’’التزام جماعت‘‘ کے عنوان سے مولانا گوہر رحمان صاحب کا ایک مضمون معاصر جریدے۱؎ میں شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے ’’التزام جماعت‘‘ کے بارے میں ہمارے اس نقطۂ نظر پر تنقید کی ہے جو وقتاً فوقتاً ’’اشراق‘‘ کے صفحات میں سامنے آتا رہا۔
مولانا اپنے اس مضمون میں جو امور زیر بحث لائے ہیں، ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
۱۔وہ امور جن میں انھیں ہم سے اتفاق ہے۔
۲۔ وہ امور جو اختلافی ہیں۔
۳۔ وہ امور جن کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر کو صحیح تناظر میں سمجھا نہیں جا سکا۔
ہم اپنی بات کا آغاز ان امور کے ذکر سے کرتے ہیں جو ہمارے مابین متفق علیہ ہیں۔ اس سے ان شاء اللہ بہت سے ایسے بنیادی مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے جو خلط مبحث یا بیان میں کسی ابہام کے باعث بلاوجہ اختلافی بن گئے ہیں۔ ہم انھیں خود مولانا کے الفاظ میں نقل کر رہے ہیں:
۱۔’’وہ جماعت جس کے التزام کے بغیر، کوئی شخص مسلمان ہی نہیں رہ سکتا اور اس میں شمولیت کے بغیر، دائرۂ اسلام میں داخل ہی نہیں ہو سکتا، وہ تو ہے امت مسلمہ...۔‘‘(ماہنامہ فاران،جون ۱۹۹۵،۲۲)
۲۔ ’’سورۂ بقرہ کی آیت ۱۴۳ میں اس امت وسط کا مشن ’شہادت حق‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ کہ وہ اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دیں گے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کریں گے۔‘‘ (فاران۲۳)
۳۔’’خلافت، یعنی اسلامی حکومت اللہ کی نعمت ہے جس کے ذریعے سے دین کو تمکن اور مضبوطی حاصل ہوتی ہے، امن و امان قائم ہوتا ہے اور اندرونی و بیرونی دشمنوں کے حملوں کا خوف و خطرہ باقی نہیں رہتا اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس خلافت کے نظام میں لوگ اللہ ہی کی بندگی کرتے ہیں اور مشرکانہ نظام ختم ہو جاتا ہے۔ یہی خلافت اور اسلامی حکومت ’الجماعۃ‘ ہے جو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جس کی اطاعت و وفاداری اور جس کا التزام، دین کا حکم ہے۔ جس سے الگ ہونا جاہلیت اور اسلام کا قلادہ گردن سے اتارنا ہے۔‘‘(فاران۲۷)
۴۔ ’’سمع و طاعت اور التزام جماعت کے بارے میں قرآن و سنت کی نصوص کا تعلق اسلامی حکومت سے ہے۔‘‘ (فاران۲۷)
’الجماعۃ‘ کے اس مفہوم سے دو باتیں مزید ثابت ہوتی ہیں:
۱۔ ’الجماعۃ‘ سے مراد چونکہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی ہے، اس لیے کسی خطۂ زمین میں، جہاں بنیادی طور پر قرآن و سنت کی حاکمیت کا اقرار کیا گیا ہو، مسلمان اگر باہم اتفاق راے سے کوئی حکومت قائم کر لیتے ہیں تو دین کا وہ تقاضا پورا ہو جاتا ہے جس کا تعلق اجتماعیت یا ’الجماعۃ‘ سے ہے۔ لہٰذااب اس اجتماعی نظم سے الگ ہونا شرعاً درست نہیں ہے۔ پاکستان میں جب مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل ہو گیا اور آئینی طور پر شریعت کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا گیا تو اس کے بعد یہاں بسنے والے مسلمانوں کے لیے پاکستان ہی ’الجماعۃ‘ ہے۔
۲۔ ایسے خطۂ زمین میں ، جہاں ’الجماعۃ‘، یعنی اسلامی ریاست موجود ہے، وہاں یہ تو جائز ہے کہ مسلمان کسی سیاسی، معاشرتی یا معاشی مسئلے کی اصلاح کے لیے ریاست کے دستور کی حدود میں کوئی اجتماعی نظم قائم کر لیں، لیکن ایسی ریاست کے اندر اس نوعیت کی کسی جماعت کو ’الجماعۃ‘ کے قائم مقام قرار دینا یا ایسی کسی جماعت کی رکنیت کو دین کا بنیادی تقاضا سمجھنا، ایک ایسی جسارت ہے جس کے لیے دین میں کوئی بنیاد موجود نہیں۔ یہی وہ امور ہیں جو مولانا اور ہمارے درمیان اختلافی ہیں، لہٰذا ہم ان پر تفصیل سے بحث کریں گے۔
مولانا فرماتے ہیں کہ ’الجماعۃ‘ سے مراد ایسی حکومت ہے جو امت کے صالح لوگوں پر مشتمل اور دین کو قائم کرنے والی ہو۔ وہ لکھتے ہیں:
