[۱]
یَٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ، کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی، اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی، فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ. ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ ، فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰآولِی الْاَلْبَابِ، لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(البقرہ ۲ : ۱۷۸۔ ۱۷۹)
’’ایمان والو، (تم میں) جو لوگ قتل کر دیے جائیں، اُن کے مقدموں میں قصاص تم پر فرض کیا گیا ہے۔ اِس طرح کہ قاتل آزاد ہو تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد، غلام ہو تو اُس کے بدلے میں وہی غلام ، عورت ہو تو اُس کے بدلے میں وہی عورت ۔ پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی جائے (تو اُس کو تم قبول کر سکتے ہو ، لیکن یہ قبول کر لی جائے)تو دستور کے مطابق اُس کی پیروی کی جائے گی اور جو کچھ بھی خون بہا ہو، وہ خوبی کے ساتھ اُسے ادا کر دیا جائے گا ۔ یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے ایک قسم کی رعایت اور تم پر اُس کی عنایت ہے۔ پھر اِس کے بعد جو زیادتی کرے تو اُس کے لیے (قیامت میں) دردناک سزا ہے اور تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے ، عقل والو، تاکہ تم حدود الٰہی کی پابندی کرتے رہو۔‘‘
قصاص کا یہ حکم جس طرح ہمارے لیے ہے ، اِسی طرح پہلی امتوں کے لیے بھی تھا ۔ قرآن نے تورات کے حوالے سے فرمایا ہے :
وَکَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ، فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ، وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ.(المائدہ ۵: ۴۵)
’’ اور اِسی کتاب میں ہم نے اِن پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور اِسی طرح دوسرے زخموں کا بھی قصاص ہے۔ پھر جس نے اُسے معاف کر دیا تو اُس کے لیے وہ کفارہ بن جائے گا۔ (یہ اللہ کا قانون ہے) اور جو اللہ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہی ظالم ہیں۔‘‘
اِس آیت سے واضح ہے کہ قصاص کا یہ قانون صرف قتل ہی کے لیے نہیں،کسی کو زخم لگانے اور اُس کے کسی عضو کو نقصان پہنچانے کے لیے بھی ہے ۔ قرآن کی رو سے یہ سب سنگین جرائم ہیں ،لیکن جہاں تک قتل کا تعلق ہے ،اِس کو تو اُس نے پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے ۔اُس کا ارشاد ہے :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا، وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا.(المائدہ ۵: ۳۲)
’’ جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جس نے کسی ایک انسان کو زندگی بخشی، اُس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘
اِس صورت میں قرآن مجید نے اِس کے مرتکبین کو، خاص کر جب وہ کسی مسلمان کو قتل کریں ، قیامت میں ابدی جہنم کا مستحق قرار دیا اور پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے :
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.(النساء ۴: ۹۳)
’’ اُس شخص کی سزا، البتہ جہنم ہے جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا، اُس پر اللہ کا غضب اور اُس کی لعنت ہے اور اُس کے لیے اُس نے ایک بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‘‘
چنانچہ اِس جرم سے متعلق جو فرائض قرآن مجید کے اِس نقطۂ نظر کی رو سے اِس کتاب کے ماننے والوں پر عائد ہوتے ہیں اور جن ذمہ داریوں کے وہ مکلف ٹھیرتے ہیں ، وہ استاذ امام امین احسن اصلاحی کے الفاظ میں یہ ہیں :
