HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

اسلامی علوم کے ارتقا میں امام اصلاحی کا حصہ

  ۱۴ اور۱۵ دسمبر ۱۹۹۷کی درمیانی شب جب امام امین احسن اصلاحی کا وجود موت آشنا ہوا تو اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ موت وہ حقیقت ہے جس کا سامنا ہر نفس کو کرنا ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہ پہلے تھا نہ آیندہ ہو گا۔قریباً ایک صدی پر محیط اس عرصۂ حیات کو، بہرحال ختم ہونا تھا۔ امین احسن بھی اللہ کے قانون کے تحت دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ہم اپنے پروردگار کے حضور میں ان کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے سراپا دعا ہیں۔

    لیکن یہ موت و حیات کے قانون کا محض ایک پہلو ہے جس کا اطلاق اجسام خاکی ہی پر ہوتا ہے۔ بعض لوگ دنیا میں کوئی ایسا کام کر جاتے ہیں کہ وہ خود وجود کائنات میں حیات بن کر دوڑتے ہیں۔ انھوں نے کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دیا ہوتا ہے کہ لوگ ان سے زندگی کے آداب سیکھتے ہیں۔ یہ عمل جاری رہتا ہے، حتیٰ کہ قیامت کی صبح ہو جاتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:


فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا  

ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے 

  امام امین احسن اصلاحی اس دنیوی زندگی میں ایسا کام کر گئے ہیں کہ آنے والے کئی زمانے ان کے نام سے معنون ہوں گے۔مستقبل میں اسلامی علوم کی تشکیل جدید کا جو کام ہونا ہے، یہ ممکن نہیں کہ اس میں فکر اصلاحی کو نظر انداز کیا جا سکے۔یہ ایک ایسی بدیہی بات ہے کہ اسلامی فکر و فلسفے سے کچھ بھی تعلق رکھنے والا کوئی دیانت دار آدمی اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

    امام امین احسن اصلاحی کے فکری کام میں، اصل حیثیت ’’تدبرقرآن‘‘ کو حاصل ہے۔ ’’تدبر قرآن‘‘ محض ایک تفسیر نہیں، بلکہ فہم قرآن کے باب میں ایک مکتب فکر کی نمایندہ ہے۔ اس صدی کے ابتدائی عشروں میں ہندوستان کے علمی افق پر امام حمید الدین فراہی کا ظہور ہوا۔ قرآن مجید ان کی تمام علمی سعی و کاوش کا مرکز بنا۔ انھوں نے جو زبان سیکھی، جو علم حاصل کیا ،جو مشقت اٹھائی، وہ محض اس لیے تھی کہ قرآن کے مطالب و مفاہیم تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ مولانا کی اس سعی کے نتیجے میں جو اصول سامنے آئے، ان کے مطابق فہم قرآن میں شاہ کلید کی حیثیت اس کے نظم کو حاصل ہے۔ قرآن مجید کو اگر نزولی ترتیب کے برخلاف جمع کیا گیا اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ اس کی موجودہ ترتیب توقیفی ہے تو یہ بات حکمت سے خالی نہیں۔ یہ ترتیب نہ صرف ہر سورہ میں داخلی طور پر موجود ہے، بلکہ سورتوں کے مابین بھی اسے ملحوظ رکھا گیا ہے،یعنی جس طرح یہ بات من جانب اللہ ہے کہ کس آیت کو کس آیت کے بعد آنا ہے ،اسی طرح یہ امر بھی توقیفی ہے کہ کس سورہ کو مصحف میں کس سورہ کے بعد درج ہوناہے۔ امام فراہی کے نزدیک اس ترتیب کی حکمت تک رسائی ہی، وہ بنیادی چیز ہے جو کسی شخص پر قرآن فہمی کے دروازے وا کرتی ہے۔

    ان کا کہنا صرف یہی نہیں ہے، بلکہ وہ مزید یہ اصول بھی بیان کرتے ہیں کہ قرآن کی زبان محض عربی نہیں، بلکہ قرآن کے اپنے دعوے کے مطابق ام القریٰ ،یعنی مکہ کی زبان ہے اور عربی مبین ہے۔ عربی مبین کا مفہوم یہ ہے کہ یہ وہ زبان ہے جو اس عہد کے فصحا، خطبا اور شعرا کی زبان تھی، لہٰذا قرآن کے محاورے، اس کے استعارے، اس کے جملوں کا دروبست، اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتا، جب تک اس عہد کی زبان تک گہری رسائی نہ ہو۔ اسی طرح امام فراہی عرب کی تاریخ اور قدیم آسمانی کتب کے علم کو بھی قرآن مجید کے فہم کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے عبرانی زبان کی تحصیل میں بھی عمر کا ایک حصہ صرف کیا اور اس سے انھوں نے فہم قرآن میں پوری طرح استفادہ کیا ہے، بالخصوص حروف مقطعات کے مفاہیم طے کرتے وقت انھوں نے جو منفرد راے اختیار کی ہے، اس کی بنیاد عبرانی زبان ہی کا علم ہے۔ امام فراہی کے نزدیک عبرانی کے حروف ان حروف سے ماخوذ ہیں جو عرب قدیم میں رائج تھے۔

    امام فراہی نے ان تفسیری اصولوں کو اپنی کتابوں ’’دلائل النظام‘‘، ’’اصول التاویل‘‘ وغیرہ میں بیان کیا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے انھی اصولوں کو استعمال میں لاتے ہوئے قرآن مجید کی تفسیر کا کام شروع کیا۔ عمر نے انھیں اتنی ہی مہلت دی کہ وہ سورۂ فاتحہ کے علاوہ چند آخری سورتوں کی تفسیر لکھ سکے جنھیں مولانا اصلاحی نے ’’مجموعۂ تفاسیر فراہی‘‘کے عنوان سے ترجمہ کرکے جمع کر دیا ہے۔ مولانا فراہی نے آخری سورتوں کا پہلے انتخاب ہی اس لیے کیا کہ ان کا شمار تفسیر کے اعتبار سے قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں ہوتا ہے۔

