دین کی حقیقت اگر ایک لفظ میں بیان کی جائے تو قرآن کی اصطلاح میں وہ اللہ کی ’’عبادت‘‘ہے ۔ عالم کا پروردگار اِس دنیا میں اپنے بندوں سے اصلاً جو کچھ چاہتا ہے ،وہ یہی ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِیَعْبُدُوْنِ.(الذاریات ۵۱: ۵۶)
’’میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اِس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ۔‘‘
قرآن مجید نے جگہ جگہ بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر انسان کو اِسی حقیقت سے آگاہ کر دینے کے لیے بھیجے تھے :
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ، وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ. (النحل ۱۶: ۳۶)
’’ہم نے ہر قوم میں ایک رسول اِس دعوت کے ساتھ بھیجا تھاکہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔‘‘
اِس ’’عبادت‘‘کے معنی کیا ہیں ؟ یہ اگر غور کیجیے تو سورۂ نحل کی اِسی آیت سے واضح ہیں ۔ اللہ کی عبادت کے بالمقابل یہاں طاغوت کی پیروی سے بچنے کی ہدایت کی گئی ہے۔’الطَّاغُوْت‘اور ’الشَّیْطَان‘ قرآن میں بالکل ہم معنی استعمال ہوئے ہیں، یعنی جو خدا کے سامنے سرکشی ،تمرد اور استکبار اختیار کرے ۔اِس کا ضد، ظاہر ہے کہ عاجزی اور پستی ہی ہے ۔چنانچہ ’’عبادت‘‘ کے معنی ائمۂ لغت بالعموم اِس طرح بیان کرتے ہیں کہ : ’أصل العبودیۃ الخضوع والتذلل‘ =1= (عبادت اصل میں عاجزی اور پستی ہے)۔ یہ چیز اگر خدا کی رحمت ،قدرت ،ربوبیت اور حکمت کے صحیح شعور کے ساتھ پیدا ہو تو اپنے آپ کو بے انتہا محبت اور بے انتہا خوف کے ساتھ اُس کے سامنے آخری حد تک جھکا دینے کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ خشوع، خضوع، اخبات ،انابت، خشیت، تضرع، قنوت وغیرہ، یہ سب الفاظ قرآن میں اِسی حقیقت کی تعبیر کے لیے استعمال ہوئے ہیں ۔یہ دراصل ایک داخلی کیفیت ہے جو انسان کے اندر پیدا ہوتی اور اُس کے نہاں خانۂ وجود کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ذکر،شکر، تقویٰ،اخلاص، توکل ،تفویض اور تسلیم و رضا — یہ سب عبد و معبود کے مابین اِس تعلق کے باطنی مظاہر ہیں۔اِس کے معنی یہ ہیں کہ بندہ اِس تعلق میں اپنے پروردگار کی یاد سے اطمینان حاصل کرتا،اُس کی عنایتوں پر اُس کے لیے شکر کے جذبات کو اپنے اندر ایک سیل بے پناہ کی طرح امڈتے ہوئے دیکھتا، اُس کی ناراضی سے ڈرتا، اُسی کا ہو رہتا، اُس کے بھروسے پر جیتا، اپنا ہر معاملہ اُس کے سپرد اور اپنے پورے وجود کو اُس کے حوالے کر دیتا اوراُس کے ہر فیصلے پر راضی رہتا ہے۔انسان کے ظاہری وجود میں اِس تعلق کا ظہور جن صورتوں میں ہوتا ہے، اُن کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے :
اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِھَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّسَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّھِمْ وَھُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ. تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ، یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۱۵۔۱۶)
’’ہماری آیتوں پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں، (اے پیغمبر) کہ اُنھیں جب اِن کے ذریعے سے یاددہانی کی جاتی ہے تو سجدے میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ ہرگز تکبر نہیں کرتے۔ اُن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ ‘‘
یہ رکوع و سجود ،تسبیح و تحمید ،دعا و مناجات اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان و مال کی قربانی — یہی اصل ’’عبادت‘‘ہے ۔لیکن انسان چونکہ اِس دنیا میں اپنا ایک عملی وجود بھی رکھتا ہے ،اِس وجہ سے اپنے اِس ظہور سے آگے بڑھ کر یہ عبادت انسان کے اُس عملی وجود سے متعلق ہوتی اور اِس طرح پرستش کے ساتھ اطاعت کو بھی شامل ہو جاتی ہے ۔اُس وقت یہ انسان سے مطالبہ کرتی ہے کہ اُس کا باطن جس ہستی کے سامنے جھکا ہوا ہے، اُس کا ظاہر بھی اُس کے سامنے جھک جائے۔ اُس نے اپنے آپ کو اندرونی طور پر جس کے حوالے کر دیا ہے ،اُس کے خارج میں بھی اُس کا حکم جاری ہو جائے، یہاں تک کہ اُس کی زندگی کا کوئی پہلو اِس سے مستثنیٰ نہ رہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ ہر لحاظ سے وہ اپنے پروردگار کا بندہ بن جائے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا، ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا وَاعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.(الحج ۲۲ : ۷۷)