’’’الجماعۃ‘ سے مراد مطلقاً کوئی حکومت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ حکومت ہے جو اقامت دین کا فرض انجام دیتی ہو۔‘‘(فاران۲۷)
پاکستان کی موجودہ حکومت، ان کے نزدیک، نہ صالح افراد پر مشتمل ہے اور نہ اقامت دین ہی کا فریضہ انجام دے رہی ہے، لہٰذا اس کی اطاعت شرعاً جائز نہیں ہے۔ چنانچہ انھوں نے لکھا ہے:
’’’الجماعۃ‘کا اطلاق آخر اس حکومت پر کیسے ہو سکتا ہے جو قرآن و سنت کی بالا دستی کوعملاً تسلیم نہ کرتی ہو، فیصلے ’مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ‘ کے خلاف کرتی ہو، بھلائی کے کاموں میں روڑے اٹکارہی ہو اور برائی کو فروغ دے رہی ہو۔ حدود اللہ اور شعائر اللہ کا مذاق اڑارہی ہو اور اسلام کی دشمن، طاغوتی طاقتوں کا آلۂ کار بنی ہوئی ہو۔ میری راے تو یہ ہے کہ ایسی حکومت کو ’الجماعۃ‘ کہنا اس دینی اور شرعی اصطلاح کی توہین ہے اور ایک سیکولر حکومت کو دینی جواز فراہم کرنا ہے۔‘‘(فاران۲۷)
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ اس حکومت کو مسلمانوں کا عمومی اعتماد حاصل ہے، اس بارے میں مولانا کا ارشاد ہے:
’’رہی یہ بات کہ اس کو مسلمانوں نے منتخب کیا ہے تو مسلمانوں نے اگر دھوکے اور فریب میں آ کر یا مفاد پرستی اور خودغرضی کی وجہ سے یا اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کو منتخب کر لیا ہو جو اقامت دین کا فریضہ سر انجام دینے کی بجاے طاغوتی اور غیر اسلامی نظام چلا رہے ہوں تو صرف اکثریت کا ووٹ حاصل کرنے سے ’الطاغوت‘ کو ’الجماعۃ‘ نہیں کہا جا سکتا۔‘‘(فاران۲۷)
مزید ان کا کہنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت کفر بواح کی مرتکب بھی ہے:
’’جو حکومت قرآن و سنت سے منحرف ہو چکی ہو اور ریاست کا نظام، سیکولرازم اور لا دین سیاست کے اصولوں پر چلا رہی ہو، اس کے اس طرزعمل کے کفر بواح ہونے کی برہان وہ آیات ہیں جن کا ذکر چند سطور قبل ہو چکا ہے کہ ایسی حکومت طاغوت ہے، کافر ہے، ظالم ہے اور فاسق ہے۔‘‘ (فاران۲۹)
یہ بات واضح ہے کہ سماج میں مسلمانوں کی جو عمومی حالت ہو گی، نظام اور ادارے بھی اسی لحاظ سے ترتیب پائیں گے۔ کسی مسلمان معاشرے میں عامۃ الناس اگر دین سے عملاً دور اور محض رسمی تعلق رکھنے والے ہوں تو تمام معاشرتی و سیاسی اداروں کو محض اس وجہ سے کالعدم قرار نہیں دیا جائے گا کہ ان کا نظام مثالی لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس بات کو نظام صلوٰۃ سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ دین میں نماز فرض ہے، لیکن اگر کوئی امام فاسق و فاجر ہو تو کیا اس کی اقتدا میں ادا کی جانے والی نماز، ا س وجہ سے نماز قرار نہیں پائے گی کہ امام مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا؟ اگر ہمارے محلے کی مسجد میں لوگ کسی ایسے شخص کو امام مقرر کر دیتے ہیں جو مطلوبہ شرائط کو پورا نہیں کرتا تو کیا ہم اس کی امامت تسلیم کرنے سے انکار کر دیں گے؟ اور کیا نماز باجماعت کو اس وقت تک اٹھا رکھا جائے گا، جب تک مطلوبہ شرائط کا حامل امام نہیں مل جاتا؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اگر امام مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتا تو اس کے باوجود اس کی امامت مانی جائے گی اور اس کی اقتدا میں پڑھی جانے والی نماز، نماز ہی شمار ہو گی۔ اس ’امامت صغریٰ‘ کو ’امامت کبریٰ‘ پر قیاس کیا جانا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک قول میں یہی بات بیان ہوئی ہے:
عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الجہاد واجب مع کل امیر برًا کان او فاجرًا والصلوۃ واجبۃ علیکم خلف کل مسلم برًا کان او فاجرًا وان عمل الکبائر۔(ابودائود، رقم۲۱۷۱)
’’ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھارے اوپر جہاد واجب ہے، ہر امیر کی دعوت پر، خواہ وہ نیکو کار ہو یا بدکار۔ اورتم پر نماز واجب ہے، ہر مسلمان کی اقتدا میں، وہ نیکوکار ہو یا بدکار اور خواہ وہ کبائر کا مرتکب ہو۔‘‘