    امام اصلاحی نے اس ادھورے کام کی تکمیل کا بیڑا اٹھایا اور’’تدبر قرآن‘‘کی صورت میں ایک شاہکار تخلیق کر دیا۔ اس طرح’’تدبر قرآن‘‘قریباً ایک صدی کے گہرے غورو فکر کا حاصل ہے۔ مولانا موصوف نے’’تدبرقرآن‘‘ کے مقدمے میں اس باب میں تفصیلاً کلام کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’میں بلا کسی شائبۂ فخر کے، محض بیان واقعہ کے طور پر، عرض کرتا ہوں کہ یہ کتاب میری چالیس سال کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ میں نے اپنی جوانی کا بہترین زمانہ اس کتاب کی تیاریوں میں بسر کیا ہے اور اب اپنے بڑھاپے کی ناتوانیوں کا دور اسی کی تحریر و تسوید میں بسر کر رہا ہوں۔ اس طویل مدت میں میں نے زندگی کے بہت سے اتار چڑھا ئو دیکھے ہیں اور بہت سے تلخ و شیریں گھونٹ حلق سے اتارے ہیں لیکن اپنے رب کا شکر گزار ہوں کہ کسی دور اور کسی حال میں بھی میرا ذہنی و قلبی تعلق اس کتاب سے منقطع نہیں ہوا۔ میں نے اس ساری مدت میں جو کچھ پڑھا ہے اسی کو محور بنا کر پڑھا ہے جو کچھ سوچا ہے، اسی کو سامنے رکھ کر سوچا ہے اور جو کچھ لکھا ہے بالواسطہ یا بلا واسطہ، اسی سے متعلق لکھا ہے۔ میں نے قرآن حکیم کی ایک ایک سورہ پر ڈیرے ڈالے ہیں، ایک ایک آیت پر فکری مراقبہ کیا ہے اور ایک ایک لفظ اور ایک ایک ادبی یا نحوی اشکال کے حل کے لیے ہر اس پتھر کو الٹنے کی کوشش کی ہے جس کے نیچے مجھے کسی سراغ کے ملنے کی توقع ہوئی ہے۔ اور یہ راز بھی میں برملا ظاہر کرتا ہوں کہ میں نے کبھی بھی اس کام میں کوئی تکان یا افسردگی محسوس نہیں کی، بلکہ ہمیشہ نہایت گہری لذت اور نہایت عمیق راحت کا احساس کیا ہے:
ہر زماں از غیب جانے دیگر است​
میری چالیس سال کی محنتوں کے نتائج کے ساتھ ساتھ اس میں میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی۰ ۳،۵ ۳ سال کی کوششوں کے ثمرات بھی ہیں۔ مجھے بڑا فخر ہوتا، اگر میں یہ دعویٰ کر سکتا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے سب استاذ مرحوم ہی کا افادہ ہے اس لیے کہ اصل حقیقت یہی ہے، لیکن میں یہ دعویٰ کرنے میں صرف اس لیے احتیاط کرتا ہوں کہ مبادا میری کوئی غلطی ان کی طرف منسوب ہو جائے۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ سے میرے استفادے کی شکل یہ نہیں رہی ہے کہ ہر آیت سے متعلق یقین کے ساتھ ان کی راے میرے علم میں آ گئی ہو، بلکہ میں نے ان سے قرآن حکیم پر غور کرنے کے اصول سیکھے ہیں اور خود ان کی رہنمائی میں پورے پانچ سال ان اصولوں کا تجربہ کرنے میں بسر کیے ہیں۔ پھر انھی اصولوں کو سامنے رکھ کر آج تک کام کرتا رہا ہوں۔ اس اعتبار سے اگرچہ یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ یہ سب کچھ استاذ رحمۃ اللہ علیہ ہی کا فیض ہے لیکن اس میں چونکہ بلاواسطہ افادے کے ساتھ ساتھ بالواسطہ افادے کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اس وجہ سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اس کا جو حصہ مستحکم اور مدلل نظر آئے اس کو استاذ مرحوم کا صدقہ سمجھیے اور جو بات کمزور یا غلط نظر آئے اس کو میری کم علمی پر محمول فرمائیے۔‘‘(۱/ ۴۱)

    قرآن مجید کے نظم کے بارے میں مولانا کی راے یہ ہے کہ جو نظم سورہ میں داخلی طور پر موجود ہے، ا س کے تحت ہر سورہ ایک مستقل وحدت ہے۔ اس کا ایک موضوع ہے جسے وہ سورہ کا عمود قرار دیتے ہیں۔ سورہ میں بیان کیے گئے تمام نکات اور اجزاے کلام مرکزی مضمون سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔ اسی طرح پورے قرآن مجید میں بھی ایک نظم ہے جس کا ایک ظاہری پہلو ہے اور دوسرا مخفی۔ اس اعتبار سے مولانا کے نزدیک قرآن مجید سات گروپوں میں منقسم ہے۔ ہر گروپ ایک یا ایک سے زیادہ مکی سورتوں سے شروع ہوتا اور ایک یا ایک سے زیادہ مدنی سورتوں پر تمام ہوتا ہے۔ پہلا گروپ فاتحہ سے شروع ہوتا اور مائدہ پر ختم ہوتا ہے، اسی طرح دوسرا گروپ انعام سے توبہ، تیسرا یونس سے نور، چوتھا فرقان سے احزاب، پانچواں سبا سے حجرات، چھٹا ق سے تحریم اور ساتواں ملک سے شروع ہوتا اور ناس پر ختم ہوتا ہے۔ مولانا اس حقیقت کی بھی نقاب کشائی کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں سورتیں جوڑا جوڑا ہیں، یعنی دو سورتیں مل کر ایک مضمون کو مکمل کرتی ہیں۔ ایک میں جو خلا رہ گیا ہے، دوسری اس کو بھر دیتی ہے، یا اگر ایک سورہ میں کوئی بات اجمالاً بیان ہوتی ہے تو اس کی مثنیٰ سورہ اس کی تفصیل بیان کرتی ہے۔ سورۂ فاتحہ اس نظام سے استثنا رکھتی ہے اور ا س کا سبب یہ ہے کہ وہ پہلے گروپ اور پورے قرآن مجید، دونوں کے لیے دیباچے کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن مجید کے سات گروپوں کی اس تقسیم کے حق میں مولانا یہ دلیل لاتے ہیں کہ سورئہ حجر میں ’سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ‘ کی جو صفت استعمال ہوئی ہے، اس کا تعلق قرآن مجید کے ساتھ ہے اور اس آیت مبارکہ کا اشارہ انھی سات گروپوں کی طرف ہے۔ مثانی، مثنیٰ کی جمع ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ یہ دو دو کی صورت میں ہے، یعنی قرآن مجید کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں۔