’’ایمان والو، (اِن کا عہد تمام ہوا، اب تمھارا دور شروع ہو رہا ہے تو) رکوع و سجود کرو اور اپنے پروردگار کی بندگی کرواور نیکی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
اللہ اور بندے کے درمیان عبد و معبود کے اِس تعلق کے لیے یہ ’’عبادت‘‘ جب مابعدالطبیعیاتی اور اخلاقی اساسات متعین کرتی، مراسم طے کرتی اور دنیا میں اِس تعلق کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے حدود و قیود مقرر کرتی ہے تو قرآن کی زبان میں اُسے ’’دین‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اِس کی جو صورت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے بنی آدم پر واضح کی ہے، قرآن اُسے ’الدِّیْن‘کہتا ہے اور اُس کے بارے میں اُنھیں ہدایت کرتا ہے کہ وہ اُسے بالکل درست اور اپنی زندگی میں پوری طرح برقرار رکھیں اور اُس میں کوئی تفرقہ پیدا نہ کریں۔ سورۂ شوریٰ میں ہے :
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا، وَّ الَّذِیٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ، وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ.(۴۲: ۱۳)
’’اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا کہ (اپنی زندگی میں) اِس دین کو قائم رکھو =2= اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔‘‘
اِس ’’عبادت‘‘ کے لیے جو مابعد الطبیعیاتی اور اخلاقی اساسات خدا کے اِس دین میں بیان ہوئی ہیں، اُنھیں قرآن ’الْحِکْمَۃ‘اور اِس کے مراسم اور حدود وقیود کو ’الْکِتٰب‘ ،یعنی قانون سے تعبیر کرتا ہے:
وَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَالَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ، وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا.(النساء ۴: ۱۱۳)
’’ اللہ نے تم پر اپنا قانون اور اپنی حکمت نازل فرمائی ہے اور اِس طرح تمھیں وہ چیز سکھائی ہے جو تم نہیں جانتے تھے اور اللہ کی تم پر بڑی عنایت ہے ۔‘‘
وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَمَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَالْحِکْمَۃِ، یَعِظُکُمْ بِہٖ، وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ.(البقرہ ۲: ۲۳۱)
’’اور اپنے اوپر اللہ کی عنایت کو یاد رکھو، اور اُس قانون اور حکمت کو یاد رکھو جو اُس نے تم پر اتاری ہے، جس کی وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو اور خوب جان رکھو کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے ۔‘‘
اِس ’الْکِتٰب‘ کو وہ ’’شریعت‘‘ بھی کہتا ہے :
ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.(الجاثیہ ۴۵: ۱۸)
’’ اِس کے بعد، (اے پیغمبر)، ہم نے تم کو اپنے دین کی ایک واضح شریعت پر قائم کیا ہے تو اب تم اُسی کی پیروی کرو اور اُن لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلو جن کے پاس علم نہیں ہے۔‘‘
’الْحِکْمَۃ‘ ہمیشہ سے ایک ہی ہے ،لیکن ’’شریعت‘‘ بعض وجوہ سے، البتہ بہت کچھ مختلف رہی ہے۔ارشاد فرمایا ہے :
لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا ، وَلَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً. (المائدہ ۵: ۴۸)
’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت،یعنی ایک لائحۂ عمل مقرر کیا ہے۔ اللہ چاہتا تو تمھیں ایک ہی امت بنا دیتا۔‘‘
الہامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تورات میں زیادہ تر شریعت اور انجیل میں حکمت بیان ہوئی ہے۔ زبور اِسی حکمت کی تمہید میں خداوند عالم کی تمجید کا مزمور ہے اور قرآن اِن دونوں کے لیے ایک جامع شہ پارۂ ادب اور صحیفۂ انذار و بشارت کی حیثیت سے نازل ہوا ہے۔ بقرہ و نساء کی جو آیات اوپر نقل ہوئی ہیں ،اُن میں قرآن سے متعلق یہ حقیقت نہایت واضح الفاظ میں بیان ہوئی ہے ۔تورات و انجیل کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا مسیح علیہ السلام کے ساتھ قیامت میں اپنا ایک مکالمہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَاِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ، وَالتَّوْرٰۃَ وَالْاِنْجِیْلَ.(المائدہ ۵: ۱۱۰)
’’اور اُس وقت، جب میں نے تمھیں قانون اور حکمت سکھائی، یعنی تورات و انجیل کی تعلیم دی ۔‘‘
’الْحِکْمَۃ‘ کی تعبیر جن مباحث کے لیے اختیار کی گئی ہے ،وہ بنیادی طور پر دو ہیں :
ایک ایمانیات؛
دوسرے اخلاقیات ۔
’الْکِتٰب‘ کے تحت جو مباحث بیان ہوئے ہیں، وہ یہ ہیں :