’’ایک یہ کہ ہر حادثۂ قتل پوری قوم میں ایک ہلچل پیداکردے ۔ جب تک اُس کا قصاص نہ لے لیا جائے ، ہرشخص یہ محسوس کرے کہ وہ اُس تحفظ سے محروم ہو گیا ہے جو اُس کو اب تک حاصل تھا ۔قانون ہی سب کا محافظ ہوتا ہے ۔ اگر قانون ہدم ہو گیا تو صرف مقتول ہی قتل نہیں ہوا ،بلکہ ہر شخص قتل کی زد میں ہے۔
دوسری یہ کہ قاتل کا کھوج لگانا صرف مقتول کے وارثوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے ، بلکہ پوری جماعت کی ذمہ داری ہے ، اِس لیے کہ قاتل نے صرف مقتول ہی کو قتل نہیں کیا ،بلکہ سب کو قتل کیا ہے ۔
تیسری یہ کہ کوئی شخص اگر کسی کو خطرے میں دیکھے تو اُس کو پرایا جھگڑا سمجھ کر نظر انداز کرنا اُس کے لیے جائز نہیں ہے ، بلکہ اُس کی حفاظت و حمایت تابہ حد مقدور اُس کے لیے ضروری ہے ، اگرچہ اِس کے لیے اُسے خود جوکھم برداشت کرنی پڑے۔ اِس لیے کہ جو شخص کسی مظلوم کی حمایت و مدافعت میں سینہ سپر ہوتا ہے ، وہ صرف مظلوم ہی کی حمایت میں سینہ سپر نہیں ہوتا ، بلکہ تمام خلق کی حمایت میں سینہ سپر ہوتا ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہے ۔
چوتھی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی قتل کو چھپاتا ہے یا قاتل کے حق میں جھوٹی گواہی دیتا ہے یا قاتل کا ضامن بنتا ہے یا قاتل کو پناہ دیتا ہے یا قاتل کی دانستہ وکالت کرتا ہے یا دانستہ اُس کو جرم سے بری کرتا ہے ، وہ گویا خود اپنے اور اپنے باپ، بھائی، بیٹے کے قاتل کے لیے یہ سب کچھ کرتا ہے،کیونکہ ایک کا قاتل سب کا قاتل ہے ۔
پانچویں یہ کہ کسی مقتول کے قصاص کے معاملے میں مقتول کے وارثوں یا حکام کی مدد کرنا بھی ، درحقیقت مقتول کو زندگی بخشنا ہے ۔ اِس لیے کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ قصاص میں زندگی ہے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۵۰۳)
اِس جرم کے لیے سزا کا جو قانون قرآن مجید کی زیربحث آیتوں میں بیان ہواہے ،وہ درج ذیل چاردفعات پرمبنی ہے:
اول یہ کہ قصاص ایک فرض ہے جو مسلمانوں کے نظم اجتماعی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کیا گیا ہے۔ اسلامی معاشرے کے لیے اِسی میں زندگی ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ اللہ کا نازل کردہ قانون ہے جس سے انحراف صرف ظالم ہی کرتے ہیں،لہٰذا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اُس کے علاقے میں اگر کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اُس کے قاتلوں کا سراغ لگائے، اُنھیں گرفتار کرے اور قانون کے مطابق اُن سے قصاص لے۔
دوم یہ کہ قصاص کے معاملہ میں پوری مساوات ملحوظ رہنی چاہیے ،لہٰذا اگر کوئی غلام قاتل ہے تو اُس کے بدلے میں وہی غلام اور آزاد قاتل ہے تو اُس کے بدلے میں وہی آزاد قتل کیا جائے۔ کسی شخص کا معاشرتی اور سماجی مرتبہ اِس معاملے میں ہرگز کسی ترجیح کا باعث نہیں بننا چاہیے ۔
سوم یہ کہ خود مجروح یا مقتول کے اولیا اگر جان کے بدلے میں جان، عضو کے بدلے میں عضو اور زخم کے بدلے میں زخم کا مطالبہ نہ کریں اور مجرم کے ساتھ نرمی برتنے کے لیے تیار ہو جائیں تو عدالت جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات کے پیش نظر اُسے کوئی کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ =3= قرآن کا ارشاد ہے کہ یہ پروردگار عالم کی طرف سے لوگوں کے لیے ایک رعایت اور اُن پر اُس کی عنایت ہے ۔ چنانچہ اِس جرم کے متاثرین اگر اِسے اختیار کریں گے تواللہ تعالیٰ کے حضور میں اُن کی یہ معافی اُن کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔
چہارم یہ کہ مجروح یا مقتول کے اولیا کو اِس صورت میں مجرم کی طرف سے دیت دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ دستور کے مطابق اور نہایت حسن وخوبی کے ساتھ ادا کی جائے۔ استاذ امام لکھتے ہیں :