    قرآن مجید میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کے بارے میں مولانا اصلاحی پوری طرح واضح ہیں۔ ان کے مفہوم کا تعین سنت متواترہ سے کیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک قرآن مجید کی اصطلاحات کا تعلق ہے مثلاً، صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم، حج، عمرہ، قربانی،مسجد حرام، صفا، مروہ، سعی، طواف وغیرہ ان کی تفسیر میں نے سو فی صدی سنت متواترہ کی روشنی میں کی ہے، اس لیے کہ قرآن مجید اورشریعت کی اصطلاحات کا مفہوم بیان کرنے کا حق صرف صاحب وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے۔ آپ جس طرح اس کتاب کے لانے والے تھے، اسی طرح اس کے معلم اور مبین بھی تھے اور یہ تعلیم و تبیین آپ کے فریضۂ رسالت ہی کا ایک حصہ تھی۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم ہو کہ فلاں اصطلاح کا یہ مطلب خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ سو جہاں تک معروف دینی اصطلاحات کا تعلق ہے، یہ سوال کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، اس لیے کہ اس قسم کی ساری اصطلاحات کا حقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنت متواترہ کے اندر محفوظ کر دیا گیا ہے اور یہ سنت متواترہ بعینہٖ انھی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قرآن مجید ثابت ہے۔ امت کے جس تواتر نے قرآن مجید کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اس وجہ سے اگر قرآن مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہے۔ ان کی صورت میں اگر کوئی جزوی قسم کا اختلاف ہے تو اس اختلاف کی دین میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پانچ وقت کی نمازیں سب جانتے اور مانتے ہیں اور اسی قطعیت کے ساتھ جانتے اور مانتے ہیں جس قطعیت کے ساتھ قرآن کو جانتے اور مانتے ہیں، رہا بعض جزوی امور میں کوئی فرق تو یہ فرق کوئی اہمیت رکھنے والی شے نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات میں دلائل کی روشنی میں جس پہلو پر بھی جس کا اطمینان ہو، اس کو اختیار کر سکتا ہے ۔

    امام حمید الدین فراہی نے تفسیر کے جو اصول بیان کیے ہیں اور امام اصلاحی نے جس طرح اپنی تفسیر میں ان کا اطلاق کیا ہے، ان سے آخر آیات کی تاویل میں کیا فرق واقع ہوتا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر اس ذہن میں پیدا ہو گا جو’’تدبر قرآن‘‘ کے امتیاز کو سمجھنا چاہے گا ۔

    تفاسیر کے تقابلی مطالعہ سے نہ صرف یہ امتیاز سمجھ میں آتا ہے، بلکہ ان اصولوں کی برتری بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے جو امام فراہی نے وضع کیے ہیں۔ زبان کے اسالیب، سیاق و سباق اور قرینۂ کلام کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی خارجی ذریعے، یعنی روایات وغیرہ پرتفسیر کی عمارت کھڑی کرنے سے جو مفہوم اخذ کیا جاتا ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو ان سب باتوں کوملحوظ رکھنے سے سامنے آتا ہے۔ بطور مثال ہم سورۂ انفال (۸)آیات ۶۷-۹ ۶ پر غور کرتے ہیں۔ یہاں ایک جنگ کے موقع پر بعض لوگوں کے رویے پر تبصرہ کیا جا رہا ہے۔ اب یہ کون لوگ ہیں اور ان آیات سے اللہ تعالیٰ کا منشا کیا ہے، مفسرین نے اس کا تعین کرنے کی سعی کی ہے۔مفتی محمدشفیع صاحب کے نزدیک ان آیات کا ترجمہ یہ ہے:

’’نبی کو نہیں چاہیے کہ اپنے ہاں رکھے قیدیوں کو جب تک خوب خون ریزی نہ کرلے ملک میں، تم چاہتے ہو اسباب دنیا کا ،اور اللہ کے ہاں چاہیے آخرت، اور اللہ زور آور ہے حکمت والا۔ اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔ سو کھائو جو تم کو غنیمت میں ملا حلال ستھرا، اور ڈرتے رہو اللہ سے، بے شک اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔‘‘( معارف القرآن۴/ ۲۸۱)

    کم و بیش سب ہی مفسرین نے کچھ لفظی تغیرات کے ساتھ ان آیات کا یہی ترجمہ لکھا ہے اور وہ سب متفق ہیں کہ یہ آیات غزوۂ بدر کے موقع پر نازل ہوئیں جب مشرکین کے کچھ لوگ گرفتار ہو کر آئے اور ان کے مستقبل کے حوالے سے صحابۂ کرام میں اختلاف راے ہوا۔ سیدنا ابو بکر صدیق کا خیال تھا کہ انھیں فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، جبکہ سیدنا عمر فاروق ان کو قتل کر دینے کے حق میں تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر حضرت ابوبکر صدیق کی راے کے مطابق فیصلہ دیا۔ مفسرین کی یہ راے ہے کہ یہ آیات بطور عتاب نازل ہوئیں اور اس کے مخاطب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام ہیں۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اس راے سے اتنا اختلاف کرتے ہیں کہ یہ عتاب صحابہ پر ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں ۔

