HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

دبستان شبلی

  ’’ دبستان شبلی‘‘ کی اصطلاح کا ظہور، ہماری زبان کی ادبی تاریخ میں پہلی مرتبہ ماہنامہ’’ اشراق‘‘ کے صفحات پر ہوا۔ یہ اصطلاح ایک صاحب دل کی واردات قلبی کے پس منظر میں نمودار ہوئی۔ یہ آواز تھی تو صداے دل، لیکن چونکہ اس کے مخاطب دل و دماغ تھے، اس لیے ’’ مقامات‘‘ کی یہ بات ان دونوں مقامات کی مکیں بنی۔۱؎ اس نقش اول میں اس اصطلاح کے بارے میں اجمال کا پہلو نمایاں تھا، اس لیے ان سطور میں وہی بات ذرا تفصیل سے کہی جا رہی ہے۔

    ’’ دبستان شبلی‘‘ دراصل ان ہستیوں کا ذکر جمیل ہے جو ہمارے قومی و جغرافی افق پر چند انفرادی خصائص کے ساتھ ابھریں اور تاریخی اعتبار سے بھی ایک تسلسل میں پروئی ہوئی ہیں۔ سوا سو سال کے اس عرصے میں، یہ ہیں تو چند ایک ، لیکن بہرحال لاکھوں میں انتخاب ہیں۔

    ان کی وادیٔ علم و عمل میں اگر کوئی اترے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے چاروں طرف رنگ و بو کی ایک دنیا آباد ہے۔ ان کے کام کی نوعیت اور دل چسپی کے مرکز مختلف ہو سکتے ہیں، جیسے کوئی تفسیر کی دنیا میں امام ہے اور کسی کا ہاتھ وقت کی نبض پر ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ ایک ہی فکر کا تسلسل ہے۔ کوئی سرخ ہے تو کوئی گلابی۔ کوئی ابیض ہے تو کوئی اسود، لیکن ہیں سبھی گلاب:


روش روش پہ ہیں نکہت فشاں گلاب کے پھول
حسین گلاب کے پھول، ارغواں گلاب کے پھول

  ان شخصیات کی مشترکہ خصوصیت، ان کی نقدو نظر کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ وہ کھلی آنکھوں سے نہ صرف مشرق سے ابھرتے ہوئے خورشید کو دیکھتے ہیں، بلکہ اس کے غروب کے وقت بھی اپنی چشم کشا رکھتے ہیں۔ وہ اکابرین امت کا بہت احترام کرتے ہیں، لیکن ان کی کمزوریوں سے چشم پوشی نہیں کرتے۔ قدیم سے محبت انھیں جدید کے ساتھ کسی خدا واسطے کے بیر میں مبتلا نہیں کرتی۔ وہ ثبوت سحر کے لیے صرف مرغ کی اذان کافی نہیں سمجھتے ، سپیدۂ سحر کو بھی دیکھتے ہیں۔ اسی طرح گم کردہ راہوں میں سواء السبیل کی تلاش کا سلیقہ بھی انھیں آتا ہے۔ وہ اسلام کے احکام کی روح پہچانتے ہیں اور وقت کے بدلتے تقاضے بھی ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ حالات و زمانہ کی رعایت سے دین کے اصل مفہوم کو واضح کرتے ہیں۔

    وہ خطیب منبر ہوں یا قلم کے دھنی، ان کا اسلوب منفرد ہی نہیں دل کش بھی ہوتا ہے، وہ بولتے ہیں تو زمانہ ان کے الفاظ کی رو میں بہتا ہے، وہ لکھتے ہیں تو گویا وقت کی تقدیر کی کتابت کرتے ہیں۔

    یہ خصائص دراصل اس قافلۂ دعوت و عزیمت کے ہیں جس کے ہاتھوں کار تجدید سر انجام پاتا ہے اور یہ سب لوگ تحریک تجدید و احیاے دین کے اکابر ہیں۔ ہماری قومی تاریخ میں اس قافلے کے پہلے فرد مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ تعالیٰ ہیں، اس لیے ہم اسے ’’ دبستان شبلی‘‘ کہتے ہیں۔

    یہ بھی کچھ کم سانحہ نہیں کہ ہماری تاریخ لکھنے والوں نے ان لوگوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے ، اگر کبھی ان کا ذکر ہوا ہے تو اس طرح کہ یہ تاثر قائم کرنا ممکن ہی نہیں کہ ہماری نظریاتی تاریخ کے اصل خالق یہی ہیں۔ اگر کسی شخصیت کا تذکرہ کچھ تفصیل سے ہوا ہے تو اس کے لیے ’’ کردار کشی‘‘ کا عنوان ہی باندھا جا سکتا ہے۔ نہیں معلوم کے ہمارے مورخ اس زنجیر کو ہلائے بغیر تاریخ سے عدل کیسے کرتے رہے۔

    اس کار تجدید کی اہمیت اور مورخین کے اس سلوک کا یہ تقاضا ہے کہ ان اکابرین ملت کی اصل شخصیت اور کام کے نقوش واضح کیے جائیں تاکہ اسلامی تحریک سے متعلق لوگ اپنے کام کا جائزہ لے کر اپنے لائحۂ عمل کا نئے سرے سے تعین کر سکیں اور اس راہ تجدید پر پھر وہی چہل پہل دیکھنے کو ملے جس کا اندازہ ان اکابر کے نقوش پا سے ہوتا ہے۔

    ۱۸۵۷ ء کے حادثے کو ہماری تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے۔ ۱۸۳۱ ء میں شہادت سید احمد و شاہ اسماعیل کے بعد یہ دوسرا موقع تھا کہ آزادی کی جنگ غیر مناسب حکمت عملی کے باعث ناکامی پر منتج ہوئی۔ کسی غالب قوت کے خلاف جدو جہد اگر کامیاب نہ ہو سکے تو شکست خوردہ افراد کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ زندگی کے کھیل میں مغلوب قوم کا کردار اد ا کریں، الاّ یہ کہ کوئی غیر معمولی جذبہ انھیں پھر سے کسی کشمکش کے لیے آمادہ کر سکے۔

    اس صورت حال نے مسلمانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ انھیں زندہ رہنے کے لیے کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اس سوچ نے اس مسئلے کے دو حل دیے:

    ایک گروہ کو خیال ہوا کہ غالب قوت کے خلاف جنگ کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے علوم و فنون میں مہارت حاصل کی جائے۔ اس کی زبان و لباس کو اپنا شعار بنایا جائے۔ اس کی تہذیب کو اپنایا جائے۔ سوچ کا انداز بھی وہی ہو جو اس کا ہے، یعنی اگر وہ عقل کو حجت مانتا ہے تو ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے، گویا بالکل اسی طرح بن جانا چاہیے، جیسا کہ وہ ہیں۔ دیکھنے والا عبد اللہ اور جارج سٹیفن میں سوائے نام کے کوئی فرق تلاش نہ کر پائے۔ یہ ٹینکوں کے خلاف ٹینکوں کی جنگ کا خاکہ تھا۔ ہماری تاریخ میں یہ انداز فکر و نظر ’’تحریک علی گڑھ‘‘ کے نام سے منسوب ہے اور سر سید احمد خان اس کے پہلے امام ہیں۔