اس حدیث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ ’الجماعۃ‘ اور با جماعت نماز کا قیام چونکہ لازم ہے، لہٰذا محض اس بنا پر کہ امیر یا امام فاسق و فاجر ہے، ان کا وجود کالعدم نہیں ہو جائے گا، بلکہ ان کی بالفعل (de facto)موجودگی، اس کی دلیل ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے گی۔ یہی وہ بات ہے جو ایک دوسرے اسلوب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے اعتراضات اور ان کے نعرے ’لاحکم الا اللّٰہ‘ کے جواب میں کہی:
انما یقولون لا امارۃ ولا بدمن امارۃ برۃ او فاجرۃ۔(شہرستانی،الملل والنحل ،جلد۱)
’’ان کا کہنا ہے کہ امارت (حکومت) نہیں ہونی چاہیے، حالانکہ امارت ضروری ہے، چاہے اچھی ہو یا بری۔‘‘
صحابۂ کرام اور دیگر اکابر امت کا طرز عمل بھی اسی کی تائید کرتا ہے کہ اہل اقتدار کے فسق و فجور کے باوجود، ان کی حکومت پر ’الجماعۃ‘ ہی کا اطلاق ہوتا ہے۔ امام بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ اور قاضی شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں یہ تاریخی واقعہ نقل کیا ہے:
عن عبدالکریم البکاء قال: ادرکت عشرۃ من اصحاب النبی کلھم یصلی خلف ائمۃ الجور۔(نیل الاوطار۳/ ۱۳۸)
’’عبدالکریم البکاء سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے دس ایسے صحابہ کا زمانہ پایا ہے جو ظالم امرا کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔‘‘
امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ حجاج بن یوسف کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ اسی طرح وہ امیر حج ہوتا اور حضرت ابن عمر اس کی قیادت میں حج ادا کرتے تھے۔ مولانا گوہر رحمان صاحب کے قائم کردہ معیار کے مطابق، حجاج کی حکومت بھی غالباً طاغوت قرار پائے گی، لہٰذا کیا وہ یہ فتویٰ دینا بھی پسند فرمائیں گے کہ ابن عمر ایک طاغوت کو سند جواز دیتے رہے؟ اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عباسی خلفا، بالخصوص ابو جعفر منصور کے بارے میں جو راے رکھتے تھے، وہ تاریخ کے صفحات میں بہت تفصیل کے ساتھ رقم ہے۔ انھوں نے قاضی القضاۃ کا عہدہ محض اس وجہ سے قبول نہیں کیا کہ ان کے نزدیک منصور ایسا حکمران تھا جو اسلام کے معیار حکمرانی پر پورا نہیں اترتا۔چنانچہ انھوں نے وصیت کی کہ انھیں بغداد میں دفن نہ کیا جائے، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ منصور نے ناجائز طریقے سے زمین حاصل کرکے یہ شہر آباد کیا تھا، لیکن اس کے باوجود وہ اسے مسلمانوں کا حکمران تسلیم کرتے تھے اور تاریخ کی کتابوں میں منصور کے ساتھ ان کے جو مکالمے نقل ہوئے ہیں، اس میں وہ اسے ’امیر المومنین‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
اب اگر ایک نظر ان شرائط پر ڈالی جائے جن کی تکمیل مسلمانوں کی کسی حکومت کے خلاف خروج کو جائز قرار دینے کے لیے ضروری ہے تو اس سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’الجماعۃ‘ کی اصل علت مسلمانوں کو انتشار و فساد سے بچانا ہے، نہ کہ دین قائم کرنا۔ خروج کے لیے چار لازمی شرائط ہیں:
۱۔ حکمران کھلے کفر کا ارتکاب کریں، یعنی وہ اپنی ذات پر یا اپنے نظام میں قرآن وسنت کی بالادستی قبول کرنے سے انکار کر دیں۔
۲۔ ان کی حکومت ایک استبدادی حکومت ہو جو نہ مسلمانوں کی راے سے قائم ہوئی ہو اور نہ ان کی راے سے اسے تبدیل کر دینا ، کسی شخص کے لیے ممکن رہا ہو۔
۳۔ خروج کے لیے وہ شخص اٹھے جس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ قوم کی واضح اکثریت اس کے ساتھ اور پہلے سے قائم کسی حکومت کے مقابلے میں اس کی قیادت تسلیم کرنے کے لیے بالکل تیار ہے۔
۴۔ خروج کرنے سے پہلے باغی کو کسی آزاد علاقے میں خود مختار ریاست کا قیام بھی عمل میں لانا ہو گا۔