    ہمارے ان بزرگوں نے قرآن مجید کے سیاق و سباق، اسالیب کلام اورنظم کلام کو نظر انداز کرتے ہوئے شان نزول کے ذیل میں بیان کی جانے والی روایات کو معیار قرار دیا اور پھر ان کی روشنی میں قرآن مجید کی تاویل کرنا چاہی۔ امام امین احسن نے آیات کے سیاق و سباق اور کلام کے اسالیب جیسے قرآن کے داخلی وسائل کی بنیاد پر جب ان آیات کی تفسیر کی تو ایک بالکل مختلف صورت سامنے آئی اور معلوم ہوا کہ ان آیات کا مخاطب نہ تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور نہ صحابۂ کرام کی جماعت، بلکہ یہ بات تو مشرکین سے کہی جا رہی ہے۔ مولانا اصلاحی کے نزدیک ان آیات کا ترجمہ یہ ہے:

’’کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں ،یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خوں ریزی برپا کر دے۔ یہ تم ہو جو دنیا کے سرو سامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آ دھمکتا۔ پس جو مال غنیمت تم نے حاصل کیا اس کو حلال وطیب سمجھ کر کھا ئو، برتو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔‘‘ ( تدبر قرآن ۳/ ۱۵۰)

    مولانا کے نزدیک ان آیات کی صحیح تاویل یہ ہے:

’’مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ’  ‘مَاکَانَ‘ کا اسلوب بیان الزام اور رفع الزام، دونوں کے لیے آ سکتا ہے اور قرآن میں دونوں ہی قسم کے مواقع میں یہ اسلوب استعمال ہوا ہے۔ اس امر کا تعین کہ یہ الزام کے لیے ہے یا رفع الزام کے لیے موقع و محل، سیاق و سباق، قرینہ اور مخاطب کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ بعینہٖ یہی اسلوب بیان آل عمران ۱۶۱ میں ہے:’وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّ وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ‘ (اور کسی نبی کی یہ شان نہیں کہ وہ خیانت کرے اور جو خیانت کرے گا وہ قیامت کے دن اپنی خیانت کے ساتھ حاضر ہو گا) ظاہر ہے کہ یہ آیت الزام کے لیے نہیں، بلکہ رفع الزام اور نبی کی تنزیہ شان کے لیے ہے۔ اس آیت کے بارے میں تمام اہل تاویل کا اتفاق ہے کہ منافقین کو مخاطب کر کے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ تم نبی پر خیانت کی جو تہمت دھرتے ہو، یہ سورج پر تھوکنے کی کوشش کے مترادف ہے، کوئی نبی بھی اس بات کا روا دار نہیں ہوتا کہ وہ خیانت اور بے وفائی کا مرتکب ہو۔ ٹھیک اسی اسلوب پر آیت زیربحث میں قریش کی تردید کی گئی ہے کہ تم نبی پر یہ الزام جو لگاتے ہو کہ یہ ہوس اقتدار میں مبتلا ہیں، اپنی قوم میں انھوں نے خوں ریزی کرائی، اپنے بھائیوں کو قید کیا، ان کا مال لوٹا، ان سے فدیہ وصول کیا، یہ ساری باتیں تمھارے اپنی کھسیاہٹ مٹانے کے لیے ہیں۔ کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ وہ قیدی پکڑنے، فدیہ وصول کرنے اور مال غنیمت لوٹنے کے شوق میں ملک میں خوں ریزی برپا کر دے۔ یہ باتیں تم اس لیے کہتے ہو کہ تم نبی کو اپنے اوپر قیاس کرتے ہو۔ تمھاری چاہتیں چونکہ یہی کچھ ہیں، تم سمجھتے ہو کہ نبی بھی یہی کچھ چاہتا ہے۔ ’تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا وَاللّٰہُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ‘یہ خطاب قریش سے ہے۔ قرآن میں خطاب کا انداز بالکل اسی طرح ہوتا ہے جو ایک اعلیٰ خطیب تقریر میں اختیار کرتا ہے۔ جتنی پارٹیاں سامنے ہوتی ہیں، بہ یک وقت سب کی طر ف رخ بدل بدل کر ان کے ذہن کے لحاظ سے بات کہتا چلا جاتا ہے۔ خود بات ہی واضح کر دیتی ہے کہ مخاطب کون ہے اور اس کے کس شبہ یا اعتراض کا کیا جواب دیا گیا ہے۔ یہاں بھی یہی صورت ہے۔ اس آیت کا مخاطب مسلمانوں کو اور وہ بھی سید عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ماننے کی تو کوئی گنجایش ہی نہیں ہے اور بالفرض اس آیت کا مخاطب دل پر جبر کر کے نبی اور صدیق کو تھوڑی دیر کے لیے کوئی مان بھی لے تو اس کے بعد جو آیت آ رہی ہے، اس کا مخاطب نبی اور صدیق کو ماننے کے لیے کوئی دل و جگر کہاں سے لائے۔
 بہر حال، ہمارے نزدیک یہ خطاب قریش سے ہے اور یہ ان کے اس پروپیگنڈے کا جواب دیا جا رہا ہے جس کی طرف ہم نے اشارہ کیا ہے۔ فرمایا کہ اس قسم کی دنیا طلبی تمھارا ہی شیوہ ہے۔ اللہ تو آخرت کو چاہتا ہے۔ یہاں اسلوب بیان کی یہ بلاغت ملحوظ رہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ نبی اور اہل ایمان آخرت کے طلب گار ہیں،بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ آخرت کو چاہتا ہے۔ اس سے مقصود اس حقیقت کا اظہار ہے کہ نبی اور اہل ایمان کے ہاتھوں جو کچھ یہ ہو رہا ہے یہ ان کی اپنی مرضی سے نہیں ہو رہا ہے، بلکہ اللہ کی مرضی اور اللہ کے حکم سے ہو رہا ہے،نبی اور اہل ایمان کی حیثیت اس سارے کام میں محض آلہ اور واسطہ کی ہے ۔وہ جو کچھ کر رہے ہیں، یہی عین اللہ کا ارادہ اور اس کی مرضی ہے۔ اللہ کی مرضی اپنے بندوں کے لیے یہ ہے کہ وہ ہر کام آخرت کو اپنا نصب العین بنا کر کریں تو نبی اور اس کے ساتھیوں کا کوئی اقدام اللہ کی مرضی کے خلاف کس طرح ہو سکتا ہے۔ گویا بدر اور اس سلسلہ کے تمام اقدامات کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لے لی۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ عزیز و حکیم ہے۔ وہ جو ارادہ فرماتا ہے اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور اس کا ہر ارادہ عدل و حکمت پر مبنی ہوتا ہے۔ اب تم جو ژاژخائی کرنا چاہتے ہو کرتے رہو۔
لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّکُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ‘،یعنی تم نے اتنے ہی پر یہ واویلا برپا کر رکھا ہے، حالاں کہ یہ تو صرف ایک چرکا ہے جوتمھیں لگا ہے۔ تم نے جو شرارت ا س موقع پر کی تھی اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پرتمھیں ایک عذاب عظیم آ پکڑتا، لیکن اللہ نے چونکہ ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے جس سے پہلے کسی قوم کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے اس نے تمھیں مہلت دے دی۔ مطلب یہ ہے کہ اس شوروغوغا کے بجاے بہتر یہ ہے کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھا ئواور اس فیصلہ کن گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے اپنی روش کی اصلاح کر لو ۔
فِیْمَآ اَخَذْتُمْ‘میں’ما‘کے ابہام کی یہاں کوئی وضاحت موجود نہیں ہے اور’اخذ‘کا لفظ لینے، پکڑنے، اختیارکرنے ،کسی ڈھب کو اپنانے، کسی کام کو شروع کرنے، سب کے لیے آتا ہے۔ سورۂ توبہ میں ہے:’وَ اِنْ تُصِبْکَ مُصِیْبَۃٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَآ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ‘۵۰ (اور اگر تمھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ منافق کہتے ہیں خوب ہوا ہم نے اپنابچاؤ پہلے ہی کرلیا تھا) یہاں یہ مطلب ہو گا کہ جو طریقہ تم نے اختیار کیا اس کی بنا پر تم سزا وار تو تھے ایک عذاب عظیم کے، لیکن اللہ کے قانون کے تحت تمھیں کچھ مہلت مل گئی۔
 ہمارے مفسرین کو ان آیات کی تاویل میں بڑی الجھن پیش آئی ہے۔ ان کے نزدیک یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین پر عتاب ہے کہ وہ زمین میں خوں ریزی کیے بغیر بدر کے قیدیوں سے فدیہ لینے پر کیوں راضی ہو گئے۔ صحیح تاویل واضح ہو جانے کے بعد اب اس بات کی تردید کی ضرورت باقی نہیں رہی، تاہم چند باتیں ذہن میں رکھیے:
 ایک یہ کہ فدیہ قبول کرنے کے معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے بالفرض غلطی ہوئی بھی تو یہ کسی سابق ممانعت کی خلاف ورزی کی نوعیت کی غلطی نہیں تھی، بلکہ صرف اجتہاد کی غلطی تھی۔ اجتہاد کی غلطی ایسی چیز نہیں ہے جس پر ایسی سخت وعید وارد ہو۔ بالخصوص ایک ایسا اجتہاد جس کی تصدیق فوراً ہی خود اللہ تعالیٰ نے کر دی ہو۔
دوسری بات یہ کہ یہ اجتہاد کی غلطی بھی نہیں تھی۔ جنگ کے قیدیوں سے متعلق یہ قانون سورئہ محمد میں پہلے بیان ہو چکا تھا کہ وہ قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔ فدیہ لے کر بھی چھوڑے جا سکتے ہیں اور بغیر فدیہ لیے محض احساناً بھی چھوڑے جا سکتے ہیں۔
تیسری یہ کہ جہاں تک خوں ریزی کا تعلق ہے اس کے اعتبار سے بھی بدر میں کوئی کسر نہیں رہ گئی تھی۔ قریش کے ستر آدمی جن میں بڑے بڑے سردار بھی تھے مارے گئے کم و بیش اتنے ہی آدمی قیدی ہوئے۔ باقی فوج بھاگ کھڑی ہوئی اور آخر لڑائی کس سے جاری رکھی جاتی ؟
 چوتھی یہ کہ یہاں عتاب کے جو الفاظ ہیں، وہ قرآن کے مخصوص الفاظ ہیں۔ جوشخص قرآن کے انداز بیان سے آشنا ہے وہ جانتا ہے کہ ان لفظوں میں قرآن نے کٹر کفار و منافقین کے سوا اور کسی پر عتاب نہیں کیا ہے۔ نقل کرنے میں طوالت ہو گی جس کو تردد ہو، وہ قرآن میں تمام ان مواقع پر ایک نظر ڈال لے،جہاں ’لَوْلَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ الایہ‘کے الفاظ سے کسی پر عتاب ہوا ہے۔‘‘( تدبر قرآن ۳ /۱۵۰-۱۵۳)