۱۔ قانون عبادات۔ ۲۔ قانون معاشرت ۔ ۳۔ قانون سیاست۔ ۴۔ قانون معیشت۔ ۵۔ قانون دعوت۔ ۶۔ قانون جہاد ۔ ۷۔ حدودوتعزیرات۔ ۸۔ خورونوش۔ ۹۔ رسوم و آداب ۔ ۱۰۔ قسم اور کفارۂ قسم ۔
یہی سارا دین ہے۔
خدا کے جو پیغمبر اِس دین کو لے کر آئے ،اُنھیں ’’نبی‘‘کہا جاتا ہے ۔قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن میں سے بعض ’’نبوت‘‘کے ساتھ ’’رسالت‘‘ کے منصب پر بھی فائز ہوئے تھے۔
’’نبوت‘‘ یہ ہے کہ بنی آدم میں سے کوئی شخص آسمان سے وحی پا کر لوگوں کو حق بتائے اور اُس کے ماننے والوں کو قیامت میں اچھے انجام کی خوش خبری دے اور نہ ماننے والوں کو برے انجام سے خبردار کرے ۔ قرآن اِسے ’’انذار‘‘ اور ’’بشارت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے :
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ، مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ .(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’ لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر(اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے ، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے ۔‘‘
’’رسالت‘‘ یہ ہے کہ نبوت کے منصب پر فائز کوئی شخص اپنی قوم کے لیے اِس طرح خدا کی عدالت بن کر آئے کہ اُس کی قوم اگر اُسے جھٹلا دے تو اُس کے بارے میں خدا کا فیصلہ اِسی دنیا میں اُس پر نافذ کر کے وہ حق کا غلبہ عملاً اُس پر قائم کر دے:
وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلٌ ، فَاِذَا جَآءَ رَسُوْلُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ ، وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ.(یونس۱۰: ۴۷)
’’ (اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ، اُولٰٓءِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(المجادلہ ۵۸: ۲۰۔۲۱)
’’(تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ) جو اللہ اور اُس کے رسول سے دشمنی کریں گے، وہی سب سے بڑھ کر ذلیل ہونے والوں میں ہوں گے۔ اِس لیے کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب ہو کر رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بڑے زور والا اور بڑا زبردست ہے۔‘‘
رسالت کا یہی قانون ہے جس کے مطابق خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے :
ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ، وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ.(الصف ۶۱: ۹)
’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ (اِس سرزمین کے) تمام ادیان پر اُس کو غالب کر دے، خواہ یہ مشرکین بھی اِسے کتنا ہی ناپسند کریں۔‘‘
اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرماتا اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا میں برپا کر دیتا ہے ۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے میثاق پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور اِس سے انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں ۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیا جاتا ہے کہ حق کی جو نشانیاں خوداُنھوں نے بہ چشم سر دیکھ لی ہیں، اُن کی بنیاد پر اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچا دیں۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ ’’شہادت‘‘ ہے ۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت ، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اِن رسولوں کو غلبہ عطا فرماتا اوراِن کی دعوت کے منکرین پر اپنا عذاب نازل کر دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ’شَاہِد‘ اور ’شَہِیْد‘ اِسی بنا پر کہا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
اِنَّآ اَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا، شَاھِدًا عَلَیْکُمْ، کَمَآ اَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً. (المزمل ۷۳: ۱۵)
’’تمھاری طرف، (اے قریش مکہ)، ہم نے اُسی طرح ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے، جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔ ‘‘