خروج کے بارے میں یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ ان شرائط کی تکمیل خروج کو صرف جائز ٹھہراتی ہے، وہ واجب کسی صورت میں نہیں ہے۔ ان شرائط سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر حکومت کے معاملات اس نہج پر چل رہے ہوں کہ لوگوں کی سنی نہ جاتی ہو، معاشرے میں اضطراب ہو اور امکان ہو کہ لوگ کسی فساد میں مبتلا ہو جائیں گے تو اس ممکن صورت حال سے بچنے کے لیے خروج کیا جا سکتا ہے،لیکن اگر اس کے بعد حالات مزید خراب ہونے کا امکان ہو تو خروج سے گریز کرنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ’’منہاج السنہ‘‘ میں خروج کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ہر خروج سے امت مسلمہ نئے فساد ہی میں مبتلا ہوئی ہے، لہٰذا خروج کی مذکورہ بالا شرائط سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’الجماعۃ‘ کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کو فتنہ و انتشار سے بچانا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور ائمۂ امت کا تعامل اور اقوال یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ ’الجماعۃ‘ کا تعلق مسلمانوں کے نظم اجتماعی سے ہے، اور اس راے میں کوئی وزن نہیں کہ جو حکومت اقامت دین کی ذمہ داری ادا کرنے میں کوتاہی کرتی ہو یا بعض امور میں معصیت کا ارتکاب کرتی ہو، وہ ’الجماعۃ‘ نہیں ہے۔
ہمارے یہ دلائل زیر بحث مسئلے میں دین کے نقطۂ نظر کو اچھی طرح واضح کر دیتے ہیں، تاہم یہ مسئلہ چونکہ ایسا نہیں ہے جس پر پہلی دفعہ بحث ہو رہی ہو اور نہ ہم اس راے کے پیش کرنے میں منفرد ہی ہیں، اس لیے ہم یہاں دو ایسے اصحاب علم کی راے نقل کر رہے ہیں جو خود مولانا کے نزدیک بھی قابل احترام ہیں۔ ان میں سے ایک شاہ اسماعیل شہید ہیں اور دوسرے مولانا صدر الدین اصلاحی۔۲؎
شاہ صاحب نے اپنی کتاب ’’منصب امامت‘‘ میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے کہ مسلمانوں پر کب تک اپنی حکومت کی اطاعت واجب ہے۔ وہ ’حکومت ضالہ‘ کے عنوان سے ایک سیاسی نظم کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان کے اپنے الفاظ میں کچھ اس طرح ہے:۳؎
’’اب ریاست و سیاست حکمی (ظاہری) کے معاملات کے ایک ایک پہلو میں شرع متین کی مخالفت نمایاں ہونے لگتی ہے،۱ور انسانی زندگی کے مسائل کے ہر گوشے میں دین کے بالمقابل ایک اصول قائم ہو جاتا ہے۔ اس طرح ملت مصطفوی کے خلاف، ایک نئی ملت اور سنت نبوی کے خلاف ایک نئی سنت نمودار ہو جاتی ہے۔ ضابطۂ حکومت صریحاً احکام الٰہی کے خلاف نشوونما پاتا ہے اور شاہی قوانین کھلم کھلا شریعت ایمان کے خلاف نمودار ہوتے ہیں۔ پس کتنی ہی چیزیں ہیں جو شریعت الٰہی میں حرام ہیں، لیکن ضابطۂ حکومت میں واجب قرار پاتی ہیںاور اسی طرح اس کے برعکس۔ مثلاً ’’شاہ شاہاں‘‘، ’’خداوند جہاں‘‘، ’’جہاں پناہ‘‘،’’حضور اقدس‘‘، ’’عرش آشیانی‘‘، ’’بندۂ خاص‘‘، ’’پرستار باختصاص‘‘ اور’ ’قلم قدر توام‘‘ وغیرہ الفاظ کا استعمال، امرا کا دست بستہ سر جھکا کر کھڑے ہونا، رقص و سرود کی محفلیں جمانا، جشن و عید کے دنوں میں ریشمی لباس پہننا ، سونے چاندی کے برتنوں کا استعمال اور کفار کی تقاریب مسرت، مثلاً ’’نوروز‘‘، ’’مہرجان‘‘، ’’ہولی‘‘ اور ’’دیوالی‘‘ اور ایسے ہی دوسرے موقعوں پر فرحت و سرور کا مظاہرہ کرنا۔ الغرض، اس طرح کے ہزاروں معاملات اور بے شمار صورتیں ہیں۔ یہ سب خدا کی شریعت میں حرام ہیں، لیکن ضابطۂ حکومت کے لحاظ سے واجب الاہتمام ہیں۔
