کے مارے ہوئے انسان کی پیشانی یہ سن کر تو عرق آلود ہو جاتی ہے کہ چوری پر کسی کا ہاتھ کٹ جائے ،لیکن اِن ہزاروں دل ہلا دینے والے واقعات سے اُس کا دل نہیں پسیجتا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ چوری کی راہ سے ظہور میں آتے ہیں ۔ چوری کوئی مفرد جرم نہیں ہے ، بلکہ یہ مجموعۂ جرائم ہے جس سے طرح طرح کے ہول ناک جرائم ظہور میں آتے ہیں۔ اگر چوری کی راہ مسدود ہو جائے تو یہ یا تو بالکل ہی ناپید ہو جائیں گے یا کم از کم انتہائی حد تک کم ہو جائیں گے ۔ چنانچہ تجربہ گواہ ہے کہ چوری پر ہاتھ کاٹنے کی سزا سے نہ صرف چوری کے واقعات انتہائی حد تک کم ہو گئے ،بلکہ دوسرے جرائم میں بھی انتہائی کمی ہو گئی ۔ پھر اگر چند ہاتھ کٹ جانے سے ہزاروں سر، ہزاروں گھر،ہزاروں آبروئیں محفوظ ہو جائیں؛ظلم و شقاوت اور حرث و نسل کی بربادی کے بہت سے اسباب کا خاتمہ ہو جائے تو عقل سلیم تو یہی کہتی ہے کہ یہ مہنگا سودا نہیں ہے،بلکہ نہایت بابرکت سودا ہے، لیکن موجودہ زمانے کے دانش فروشوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔‘‘( تدبر قرآن ۲/ ۵۱۲)

۴۔ چور کے لیے یہ محض دنیوی سزا ہے ۔رہی آخرت تو اُس میں نجات توبہ اور اصلاح ہی سے ہو سکتی ہے ۔ یہ دنیوی سزا نہ توبہ کا بدل ہے اور نہ توبہ اِس کے لیے بدل کی حیثیت ر کھتی ہے ۔ چنانچہ توبہ و اصلاح کے باوجود حکومت یہ سزا لازماً نافذ کرے گی اور دنیا میں یہ سزا پا لینے کے باوجود آخرت کا معاملہ توبہ اور اصلاح ہی سے درست ہوگا جس کے ساتھ البتہ، توقع ہے کہ یہ مجرم کے لیے اُس کے گناہ سے تطہیر کا ذریعہ بن جائے گی۔

B