    دوسری سوچ یہ پیدا ہوئی کہ ہمیں اپنا تعلق اپنے پرانے ورثے سے مضبوط بنانا چاہیے اور نئے ماحول سے اس طرح آنکھیں بند کر لینی چاہییں کہ جیسے ہم نے کچھ دیکھا ہی نہیں ہے۔ دین کی وہی تعبیر و تشریح مسلم ہے جو اکابرین امت کر چکے ہیں، اور ان کی اتباع و تائید ہی میں کامیابی ہے۔ نئی تہذیب، انگریزی زبان، جدید علوم سوائے دعوت الحاد کے اور کچھ نہیں۔ اگر بحیثیت مسلمان اپنا وجود باقی رکھنا ہے تو یہی واحد حل ہے جسے قبول کرنا چاہیے او راسی حکمت عملی کے تحت غالب قوت کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ ٹینکوں کے ساتھ تلواروں سے جنگ کا منصوبہ تھا۔ اس فکر کا آغاز دار العلوم دیوبند بنا اور مولانا قاسم نانوتوی اس کے امام الداعین ہیں۔

    لیکن یہ دونوں حل، جیسا کہ بعد میں حالات نے ثابت کیا، صحیح نہیں تھے۔ جہاں تک تحریک علی گڑھ کا تعلق ہے تو یہ اپنے وجود کو مٹا دینے کے مترادف تھا۔ اس طرز فکر کو اپنانے کا ناگزیر نتیجہ تھا کہ ہم بحیثیت مسلمان اپنا تشخص کھو دیتے۔ ٹینکوں کے مقابلے میں ٹینکوں سے مقابلہ کرنے کا منصوبہ ترتیب دیتے وقت یہ ضرور سوچنا چاہیے تھا کہ ٹینک بنانے والوں اور تیار شدہ ٹینکوں سے جنگ کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ جنگ کے دوران میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ خراب ٹینکوں کی اصلاح کی ضرورت پڑ جائے۔ اس کے لیے وہ صنعت (Technology ) ضروری ہے جو ان کے ایجاد کے وقت ملحوظ رکھی گئی ۔ اس کے لیے لازماً ان ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جو اس کے خالق ہیں۔ اور اس دریوزہ گری کے بعد کسی غلبے کا امکان خود بخود ختم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک طرح کا اظہار عجز تھا کہ آپ کی فکر ریت کی بنیادوں پر کھڑی ہے او رآپ کا اپنا کوئی دفاعی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔۲؎

    دوسرے انداز فکر کی لغویت کسی دلیل کی محتاج نہیں۔ بلا شبہ ہمیں قرآن و سنت ہی سے تعلق قائم رکھنا چاہیے، لیکن اس کی تشریح انھی علوم اور اسی زبان میں کرنا ہو گی جو وقت رواں میں تاثر و ابلاغ کے ذرائع ہیں۔ ہمیں اپنی تلواریں تیز رکھنی چاہییں اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جدید ترین دفاعی انداز اپنانا چاہیے۔ تلوار کے ساتھ ٹینکوں کے مقابلے میں یہ تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی نیت کے صلے میں آپ کو شہادت کا منصب عطا کردے ، لیکن آپ کے غالب آنے کا کوئی امکان نہیں۔

    ۱۸۶۷ ء میں دار العلوم دیو بند قائم ہوا اور قریب قریب یہی وہ دور ہے جب علی گڑھ کی فکر بھی فروغ پا رہی تھی۔ اسے اتفاق کہیے یا اللہ تعالیٰ کی سنت کہ یہی وہ ماہ و سال تھے جب مولانا شبلی لڑکپن سے شعور کی حد میں داخل ہو رہے تھے۔ اور ان کے روپ میں ہندوستان کے لوگ ایک نئی سوچ سے آشنا ہونے والے تھے۔

    ۱۸۵۷ ء جہاں مسلمانوں کی ناکامیوں کی داستان سناتا ہے، وہاں مولانا شبلی کی ولادت کی خوشگوار یاد بھی اسی سال سے وابستہ ہے۔ فکر علی گڑھ ودیو بند کے حاملین سے مولانا کا قریبی تعلق رہا اور وہ ان دونوں راستوں کے نشیب و فراز سے پوری طرح باخبر تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے ایک موثر ناقد کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا محمد فاروق چریا کوٹی ، مولانا فیض الحسن اور مولانا احمد علی سہارن پوری جیسے لوگوں سے منطق ، ادب، حدیث اور دوسرے علوم کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تقریباً ایک مہینا دیو بند بھی رہے۔ اگر چہ یہاں کے باقاعدہ طالب علم نہیں تھے، لیکن فرائض کا علم یہیں سے سیکھا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے اس قدیم علمی ورثے سے مولانا کا تعلق کتنا قریبی رہا ۔ اسی طرح وہ کئی سال علی گڑھ کی درس گاہ سے وابستہ رہے اور سر سید کی فکر سے براہ راست واقفیت پیدا ہوئی۔

    ان قربتوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ مولانا دیو بند و علی گڑھ کی تحریکوں کے محاسن و خرابیوں سے آشنا ہوئے اور گھر کے بھیدی ہونے کی بنا پر، ان دونوں سے متعلق مولانا کی راے معتبر ٹھہری۔ شبلی گہرے مطالعے اور مشاہدے کے بعد، اس نتیجے تک پہنچے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے مسائل کا حل نہ تو دیوبند کے پاس ہے او رنہ علی گڑھ کے پاس۔ تہذیب و تمدن کے ارتقا اور علوم کی ترقی کے بعد اپنے وجود کو برقرا رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ قدیم علمی ورثے سے تعلق کے ساتھ نئے علوم و فنون سے آشنائی پیدا کی جائے۔ قدیم سے تعلق اس لیے ضروری ہے کہ ہماری اصل پہچان، بہرحال وہی ہے۔ قرآن و سنت سے تعلق ختم کر کے یا اسے نئی سوچ کے ہاتھوں کھلونا بنا کر ہمارے لیے اپنا تشخص قائم ر کھنا ممکن نہیں۔ اس طرز عمل سے ایک نئی قوم تو وجود میں آ سکتی ہے جوچاہے اپنا نام مسلمان رکھ لے، لیکن اس کا ، بہرحال اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اسی طرح اگر ہم چاہیں کہ نئے علوم میں علم و مہارت حاصل کیے بغیر محض قدیم سے تعلق کے سہارے دنیا میں اپنا وجود قائم رکھ سکیں گے تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔ ہر نیا زمانہ نئے مسائل لے کر آتا ہے اور یہ نئے مسائل حل چاہتے ہیں اور ان کا حل قرآن و سنت کی ان تعبیروں میں موجود نہیں ہے جن کو ہم اپنے سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ہمارے اسلاف کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے ادوار میں اس دین کی حقانیت کو ثابت کیا ہے۔ لہٰذا ،ان سے تعلق کا صحیح طریقہ ان کی تعبیروں کو اپنانا نہیں، بلکہ ان کی روش پر چلنا ہے۔ مگ ۲۰۰۰ کا مقابلہ کرنے کے لیے ایف ۔۱۶ ہی کام دے سکتے ہیں، سو سالہ پرانے جہاز نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایف۔ ۱۶ پرانے جہاز ہی کی ترقی یافتہ صورت ہے۔ یہی نوعیت ہے اس کام کی جسے ہم ’’ کار تجدید‘‘ سے موسوم کرتے ہیں اور ۱۸۵۷ ء کے بعد مولانا شبلی نعمانی اس کے داعی اول ہیں۔

