وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَۃِ شُھَآاءَ فَاجْلِدُوْھُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَقْبَلُوْا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا، وَاُولٰٓءِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ. اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَ اَصْلَحُوْا، فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. وَالَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ اَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ یَکُنْ لَّھُمْ شُھَدٓاءُ اِلَّآ اَنْفُسُھُمْ فَشَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَہٰدٰتٍم بِاللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الصّٰدِقِیْنَ وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کَانَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ. وَ یَدْرَؤُا عَنْھَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْھَدَ اَرْبَعَ شَھٰدٰتٍم بِاللّٰہِ اِنَّہٗ لَمِنَ الْکٰذِبِیْنَ وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللّٰہِ عَلَیْھَآ اِنْ کَانَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ.(النور ۲۴: ۴۔۹)
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر (زنا کی) تہمت لگائیں، پھر (اُس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ لا سکیں، اُن کو اسی کوڑے مارو اور اُن کی گواہی پھر کبھی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ ہاں جو اِس کے بعد توبہ اور اصلاح کر لیں، وہ اللہ کے نزدیک فاسق نہ رہیں گے، اِس لیے کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ لیکن جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور اپنی ذات کے سوا اُن کے پاس کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ہر ایک کی گواہی یہ ہے کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو،اگر وہ جھوٹا ہو۔ (اِس کے بعد) عورت سے سزا اُسی صورت میں ٹل سکتی ہے کہ (اِس کے جواب میں) وہ بھی چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اِس بندی پر اللہ کا غضب ہو، اگر یہ(اپنے الزام میں) سچا ہو۔‘‘
یہ قذف کا حکم ہے ۔ اِن آیتوں میں اگرچہ صرف عورتوں ہی پرتہمت کا ذکر ہوا ہے ، لیکن عربی زبان میں یہ ’علی سبیل التغلیب‘ کا اسلوب ہے جو محض اِس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اِس طرح کے الزامات کا ہدف بالعموم عورتیں ہی بنتی ہیں اور معاشرہ اِس معاملے میں اُنھی کے بارے میں زیادہ حساس بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اشتراک علت کی بنا پر یہ حکم مردوعورت ، دونوں کے لیے عام قرار پائے گا، اِسے صرف عورتوں کے ساتھ خاص قرار نہیں دیا جا سکتا ۔
قذف کی دو صورتیں اِس میں بیان ہوئی ہیں :
ایک یہ کہ کوئی شخص کسی شریف اور پاک دامن عورت یا مرد پر زنا کی تہمت لگائے ۔
دوسری یہ کہ اِس طرح کا معاملہ کسی میاں اور بیوی کے درمیان پیش آ جائے ۔
پہلی صورت میں قرآن کا حکم یہ ہے کہ اُس شخص کو ہر حال میں چار عینی گواہ پیش کرنا ہوں گے ۔ اِس سے کم کسی صورت میں بھی اُس کا الزام ثابت قرار نہ پائے گا ۔ قرائن ،حالات ،طبی معاینہ ،یہ سب اِس معاملے میں بالکل بے معنی ہیں ۔آدمی آبروباختہ اور بدچلن ہے تو ثبوت جرم کے لیے اِن میں سے ہر چیز بڑی اہمیت کی حامل ہے ،لیکن اُس کی شہرت اگر ایک شریف اور پاک دامن شخص کی ہے تو قرآن یہی چاہتا ہے کہ اُس سے اگر کوئی لغزش ہوئی بھی ہے تو اُس پر پردہ ڈال دیا جائے اور اُسے معاشرے میں رسوا نہ کیا جائے ۔ چنانچہ اِس صورت میں وہ چار عینی شہادتوں کا تقاضا کرتا اور الزام لگانے والا اگر اِس سے قاصر رہے تو اُسے لازماً قذف کا مجرم قرار دیتا ہے ۔
اُس کی سزا قرآن مجید کی رو سے یہ ہے :
۱ ۔ اُسے اسی کوڑے مارے جائیں ۔
۲ ۔ اُسے ہمیشہ کے لیے ساقط الشہادت قرار دے دیا جائے۔یعنی اُس کی گواہی پھر کسی معاملے میں کبھی قبول نہ کی جائے اور اِس طرح معاشرے میں اُس کی حیثیت عرفی بالکل ختم کر دی جائے ۔
اسی کوڑے اور رد شہادت — یہ اِس جرم کی دنیوی سزا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے حضور میں ،جیسا کہ ارشاد ہوا، یہ لوگ فاسق قرار پائیں گے ، الاّ یہ کہ اپنے جرم سے توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں۔
دوسری صورت میں ، یعنی میاں اور بیوی کے درمیان یہ نوبت پہنچ جائے تو قرآن کا ارشاد ہے کہ شہادت نہ ہو تو معاملے کا فیصلہ قسم سے ہو گا ۔ اِس کے لیے ’لعان‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اِس کی صورت یہ ہو گی کہ میاں چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے گا کہ وہ جو الزام لگا رہا ہے ،اُس میں سچا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے گا کہ وہ اگر اِس الزام میں جھوٹا ہے تو اُس پر خدا کی لعنت ہو ۔اِس کے جواب میں عورت اگر اِس قسم کی کوئی مدافعت نہ کرے تو اُس پر زنا کی وہی سزا جاری ہو جائے گی جو قرآن مجید میں اِس کے لیے مقرر ہے، =9= لیکن وہ اگر اِس الزام کو تسلیم نہیں کرتی تو صرف اُس صورت میں سزا سے بری قرار پائے گی جب وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ مجھ پر خدا کا غضب ہو ، اگر یہ شخص سچ کہہ رہا ہے ۔
یہی معاملہ اُس وقت ہو گا جب بیوی نے میاں پر الزام لگایا ہو۔