HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Javed Ahmad Ghamidi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اصول و مبادی

دین اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو اُس نے پہلے انسان کی فطرت میں الہام فرمائی اور اِس کے بعد اُس کی تمام ضروری تفصیلات کے ساتھ اپنے پیغمبروں کی وساطت سے انسان کو دی ہے۔ اِس سلسلہ کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ چنانچہ دین کا تنہا ماخذ اِس زمین پر اب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات ہے۔ یہ صرف اُنھی کی ہستی ہے کہ جس سے قیامت تک بنی آدم کو اُن کے پروردگار کی ہدایت میسر ہو سکتی اور یہ صرف اُنھی کا مقام ہے کہ اپنے قول و فعل اور تقریر و تصویب سے وہ جس چیز کو دین قرار دیں، وہی اب رہتی دنیا تک دین حق قرار پائے:


ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ. (الجمعہ ۶۲: ۲)
’’ اُسی نے امیوں کے اندر ایک رسول اُنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اُنھیں سناتا اور اُن کا تزکیہ کرتا ہے، اور اِس کے لیے اُنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘


یہی قانون و حکمت وہ دین حق ہے جسے ’’اسلام‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔اِس کے ماخذ کی تفصیل ہم اِس طرح کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دین آپ کے صحابہ کے اجماع اور قولی و عملی تواتر سے منتقل ہوا اور دو صورتوں میں ہم تک پہنچا ہے :

۱۔ قرآن مجید

۲ ۔سنت

قرآن مجید کے بارے میں ہر مسلمان اِس حقیقت سے واقف ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی ہے ،اور اپنے نزول کے بعد سے آج تک مسلمانوں کے پاس اُن کی طرف سے بالاجماع اِس صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور جسے آپ کے صحابہ نے اپنے اجماع اور قولی تواتر کے ذریعے سے پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی ادنیٰ تغیر کے دنیا کو منتقل کیا ہے ۔

سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اُس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ۔ قرآن میں آپ کو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ روایت بھی اُسی کا حصہ ہے۔ارشاد فرمایا ہے:


ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا، وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ .(النحل۱۶: ۱۲۳)
’’پھر (یہی وجہ ہے کہ ) ہم نے تمھاری طرف وحی کی کہ اِسی ابراہیم کے طریقے کی پیروی کرو، جو بالکل یک سو تھا اور مشرکوں میں سے نہیں تھا۔‘‘


اِس ذریعے سے جو دین ہمیں ملا ہے ،وہ یہ ہے :

عبادات

۱۔ نماز ۔۲۔ زکوٰۃ اور صدقۂ فطر ۔۳۔ روزہ و اعتکاف ۔۴۔ حج و عمرہ ۔۵۔ قربانی اور ایام تشریق کی تکبیریں ۔

معاشرت

۱۔ نکاح و طلاق اور اُن کے متعلقات ۔ ۲۔حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب۔

خور و نوش

۱۔ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت ۔ ۲۔ اپنا اور جانور کا ’رجس‘ دور کرنے کے لیےاللہ کا نام لے کراُس کا تذکیہ ۔

رسوم و آداب

۱۔ اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ۔ ۲۔ ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم ‘اور اُس کا جواب۔۳۔ چھینک آنے پر ’الحمد للّٰہ‘ اور اُس کے جواب میں ’یرحمک اللّٰہ‘ ۔ ۴ ۔مونچھیں پست رکھنا۔ ۵۔ زیر ناف کے بال کاٹنا۔ ۶۔بغل کے بال صاف کرنا۔ ۷۔ بڑھے ہوئے ناخن کاٹنا۔ ۸۔لڑکوں کا ختنہ کرنا ۔۹۔ ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی۔ ۱۰۔استنجا۔ ۱۱۔ حیض و نفاس کے بعد غسل۔ ۱۲۔غسل جنابت۔ ۱۳۔میت کا غسل۔ ۱۴ ۔تجہیز و تکفین ۔۱۵۔تدفین ۔۱۶ ۔عید الفطر ۔ ۱۷۔عید الاضحی ۔

سنت یہی ہے اور اِس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اِس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ۔وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ،یہ اِسی طرح اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے۔ لہٰذا اِس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہے۔

دین اصلاً، اِنھی دو صورتوں میں ہے۔ اِن کے علاوہ کوئی چیز دین ہے، نہ اُسے دین قرار دیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبار آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جا تا ہے، اِن سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔ دین سے متعلق جو چیزیں اِن میں آتی ہیں، وہ درحقیقت قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کا بیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ اِس معاملے میں یہی ہے۔ اِس کی تبلیغ و حفاظت کے لیے آپ نے اِسی بنا پر کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا، بلکہ دیکھنے اور سننے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ اِس کی جس چیز کو اُس کی نوعیت کے لحاظ سے ضروری سمجھیں، آگے پہنچائیں اور جس کو نہ سمجھیں، نہ پہنچائیں۔

اِس دائرے کے اندر ، البتہ حدیث کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے:


فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْ٘ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا.(النساء ۴: ۶۵)
’’لیکن نہیں، (اے پیغمبر)، تمھارے پروردگار کی قسم، یہ لوگ کبھی مومن نہیں ہو سکتے، جب تک اپنے اختلافات میں تمھی کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کر دو، اُس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور دل و جان سے اُس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔‘‘


قرآن مجید ، سنت اور حدیث — یہ تینوں محل تدبر ہیں ،لہٰذا اِن کے بارے میں صحیح نقطۂ نظر پر قائم رہنے کے لیے جو چیزیں ہمارے نزدیک، ہر صاحب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ ایک ترتیب کے ساتھ ہم یہاں بیان کریں گے۔

B