اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِاءَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ ، اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ. اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَ حُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ.(النور ۲۴: ۲۔۳)
’’زانی عورت ہو یا زانی مرد، (اِن کا جرم ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کوسو کوڑے مارو اور اللہ کے اِس قانون (کو نافذ کرنے) میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ تمھیں دامن گیر نہ ہونے پائے، اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر فی الواقع ایمان رکھتے ہو۔ اور اُن کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ بھی وہاں موجود ہونا چاہیے ۔(اِس سزا کے بعد) یہ زانی کسی زانیہ یا مشرکہ ہی سے نکاح کرے گااور اِس زانیہ کو بھی کوئی زانی یا مشرک ہی اپنے نکاح میں لائے گا۔ ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیا ہے ۔‘‘
زنا کی سزا کا پہلا حکم سورۂ نساء میں آیا ہے ۔ اُس میں کوئی متعین سزا بیان نہیں کی گئی ، بلکہ صرف اتنی بات کہی گئی ہے کہ زنا کی عادی قحبہ عورتوں کے لیے جب تک کوئی حکم نازل نہیں ہو جاتا، اُنھیں گھروں میں بند کر دیا جائے اور اِس جرم کے عام مرتکبین کو ایذا دی جائے ، یہاں تک کہ وہ توبہ کر کے اپنے طرز عمل کی اصلاح پر آمادہ ہو جائیں۔ ایذا میں زجروتوبیخ، توہین و تذلیل اور نصیحت وملامت سے لے کر اصلاح کے حد تک مارپیٹ سب شامل ہے ۔ارشاد فرمایا ہے :
وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ، فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا. وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا، فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا ، اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا.(النساء ۴: ۱۵۔۱۶)
’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُنھیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ اُن کی موت آجائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ اور جو مرد و عورت تمھارے لوگوں میں سے اِس جرم کا ارتکاب کریں، اُنھیں ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو اُن سے درگذر کرو۔ بے شک، اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔‘‘
سورۂ نور میں زنا کی باقاعدہ سزا کے نازل ہونے تک شریعت کا حکم یہی تھا ۔ نور کی زیر بحث آیات نے اِسے ختم کر دیا اور زنا کے مرتکبین کے لیے ایک متعین سزا ہمیشہ کے لیے مقرر کر دی گئی ۔
تفصیلات یہ ہیں :
ا۔ زانی مرد ہو یا عورت ،اُس کا جرم اگر ثابت ہو جائے تو اِس کی پاداش میں اُسے سو کوڑے مارے جائیں گے ۔ اِس کے لیے جو طریقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین نے اختیار کیا اور جس کی وضاحت حدیث و فقہ کی کتابوں میں اُس زمانہ کے بعض مقدمات کی رودادوں سے ہوتی ہے ،اُس کی رو سے :
۱۔ مار کے لیے خواہ کوڑا استعمال کیا جائے یا بید ، دونوں صورتوں میں وہ نہ بہت موٹا اور سخت ہونا چاہیے اور نہ بہت پتلا اور نرم ، بلکہ اوسط درجے کا ہونا چاہیے ۔ =5=
ب ۔ مجرم کو ننگا کر کے اور ٹکٹکی پر باندھ کر نہیں مارنا چاہیے ۔ =6=
ج۔ مار ایسی نہیں ہونی چاہیے جو زخم ڈال دے اور نہ ایک ہی جگہ مارنا چاہیے ، بلکہ منہ اور شرم گاہ کو چھوڑ کر باقی تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے ۔ =7=
د۔ عورت حاملہ ہو تو اُسے وضع حمل کے بعد نفاس کا زمانہ گزر جانے تک مہلت دینی چاہیے۔ =8=
۲۔ مجرم کو یہ سزا مسلمانوں کی ایک جماعت کی موجودگی میں دی جائے گی تاکہ اُس کے لیے یہ فضیحت اور دوسروں کے لیے باعث نصیحت ہو ۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اہل ایمان کی کسی حکومت یا عدالت کو اِس معاملے میں ہرگز کوئی نرمی روا نہیں ر کھنی چاہیے ۔ مجرم کے ساتھ یہ سختی اِس لیے ضروری ہے کہ معاشرے کا استحکام ر حمی رشتوں کی پاکیزگی اور اُس کے ہر اختلال و فساد سے محفوظ رہنے پر منحصر ہے اور زنا اگر غور کیجیے تو اِس چیز کو ہدم کر کے پورے معاشرے کو ڈھوروں اور ڈنگروں کے گلے میں تبدیل کرتا اور اِس طرح صالح تمدن کو اُس کی بنیاد ہی سے محروم کر دیتا ہے۔چنانچہ فرمایا ہے: ’لَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ‘( اللہ کے اِس قانون کو نافذ کرنے میں اُن کے ساتھ کسی نرمی کا جذبہ تمھیں دامن گیر نہ ہونے پائے )۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی اِس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’...