    اسی طرح سورۂ ر حمن میں ایک آیت بار بار دہرائی گئی ہے کہ’فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ اس آیت کا ترجمہ بالاتفاق ہر جگہ یہی کیا گیا ہے کہ:’’تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے‘‘ لیکن اس سورہ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بعض مقامات پر یہ ترجمہ اختیار کرنے سے قاری کے ذہن میں الجھن پیدا ہوتی ہے۔ اب دیکھیے کہ مولانا اصلاحی اپنے استاد سے استفادہ کرتے ہوئے کس طرح اس الجھن کو رفع کرتے ہیں:

’’ہر چند لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ’الاء‘ کے معنی نعمتوں کے ہیں، لیکن قرآن اور کلام عرب سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔کلام عرب کے تتبع اور لفظ کے مواقع استعمال سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ تو یہ ہے کہ اس کے اصل معنی کارناموں، کرشموں اور عجائب قدرت و حکمت کے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے کرشموں اور اس کی نشانیوں کا غالب حصہ آیات رحمت پرمشتمل ہے اس وجہ سے لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ ’الاء‘کے معنی نعمت ہی کے ہیں۔
اسی سلسلہ میں مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی بھی توجیہ کی ہے جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے اس کے معنی نعمت کے بتائے ہیں۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سلف کا طریقہ یہ رہا ہے کہ جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ سوال کے موقع و محل کو سامنے رکھ کر جواب دیتے کہ اس خاص مقام میں لفظ کاکیا مفہوم ہے۔
 اس تمہید کے بعد مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے شعراے جاہلیت میں سے طرفہ، میہ بنت ضرار، مہلہل، ربیعہ بن مقروم، اجدع الہمدانی، فضالہ بن زید، خنساء اور بعض حماسی شعرا کے کلام سے اپنی تائید میں شواہد پیش کیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ مشہور جاہلی شاعروں نے جن کا کلام لغت اور نحو کا ماخذ ہے، اس لفظ کو صرف نعمت ہی کے معنی میں نہیں لیا ہے، بلکہ وسیع معنوں میں لیا ہے۔ جس کے اندر نعمت، قدرت، شان، نشانی، کرشمہ، کارنامہ، اعجوبہ اور اس نوع کے تمام مفہوم شامل ہیں۔‘‘( تدبر قرآن ۸/ ۱۲۰- ۱۲۱)

    ’’تدبر قرآن‘‘ کی صورت میں فہم قرآن کی جو شمع روشن ہوئی ہے، اس نے کئی رائج اور اب تک مصدقہ سمجھی جانے والی آرا کو قطعی طور پر تبدیل کر دیا ہے اور اب اس بات کی ناگزیر ضرورت ہے کہ اس کی بنیاد پر اسلامی علوم کی تشکیل جدید ہو۔ مثال کے طور پرنبی اور رسول کے فرق کو جس طرح ’’تدبرقرآن‘‘ میں واضح کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ ناگریز ہے کہ فلسفۂ نبوت، غلبۂ دین کی حکمت عملی، قانون جرم و سزا، اسلامی معاشرے میں اصلاح و دعوت کا کام جیسے موضوعات پر اب تک قائم شدہ آرا کو غلط قرار دیا جائے۔یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ اس کو قبول کر لینے کے بعد یہ لازم ہے کہ خود مولاناکی قدیم کتاب’’دعوت دین اور اس کا طریق کار‘‘ پرنظر ثانی کی جائے۔ صرف یہی نہیں،بلکہ ’’تدبر قرآن‘‘ نے دین پر غور و فکر کی ترتیب کو مکمل طور پر الٹ دیا ہے۔ اس سے قبل روایات اور دیگر خارجی ذرائع کو معیار مان کر قرآن مجید کی تاویل کی جاتی تھی۔ اب قرآن مجید کو معیار بنا کر دیگر علمی وسائل کی تاویل کرنا پڑے گی، لہٰذا یہ ناگزیر ہے کہ اب ذخیرۂ حدیث کی تدوین جدید ہو۔ فقہ اسلامی کی تشکیل نو ہو۔ قوانین اسلام پھر سے مرتب ہوں۔ خود مولانا نے اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی۔ مثلاً، انھوں نے’’مبادی تدبرحدیث‘‘ کے عنوان سے روایات کو پرکھنے کے لیے اصول بیان کیے اورپھر انھیں استعمال میں لاتے ہوئے حدیث کی اہم کتب کا درس بھی شروع کیا۔ اسی طرح قوانین کے باب میں اگررجم سے متعلقہ مباحث کا ’’تدبرقرآن‘‘کے حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو ایک نئی بات سامنے آتی ہے۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کی پوری تاریخ میں’’تدبر قرآن‘‘ کے علاوہ شاید ہی کسی ایسی تفسیر کا نام لیا جا سکے جس نے اسلامی علوم کو اتنا متاثر کیا ہو کہ اس کے بعد اسلامی علوم کی تشکیل جدید ناگزیز ہو جائے۔