’’...حسن و خوبی کے ساتھ ادائیگی کی تاکید اِس لیے فرمائی کہ عرب میں دیت کی ادائیگی بالعموم نقد کی صورت میں نہیں،بلکہ جنس ومال کی شکل میں ہوتی تھی ،اِس وجہ سے اگر ادائیگی کرنے والوں کی نیت اچھی نہ ہوتی تو وہ اِس میں بہت کچھ چالیں چل سکتے تھے ۔ یہ بات بڑ ی آسانی سے ممکن ہے کہ اونٹوں یا بکریوں یا غلے اور کھجور کی مقدار وکمیت کے لحاظ سے تو دیت کا مطالبہ پوراکر دیا جائے ، لیکن باعتبار حقیقت وکیفیت اُس کی حیثیت محض خانہ پری ہی کی ہو ۔ اگر ایسا ہو تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ اُن لوگوں کے احسان کی کوئی قدرنہیں کی گئی جنھوں نے ایک شخص کی جان پر شرعی اختیار پا کر اُس کو معاف کر دیا اور اُس کی طرف سے مال قبول کرلینے پر راضی ہو گئے۔اُن کے احسان کا جواب تو احسان ہی ہونا چاہیے۔یعنی دیت کی ادائیگی اِس خوبی، فیاضی اور کشادہ دلی کے ساتھ کی جائے کہ اُن کو یہ صدمہ نہ اٹھانا پڑے کہ اُنھوں نے اپنے ایک عزیز کے خون کے بدلے میں بھیڑ بکریاں قبول کر کے کوئی غلطی یا بے غیرتی کی۔‘‘ ( تدبر قرآن ۱/ ۴۳۴)
اِس قانون میں مجرم کے لیے کسی رعایت کا فیصلہ کرتے وقت مقتول کے اولیا کی مرضی کو جو اہمیت دی گئی ہے، وہ نہایت حکیمانہ ہے۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ اُن کی آتش انتقام بجھا دیتی ہے، بلکہ قتل وجراحت جیسے جرائم سے مسموم معاشروں میں اِس زہر کا تریاق بن جاتی ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...قاتل کی جان پر مقتول کے وارثوں کو براہ راست اختیار مل جانے سے ایک تو اُن کے بہت بڑے زخم کے اندمال کی ایک شکل پیدا ہوتی ہے، دوسرے اگر اِس صورت میں یہ کوئی نرم رویہ اختیار کریں تو قاتل اور اُس کے خاندان پر یہ اِن کا براہ راست احسان ہوتا ہے جس سے نہایت مفید نتائج کی توقع ہو سکتی ہے۔‘‘(تدبر قرآن۱/ ۴۳۳)
تاہم اِس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ مسلمانوں کی کوئی باقاعدہ حکومت اگر کسی جگہ قائم نہ ہو اور قصاص کا معاملہ مقتول کے اولیا ہی سے متعلق ہوجائے تو وہ اپنی اِس حیثیت میں حدود سے تجاوز کریں اور مثال کے طور پر جوش انتقام میں قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرنے کی کوشش کریں یا اپنی شرافت و نجابت اور برتری کے زعم میں اپنے غلام کے بدلے میں آزاد اور عورت کے بدلے میں مرد کے قتل کا مطالبہ کریں یا مجرم کو عذاب دے دے کر ماریں یا مار دینے کے بعد اُس کی لاش پر غصہ نکالیں یا قتل کے ایسے طریقے اختیار کریں جن سے منع کیاگیا ہے ،مثلاً آگ میں جلانا یا مثلہ کرنا ۔ اِسی طرح جراحت کی صورت میں، جب کہ مجرم کو اگر اُس سے بدلہ لیا جائے تو اُس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے زیادہ نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو،وہ عضو کے بدلے عضو اور زخم کے بدلے زخم ہی پر اصرار کریں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے اور یثرب میں آپ کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ ، اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا. (بنی اسرائیل ۱۷: ۳۳)
’’ اور (یاد رکھو کہ) جو مظلومانہ قتل کیا جائے، اُس کے ولی کو ہم نے اختیار دے دیا ہے۔ سووہ قتل میں حد سے تجاوز نہ کرے، اِس لیے کہ اُس کی مدد کی گئی ہے۔‘‘
اِس میں شبہ نہیں کہ قصاص بظاہر موت ہے، مگر قرآن کا ارشاد ہے کہ حقیقت میں یہ پوری انسانیت کے لیے زندگی کی ضمانت ہے اور اِس لیے لازم کیا گیا ہے کہ لوگ حدود الٰہی کی پابندی کرنے والے بن کر رہیں۔ استاذ اما م لکھتے ہیں:
’’...یہ زندگی فرد کے لحاظ سے نہیں ،بلکہ معاشرے کے لحاظ سے ہے ۔اگر ایک شخص قتل کے جرم میں قتل کر دیا جاتا ہے تو بظاہر تو ایک جان کے بعد یہ دوسری جان بھی گویا تلف ہی ہوتی ہے ،لیکن حقیقت کے اعتبار سے اگر دیکھیے تو اِس کے قتل سے پورے معاشرے کے لیے زندگی کی ضمانت پیدا ہو جاتی ہے۔ اگر اِس سے قصاص نہ لیا جائے تو یہ جس ذہنی خرابی میں مبتلا ہو کر ایک بے گناہ کے قتل کا مرتکب ہوا ہے ، وہ خرابی پورے معاشرے میں متعدی ہو جائے ۔ بیماری اور بیماری میں فرق ہوتا ہے ۔ جو بیماریاں قتل ، ڈکیتی ،چوری اور زنا وغیرہ جیسے خطرناک جرائم کا سبب بنتی ہیں ، اُن کی مثال اُن بیماریوں کی ہے جن میں پورے جسم کو بچانے کے لیے بسا اوقات جسم کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کر دینا پڑتا ہے ۔ اگرچہ کسی عضو کو کاٹ پھینکنا ایک سنگ دلی کا کام معلوم ہوتا ہے ،لیکن ایک ڈاکٹر کو یہ سنگ دلی اختیار کرنی پڑتی ہے۔ اگر وہ طبیعت پر جبر کر کے یہ سنگ دلی اختیار نہ کرے تو اُس ایک عضو کی ہم دردی میں اُسے مریض کے پورے جسم کو ہلاکت کے حوالے کرنا پڑے گا ۔
معاشرہ اپنی مجموعی حیثیت میں ایک جسم سے مشابہت رکھتا ہے ۔اِس جسم کے بعض اعضا میں بھی بسااوقات اُسی قسم کا فساد و اختلال پیدا ہو جاتا ہے جس کا علاج مرہم و ضماد سے ممکن نہیں ہوتا،بلکہ عضومریض پر آپریشن کر کے اُس کو جسم کے مجموعے سے الگ کر دینا ضروری ہوتا ہے ۔ اگر یہ خیال کیا جائے کہ یہ عضو مریض ہے ، اِس وجہ سے نرمی اور ہم دردی کا مستحق ہے تو اِس نرمی کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ ایک دن یہ عضو سارے جسم کو سڑا اور گلا کر رکھ دے ۔‘‘ (تدبر قرآن ۱/ ۴۳۶)
[۲]
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَأً، وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا. فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِِّیْثَاقٌ فَدِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ. فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ، تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ ، وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.(النساء ۴: ۹۲)
’’ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی مسلمان کو قتل کرے، الاّ یہ کہ اُ س سے غلطی ہو جائے۔ اور جو کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کرے، اُس کے ذمے ہے کہ ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کرے اور اُس کے گھر والوں کو خوں بہا دے، الاّ یہ کہ وہ معاف کر دیں۔ پھر اگر مقتول تمھاری کسی دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو، مگر مسلمان ہو تو ایک مسلمان کو غلامی سے آزاد کر دینا ہی کافی ہے۔ اور اگر وہ کسی ایسی قوم کا فرد ہے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے تو اُس کے وارثوں کو دیت بھی دی جائے گی اور تم ایک مسلمان غلام بھی آزاد کرو گے۔ پھر جس کے پاس غلام نہ ہو، اُسے لگاتار دو مہینے کے روزے رکھنا ہوں گے۔ یہ اِس گناہ کو بخشوانے کا طریقہ ہے، اللہ کی طرف سے خاص عنایت کے طور پر اور اللہ علیم و حکیم ہے۔‘‘
یہ قانون تین دفعات پر مبنی ہے :
اول یہ کہ مقتول اگر اپنی حکومت کا کوئی مسلمان شہری ہے یا اپنی حکومت کا شہری تو نہیں ہے، لیکن کسی معاہد قوم سے تعلق رکھتا ہے تو قاتل پر لازم ہے کہ اُسے اگر معاف نہیں کر دیا گیا تو دستور کے مطابق دیت ادا کرے اور اِس جرم کے کفارے میں اور اپنے پروردگار کے حضور میں توبہ کے لیے ، اُس کے ساتھ ایک مسلمان غلام بھی آزاد کرے ۔
دوم یہ کہ وہ اگر دشمن قوم کا کوئی مسلمان ہے تو قاتل پر دیت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔ اِس صورت میں یہی کافی ہے کہ اپنے اِس گناہ کو دھونے کے لیے وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر دے ۔