شہادت کا یہ منصب رسولوں کے علاوہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذریت کو بھی عطا ہوا۔ قرآن نے اِسی کے پیش نظر اُنھیں خدا کے رسول اور اُس کے بندوں کے درمیان ایک جماعت ’اُمَّۃً وَّسَطًا‘ =3= قرار دیا اور بتایا ہے کہ اِس منصب کے لیے وہ اُسی طرح منتخب کیے گئے، جس طرح بنی آدم میں سے اللہ تعالیٰ بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَجَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ، ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ، مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ، ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ.(الحج ۲۲: ۷۸)
’’اور (مزید یہ کہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ — ابراہیم — کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے چن لیا ہے کہ رسول تم پر (اِس دین کی) گواہی دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) گواہی دینے والے بنو۔ ‘‘
نبیوں اور رسولوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بالعموم اپنی کتابیں بھی نازل فرمائی ہیں۔اِن کے نزول کا مقصد قرآن مجید میں یہ بیان ہوا ہے کہ حق و باطل کے لیے یہ میزان قرار پائیں تاکہ اِن کے ذریعے سے لوگ اپنے اختلافات کا فیصلہ کر سکیں اور اِس طرح حق کے معاملے میں ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں ۔ ارشاد فرمایا ہے :
وَاَنْزَلَ مَعَھُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ.(البقرہ ۲: ۲۱۳)
’’ اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے ۔ ‘‘
وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ.(الحدید ۵۷: ۲۵)
’’ اور اُن کے ساتھ اپنی کتاب، یعنی میزان نازل کی ہے تاکہ لوگ (حق و باطل کے معاملے میں) ٹھیک انصاف پر قائم ہو جائیں ۔‘‘
نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے شروع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا ہے۔ آپ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد وحی و الہام کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے اورنبوت ختم کر دی گئی ہے۔ =4= چنانچہ لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لیے ’’انذار‘‘ کی ذمہ داری اب قیامت تک اِس امت کے علما اداکریں گے۔ علما کی یہ ذمہ داری سورۂ توبہ میں اِس طرح بیان ہوئی ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً، فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ، لَعَلَّھُمْ یَحْذَرُوْنَ.( ۹: ۱۲۲)
’’ یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو (اُن کے اِن رویوں پر) خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے، اِس لیے کہ وہ خدا کی گرفت سے بچتے۔‘‘
اِس انذار کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے کہ یہ قرآن کے ذریعے سے کیا جائے گا۔ ’فَذَکِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ یَّخَافُ وَعِیْدِ‘ =5= اور ’جَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا‘ =6= کے الفاظ میں قرآن نے اِسی کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی بنا پر پوری دنیا کے لیے نذیر ہیں اورعلما درحقیقت آپ ہی کے اِس انذار کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں: ’تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًا‘۔ =7= چنانچہ فرمایا ہے:
وَاُوْحِیَ اِلَیَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ، وَمَنْم بَلَغَ.(الانعام ۶: ۱۹)
’’ اور میری طرف یہ قرآن اِس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اِس کے ذریعے سے میں تمھیں خبردار کردوں اور اُنھیں بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘
اِس دین کا نام ’’اسلام ‘‘ہے اور اِس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ بنی آدم سے وہ اِس کے سوا ہر گز کوئی دوسرا دین قبول نہ کرے گا :
اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ ... وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ. (آل عمران ۳: ۱۹، ۸۵)
’’اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے... اورجو اسلام کے سوا کوئی اوردین اختیارکرنا چاہے گا تو اُس سے وہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور قیامت میں وہ نامرادوں میں سے ہوگا۔‘‘
’’اسلام‘‘ کا لفظ جس طرح پورے دین کے لیے استعمال ہوتا ہے ،اِسی طرح دین کے ظاہر کو بھی بعض اوقات اِسی لفظ ’’اسلام ‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اپنے اِس ظاہر کے لحاظ سے یہ پانچ چیزوں سے عبارت ہے :
۱۔ اِس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے رسول ہیں۔
۲۔ نماز قائم کی جائے ۔