    ’’تدبرقرآن‘‘کا ایک اورغیرمعمولی کارنامہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں فرقہ بندی کے امکانات مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں میں فرقوں کی موجودگی کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو ایک ہی سبب دکھائی دے گا اور وہ ہے تاویل کا مسئلہ۔دین کے سب ہی نام لیوا قرآن مجید اور سنت کو بنیادی ماخذ قرار دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان کے مابین بہت بنیادی امور میں اختلاف ہے۔ اس اختلاف کا بنیادی سبب یہ ہے کہ قرآن مجید کا مفہوم طے کرتے وقت اس کے داخلی وسائل، یعنی قرآن مجید کے نظم، آیات کے ربط، اس کی زبان وغیرہ پر انحصار کرنے کے بجاے خارجی وسائل، یعنی روایات و اقوال وغیرہ کی بنیاد پر آیات کا مفہوم متعین کیا جاتا ہے۔ اب چونکہ روایات اور اقوال میں بے پناہ اختلافات ہیں، لہٰذا، اگر آیات کی تفہیم میں ان کو بنیاد بنایا جائے گا تو یہ بات ناگزیر ہے کہ ایک سے زیادہ آرا قائم ہوں گی۔ مثال کے طور پر سورۂ احزاب کی مشہور آیت جو آیۂ تطہیر کہلاتی ہے، اس میں لفظ’’اہل بیت‘‘ کا مفہوم طے کرتے وقت کئی افراد کو ان کا مصداق قرار دیا گیا۔ اور اس کا سبب محض یہ ہے کہ قرآن مجید پر براہ راست غور کرنے کے بجاے روایات کو درست مان کر آیات کا مفہوم طے کرنے کی سعی کی گئی اور اس باب میں وہ آرا قائم ہوئیں جنھیں اگر کوئی تحریف قرار دے تو اس کی تردیدمشکل ہو جائے۔ اب اگر اس آیت کے سیاق و سباق کو سامنے رکھا جائے تو اس باب میں دو آرا کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا کہ اہل بیت سے مراد ازواج رسول علیہن وعلیہ السلام ہیں۔ تفسیر کے مروجہ اصولوں کے استعمال سے یہ افسوس ناک صورت حال بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ روایات کی صحت میں شک کرنے کو جرم سمجھتے ہیں، لیکن دوسری طرف قرآن مجید میں معاذ اللہ تحریف اور گرامر کی غلطیاں انھیں گوارا ہیں۔ چنانچہ اسی آیۂ تطہیر کو دیکھیے۔ لوگوں نے اس میں ’کم‘کی ضمیر کا مرجع متعین کرتے ہوئے جو بحثیں کی ہیں ،وہ کم علمی کا مظہر تو ہیں ہی، لیکن اس کی بنیاد پر انھوں نے یہ راے تک قائم کر لی کہ اس آیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر یہاں رکھا گیا ہے۔ گویا یہ ترتیب توقیفی نہیں اور اگر توقیفی ہے تو ضمیر کے مرجع کے تعین میں اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ غلطی لگی ہے ۔اب اس مقام کو، جیسا کہ ہم نے عرض کیا اگر آپ ’’تدبر قرآن‘‘ میں پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا مفہوم دو اور دو چار کی طرح واضح ہے اور قرآن کا یہی وہ پہلو ہے جس کی بنیاد پر اسے آسان قرار دیا گیا ہے۔تفسیر کے یہی اصول ہیں جن کی بنیاد پر یہ واقعہ ہے کہ یہ الفاظ صاحب ’’تدبر قرآن‘‘ ہی لکھ سکتے ہیں:


’’میں اپنے رب کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے اس کتاب میں کسی ایک آیت کی بھی ایسی تفسیر نہیں کی ہے جس میں مجھے کوئی تردد ہو۔ جہاں ذرا بھی کوئی تردد ہوا ہے، میں نے بے تکلف اس کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی عرض کرتا ہوں کہ کسی ایک مقام میں بھی میں نے یہ کوشش نہیں کی ہے کہ کسی آیت کو اس کے حقیقی مفہوم سے ہٹا کر اپنے کسی نظریے یا کسی خیال کی تائید کے لیے استعمال کروں۔ قرآن سے باہر کی کسی چیز سے بھی کبھی میری کوئی خاص قلبی و ذہنی وابستگی نہیں ہوئی۔ اگر ہوئی ہے تو قرآن ہی کے لیے اور قرآن ہی کے تحت ہوئی ہے۔‘‘( تدبر قرآن ا/ ۴۲)

    امام امین احسن اصلاحی کی اس علمی شان سے الگ وہ ایک بے پناہ خطیب اور صاحب اسلوب ادیب بھی تھے۔ انھوں نے جو کچھ لکھا، نفس مضمون سے قطع نظر اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی شاہکار ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو نثر کے ارتقا میں ان کا غیرمعمولی حصہ ہے۔ ’’حقیقت شرک و توحید‘‘ سے لے کر’’مبادی تدبر قرآن‘‘ تک مولانا کی تمام تحریریں پڑھ جائیے۔ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ تحریر کا علمی پہلو زیادہ موثر ہے یا ادبی۔ اور واقعہ یہ ہے کہ دونوں اپنی انتہائوں پر ہیں۔ ایک لمحے کو’’مبادی تدبر قرآن‘‘کی ان سطور پر نظر ڈالیے:


’’...جو بات قانون کی کتابوں میں ایک شاخ بریدہ نظر آتی ہے وہی بات قرآن مجید میں ایک سرور عنا کی طرح نظر آئے گی...۔ قرآن فقہی احکام کو ہمیشہ دین کی اصولی تعلیمات کے ساتھ ملا کر بیان کرتا ہے۔ وہ کبھی تو فروع سے اصول کی طرف بڑھتا ہے جس کی مثال سورۂ احزاب وغیرہ میں ملتی ہے اورکبھی اصول سے فروع کی طرف اترتا ہے جس کی مثال سورۂ جمعہ میں موجود ہے اورکبھی اصول کو اجزا و فروع کے درمیان ایک آفتاب تاباں کی طرح رکھ دیتا ہے جس کی بہترین مثال سورۂ نور میں موجود ہے۔‘‘(۰ ۱۱)