    مولانا نے ایک طرف دینی مدرسوں کے نظام پر تنقید کی اور دوسری طرف سر سید کے فکر کو علی گڑھ میں رہنے کے باوجود قبول نہیں کیا۔ دینی مدارس کے فرسودہ نظام کے مضمرات سے وہ پوری طرح آگاہ تھے۔ چنانچہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 ’’مدارس سے ہر سال نام کے مولوی فارغ ہو کر نکلتے ہیں۔ معاش کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ دیہات میں جاتے ہیں اور اپنی تنخواہ کے موافق چندے کا بندو بست کرکے جھوٹ موٹ ایک مدرسہ قائم کر دیتے ہیں۔ خود عربی عبارت میں بھی اچھی طرح نہیں پڑھ سکتے، لیکن دوسرے ہی سال دو چار کو دستار فضیلت بندھوا کر شریعت کے سیاہ و سپید کا مالک بنا دیتے ہیں۔ علما جانتے ہیں کہ ان باتوں سے اسلام کی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں، لیکن کس کو حوصلہ ہے کہ منبر پر چڑھ کر صاف صاف کہہ دے کہ یہ ثواب کا کام نہیں۔‘‘(الغزالی ۸۹-۹۰)

    مولانا شبلی کے نزدیک اس صورت حال سے بچنے کے لیے ناگزیر ہے کہ مدرسوں کے نظام اور نصاب میں تبدیلی کی جائے ۔ چنانچہ ندوۃ العلما میں جب مولانا کو کچھ رسوخ حاصل ہوا تو انھوں نے اس کے نصاب کو بدلنے کے لیے ایک طویل جدو جہد کی۔ انھوں نے جب طبیعیات (Physics)، ریاضی اور انگریزی زبان کو ندوۃ العلما کے نصاب میں شامل کرنا چاہا تو انھیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مولانا اپنا موقف بدلنے پر آمادہ نہ ہوئے۔وہ یہ بات اچھی طرح جان چکے تھے کہ ہمارے دینی مدارس کا نصاب اتنا فرسودہ ہے کہ اس میں نئے دور کا ساتھ دینے کی سکت نہیں۔

    مولانا کی اس جد و جہدکا نتیجہ سامنے آیا اور درس نظامی کے پرانے نصاب میں تبدیلی کر دی گئی، لیکن جب ایک طویل عرصے تک اس پر عمل نہ ہوا تو ناظم مجلس نصاب کو ایک خط لکھا جس میں نئے نصاب کے مطابق تعلیم نہ دینے پر اظہار افسوس کیا۔ لکھتے ہیں:

’’... آج ایک نقشہ نصاب جاریہ دار العلوم ندوہ کا آیا، اس میں یہ کتابیں ہیں: ملا جلال، شرح جامی، فصول اکبری، کافیہ، میبذی، شافیہ۔ مکرمی! ہم آپ خدا کو کیا جواب دیں گے۔ کیا ندوہ کا یہی دعویٰ تھا کہ دیو بند کی فرسودہ عمارت کو ہم کعبہ بنائیں گے؟‘‘(حیات شبلی ۴۶۶)

    اسی طرح مولانا نے ندوۃ العلما کے بنیادی نظام میں ایک تبدیلی یہ کی کہ آٹھ سال کی تعلیم کے بعد دو سال کا مزید اضافہ کیا جس میں کسی ایک مضمون میں اعلیٰ تعلیم اور تخصص (Specialization) کا اہتمام کیا گیا۔ ریاضی اور انگریزی کی تعلیم کے لیے باہر سے ماہرین کو لایا گیا۔ مولانا کے پیش نظر چونکہ یہی تھا کہ اسلام جدید دور میں دوسرے مذاہب کے مقابلے میں پورے قد کے ساتھ کھڑا ہو، اس لیے صرف انگریزی ہی نہیں، بلکہ سنسکرت اور ہندی کی تعلیم کا بھی اہتمام کیا ۔

    غرض کہ مولانا نے پرانے تعلیمی نظام کی خرابیوں کا گہرا مطالعہ کیا ( اس کی تفصیل انھوں نے روداد دار العلوم بابت ۱۹۰۷ئ، ۱۹۰۸ئ، ۱۹۰۹ ء میں لکھی ہے) اور اصلاح کے لیے عملی جد وجہد کی۔

    مولانا شبلی نے اس دوران میں تحریک علی گڑھ کے نتیجے میں پھیلنے والے مفاسد عقائد پر بھی نظر رکھی اور ان پر بھرپور تنقید کی۔ علی گڑھ میں سر سید کے ساتھ اختلافات کی بڑی وجہ وہ عقائد بھی تھے جو سر سید نے اختیار کر رکھے تھے اور مسلمانوں کے مسلمہ نظریات سے متصادم تھے۔ علی گڑھ کے قیام کے دوران میں ہی مولانا نے سرسید کے افکار کی تردید شروع کر دی۔ سر سید اپنی تفسیر کا ترجمہ عربی میں کرانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے مولانا شبلی سے کہا اور وہ ٹال گئے۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ مولانا شبلی کو سر سید کی تفسیر سے اتفاق نہیں ہے۔ عربی زبان کی تدریس کے موضوع پر مولانا نے سر سید کی راے سے اختلاف کیا۔ سر سید انگریزی کے سوا ہر اس تعلیم کو مسلمانوں کے لیے مضر سمجھتے تھے جو انھیں ترقی کے مبینہ راستے سے ہٹا دے، جبکہ شبلی کے خیال میں عربی اور مشرقی علوم سے تعلق توڑنے سے مسلمان مسلمان رہ ہی نہیں سکتے، پھر اس ترقی کا کیا سوال۔

    اس ساری گفتگو سے یہ بات واضح ہے کہ مولانا شبلی ’’ بیچ کی راس‘‘ کے آدمی تھے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی بقا اسی میں ہے کہ وہ قدیم سے تعلق رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں اور دین کی تشریح و تعبیر میں بدلتے حالات کو ملحوظ رکھیں۔ چنانچہ حالات نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کے وجود کو قائم رکھنے کے لیے یہی وہ راستہ ہے جو اختیار کیا جا سکتا ہے۔