۳۔ زکوٰۃ ادا کی جائے۔
۴۔ رمضان کے روزے رکھے جائیں ۔
۵۔ بیت الحرام کا حج کیا جائے۔
قرآن مجید نے جگہ جگہ اِن کی تاکید فرمائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں یہ ایک ہی جگہ اِس طرح بیان ہوئے ہیں :
الإسلام أن تشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ، وتقیم الصلٰوۃ، وتؤتي الزکٰوۃ، وتصوم رمضان، و تحج البیت.( مسلم، رقم ۹۳)
’’اسلام یہ ہے کہ تم اِس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کے رسول ہیں اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت الحرام کا حج کرو۔‘‘
دین کا باطن ’’ایمان‘‘ ہے ۔اِس کی جو تفصیل قرآن میں بیان ہوئی ہے ،اُس کی رو سے یہ بھی پانچ ہی چیزوں سے عبارت ہے :
۱۔ اللہ پر ایمان
۲۔ فرشتوں پر ایمان
۳۔ نبیوں پر ایمان
۴۔ کتابوں پر ایمان
۵ ۔روز جزا پر ایمان
سورۂ بقرہ میں ہے :
اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ، کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ، لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ ، وَ قَالُوْا: سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا، غُفْرَانَکَ رَبَّنَا، وَاِلَیْکَ الْمَصِیْرُ.(۲: ۲۸۵) @2;@285
’’ ہمارے پیغمبر نے تو اُس چیز کو مان لیا جو اُس کے پروردگار کی طرف سے اُس پر نازل کی گئی ہے ، اور اُس کے ماننے والوں نے بھی ۔ یہ سب اللہ پر ایمان لائے ، اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں پر ایمان لائے ۔(اِن کا اقرار ہے کہ) ہم اللہ کے پیغمبر وں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور اِنھوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم نے سنا اور سر اطاعت جھکا دیا۔ پروردگار، ہم تیری مغفرت چاہتے ہیں اور (جانتے ہیں کہ) ہمیں لوٹ کر تیرے ہی حضور میں پہنچنا ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان باللہ ہی کی ایک فرع — تقدیر کے خیر و شر — کو اِن میں شامل کر کے اِنھیں اِس طرح بیان فرمایا ہے :
الإیمان أن تؤمن باللّٰہ، وملٰئکتہ، وکتبہ، ورسلہ، والیوم الاٰخر، و تؤمن بالقدر خیرہ وشرہ.(مسلم ، رقم۹۳)
’’ایمان یہ ہے کہ تم اللہ کو مانو اور اُس کے فرشتوں، اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں کو مانو، اور آخرت کے دن کو مانو، اور اپنے پروردگار کی طرف سے تقدیر کے خیر و شر کو بھی۔‘‘
یہ ایمان جب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دل میں اترتا اور اُس سے اپنی تصدیق حاصل کر لیتا ہے تو اپنے وجود ہی سے دو چیزوں کا تقاضا کرتا ہے :
ایک عمل صالح؛
دوسرے’ تواصي بالحق‘اور ’تواصي بالصبر‘۔
ارشاد فرمایا ہے:
وَالْعَصْرِ، اِنَّ الاِْنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ،وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ . (العصر ۱۰۳: ۱۔۳)
’’زمانہ گواہی دیتا ہے،یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘
’’عمل صالح‘‘سے مراد ہر وہ عمل ہے جو تزکیۂ اخلاق کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ اِس کی تمام اساسات عقل و فطرت میں ثابت ہیں اور خدا کی شریعت اِسی عمل کی طرف انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوئی ہے ۔
’تواصي بالحق‘ اور ’تواصي بالصبر‘ کے معنی اپنے ماحول میں ایک دوسرے کو حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کے ہیں ۔یہ حق کو ماننے کا بدیہی تقاضا ہے جسے قرآن نے ’’امربالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ سے بھی تعبیر کیا ہے، یعنی وہ باتیں جو عقل و فطرت کی رو سے معروف ہیں، اپنے قریبی ماحول میں لوگوں کو اُن کی تلقین کی جائے اور جو منکر ہیں، اُن سے لوگوں کو روکا جائے :
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ، یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.(التوبہ ۹: ۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
اِسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ دنیا میں اگر کسی جگہ اقتدار حاصل ہوجائے تو اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو اِس کام کے لیے باقاعدہ مقرر کیا جائے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَي الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۰۴)
’’اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ) جو یہ کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