اس کے برعکس ’’السلام علیک‘‘کا جواب دینا، نماز باجماعت میں حاضر ہونا، بودوماند کو درست رکھنا، خدا کے کمزور بندوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا، ہر مسلمان سے مصافحہ کرنا، ہر وضیع و شریف کی دعوت کو قبول کرنا، جمہور مسلمین سے بے تکلفی برتنا اور بیت اللہ کا حج کرنا، اولیاء اللہ کی خدمت کرنا، علم و ذکر کی مجالس سے مستقل وابستگی رکھنا، رؤسا اور غربا میں سے کسی کی مخالفت نہ کرنا، اہل حاجت کی حاجات کو سننا، وغیرہ ذالک، ان ساری باتوں کے کرنے کا شریعت ربانی میں حکم دیا گیا ہے، لیکن یہ ضابطۂ حکومت کی رو سے ممنوع ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور کتنے ہی جرم ایسے ہیں جن کی سزا خدا کی شریعت میں کچھ اور مقرر ہے اور ضابطۂ حکومت میں کچھ اور مثلاً، چوری کی سزا شریعت میں قطع ید ہے اور ضابطۂ حکومت کی رو سے قتل یا قید ہے۔۔۔۔‘‘(اسلامی ریاست ۲۴۴-۲۴۶ بحوالہ منصب امامت)
موجودہ حکومت کو یا پاکستان کی کسی حکومت کو ’حکومت ضالہ‘ قرار دینا، ہمارے نزدیک آسان نہیں ہے، کیونکہ، بہرحال یہ ابھی اس سطح پر نہیں اترے جو شاہ صاحب بیان فرما رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، یہاں قرآن و سنت کی حاکمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس کے خلاف قانون سازی کی ممانعت ہے، بہت سے معاملات میں اسلامی سزائیں نافذ ہیں، ملک کا صدر نماز کا پابند اور حج و عمرہ ادا کرنے والا ہے۔ ہر دن کے بعد حکومت کی طرف سے اسلام کے ساتھ وابستگی کا دم بھرا جاتا ہے۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود، اگر اسے ’حکومت ضالہ‘ فرض کر لیا جائے تو خود شاہ صاحب کے نزدیک بھی احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی اطاعت سے نہ نکلا جائے۔ چنانچہ’حکومت ضالہ‘ کے شرعی حکم کے بیان میں وہ اعتراف کرتے ہیں:
’’اگرچہ ایسے فرماں روا ، حقیقت کے اعتبار سے ، کفار اشرار میں شامل ہیں اور دوزخیوں کی قسم میں سے ہوتے ہیں، لیکن چونکہ اپنی زبان سے ان کا کفر پوشیدہ رہتا ہے اور ایمان ظاہر اور وہ اپنے اس دعواے ظاہر کی تصدیق اور شہادت کے لیے اسلام کی چند رسموں کو مثلاً، لڑکیوں کا نکاح کرکے دینا، عید الفطر اور عید الاضحی پر شان و شوکت کا مظاہرہ کرنا، تجہیز و تکفین ، نماز جنازہ اور مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن ہونا وغیرہ عمل میں لاتے ہیں اور خدا کی شریعت سے پوری طرح دست بردار نہیں ہوتے، البتہ ضابطۂ سلطانی کو اپنے لیے اور اپنے ملازمین کے لیے واجب العمل ٹھہراتے ہیں۔ چنانچہ اپنی خاص روایات میں آئین و شریعت کو مرکب کرکے کلام کرتے ہیں مثلاً، کہتے ہیں کہ اگرچہ شریعت ہی اصل چیز ہے، لیکن سیاسی معاملات کے لیے شریعت کے ساتھ ’طورہ‘ (عقلی قانون) بھی ہونا چاہیے اور اس عقلی قانون سے ان کی مراد چنگیز خانی آئین ہوتا ہے۔ پس یہی دعواے اسلام، جو ظاہر طور پر ان کی زبانوں سے صادر ہوتا ہے، انھیں کفر صریح سے محفوظ رکھتا ہے۔ اگرچہ آخرت کے مواخذے کے لیے خفیہ کفر کافی ہے، لیکن ظاہری اسلام کا تقاضا یہی ہے کہ ان کے ساتھ دنیاوی احکام میں مسلمانوں کا سا سلوک کیا جائے اور معاملات کی حد تک انھیں مسلمانوں ہی کی جنس میں شمار کیا جائے۔
سلطان مضل(حکومت بدراہ)، اگرچہ رئیس المفسدین اور امام المبتدعین ہوتا ہے اور اس کی حکومت دین کے حق میں سم قاتل اور اس کی امامت، کتاب و سنت کی رو سے وہم باطل کی حیثیت رکھتی ہے، لیکن اس بنا پر کہ اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنا اس سے تعلق رکھتا ہے، اس کی تکفیر کرنا ایک مشتبہ مسئلہ ہے۔ لہٰذا اس کے خلاف بغاوت کا اعلان کرنا یا اس کی اطاعت سے انحراف کرنا بھی اختلافی مسائل میں سے ہے۔ پس ایک محتاط شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود تو اس طرح کا اقدام نہ کرے، لیکن ایسا کرنے والے کو ملامت بھی نہ کرے۔ دوسرے لفظوں میں خود تو اسے بغاوت سے باز رہنا چاہیے، لیکن اگر کوئی دوسرا اس سلطان مضل کی مخالفت و منازعت پر کمر بستہ ہو تو اس پر زبان طعن نہ کھولے۔‘‘(اسلامی ریاست ۲۴۷-۲۴۹ بحوالہ منصب امامت)
مولانا صدر الدین صاحب اصلاحی نے بھی اپنی کتاب ’’اسلام اور اجتماعیت‘‘ میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی کسی بگڑی ہوئی حکومت کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں سے تین یہ ہیں:
’’۱۔ صاحب امر، رعایا کے حقوق ادا نہ کرے، اور ان پر ظلم و ستم روا رکھے،
۲۔ وہ لوگوں کو معصیت کے کاموں کا بھی حکم دینے لگے،
۳۔ وہ بدکردار ہو جائے، احکام شرع کی علانیہ خلاف ورزی پر اتر آئے، اور فسق و فجور کا ارتکاب کرنے لگے۔‘‘
مولانا ان حکومتوں کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جہاں تک پہلی دو قسم کے بگاڑ کا تعلق ہے ، ان کے بارے میں شریعت کی ہدایات اوپر وضاحت سے بیان ہو چکی ہیں۴؎ اور وہ یہ کہ ان خرابیوں کے باوجود متعلقہ شخص کی امارت کو چیلنج نہ کیا جائے گا اور ’معروف‘ میں اس کی اطاعت بدستور لازم رہے گی۔ تیسری صورت کے بگاڑ کا بھی یہی حکم ہے، یعنی اصحاب امر کی فاسقانہ حرکتوں سے تو مسلمان سخت بیزار رہے گا اور ضروری ہے کہ بیزار رہے، لیکن ان کی امارت کو بدستور تسلیم کرنے سے انکار نہ کرسکے گا ، اور نہ ’معروف‘ میں ان کی اطاعت سے دست کشی اس کے لیے جائز ہو گی۔ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
... الا من ولی علیہ وال فراہ یاتی شیئًا من معصیۃ اللّٰہ فلیکرہ مایاتی من معصیۃ اللّٰہ ولا ینزعن یدًا من طاعۃ۔(مسلم، کتاب الامارہ)
’’...سن رکھو، جن لوگوں کے اوپر کوئی حاکم مقرر کیا گیا ہواور وہ اس سے ایسی حرکتیں سرزد ہوتے دیکھیں جو معصیت کی حرکتیں ہوں تو انھیں چاہیے کہ اس کی ان حرکتوں سے نفرت اور ناگواری رکھیں، لیکن (ساتھ ہی اس کی) اطاعت سے دست کشی ، ہرگز اختیار نہ کریں۔‘‘
چنانچہ اس بارے میںعلما کا اجماع ہے کہ فسق کے ارتکاب سے خلیفہ معزول نہیں ہو جایا کرتا اور محض اس فسق کی بنا پر اس کے خلاف بغاوت کرنا صحیح نہیں، بلکہ حرام ہے۔ (شرح مسلم، نووی، کتاب الامارہ)‘‘ (اسلام اور اجتماعیت۱۲۸-۱۲۹)
یہاں تک کہ بحث سے یہ واضح ہے کہ پاکستان کی حکومت کو اگر ویسا ہی فرض کر لیا جائے جیسا مولانا نے اپنے مضمون میں بیان کی ہے، تب بھی یہ ’الجماعۃ‘ ہے اور اس کی اطاعت لازم ہے۔ رہی یہ بات کہ ایسی کوئی حکومت اگر معصیت کا حکم دے تو اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان راہ نما ہے:
لا طاعۃ فی معصیۃ اللّٰہ۔ انما الطاعۃ فی المعروف۔(مسلم، رقم۳۴۲۴)
’’اللہ کی معصیت کے کسی کام میں اطاعت نہیں، اطاعت صرف معروف میں ہو گی۔‘‘
شارح مسلم امام نووی اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:
اجمع العلماء علی وجوبھا فی غیر معصیۃ وعلی تحریمھا فی المعصیۃ۔
’’علما کا اس پر اجماع ہے کہ اصحاب امر کی اطاعت ایسے کاموں میں جو معصیت کے نہ ہوں، واجب ہے۔ اور ایسے کاموں میں جو معصیت کے ہوں، حرام ہے۔‘‘
اس باب میں جو دیگر احادیث بیان کی جاتی ہیں، ان کا مفہوم مولانا صدر الدین صاحب اصلاحی کے نزدیک، یہ ہے:
’’جس معروف میں امرا کی اطاعت ضروری ہے، اس کی وسعتیں کہاں تک پہنچتی ہیں، اس کی وضاحت بھی اسی لفظ ’معصیت‘ سے ہو جاتی ہے، جو مسئلۂ اطاعت کے منفی پہلو کو بیان کرنے کے لیے ، مذکورہ بالا احادیث اور دیگر بہت سی حدیثوں میں لایا گیا ہے۔ جب یہ فرما دیا گیا کہ معصیت کے کاموں میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو صرف معروف میں ہوتی ہے، تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ جن احکام کی تعمیل میں اللہ تعالیٰ کی ’معصیت‘ لازم نہ آ رہی ہو، وہ سب کے سب معروف کے احکام ہوں گے اور ان کی بجا آوری ضروری ہو گی۔ گویا وہ سارے امور جن کی نوعیت امور تدبیر کی ہوتی ہے اور جن میں مختلف پہلووں کے پیش نظر ایک سے زائد رائیں ہو سکتی ہیں، ’معروف‘ ہی کی حدود میں داخل ہیں۔ یعنی ایسے امور میں، صاحب امر کے احکام کی معقولیت سے کسی شخص کو چاہے کتنا ہی شدید اختلاف کیوں نہ ہو، اور اپنی راے کے صائب ہونے پر کتنا ہی گہرا اطمینان کیوں نہ رکھتا ہو، ان احکام کو اسے تسلیم کرنا ہی پڑے گا۔ اور یہ اس کا شرعی فریضہ ہو گا، کیونکہ اس طرح کا ہر حکم معروف کا حکم ہے، اور معروف میں امیر کی اطاعت ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ ایک شخص کو اپنی راے کے صائب ہونے پر جو اطمینان ہو، وہ بالکل صحیح بنیادوں پر ہو اور راے فی الواقع اسی کی ٹھیک ہو، مگر اس کے باوجود اسے یہ حق ہرگز حاصل نہ ہو گا کہ وہ امیر پر کم اندیشی اور بے تدبیری کا الزام لگا کر، اطاعت سے انکار کر دے۔ اس انکار کا حق اسے نہ تو اس کا اپنا ذوق اور وجدان دے سکتا ہے، نہ اپنی دور اندیشی اور اصابت راے کا یقین اور نہ دنیا کی کوئی اور چیز۔ یہ حق اسے صرف اسی وقت مل سکتا ہے، جبکہ حکم ’معروف‘ کا نہیں، بلکہ اللہ کی ’معصیت‘ کا دیا گیا ہو۔‘‘(اسلام اور اجتماعیت۱۲۶-۱۲۷)
اب اس نکتے کی طرف آئیے، جس کا تعلق دینی جماعتوں کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں ہم اپنی راے مضمون کی ابتدا میں بیان کر چکے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا گوہر رحمان صاحب کی راے ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
’’اگر اسلامی حکومت موجود ہی نہ ہو تو پھر اس کے لیے منظم اور اجتماعی جدوجہد کرنا ایک دینی فریضہ ہے اور جو جماعتیں’ اسلامی حکومت براے اقامت دین ‘کے لیے دین و شریعت اور سنت رسول و سنت اصحاب رسول کے اصول و ہدایت کے مطابق کام کر رہی ہوں، ان میں سے جس پر زیادہ اعتماد ہو، اس میں شمولیت اختیار کرنا اور اس کے نظم کا التزام کرنا، جدوجہد براے غلبۂ دین و اقامت دین کا لازمی تقاضا ہے۔‘‘ (فاران۲۷)
مولانا گوہر رحمان صاحب نے اپنی اس راے کی تائید میں کتاب و سنت سے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔ جہاں تک اجتماعیت کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں خود مولانا نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کا تعلق اسلامی حکومت کے ساتھ ہے۔ (فاران۲۷) اس معاملے میں جو بات زیادہ سے زیادہ کہی جا سکتی ہے ، صرف وہی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے کہ ایک منظم معاشرے میں اگر کوئی شخص سیاسی، معاشی یا معاشرتی نظام میں کوئی اصلاح چاہتا ہے تو اس غرض کے لیے کوئی جماعت قائم کی جا سکتی ہے، لیکن یہ بات کہ ایسے معاشرے میں دینی نظام کے قیام کی جدوجہد کے لیے جماعت قائم کرنا یا لازماً کسی ایسی جماعت کی رکنیت اختیار کرنا دینی تقاضا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ دین کے نصوص میں سے تائید لائی جائے۔ اور ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ دین کے بنیادی مآخذ میں اس کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں۔ اس بحث میں، البتہ مسند احمد اور ترمذی کی ایک روایت بکثرت پیش کی جاتی ہے۔ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں:
آمرکم بخمس اللّٰہ أمرنی بھن: بالجماعۃ والسمع والطاعۃ والھجرۃ والجہاد فی سبیل اللّٰہ۔(احمد، رقم ۱۶۵۴۲؛ترمذی، رقم۲۷۹۰)
’’میں تمھیں ان پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں جن کا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے: جماعتی زندگی کا، سمع کا، اطاعت کا، ہجرت کا اور جہاد فی سبیل اللہ کا۔‘‘
بعض لوگ اس حدیث کو جماعت سازی کے لیے بنیاد بناتے ہیں، حالانکہ اس کا اس نوعیت کی جماعت سازی سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا صدر الدین صاحب اصلاحی نے اس حدیث کی یہ شرح بیان کی ہے:
’’اس (حدیث) میں ایک ایسی اجتماعی زندگی بسر کرنے کا صریح حکم دیا گیا ہے جو کوئی معمولی قسم کی نہیں، بلکہ ’سمع‘ اور ’طاعت‘ والی اجتماعی زندگی ہے، یعنی ایک ایسی زندگی جس میں احکام جاری ہوتے ہیں جس کے اندر کوئی حکم دینے والا ہو اور لوگ اس کی اطاعت کرنے والے ہوں۔ صاف لفظوں میں یہ کہ جو ایک ’نظام امر و طاعت‘ یا ایک ’حکومتی ادارہ‘ رکھنے والی اجتماعی زندگی ہو، کیونکہ ’سمع و طاعت‘ کا وجود کسی نہ کسی طرح حکومت کے وجود ہی پر موقوف ہے۔ جہاں حکومت نہ ہو، وہاں اس ’سمع و طاعت‘ کا بھی کوئی سوال باقی نہ رہ جائے گا۔ چنانچہ یہ دونوں الفاظ احادیث میں کثرت سے استعمال ہوتے ہیں اور قریب قریب ہر جگہ ان سے مراد امرا و حکام کی اطاعت ہی ہے۔‘‘(اسلام اور اجتماعیت۱۰۳-۱۰۴)