یعنی اِس کی تنفیذ کے معاملے میں کسی نرمی یا مداہنت یا چشم پوشی کو راہ نہ دی جائے ۔ نہ عورت کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے ، نہ مرد کے ساتھ ،نہ امیر کے ساتھ نہ غریب کے ساتھ ۔ خدا کے مقرر کردہ حدود کی بے لاگ اور بے رو رعایت تنفیذ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کا لازمی تقاضا ہے ۔ جو لوگ اِس معاملے میں مداہنت اور نرمی برتیں ،اُن کا اللہ اور آخرت پر ایمان معتبر نہیں ہے ۔ یہاں یہ چیز بھی قابل توجہ ہے کہ سزا کے بیان میں عورت کا ذکر مرد کے ذکر پر مقدم ہے ۔ اِس کی وجہ جہاں یہ ہے کہ زنا عورت کی رضامندی کے بغیر نہیں ہو سکتا ، وہاں یہ بھی ہے کہ صنف ضعیف ہونے کے سبب سے اِس معاملہ میں جذبۂ ہم دردی کے ابھرنے کا زیادہ امکان ہے ۔ اِس وجہ سے قرآن نے یہاں اِس کے ذکر کو مقدم کر دیا تاکہ اسلوب بیان ہی سے یہ بات واضح ہو جائے کہ اِس معاملہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہے، عورت ہو یا مرد ۔‘‘ (تدبر قرآن ۵/ ۳۶۲ )
حدود الٰہی کے نفاذ میں یہی جذبہ ہے جس کی تعبیر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس طرح فرمائی ہے :
وأیم اللّٰہ، لو أن فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا.(بخاری، رقم ۴۳۰۴)
’’خدا کی قسم ،اگر محمد کی بیٹی فاطمہ نے بھی چوری کی ہوتی تو میں لازماً اُس کا ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘
۳۔اِس سزا کے بعد مسلمانوں میں سے کسی پاک دامن مرد یا عورت کو اِس زانی یا زانیہ کے ساتھ نکاح نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن کا ارشاد ہے کہ اِس کے بعد اگر وہ نکاح کرنا چاہیں تو اُنھیں اِس نکاح کے لیے کوئی زانی یا مشرک اور زانیہ یا مشرکہ ہی ملے ۔کسی مومنہ کے لیے وہ ہر گز اِس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ اپنے آپ کو کسی زانی کے حبالۂ عقد میں دینے کے لیے راضی ہو اور نہ کسی مومن کے لیے یہ جائز رکھتا ہے کہ وہ اِس نجاست کو اپنے گھر میں لانے کے لیے تیار ہو جائے ۔ اِس طرح کا ہر نکاح باطل ہے ۔ چنانچہ آیت میں ’لَا یَنْکِحُ‘کے الفاظ نہی کے مفہوم میں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اِسی کی وضاحت میں فرمایا ہے :’ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘ (ایمان والوں پر اِسے حرام کر دیا گیا ہے)۔
تاہم ، جیسا کہ بیان ہوا ہے ، یہ حکم صرف اُس زانی کے بارے میں ہے جو ثبوت جرم کے بعد سزا کامستحق قرار پا جائے۔ ’اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ‘ اور ’الزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُھَآ‘ میں پہلے ’اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ‘کے بعد اعادۂ معرف باللام کا قاعدہ اِسی پر دلالت کرتا ہے اور اِس کے سوا کسی دوسری راے کے لیے اِس اسلوب میں ہرگز کوئی گنجایش پیدا نہیں کی جا سکتی ۔
۴۔سرقہ کی طرح اِس سزا کے بیان میں بھی قرآن مجید نے چونکہ صفت کے صیغے اختیار کیے ہیں ، اِس وجہ سے یہ سزا بھی اِس جرم کی انتہائی سزا ہے اور صرف اُنھی مجرموں کو دی جائے گی جن سے جرم بالکل آخری صورت میں سرزد ہو جائے اور اپنے حالات کے لحاظ سے وہ کسی رعایت کے مستحق نہ ہوں ۔ چنانچہ سزا کے تحمل سے معذور،مجبور اور جرم سے بچنے کے لیے ضروری ماحول، حالات اور حفاظت سے محروم سب لوگ اِس سے یقیناً مستثنیٰ ہیں ۔
قرآن مجید نے اُن عورتوں کے بارے میں جن کے مالک اُنھیں پیشہ کرنے پر مجبور کرتے تھے، پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے :
وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ ، فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(النور ۲۴: ۳۳)
’’اور جو اُنھیں مجبور کرے گا تو اِس کا گناہ اُسی پر ہے، اِس لیے کہ اُن پر اِس جبر کے بعد اللہ (اُن کے لیے) غفور و رحیم ہے۔‘‘
اِسی طرح زمانۂ رسالت کی لونڈیوں کے بارے میں بھی اُس نے ارشاد فرمایا کہ خاندان کی حفاظت سے محرومی اور ناقص اخلاقی تربیت کی وجہ سے اُنھیں بھی یہ سزا نہیں دی جا سکتی ،یہاں تک کہ اُس صورت میں بھی جب اُن کے مالکوں اور شوہروں نے اُنھیں پاک دامن رکھنے کا پورا اہتمام کیا ہو ، اُنھیں اِس سزا کی نسبت سے آدھی سزا دی جائے گی ۔ یعنی سو کے بجاے پچاس کوڑے ہی مارے جائیں گے ۔سورۂ نساء میں ہے :
فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ.(۴: ۲۵)
’’ پھر جب وہ پاک دامن رکھی جائیں اور اِس کے بعد اگر کسی بدچلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی آدھی سزا ہے جو آزاد عورتوں کے لیے مقرر کی گئی ہے۔‘‘