یہ ذمہ داری، ظاہر ہے کہ بعض معاملات میں تبلیغ و تلقین کے ذریعے سے اور بعض معاملات میں قانون کی طاقت سے پوری کی جائے گی۔=8= پہلی صورت کے لیے جمعہ کا منبر ہے، جو اِسی مقصد سے ارباب حل و عقد کے لیے خاص کیا گیا ہے، اور دوسری صورت کے لیے پولیس کا محکمہ ہے، جو مسلمانوں کی حکومت میں اِسی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔
ایمان کا یہ تقاضا ہر مسلمان کو نصح و خیر خواہی کے جذبے سے پورا کرنا چاہیے ۔دین کی صحیح روح کے ساتھ یہ ذمہ داری اِس جذبے کے بغیر کسی حال میں پوری نہیں کی جا سکتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الدین النصیحۃ، للّٰہ، ولکتابہ، ولرسولہ، ولأئمۃ المسلمین وعامتھم. (مسلم ، رقم۱۹۶)
’’دین خیر خواہی ہے ۔ اللہ کے لیے ،اُس کی کتاب کے لیے، اُس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور اُن کے عوام کے لیے۔‘‘
عام حالات میں ایمان کے تقاضے یہی ہیں ،لیکن انسان کو اُس کے خارج کے لحاظ سے جو حالتیں اِس دنیا میں پیش آسکتی ہیں،اُن کی رعایت سے اِن کے علاوہ تین اور تقاضے بھی اِس سے پیدا ہوتے ہیں :
ایک ہجرت؛
دوسرے نصرت؛
تیسرے قیام بالقسط۔
بندۂ مومن کے لیے اگر کسی جگہ اپنے پروردگار کی عبادت پر قائم رہنا جان جوکھم کا کام بن جائے، اُسے دین کے لیے ستایا جائے ، یہاں تک کہ اپنے اسلام کو ظاہر کرناہی اُس کے لیے ممکن نہ رہے تو اُس کا یہ ایمان اُس سے تقاضا کرتا ہے کہ اُس جگہ کو چھوڑ کر کسی ایسے مقام کی طرف منتقل ہو جائے جہاں وہ علانیہ اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکے۔ قرآن اِسے ’’ہجرت‘‘ کہتا ہے۔ زمانۂ رسالت میں جب اللہ اور اُس کے رسول کی طرف سے براہ راست اِس کی دعوت دی گئی تو اِس سے گریز کرنے والوں کوقرآن نے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ سورۂ نساء میں ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمُ الْمَآٰءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِھِمْ، قَالُوْا: فِیْمَ کُنْتُمْ ؟ قَالُوْا: کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ. قَالُوْٓا: اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُاللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُھَاجِرُوْا فِیْھَا،فَاُولٰٓئِکَ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا.(۴: ۹۷)
’’(اِس موقع پر بھی جو لوگ اُن بستیوں سے نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جہاں اُنھیں دین کے لیے ستایا جارہا ہے، اُنھیں بتاؤ، اے پیغمبر کہ) جن لوگوں کی جان فرشتے اِس حال میں قبض کریں گے کہ(اپنے ایمان کو خطرے میں ڈال کر) وہ اپنی جان پر ظلم کر رہے تھے، اُن سے وہ پوچھیں گے کہ یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم تو اِس ملک میں بالکل بے بس تھے۔ فرشتے کہیں گے: کیا خدا کی زمین ایسی وسیع نہ تھی کہ تم اُس میں ہجرت کر جاتے۔سو یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ کیا ہی بُرا ٹھکانا ہے۔‘‘
اِسی طرح دین کو اپنے فروغ یا اپنی حفاظت کے لیے اگر کسی اقدام کی ضرورت پیش آ جائے تو ایمان کا تقاضا ہے کہ جان و مال سے دین کی مدد کی جائے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ اللہ پروردگار عالم کی ’’نصرت‘‘ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مدینہ میں اقتدار حاصل ہو جانے کے بعد اِس کی ضرورت پیش آئی اور لوگوں سے جہاد وقتال کا مطالبہ کیا گیا تو قرآن نے ایک موقع پر اِس کی دعوت اِس طرح لوگوں کو دی:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا، ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ؟ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ، ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ، اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ یُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَ مَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ. وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا، نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَتْحٌ قَرِیْبٌ، وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ. یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا،کُوْنُوْآ اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ: مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلیَ اللّٰہِ؟ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ: نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ.(الصف ۶۱: ۱۰۔۱۴)
