HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

حدود و تعزیرات

ارادہ و اختیار کی نعمت جہاں اِس دنیا میں انسان کے لیے سب سے بڑا شرف ہے، وہاں اِس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہے کہ اِس کے سوء استعمال سے بارہا زمین پر فساد پیدا ہو جاتا ہے اور اِس طرح فرشتوں کی وہ بات انسان کے حق میں پوری ہو جاتی ہے جو اُنھوں نے اُس کی تخلیق کے وقت خدا کے حضور میں کہی تھی :

اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَ؟ ( البقرہ ۲: ۳۰) 
’’کیا آپ اُس میں وہ مخلوق بنائیں گے جو وہاں فساد کرے گی اور خون بہائے گی؟‘‘

انسانی تاریخ میں اِس فساد کا سب سے پہلا ظہور ابو البشر آدم کے بیٹے قابیل کے ہاتھ سے ہوا، لہٰذا یہ ضرورت اِس کے ساتھ ہی سامنے آ گئی کہ انسان کو خود انسان کے شروفساد سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر ہونی چاہیے ۔جرم و سزا کے تمام ضابطے اِسی ضرورت سے وضع کیے گئے ہیں۔اِن میں اصلی مقصود شروفساد کا استیصال ہی ہوتا ہے اور وہی ہونا چاہیے، لیکن جو لوگ خدا کی ہدایت قبول کرکے اُس کے رسولوں پر ایمان لے آئیں، اُن کا معاملہ عام مجرموں کا نہیں ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اگر جان، مال، آبرو یا نظم اجتماعی کے خلاف کسی بڑے جرم کا ارتکاب کریں تو خدا کا فیصلہ ہے کہ اُن کو اِسی دنیا میں عذاب دیا جائے تاکہ دوسروں کو عبرت ہو اوروہ خدا کی اِس عقوبت کو دیکھ کر آخرت کے عذاب کی یاددہانی حاصل کریں۔ پھر مزید یہ کہ مجرموں کے لیے بھی یہ عذاب، اگر وہ توبہ اور اصلاح کا رویہ اختیار کریں تو گناہ سے تطہیر کا ذریعہ بن جائے۔

یہ عذاب جن سزاؤں کی صورت میں دیا جاتا ہے، وہ ہمیشہ سخت رہی ہیں۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اِن سزاؤں کا مقصد محض جرم کا استیصال نہیں، بلکہ اُن سب لوگوں کو خدا کے عذاب کا مزہ چکھانا اور دوسروں کے لیے عبرت بنا دینا بھی ہے جنھوں نے پورے شعور کے ساتھ اپنے آپ کو خدا اور اُس کے رسولوں کے حوالے کیا، اُن سے عہد اطاعت باندھا، اُن کے دین کو دین کی حیثیت سے قبول کیااور اِس کے بعد اِس نوعیت کے بڑے جرائم میں اِس حد تک ملوث ہو گئے کہ خدا نے اُن کا پردہ فاش کر دیا اور معاملات عدالت تک پہنچ گئے۔

یہ جرائم درج ذیل ہیں :

۱ ۔ محاربہ اور فساد فی الارض

۲ ۔قتل و جراحت

۳ ۔زنا

۴ ۔ قذف

۵ ۔ چوری

اِن جرائم کے بارے میں یہ چیز ابتدا ہی میں واضح رہنی چاہیے کہ اِن کی سزا کا حکم مسلمانوں کو اُن کی انفرادی حیثیت میں نہیں ، بلکہ پورے مسلمان معاشرے کو دیا گیا ہے اور اِس لحاظ سے اُن کے نظم اجتماعی سے متعلق ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کا حکم ہی قرآن کی اُن سورتوں میں بیان ہوا ہے جو اُس وقت نازل ہوئی ہیں جب یثرب کا اقتدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منتقل ہو چکا تھا اور مسلمانوں کی ایک باقاعدہ حکومت وہاں قائم ہو گئی تھی۔چنانچہ کوئی شخص یا جماعت اگر کسی خطۂ ارض میں سیاسی اقتدار نہیں ر کھتی تو اُسے یہ حق ہر گز حاصل نہیں ہے کہ وہ اِن میں سے کوئی سزا کسی مجرم پر نافذ کرے۔ قرآن کے عرف میںفَاجْلِدُوْا اور فَاقْطَعُوْا‘جیسے احکام کے مخاطب مسلمانوں کے امرا و حکام ہیں، عام مسلمان اِن کے مخاطب ہی نہیں ہیں۔ ابوبکر جصاص اپنی کتاب ’’احکام القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

وقد علم من قرع سمعہ ھذا الخطاب من أھل العلم أن المخاطبین بذلک ھم الأئمۃ دون عامۃ الناس، فکان تقدیرہ: فلیقطع الأئمۃ والحکام أیدیھما ولیجلدھما الأئمۃ و الحکام.( ۳/ ۲۸۳)
’’اہل علم میں سے جو شخص بھی اِس خطاب کو سنتا ہے، فوراً سمجھ لیتا ہے کہ اِس کے مخاطب عام مسلمان نہیں، بلکہ اُن کے ائمہ و حکام ہیں۔ چنانچہ اِس میں، مثال کے طور پر، تقدیرِ کلام ہی یہ مانی جاتی ہے:پس چاہیے کہ امراو حکام اُن کے ہاتھ کاٹ دیں اور چاہیے کہ امراوحکام اُن کی پیٹھ پر تازیانے برسا دیں۔‘‘

شریعت میں جن جرائم کی سزائیں مقرر کی گئی ہیں، وہ یہی ہیں ۔اِن کی ادنیٰ صورتوں اور اِن کے علاوہ باقی سب جرائم کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ارباب حل و عقد پر چھوڑ دیا ہے ۔ باہمی مشورے سے وہ اِس معاملے میں جو قانون چاہیں، بنا سکتے ہیں۔تاہم اتنی بات اُس میں بھی طے ہے کہ موت کی سزا قرآن کی رو سے قتل اور فساد فی الارض کے سوا کسی جرم میں نہیں دی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے پوری صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بنی اسرائیل کو شریعت دی گئی تو اُسی وقت لکھ دیا گیا تھا کہ اِن دو جرائم کو چھوڑ کر ، فرد ہو یا حکومت ، یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کی جان کے درپے ہو اور اُسے قتل کر ڈالے ۔ مائدہ میں ہے :

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ، فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا.(۵: ۳۲)
’’جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا، اِس کے بغیر کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں کوئی فساد برپا کیا ہو تو اُس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا۔‘‘

B