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مولانا کو اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور وہ حالات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی پیدا نہیں کر سکے۔ واقعاتی تناظر میں یہ بات درست کہی جا سکتی ہے، مگر کسی جدید فکر کے داعی کے لیے یہی بات کافی ہے کہ ارباب علم و دانش کا کوئی گروہ اس فکر کو صحیح سمجھتے ہوئے جد وجہد پر آمادہ ہو جائے۔ حالات کی اس تعبیر کے آئینے میں مولانا شبلی بلاشبہ ایک کامیاب آدمی تھے۔ شبلی کے بعد چار آدمی ایسے ہیں جنھوںنے تجدید و احیاے دین کے اس کام کو اپنی زندگی کا مشن بنایا جس کا نقش اول مولانا شبلی نے قائم کیا تھا۔ یہ چاروں افراد بالواسطہ یا بلا واسطہ شبلی ہی کے فیض یافتہ تھے۔ ان چار سے ہماری مراد سید سلیمان ندوی، علامہ محمد اقبال، مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حمید الدین فراہی ہیں۔ یہ دبستان شبلی کی دوسری کڑی ہے۔

    سید سلیمان ندوی مولانا شبلی کے وہ شاگرد ہیں جن پر انھیں سب سے زیادہ اعتماد و اعتبار تھا۔ مولانا کے ادھورے تصنیفی و تالیفی کام کو انھوں نے جس حسن و خوبی سے آگے بڑھایا، وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ ’’ سیرت النبی‘‘ کی تکمیل ان کا وہ کارنامہ ہے جو ہمارے علمی و ادبی ورثے کے ذکر میں ان کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اسی طرح ’’ الندوہ‘‘ اور پھر ’’المعارف‘‘ کی صورت میں انھوں نے جس طرح فکر شبلی کو زندہ رکھنا چاہا، وہ بھی تحسین کے لائق ہے۔ سید سلیمان ندوی ۱۹۵۱ء سے ۱۹۵۶ ء تک تقریباً پانچ سال ندوۃ العلما میں زیر تعلیم رہے۔ عربی میں انھیں خصوصی مہارت حاصل تھی۔ جلسۂ دستار بندی میں انھوں نے ’’ ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کیوں کر ہو؟‘‘ کے موضوع پر عربی میں تقریر کی۔ مولانا شبلی نے جوش مسرت سے اپنا عمامہ اتار کر ان کے سر پر رکھ دیا۔ کسی استاد کی طرف سے شاگرد کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی تحسین نہیں ہو سکتی۔ سید صاحب نے نئے حالات میں اپنا چراغ جلائے رکھا ، لیکن تقلید و روایت کی ہوائیں زیادہ تیز ثابت ہوئیں۔ نتیجۃً انھیں پرانے فکر کی طرف رجوع کرنا پڑا اور وہ بھون شریف جا کر مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے جتنا کام لینا تھا ،وہ لے لیا۔ سید ابو الحسن علی ندوی کی صورت میں ان کا سلسلۂ تلمذ قائم رہا۔ وہ بھی اپنی استطاعت کے مطابق اسلام کی خدمت انجام دے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔

    علامہ اقبال اگرچہ شبلی سے کبھی براہ راست متعلق نہیں رہے، لیکن اس فضا سے ضرور متاثر ہوئے جو شبلی کے افکار نے ہندوستان کے ماحول پر طاری کر دی تھی۔ انھوں نے بھی مسلمانوں کی بقا کے لیے وہی حل پیش کیا جس کا نقش اول شبلی نے قائم کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اشعار میں تقلید اور نئی فکر ، دونوں کی شدید مذمت کی۔

    پنجابی مسلمان نے اپنے آپ کو تقلید کے شکنجے میں جس طرح جکڑا ہوا ہے، اس کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:

تحقیق کی بازی ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیاد لگا دے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد

  اقبال جدید تہذیب کے بھی شدید ناقد ہیں۔ ان کے خیال میں انگریز نے ایک ناز ک شاخ پہ اپنا آشیانہ بنایا ہے اور اس کی ناپائداری واضح ہے، اس لیے مسلمانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے بجاے اپنے راستے کا تعین خود کرنا چاہیے:

اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی 
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوت مذہب سے ہے مستحکم جمعیت تری

  فکر و نظر کی نئی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے اقبال نے اجتہاد کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ اسی مناسبت سے ان کے خطبات کا نام بھی’’ اسلامی نظریات کی تشکیل جدید ‘‘ (Reconstruction of Religious Thoughts in Islam) قرار پایا۔۳؎

    اقبال اگرچہ انسانوں کے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے اندر ہر طرح کے حالات میں صحیح راستہ تلاش کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے،اور وہ اپنی ذات میں ایک دبستان ہوتے ہیں۔تاہم اس فکر سے مناسبت انھیں ’’دبستان شبلی‘‘ سے متعلق کر دیتی ہے۔ اقبال مسلمان سے اس کے انحطاط کا ذکر کرتے ہیں اور اسے شبلی و حالی سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:

پوچھ ان سے جو چمن کے ہیں دیرینہ راز دار
کیوں کر ہوئی خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

  مسلمان یہ سن کر بے قرار ہوا او ر’’ ان دیرینہ راز داران چمن‘‘ کے اٹھ جانے پر نوحہ کناں ہوا:

خاموش ہو گئے چمنستاں کے راز دار
سرمایۂ گداز تھی جن کی نوائے درد
شبلی کو رو رہے تھے ابھی اہل گلستاں
حالی بھی ہو گئے سوئے فردوس رہ نورد

  برصغیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب کی نشان دہی میں شبلی کے موقف کو درست سمجھتے ہوئے اقبال اس کی تائید کرتے ہیں۔

    شبلی بھی اقبال سے متعلق حسن ظن رکھتے تھے اور ان کے بارے میں شبلی کی پیش گوئی یہی تھی:

’’حالی و آزاد کی جو کرسیاں خالی ہوں گی۔ ان میں سے ایک اقبال کی نشست سے پر ہو جائے گی۔‘‘ (سید سلیمان ندوی، یاد رفتگاں ۱۸۳)​

    ’’ دبستان شبلی‘‘ کے دوسرے مرحلے میں تیسرا بڑا نام مولانا ابو الکلام آزاد کا ہے۔ مولانا آزاد بلاشبہ، نابغۂ روزگار تھے۔ کسی ایک فرد میں انسانی خوبیوں کا اتنا بڑا اجتماع بہت کم دیکھنے میں آتاہے جو مولانا آزاد کے ہاں موجود تھا۔ آزاد بھی ایک عرصے تک براہ راست شبلی سے متعلق رہے اور ان کی صلاحیتوں کی تربیت مولانا شبلی کے ہاں ہی ہوئی۔ ۱۹۰۵ ء میں وہ بمبئی کے شہر میں شبلی سے ملے اور سید سلیمان ندوی کے بقول یہی وہ ملاقات ہے جس نے ابو الکلام کو مولانا ابو الکلام بنا دیا۔ مولانا شبلی ان کو اپنے ساتھ ندوہ لے آئے اور ایک زمانے تک ان کو اپنے پاس رکھا۔ آزاد اکتوبر ۱۹۰۵ سے مارچ ۱۹۰۶ تک’’ الندوہ‘‘ کے سب ایڈیٹر رہے۔ ندوہ میں قیام کے دوران میں وہ مولانا شبلی کی علمی صحبتوں میں شریک رہے اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں کی بنا پر اس ماحول سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ مصر کے قاسم امین بک اور فرید وجدی نے مسلمان عورتوں کے پردے کے حوالے سے ’’امرأۃ مسلمہ‘‘ کے نام سے ایک مضمون لکھا۔ اس پر مولانا آزاد نے کئی اقساط پر مشتمل ایک سلسلۂ مضامین لکھا جو ہندوستان کے علمی حلقوں میں مولانا آزاد کا تعارف بنا۔ مولانا شبلی سے جب ان کے بارے میں استفسار ہونے لگا تو ایک خط کے جواب میں انھوں نے تبصرہ کیا:

 ’’... آزاد کو تو آپ نے ’’ مخزن‘‘ وغیرہ میں ضرور دیکھا ہو گا، قلم وہی ہے، معلومات میں یہاں رہنے سے ترقی کر گئے ہیں۔‘‘(سید سلیمان ندوی، حیات شبلی ۵۱۸)​

    شبلی کے ہاں سے الفاظ کے حسن و جمال کا جو سلسلہ شروع ہوا ’’ الہلال‘‘ اور ’’ البلاغ‘‘ اس کا اختتام بنے۔۱۹۱۲ ء میں ’’ الہلال‘‘ کا اجرا ہوا او رہندوستان کے لوگ اس کی فکر اور انشا پردازی کے حصار سے ابھی تک نکل نہیںپائے۔

    مولانا ابو الکلام آزاد کی فکری تربیت میں چونکہ شبلی کا بڑا حصہ تھا، اسی بنا پر وہی کار تجدید تحریک الہلال کا مقصد ٹھہرا جس کا نقطۂ آغاز مولانا شبلی تھے۔ چنانچہ ’’الہلال کی دعوت‘‘ کے عنوان سے رقم طراز ہیں:

’’ الہلال کا دائرئہ بحث تو صرف ایک ہی ہے، یعنی احیاے تعلیم اسلامی اور اتباع ما جا ء بہ القرآن۔ ساتھ ہی اس کا عقیدہ ہے کہ اگر قرآن خدا کی کتاب ہے او راگر اس کا دعویٰ قابل تسلیم ہے تو مسلمانوں کی تعلیم، پالیٹیکس، اخلاق، تمدن، جو کچھ ہے اس کے اندر ہے۔ ‘‘(ہفتہ وار الہلال، ۸ ستمبر ۱۹۱۲)

    مولانا آزاد اس وقت کے مسلمانوں کی حالت اور اصلاح احوال کے لیے کی جانے والی کوششوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایک اور مقام پر ’’ الہلال‘‘ کی انفرادیت کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

 ’’اس نے روز اول ہی سے اعلان کر دیا کہ احیا و تجدید ملت کے لیے جس قدر تحریکیں ملک میں موجود ہیں، وہ ان میں سے کسی کو بھی تنزل و انحطاط کے اصلی مرض کا کامل علاج نہیں سمجھتا، بلکہ ان میں سے اکثر اس طرح کا علاج ہیں جن کے اندر خود نئی بیماریوں کے پیدا کرنے کی ہلاکت موجود ہے۔ پس وہ ان تمام راستوں سے بالکل الگ ہو گیا جو کاروبار اصلاح و ترقی کے پیشتر سے موجود تھے، اورپھر نہ تو اس نے تعلیم کو اپنا کعبۂ مقصد بنایا ،نہ سیاست کو قبلۂ آمال، نہ علم کی رہنمائی قبول کی نہ تہذیب و تمدن سے دستگیری چاہی۔ صرف یہی ایک صدا بلند کی کہ:یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ۔ (الانفال۸:۲۰)


  ’’مسلمانو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کے لائے ہوئے حکموں پر عمل کرو اور اس کی طرف سے گردن نہ موڑو اور تم اس کی بھیجی ہوئی آیتیں سن رہے ہو۔‘‘‘‘
(ہفتہ وار الہلال، ۴ فروری ۱۹۱۴، ۸۶) ​

    مولانا کے نزدیک مسلمانوں کے زوال اور انحطاط کی تشخیص کے بعد یہی واحد علاج ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

 ’’ اگر تشخیص کے بعد علاج آسان ہے، اگر گذشتہ امراض کی دریافت کے بعد آیندہ کے لیے حصول صحت میں کوئی دشواری نہیں اور اگر صحت کی آرزو کے ساتھ مرض کے حصول کی خواہش کبھی جمع نہیں ہو سکتی تو مسلمانوں کے لیے ان کی آیندہ شاہراہ مقصود کا سوال بالکل صاف ہے اور وہ ایک ہی ہے۔ آج تک ان کی تمام کوششیں اس لیے بار آور نہ ہوئیں کہ ان کو آگ کی تلاش تھی۔ چاہیے تھا کہ چنگاریوں کو پھونکتے تاکہ آگ بھڑکتی اور تنور گرم ہو جاتا، لیکن وہ ہمیشہ راکھ کے ڈھیر کو پھونکتے رہے۔ ان کی محنت میں کوئی شک نہیں، مگر اس کو کیا کیجیے کہ راکھ کو پھونکنے سے آگ نہیں پیدا ہو سکتی۔‘‘ (ہفتہ وار الہلال، ۲۳ اکتوبر ۱۹۱۲)

    مولانا آزاد نے اپنی اس آزادر وی کو چھپانے کی کبھی کوشش نہیں کی، بلکہ ہمیشہ تقلید کی اس روش کے باغی کے طور پر اپنا تعارف کرایا۔ اور کار تجدید کے لیے آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کو ناگزیر قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں:

 ’’ خاندان، تعلیم اور سوسائٹی کے اثرات نے جو کچھ میرے حوالے کیا تھا، میں نے اول روز ہی اس پر قناعت کرنے سے انکار کر دیااو رتقلید کی بندشیں کسی گوشے میں بھی روک نہ ہو سکیں اور تحقیق کی تشنگی نے کسی میدان میں بھی ساتھ نہ چھوڑا:
ہیچ گہ ذوق طلب از جستجو بازم نہ داشت
دانہ می چیدم درآں روزے کہ خرمن داشتم!
میرے دل کا کوئی یقین ایسا نہیں جس میں شک کے سارے کانٹے نہ چبھ چکے ہوں اور میری روح کا کوئی اعتقاد ایسا نہیں ہے جو انکار کی ساری آزمایشوں میں سے نہ گزر چکا ہو۔ میں نے زہر کے گھونٹ بھی ہر جام سے پیے ہیں اور تریاق کے نسخے بھی ہر دار الشفا کے آزمائے ہیں۔ میں جب پیاسا تھا تو میری لب تشنگیاں دوسروں کی طرح نہ تھیں اور جب سیرا ب ہوا تو میری سیرابی کا سرچشمہ بھی شاہراہ عام پر نہ تھا۔‘‘ (ترجمان القرآن ۱/ ۱۹)