’’ایمان والو، میں تم کو وہ تجارت بتاؤں جو تمھیں دردناک عذاب سے نجات دے؟ (یہود نے جو رویہ اختیار کیا ہے، اُس کے برخلاف)، تم اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاؤ گے ، جس طرح کہ ایمان لانے کا حق ہے، اور اپنے جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے۔ یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔ اِس کے بدلے میں اللہ تمھارے گناہ بخش دے گا اور تمھیں ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی اور بہترین گھر عطا فرمائے گا جو ابد کے باغوں میں ہوں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔ اور ایک دوسری چیز بھی عطا فرمائے گا جو تم چاہتے ہو، یعنی اللہ کی مدد اور فتح جو عنقریب حاصل ہو جائے گی۔ ایمان والوں کو اِس کی بشارت دو، (اے پیغمبر)۔ایمان والو، اللہ کے مددگار بنو ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا: کون اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے؟ حواریوں نے جواب دیا: ہم اللہ کے مددگار ہیں۔ ‘‘
سلف و خلف میں دین کی حفاظت ،بقا اور تجدید و احیا کے جتنے کام بھی ہوئے ہیں، ایمان کے اِسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ہوئے ہیں ۔امت کی تاریخ میں زبان و قلم، تیغ وسناں اور درہم و دینار سے دین کے لیے ہر جدوجہد کا ماخذ یہی ’’نصرت‘‘ ہے ۔قرآن کا مطالبہ ہے کہ ایمان کا یہ تقاضا اگر کسی وقت سامنے آ جائے تو بندۂ مومن کو دنیا کی کوئی چیز بھی اِس سے عزیز تر نہیں ہونی چاہیے ۔چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں جب یہ مرحلہ آیا تو قرآن نے فرمایا :
قُلْ: اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وْ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِ اقْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَھَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ جِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ ، وَاللّٰہُ لاَ یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.(التوبہ ۹: ۲۴)
’’ اِن سے کہہ دو ، (اے پیغمبر) کہ اگر تمھارے باپ اور تمھارے بیٹے؛تمھارے بھائی، تمھاری بیویاں، تمھارا خاندان اور تمھارا وہ مال جو تم نے کمایا ہے اور وہ تجارت جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے وہ گھر جنھیں تم پسند کرتے ہو، یہ سب تمھیں اللہ سے ، اُس کے رسول سے اور اُس کی راہ میں جہاد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر کر دے۔ اور (جان لو کہ) اِس طرح کے بد عہدلوگوں کو اللہ راہ یاب نہیں کرے گا۔‘‘
پھر دین و دنیا کے کسی معاملے میں اگر انسان کے جذبات، تعصبات، مفادات اور خواہشیں اُسے انصاف کی راہ سے ہٹا دینا چاہیں تو یہی ایمان تقاضا کرتا ہے کہ بندۂ مومن نہ صرف یہ کہ حق و انصاف پر قائم رہے ، بلکہ یہ اگر گواہی کا مطالبہ کریں تو جان کی بازی لگا کر اُن کا یہ مطالبہ پورا کرے۔ حق کہے، حق کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ انصاف کرے، انصاف کی شہادت دے اور اپنے عقیدہ و عمل میں حق و انصاف کے سوا کبھی کوئی چیز اختیار نہ کرے۔ یہ ’’قیام بالقسط‘‘ ہے اور قرآن مجید میں اِس کا حکم اِس طرح بیان ہوا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ، کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ، شُھَدَآءَ لِلّٰہِ ، وَلَوْعَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ، اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا ، فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ، وَاِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.( النساء۴: ۱۳۵)
’’ ایمان والو، انصاف پر قائم رہو، اللہ کے لیے اُس کی گواہی دیتے ہوئے، اگرچہ یہ گواہی خود تمھاری ذات، تمھارے ماں باپ اور تمھارے قرابت مندوں کے خلاف ہی پڑے۔ امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کا زیادہ حق دار ہے (کہ اُس کے قانون کی پابندی کی جائے)، اِس لیے (اللہ کی ہدایت کو چھوڑ کر) تم خواہشوں کی پیروی نہ کرو کہ اِس کے نتیجے میں حق سے ہٹ جاؤ اور (یاد رکھو کہ) اگر (حق و انصاف کی بات کو) بگاڑنے یا (اُس سے) پہلو بچانے کی کوشش کرو گے تو اُس کی سزا لازماً پاؤ گے، اِس لیے کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اُس سے خوب واقف ہے۔‘‘