سوم یہ کہ اِن دونوں صورتوں میں اگر غلام میسر نہ ہو تو اُس کے بدلے میں مسلسل دو مہینے کے روزے رکھے۔
یہ کسی شخص کے غلطی =4= سے قتل ہو جانے کا حکم ہے ،لیکن صاف واضح ہے کہ جراحات کا حکم بھی یہی ہونا چاہیے ۔ چنانچہ اُن میں بھی دیت ادا کی جائے گی اور اِس کے ساتھ کفارے کے روزے بھی دیت کی مقدار کے لحاظ سے لازماً رکھے جائیں گے۔ یعنی ،مثال کے طور پر ،اگر کسی زخم کی دیت ایک تہائی مقرر کی گئی ہے تو کفارے کے بیس روزے بھی لازماً رکھنا ہوں گے ۔
عمد اور خطا کے اِس قانون میں قصاص اور کفارے کا معاملہ تو واضح ہے ،لیکن قتل و جراحت کی اِن دونوں صورتوں میں دیت کس طریقے سے اور کتنی دی جائے گی ؟ نساء کی جو آیت اوپر نقل ہوئی ہے ،اُس میں اِس کے لیے ’دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَھْلِہٖ‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ لفظ ’دِیَۃ‘اگر غور کیجیے تو اِن میں نکرہ آیا ہے۔ اسم نکرہ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ اپنے مفہوم کے تعین میں یہ لغت و عرف اور سیاق کلام کی دلالت کے سوا کسی چیز کا محتاج نہیں ہوتا ۔ لہٰذا ’ دِیَۃ‘کے معنی ہیں: وہ شے جو دیت کے نام سے معروف ہے اور ’دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلآی اَھْلِہٖ‘ کے الفاظ حکم کے جس منشا پر دلالت کرتے ہیں ،وہ اِس کے سوا کچھ نہیں کہ مخاطب کے عرف میں جس چیز کا نام دیت ہے ،وہ مقتول کے ورثہ کے سپرد کر دی جائے۔ سورۂ بقرہ میں قرآن مجید نے جہاں قتل عمد کی دیت کا حکم بیان کیا ہے ، وہاں یہی بات لفظ ’مَعْرُوْف‘کی صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے :
فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْءٌ، فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ.(۲: ۱۷۸)
’’ پھر جس کے لیے اُس کے بھائی کی طرف سے کچھ رعایت کی جائے (تو اُس کو تم قبول کر سکتے ہو ، لیکن یہ قبول کر لی جائے)تو دستور کے مطابق اُس کی پیروی کی جائے گی اور جو کچھ بھی خون بہا ہو، وہ خوبی کے ساتھ اُسے ادا کر دیا جائے گا ۔‘‘
نساء اور بقرہ کی اِن آیات سے واضح ہے کہ خطا اور عمد ، دونوں میں قرآن کا حکم یہی ہے کہ دیت معاشرے کے دستور اور رواج کے مطابق ادا کی جائے ۔ قرآن نے خود دیت کی کسی خاص مقدار کا تعین کیا ہے نہ عورت اور مرد، غلام اور آزاد، مسلم اور غیر مسلم کی دیتوں میں کسی فرق کی پابندی ہمارے لیے لازم ٹھیرائی ہے ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے فیصلے اپنے زمانے میں عرب کے دستور کے مطابق کیے ۔ فقہ و حدیث کی کتابوں میں دیت کی جو مقداریں بیان ہوئی ہیں ، وہ اِسی دستور کے مطابق ہیں ۔ عرب کا یہ دستور اہل عرب کے تمدنی حالات اور تہذیبی روایات پر مبنی تھا ۔ زمانے کی گردش نے کتاب تاریخ میں چودہ صدیوں کے ورق الٹ دیے ہیں ۔تمدنی حالات اور تہذیبی روایات ،اِن سب میں زمین و آسمان کا تغیر واقع ہو گیا ہے ۔اب ہم دیت میں اونٹ دے سکتے ہیں ، نہ اونٹوں کے لحاظ سے اِس دور میں دیت کا تعین کوئی دانش مندی ہے ۔ عاقلہ کی نوعیت بالکل بدل گئی ہے اور قتل خطا کی وہ صورتیں وجود میں آ گئی ہیں جن کا تصور بھی اُس زمانے میں ممکن نہیں تھا ۔قرآن مجید کی ہدایت ہر دور اور ہر معاشرے کے لیے ہے ، چنانچہ اُس نے اِس معاملے میں معروف کی پیروی کا حکم دیا ہے ۔قرآن کے اِس حکم کے مطابق ہر معاشرہ اپنے ہی معروف کا پابند ہے ۔ پھر معروف پر مبنی قوانین کے بارے میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حالات اور زمانہ کی تبدیلی سے اُن میں تغیر کیا جا سکتا ہے اور کسی معاشرے کے ارباب حل وعقداگر چاہیں تو اپنے اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اُنھیں نئے سرے سے مرتب کر سکتے ہیں۔