    اسی کتاب میں تصریف آیات کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ تصریف آیات کا مطلب قرآن کے تدبر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی بات مختلف اسلوبوں اور مختلف دلیلوں سے بیان ہوتی ہے اور ایک ہی حقیقت کو اس کے مختلف پہلووں سے واضح کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ آیات قرآن کے لیے تصریف ریاح سے لیا گیا ہے۔ تصریف ریاح کی حقیقت کیا ہے ؟ ایک ہی ہوا ہے، لیکن اس کے تصرفات کی گوناگونی کی کوئی حد نہیں۔ وہ رحمت بھی ہے اور نقمت بھی۔ کبھی آہستہ چلتی ہے اورچمن میں پھلوں کو کھلاتی اور کھیتوں میں فصلوں کو پکاتی ہے۔کبھی سموم بن کر نمودار ہوتی ہے اور چمنستانوں اور باغوں کو دشت و صحرا بنا کر چھوڑ دیتی ہے اورکبھی بادلوں کو اپنے کندھے پر لاد کر لاتی ہے جو تمام زمین کو جل تھل کر دیتے ہیں، کبھی ان کو ہنکا کر لے جاتی ہے اور ان کو ہنکا کر لے جانے ہی میں زمین والوں کے لیے خیر وبرکت ہوتی ہے۔ صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک اور پھر سال کے مختلف مہینوں میں نہ جانے وہ کتنے بھیس بدلتی ہے اور اس کا ہربھیس اس کائنات کی زندگی اور نشوونما کے لیے ضروری ہوتا ہے ۔وہ کبھی گرم ہوتی ہے کبھی سرد، کبھی خشک ہوتی ہے کبھی تر، کبھی آندھی اور طوفان کی ہولناکی بن کر نمودار ہوتی ہے، کبھی نسیم صبح کی جاں نوازی اور عطر بیزی بن کر۔ اللہ تعالیٰ نے اس تصریف ریاح کا مختلف مقامات میں ذکر فرمایا ہے۔ سورۂ ذاریات اور سورۂ مرسلٰت میں اس کے عجائب تصرفات کی قسم بھی کھائی ہے۔
 بعینہٖ یہی حال قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا ہے۔ بعض اوقات ایک ہی آیت اتنے گونا گوں پہلو ر کھتی ہے کہ ان سب کا احاطہ ناممکن ہوتا ہے اور ایک ہی مضمون اتنی مختلف شکلوں میں نمودار ہوتا ہے کہ اس کا شمار کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی بات کو قرآن مجید تصریف آیات کے لفظ سے تعبیر کرتا ہے۔‘‘(۱۴۲-۱۴۳)

    امام امین احسن اصلاحی نے عمر عزیز کے سترہ برس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی جماعت اسلامی میں گزارے۔ ۱۹۵۸ء میں یہ رفاقت ختم ہوئی۔ مولانا مودودی کی نظر میں اقامت دین کے لیے قائم جماعت کے امیر کے لیے لازم نہیں کہ وہ شوریٰ کی راے کا پابند ہو۔جبکہ مولانا اصلاحی اس کے برخلاف راے رکھتے تھے۔ انھی نقطہ ہاے نظر کے عملی اظہار نے اس عہد کی دو بڑی شخصیات کو ایک دوسرے سے دور کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس موضوع پر خود مولانا مودودی کی راے بھی بعد میں تبدیل ہوگئی جس کا واضح اظہار’’تفہیم القرآن‘‘ میں سورۂ شوریٰ کی تفسیر میں کیاگیا ہے۔ مولانا اصلاحی جماعت اسلامی میں دوسرے بڑے آدمی سمجھے جاتے تھے۔ انھوں نے جب بھی مولانا مودودی اورجماعت اسلامی کے دفاع میں قلم اٹھایا،’’تنقیدات‘‘اور’’توضیحات‘‘ کے صفحات گواہ ہیں کہ حرف آخر لکھا۔ چنانچہ جب بھی پاکستان میں غلبۂ دین کے لیے کی گئی جدوجہد کا ذکر ہو گا، مولانا کے تذکرے سے خالی نہیں ہو گا۔ جماعت اسلامی سے نکلنے میں اگرچہ یہ خیر کا پہلو بھی تھاکہ اس کے بعد مولانا ’’تدبر قرآن‘‘ کے لیے یکسو ہو سکے اور علمی دنیا کے اس تاج محل کی تعمیر ممکن ہوئی، تاہم کبھی کبھی یہ خیال بے قرار بھی کر دیتا ہے کہ مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کی رفاقت قائم رہتی تو اس کا خیر بھی کچھ کم نہ ہوتا۔ مولانا مودودی کے نام لکھے گئے مولانا اصلاحی کے خط کے یہ آخری الفاظ مضطرب کر دیتے ہیں:

’’میں جانتا ہوں کہ آپ کی رفاقت سے محروم ہو کر میں کیا کچھ کھو رہا ہوں، لیکن آپ کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آپ نے مجھ جیسے خیر خواہ مخلص کے مشوروں کی قدر نہیں کی تو آپ کو ’’برے مشیروں‘‘ کے مشورے ماننے پڑیں گے۔ میں دل سے متمنی تھا کہ مجھے آپ کی رفاقت حاصل رہے، لیکن آپ نے اپنے دونوں خطوں میں اس کی جو قیمت مانگی ہے میں وہ ادا کرنے سے قاصر ہوں۔


یہ جو کچھ میں نے لکھا آپ کو جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے لکھا۔ اس حیثیت سے الگ آپ میرے بڑے بھائی ہیں اور ان شاء اللہ آپ کی برابر عزت کرتا رہوں گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے اپنی شفقتوں سے محروم نہیں فرمائیں گے ۔‘‘(تاریخ جماعت اسلامی کاایک گم شدہ باب)

    جماعت اسلامی سے نکلتے وقت مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی، یہ اس سلسلے کی آخری سطور ہیں۔ یہ خطوط ادبی مقام کے لحاظ سے اس سطح کے ہیں کہ انھیں اردو ادب کے بڑے’’ادبی معرکوں‘‘ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔

    استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی نے ایک مرتبہ ہم سے کہا: ’’یہ ایک شخص کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ اپنے عہد میں جینا چاہتا ہے یا تاریخ میں۔‘‘ اس میں کیا شبہ ہے کہ امام اصلاحی نے تاریخ میں جینے کا فیصلہ کیا اور ہم مستقبل کے چہرے پر صاف لکھا ہوا دیکھ رہے ہیں کہ آنے والا دور امام فراہی اور امام اصلاحی کا دور ہے۔

[جنوری/فروری ۱۹۹۸]   ​

____________

B