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ،کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ ، شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ ، وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا، اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی، وَاتَّقُوا اللّٰہَ، اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ. ( المائدہ ۵: ۸)
’’ایمان والو،(اِس عہد و میثاق کا تقاضا ہے کہ ) اللہ کے لیے کھڑے ہو جاؤ، انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اور کسی قوم کی دشمنی بھی تمھیں اِس پر نہ ابھارے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو، اِس لیے کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے با خبر ہے۔‘‘
اِس دین کا جو مقصد قرآن میں بیان ہوا ہے ، وہ قرآن کی اصطلاح میں ’’تزکیہ‘‘ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو آلایشوں سے پاک کر کے اُس کے فکرو عمل کو صحیح سمت میں نشوونما دی جائے۔ قرآن مجید میں یہ بات جگہ جگہ بیان ہوئی ہے کہ انسان کا نصب العین بہشت بریں اور ’رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً‘ کی بادشاہی ہے اور فوزوفلاح کے اِس مقام تک پہنچنے کی ضمانت اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو اِس دنیا میں اپنا تزکیہ کر لیں :
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکیّٰ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی. بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا، وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی. (الاعلیٰ ۸۷: ۱۴۔۱۷)
’’البتہ فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اِس کے لیے اپنے رب کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑھی۔ (لوگو، تم کوئی حجت نہیں پاتے)، بلکہ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، دراں حالیکہ آخرت اُس سے بہتر بھی ہے اور پایدار بھی۔‘‘
لہٰذا دین میں غایت اور مقصود کی حیثیت تزکیہ ہی کو حاصل ہے۔ اللہ کے نبی اِسی مقصد کے لیے مبعوث ہوئے اور سارا دین اِسی مقصود کو پانے اور اِسی غایت تک پہنچنے میں انسان کی رہنمائی کے لیے نازل ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ، یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ.( الجمعہ ۶۲: ۲)
’’ اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اِس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
اِس دین پر عمل کے لیے جو رویہ اِس کے ماننے والوں کو اختیار کرنا چاہیے، وہ ’’احسان‘‘ ہے۔احسان کے معنی کسی کام کو اُس کے بہترین طریقے پر کرنے کے ہیں ۔دین میں جب کوئی عمل اِس طرح کیا جائے کہ اُس کی روح اور قالب، دونوں پورے توازن کے ساتھ پیش نظر ہوں ، اُس کا ہر جز بہ تمام وکمال ملحوظ رہے اور اُس کے دوران میں آدمی اپنے آپ کو خدا کے حضور میں سمجھے تو اِسے ’’احسان‘‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ، وَھُوَمُحْسِنٌ ، وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا. (النساء۴: ۱۲۵)
’’(ایمان والوں کے مقابلے میں یہ منافق مشرکوں کو ترجیح دیتے ہیں) اور (نہیں سمجھتے کہ) اُس شخص سے بہتر کس کا دین ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دے اور اچھے طریقے سے عمل کرنے والا ہو اور ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرے جو بالکل یک سو تھا۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بلیغ اسلوب میں اِس کی وضاحت اِس طرح فرمائی ہے:
الإحسان أن تعبد اللّٰہ کأنک تراہ ، فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک.(مسلم ، رقم ۹۳)
’’’’احسان‘‘یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اِس طرح کرو گویا تم اُسے دیکھ رہے ہو، اِس لیے کہ اگر تم اُسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمھیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘
8 اِس سے وہ معاملات مراد ہیں، جن کے احکام مسلمانوں کے معاشرے کو دیے گئے ہیں۔ اِس کے برخلاف جو احکام فرد کو بہ حیثیت فرد دیے گئے ہیں، اُن کا معاملہ خدا اور بندوں کے درمیان ہے، اور اُس میں وہ حکومت یا قانون کے سامنے نہیں، بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں تعلیم و تربیت اور تلقین و نصیحت سے آگے کسی حکومت کے کوئی اختیارات نہیں ہیں، الّا یہ کہ کسی کی حق تلفی یا جان و مال اور آبرو کے خلاف کسی زیادتی کا اندیشہ ہو۔=8=