    اس ساری بحث کا یہی نتیجہ ممکن ہے کہ مولانا آزاد بنیادی طور پر دبستان شبلی ہی کے گل سر سبد تھے اور ان کے نزدیک مسلمانوں کی سرخروئی کے لیے کار تجدید ہی واحد راستہ ہے۔ وہ راستے پر کتنا چلے، انجام کیا ہوا؟ یہ ہمارا اس وقت موضوع نہیں۔ ہمارے نزدیک مولانا کو کسی دبستان سے منسوب کرنے کے لیے ان کے بنیادی فکر کا تجزیہ ضروری ہے اور اس جائزے کے بعد وہی راے قائم کی جا سکتی ہے جس کا اظہار ہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے۔ اگر ان کے سیاسی و فکری انجام کی طرف دیکھا جائے تو اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کا انقلاب حال بیسویں صدی کا سب سے بڑا المیہ تھا۔

    تجدید و احیاے دین کی اس تحریک کے دوسرے مرحلے کے آخر میں جس شخصیت کا ذکر خیر مطلوب ہے، وہ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ مولانا شبلی کے ساتھ ان کے تعلق کے کئی گوشے ہیں۔ وہ ان کے ماموں زاد ہیں، شاگرد ہیں، ان کی امیدوں کا مرکز ہیں اور سب سے بڑھ کر کہ شبلی کے دبستان کا سرمایہ ہیں۔

    جن دنوں مولانا شبلی ، مولانا محمد فاروق چریا کوٹی کے پاس پڑھتے تھے، ان دنوں مولانا فراہی کا اعظم گڑھ میں بہت آنا جانا تھا اور وہ ان علمی صحبتوں سے مستفید ہوتے تھے۔ اوائل عمری ہی میں ان کی اعلیٰ صلاحیتوں کے نقوش ابھرنا شروع ہو گئے تھے۔ سولہ برس کی عمر میں فارسی کے سب سے مشکل گو شاعر خاقانی شروانی کے تتبع میں ایک قصیدہ لکھا جس کے ۲۸ اشعار تھے۔ مولانا شبلی نے اس قصیدہ کے بارے میں مولانا فاروق کی راے پوچھی کہ یہ کس شاعر کا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ تو نہیں بتا سکتا، مگر قدما میں سے کسی کا معلوم ہوتا ہے۔ جب انھیں بتایا گیا کہ ’’ یہ حمید کا لکھا ہوا ہے‘‘ تو وہ بھی حیرت زدہ ہو گئے۔

    مولانا فراہی شبلی کے شاگرد ہیں۔ عربی کی تعلیم متوسطات تک مولانا شبلی ہی سے حاصل کی۔ پھر جیسے ہی مولانا شبلی نے اعظم گڑھ چھوڑا تو یہ بھی لکھنؤ روانہ ہوئے۔ مولانا نے زمانۂ طالب علمی ہی سے تصنیف و تالیف کا آغاز کر دیا تھا۔ مولانا شبلی نے سیرت النبی پر عربی میں ’’ تاریخ بدر الاسلام‘‘ کے نام سے ایک رسالہ لکھا۔ اس کا فارسی ترجمہ مولانا فراہی نے کیا۔ مولانا جب کبھی لکھنؤ سے گزرتے تو شبلی کی خواہش ہوتی کہ وہ زیادہ دن ان کے پاس رہیں تاکہ ندوۃ العلما کے طلبا ان سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔ انھی دنوں مولانا ابو الکلام آزاد بھی ’’ الندوہ‘‘ کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ او رمولانا شبلی ہی کے ہاں مقیم تھے۔ انھوں نے مولانا فراہی کی صحبتوں سے فائدہ اٹھایا اور قرآن فہمی کا ذوق مولانا ہی سے پایا۔ مولانا شبلی نعمانی کو اپنے ان ماموں زاد سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ آخری وقت میں انھوں نے جن تین آدمیوں کو بلایا ان میں سے ایک مولانا فراہی تھے۔ نظم قرآن کے حوالے سے جب فکر فراہی کے ابتدائی مظاہر سامنے آئے تو شبلی کو ان سے اختلاف ہوا، لیکن پھر وہ آہستہ آہستہ قائل ہوتے گئے۔ او رآخر میں تو قرآن مجید کے مشکل مقامات کے فہم کے لیے مولانا فراہی سے مدد لینے لگے۔ مولانا فراہی دو سال علی گڑھ بھی رہے۔ یہ علی گڑھ کے عروج کا زمانہ تھا۔ سرسید، حالی، پروفیسر آرنلڈ جیسے لوگ وہاں تھے۔ مولانا فراہی نے اس ماحول سے بھی بہت کچھ سیکھا۔

    مولانا حمید الدین فراہی ان سب حالات کا بغور مشاہدہ کرتے رہے اور پھر انھوں نے اپنے لیے جس راستے کا انتخاب کیا، ہندوستان کے اس ماحول میں اس راستے پر کسی کے نقوش پا موجود نہیں تھے۔ مولانا فراہی بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے قرآن مجید سے اپنا تعلق جوڑنا چاہیے۔ چنانچہ انھوں نے بھی قرآن کو اپنی فکر او رتحقیق کا مرکز بنایااور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تفسیر کی دنیا میں ہمارے اسلاف نے جو رہنما اصول چھوڑے ہیں وہ فہم قرآن کے دروازے پوری طرح نہیں کھولتے او راعجاز قرآن کے اصل مظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ برسوں کے غور و تدبر کے بعد انھوں نے اس عقدہ کشائی کے لیے ’’ نظم قرآن‘‘ ہی کو حل قرار دیا۔ ہمارے تفسیری ادب میں اگرچہ ’’ نظم قرآن‘‘ کا تصور پہلے سے موجود ہے، لیکن بہت مبہم او ر غیر واضح صورت میں۔ قدیم مفسرین کا ایک گروہ نظم قرآن کا قائل ہے، ان میں امام رازی، علامہ سیوطی اور کئی دوسرے لوگ شامل ہیں، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ اس اصول کی روشنی میں قرآن کی کوئی تفسیر اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔ جن لوگوں نے اس سمت میں پیش قدمی کی، وہ کوئی قابل ذکر نقوش قائم نہیں کر سکے۔

    نظم قرآن کے حوالے سے پہلی کامیاب کاوش مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ اگرچہ عمر نے انھیں اس کی مہلت نہیں دی کہ وہ پورے قرآن کی تفسیر لکھتے، مگر چند سورتوں کی جو تفسیر انھوں نے لکھی ہے، اس سے اس انداز تفسیر کی اہمیت پوری طرح واضح ہے۔۴؎ ان کے اجتہادی کام کی نوعیت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ انھوںنے تفسیر قرآن کے ان اصولوں کو بالکل بدل دیا جو تیرہ سو سال سے مستعمل تھے او رمسلمہ شمار ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قرآن مجید کی جن سورتوں کی تفسیر لکھی ہے، اس کے بارے میں اکابر اہل علم کی راے ہے کہ اس سے بہتر تفسیر ممکن نہیں۔

    اب ’’ دبستان شبلی‘‘تیسرے مرحلے میں داخل ہوتا ہے۔ اس منزل پر دو شخصیات سامنے آتی ہیں اور ان کا کام اجتہادی بصیرت کے نمایاں وصف کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ او رمولانا امین احسن اصلاحی ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مولانا حمید الدین فراہی کے کام کو بالترتیب مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی نے آگے بڑھایا۔

    مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جب شعور کی زندگی میں قدم رکھا تو اپنی خداد اد صلاحیتوں کی بنیاد پر بہت جلد اس مقام پر آ کھڑے ہوئے جب ان کی کہی ہوئی بات مستند شمار ہونے لگی۔ مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ابو الکلام آزاد سے گہری فکر ی مناسبت کا یہ نتیجہ نکلا کہ ابتدائی دور میں ان کے طرز تحریر پر شبلی و آزاد کے اسلوب کا اثر نمایاں رہا، مگر ایسا بہت کم عرصے کے لیے ہوا اور بہت جلد وہ خود صاحب اسلوب قرار پائے۔ مولانامودودی نے مولانا ابو الکلام آزاد کے تجزیے کو صحیح سمجھتے ہوئے اسی فکر کو آگے بڑھایا، یہی وجہ ہے کہ جمعیت علماے ہند کے تیسرے سالانہ اجلاس میں جو نومبر ۱۹۲۱ میں منعقد ہوا، مولانا ابو الکلام آزاد نے جس جماعت کے قیام کی ضرورت پر زور دیا اور جس نظم جماعت کا ابتدائی خاکہ سامنے رکھا ۵؎ ، جماعت اسلامی اس کی عملی تعبیر تھی۔ مولانا مودودی کے نزدیک بھی مسلمانوں کی بقا کا راز کار تجدید ہی میں پنہاں تھا۔ انھوں نے قدیم فکر کو بھی پوری طرح قبول نہیں کیا اور نئی سوچ سے بھی مصلحت پر آمادہ نہ ہوئے۔ اپنی اس آزاد خیالی کی بنا پر ’’ دبستان شبلی‘‘ کے دوسرے اکابر کی طرح، وہ قدیم فکر کے دینی حلقوں میں مطعون رہے، لیکن انھوں نے اظہار اسی بات کا کیا جس کو انھوں نے حق سمجھا۔ اپنی تحریروں میں انھوں نے اپنا مسلک واضح طور پر سامنے رکھا۔ ’’ تجدید و احیائے دین‘‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

 ’’ اگر اب ہم کو تحریک اسلامی کی تجدید و احیا کی کوشش کرنی ہے تو اس قسم کی عقیدت مندی اور ابہام و اجمال سے کچھ کام نہ چلے گا۔ ہم کو پوری طرح اس تجدید کے کام کو سمجھنا پڑے گا اور اپنی پچھلی تاریخ کی طرف پلٹ کر دیکھنا ہو گا کہ ان بہت سی صدیوں میں ہمارے مختلف لیڈروں نے کتنا کتنا کام کس کس طرح کیا، ان کے کارناموں سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ان سے کیا کچھ چھوٹ گیا ہے جس کی تلافی پر اب ہمیں متوجہ ہونا چاہیے۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی،تجدید و احیائے دین ۹)

    علماے امت کے بارے میں اپنا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں:

 ’’ میں تمام علما کا دل سے احترام کرتا ہوں، مگر کسی عالم کی ہر بات مان لینے کی عادت مجھے کبھی نہیں رہی۔‘‘​

    ہمارے سلف میں سے ہندوستان کی تاریخ میں دو ایسے علما کا گزر ہوا ہے جنھوں نے اپنے مجدد ہونے کا اعلان کیا۔ اور جب کوئی اس طرح کی بات کہتا ہے تو گویا ہدایت کو اپنی اتباع میں مقید کر دیتا ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس بارے میں استفسار کیا گیا تو انھوں نے لکھا:

 ’’میں اس لحاظ سے بہت بدنام ہوں کہ اکابر سلف کو معصوم نہیں مانتا اور ان کے صحیح کو صحیح کہنے کے ساتھ ان کے غلط کو غلط بھی کہہ گزرتا ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ اس معاملہ میں بھی کچھ صاف صاف کہوں گا تو میری فرد قرار داد جرم میں جریمہ کا اور اضافہ ہو جائے گا، لیکن آدمی کے خوف سے بڑھ کر خدا کا خوف ہونا چاہیے، اس لیے خواہ کوئی کچھ کہا کرے، میں تو یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں بزرگوں کا اپنے مجدد ہونے کی خود تصریح کرنا اور بار بار کشف و الہام کے حوالہ سے اپنی باتوں کو پیش کرنا ان کے چند غلط کاموں میں سے ایک ہے اور ان کی یہی غلطیاں ہیں جنھوں نے بعد کے بہت سے کم ظرفوں کو طرح طرح کے دعوے کرنے او رامت میں نت نئے فتنے اٹھانے کی جرأت دی ۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی، تجدید و احیائے دین ۱۴۶-۱۴۷)

    مولانا کا یہ تجزیہ اتنا برحق ہے کہ فی الواقع ہر دور میں ایسے ’’کم ظرف‘‘ موجود رہے ہیں جنھوں نے کشف و الہام کی بنیاد پر لوگوں کا مذہبی و سیاسی استحصال کیا۔ اگر آپ کو اس کا یقین نہ ہو تو آج بھی اپنے گرد و پیش نگاہ دوڑائیے، حقائق خود بول کر اپنی تصدیق کریں گے۔ علاوہ ازیں اس تجزیہ میں وہ کھرا اور صاف لہجہ محسوس کیا جا سکتا ہے جو ’’دبستان شبلی‘‘ ہی کے ساتھ خاص ہے۔

    اس تیسرے مرحلے پر مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اپنی تمام جولانیوں اور رعنائیوں کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی کے روپ میں سامنے آئی۔ تفسیر کا وہ خاکہ جو مولانا فراہی کے پیش نظر تھا اور جس کے رہنما اصولوں کی روشنی میں چند چھوٹی سورتوں کی تفسیر ہی لکھ پائے تھے، اس میں رنگ بھر کر مولانااصلاحی نے ایک دل کش تصویر بنائی جو ’’ تدبر قرآن‘‘ کی نو جلدوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔

    مولانا امین احسن اصلاحی تقریباً پانچ سال تک مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے علم و فضل سے براہ راست مستفید ہوئے اور ان کی رحلت کے بعد ان کی فکر کے وارث بنے۔ اگرچہ مولانا فراہی کے اور شاگرد بھی تھے اور حسب توفیق خدمات انجام دیتے رہے، لیکن ان کے کام کی تکمیل کا شرف مولانا اصلاحی کے حصے ہی میں آیا۔

    ہمارے تفسیری ادب میں ’’ تدبر قرآن‘‘ اپنی نوعیت کی پہلی آواز ہے او رآج بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے چودہ سو سال کی تفسیری تاریخ میں اس کی کوئی مثال مو جود نہیں۔ مولانا اصلاحی کی سوچ کا انداز کیسا ہے، اس کی جھلک ملاحظہ فرمائیں:

’’... جو حضرات میری کسی تحریر پر تنقید کا شوق رکھتے ہوں، وہ شوق سے تنقید کریں، لیکن میرے دلائل ہمیشہ پیش نظر رکھیں، اپنی اس خواہش کے احترام کی مجھ سے توقع نہ رکھیں کہ میں وہی کچھ لکھوں جو انھوں نے استادوں سے سنا اور اپنی مانوس کتابوں میں پڑھا ہے۔ کتاب و سنت کے سوا میں کسی چیز کو حجت نہیں سمجھتا اور غور وتدبر، میرے نزدیک، انسانی فضائل میںسب سے برتر اور سب سے اعلیٰ فضیلت ہے۔ میری کوشش یہ ہے کہ ایک مدت دراز سے قرآن و حدیث پر غور و تدبر کی جو راہ مسدود ہے وہ اب کھل جائے اوراگر اس راہ میں مجھ سے کوئی خدمت بن آتی ہے تو مجھے اس سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اگر نیت نیک ہے تو ان شاء اللہ مجھے اس کوشش کا اجر ملے گا۔‘‘(تدبر قرآن۱/ ۷-۸)

    اس آواز پر غور کیجیے، کیا اس کا لہجہ وہی نہیں جو ’’دبستان شبلی‘‘ کی پہچان ہے، یعنی ہم قرآن و سنت کی روشنی میں ہر بات کے حسن و قبح کا یقین کریں گے۔ چاہے وہ بات جدید کی ہو یا قدیم کی۔

    ہمارے مضمون میں اس قدیم فکر کا تذکرہ بار بار ہوا ہے۔ اس سے ہماری مراد قرآن و سنت نہیں، بلکہ اکابر فقہا و علماے امت کی وہ آرا و تشریحات ہیں جو انھوں نے قرآن و سنت کے ذیل میں کیں۔ قرآن و سنت تو آفاتی صداقتیں ہیں۔ اور آفاقی صداقتیں نہ قدیم ہوتی ہیں او رنہ جدید۔ وہ تو بس آفاقی ہوتی ہیں۔

    ’’ دبستان شبلی ‘‘ کا یہ تسلسل تاریخی تناظر میں ہم نے بیان کر دیا ہے۔ ان بزرگوں کی آرا بھی ہم نے نقل کر دی ہیں جن سے یہ واضح ہے کہ ’’ تجدید و احیاے دین‘‘ ہی وہ کام ہے جو ان کے پیش نظر رہا۔

    ڈارون کا ’’بقاے اصلح‘‘ (Survival of the Fittest) کا نظریہ اگرچہ حیاتیاتی دنیا (Biological World) میں مکمل ناکام ثابت ہوا، لیکن فکرو نظر کی دنیا میں کوئی وجہ نہیں کہ اسے غلط مانا جائے۔ وہ افکار و نظریات جو زمانے کے حوادث کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور عقل و خرد کے درباروں میں اپنی برتری ثابت نہیں کر سکتے، وہ ہواے زمانہ کی نذر ہو جاتے ہیں۔ علی گڑھ و دیو بند کے افکار اب متروک ہو چکے ہیں اور ان کی زندگی اب صرف سانسوں کی آمد و رفت تک ہی محدود رہ گئی ہے۔ ان کے آثار سے اتنا تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کبھی یہاں بلند و بالا عمارتیں کھڑی تھیں، لیکن ان فضاؤں میں اب کسی نئی زندگی کا کوئی امکان نہیں۔

    ہماری سو سال سے زیادہ تاریخ میںجو فکر نہ صرف زندہ رہی، بلکہ ہر نئی دریافت ہونے والی حقیقت نے اس کی حقانیت پہ مہر تصدیق ثبت کی، وہ ’’دبستان شبلی‘‘ ہی کی فکر ہے۔ یہ اسی دبستان کے گل و لالہ و سمن ہیں جن کی خوشبو نے ہر موسم میں فضاؤں کو مہکائے رکھا:

یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ

  آنے والے دور کو اگر کسی ایک فکر سے منسوب کیا جا سکتا ہے تو وہ یہی ’’دبستان شبلی‘‘ ہی کا فکر ہے مجرد تقلید، چاہے وہ مغرب کی ہو یا قدیم کی، نے ہمارے ماحول پر جو تاریکیاں تان دی ہیں، ان میں سے چند ستارے بھی ٹمٹماتے ہوں تو بھلے لگتے ہیں۔

    ہم نے اپنی اس تحریر میں مذکورہ بالا بزرگوں کے محاسن ہی کا ذکر کیا ہے۔ اس سے ہماری یہ مراد نہیں کہ یہ کوئی معصوم ہستیاں ہیں جن کے فکر و عمل میں کوئی کجی نہیں ہو سکتی۔ ان سے غلطیاں ہو سکتی ہیں اور ہوئی ہیں، لیکن ہر مجلس خاص و عام میں ان کا ذکر ہمارے نزدیک مستحسن نہیں۔ ہمارے خیال میں ان اکابر کی غلط آرا کی پرزور تردید کرنی چاہیے، لیکن صرف اس وقت جب یہ کوئی ناگزیر دینی ضرورت ہو یا جوش عقیدت میں لوگ ان کی لغزشوں کو قابل تقلید ٹھہرالیں۔ ایسے موقعوں پر کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے بے نیاز ہو کر، محض احقاق حق کے لیے اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ لیکن ہم اپنے لیے اس طرز عمل کو کبھی پسندیدہ نہیں سمجھتے کہ ان کی خوبیوں کے ذکر کے ساتھ ان کی خامیوں کے تذکرے کو لاحقہ ہی بنا لیں۔

[اگست۱۹۸۹] ​

 ــــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

۱؎ جناب جاوید احمد غامدی نے ’’مقامات‘‘ میں ’’دبستان شبلی‘‘ کی اصطلاح مذکورہ مفہوم میں استعمال کی ہے۔ یہاں اسی کا حوالہ دیا گیا ہے۔
۲؎ سرسید احمد خان کے الفاظ میں ’’اس زمانے میں ایک جدید علم کلام کی حاجت ہے جس سے یا تو علوم جدیدہ کے مسائل کو باطل کر دیں یا مشتبہ ٹھہرائیں یا اسلامی مسائل کو ان کے مطابق کر دکھائیں۔‘‘ ان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ سید احمد صاحب نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔
۳؎ اس مجموعۂ خطبات میں ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ ایک مستقل خطبہ ہے جس میں وہ اجتہاد کے موضوع پر اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بحیثیت مجموعی اسلامی فکر کو ایک نئی فلسفیانہ تاویل کی ضرورت ہے جو نئے دور کے اس انسان کے لیے قابل قبول ہو جو علم بالخواص کا خوگر ہو۔
۴؎ مولانا فراہی کے اصول تفسیر اور منہج فکر پر اب بہت سا کام سامنے آ چکا ہے، جس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فہم دین کے حوالے سے وہ نظم کلام کے علاوہ کس امور کو اہم سمجھتے تھے۔
۵؎ یہاں یہ واضح رہے کہ مولانا آزاد کا نظریۂ جماعت مولانا مودودی سے مختلف ہے۔ مولانا آزاد کے نزدیک نظام خلافت کی غیر موجودگی میں امت مسلمۂ ہند کو ایک امیر کی اطاعت میں منظم ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسا ممکن نہ ہوا تو انھوں نے اس تصور کو چھوڑ دیا، جبکہ مولانا مودودی کے نزدیک ایک فکر کے حاملین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک نظم جماعت سے منسلک رہیں۔