امت کے جلیل القدر فقہا اور ائمہ کا طرز عمل دیکھیے تو صحیح نظم اجتماعی کے حصول کے لیے ایک مخصوص ’اسلامی جماعت‘ کا تصور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ انھوں نے جب کبھی مسلمانوں کے سیاسی نظام میں کوئی خرابی دیکھی تو اس کی اصلاح کے لیے انفرادی حیثیت ہی میں جدوجہد کی ۔ چنانچہ امت کی پوری تاریخ غلبۂ دین کی کسی جماعتی جدوجہد سے قطعاً خالی ہے۔ جماعت سازی تو موجودہ دور کی دین ہے جو انسان نے تمدنی ارتقا کے بعد اختیار کی ۔ ابتدا ء ً اس کا ظہور مغرب میں ہوا، جہاں نشاۃ ثانیہ(Renaissance)کے بعد جب ادارے وجود میں آئے تو سیاسی جماعتیں بھی قائم ہوئیں۔ او ر اس سے متاثر ہو کر بیسویں صدی میں مسلمانوں نے بھی اس طریقے کو اختیار کیا، البتہ آج بھی اگر کسی مسلمان معاشرے میں تمدنی ضرورت کے تحت جماعت سازی ہوتی ہے تو اسے جائز قرار دیا جائے گا، اس لیے کہ یہ دائرۂ مباحات کی چیز ہے ، لیکن یہ بات کہ ’جماعت سازی دین کا تقاضا ہے‘ کم سے کم اس امت کی تاریخ میں اجنبی رہی ہے۔
جس مفروضے کے تحت ان جماعتوں کے وجود کو شرعی جواز مہیا کیا جاتا ہے، اس کی حقیقت تو ہم نے واضح کر دی، تاہم اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض کر لیا جائے کہ یہ ’الجماعۃ‘ کی قائم مقام ہیں اور اس کی نیابت میں اقامت دین کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، تب بھی ان کے وہ حقوق ثابت نہیں ہوتے جن کا مولانا مطالبہ کر رہے ہیں، یعنی یہ کہ ان کی رکنیت شرعاً لازمی ہے وغیرہ۔ مثال کے طور پر دیکھیے کہ جمعہ کی نماز کی امامت اصلاً ارباب حل و عقد کی ذمہ داری ہے اور موجودہ دور میں ائمۂ مساجد، ایک طرح سے، ان کی نیابت میں یہ ذمہ داری ادا کر تے ہیں۔ کیا اس نیابت سے عام مسلمانوں پر ان کی بیعت براے سمع و طاعت فرض ہو جائے گی؟ ظاہر ہے کہ کوئی آدمی بقائمی ہوش و حواس یہ فتویٰ نہیں دے سکتا۔ اس اصول کے تحت ایک اسلامی جماعت کے نظم کے ساتھ آخر سمع و طاعت کے معاہدے کا اہتمام کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے خیال میں آج اگر کوئی ایسی دینی جماعت قائم ہوتی بھی ہے تو وہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے ان سے، زیادہ سے زیادہ نصرت دین کے لیے تعاون ہی کا تقاضا کر سکتی ہے۔ اس سے زیادہ کا حق اسے حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح جماعتی فیصلوں کی پابندی ’
اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ
‘۵؎ کے اصول پر کی جا سکتی ہے۔
اس نظری بحث سے ہٹ کر ، اب ہم ذرا مسئلے کے عملی پہلو پر نگاہ ڈالتے ہیں۔ مولانا جس اجتماعی نظام کو طاغوت قرار دیتے ہیں، خود اس کے ساتھ ان کا اور ان کی جماعت کا معاملہ آخر کیا رہا ہے؟ سب سے پہلے کشمیر کے مسئلے کو لیجیے۔اپریل ۱۹۴۸ میں جب پاکستان اور ہندوستان کے مابین کلکتہ میں معاہدہ ہوا تو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کا موقف یہ تھا کہ چونکہ پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کے درمیان ایک معاہدہ موجود ہے، لہٰذا پاکستان کے شہریوں کے لیے کشمیر کی جنگ میں شریک ہونا شرعاً جائز نہیں رہا۔ اس مسئلے پر مولانا اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کے مابین جو خط و کتابت ہوئی، اس میں مولانا مودودی نے اپنا موقف یوں بیان کیا:
’’پاکستان کی موجودہ حکومت مسلمانان پاکستان کے اپنے منتخب کیے ہوئے نمایندوں پر مشتمل ہے اور خصوصاً اس حکومت کے گورنر جنرل کو تو شخصاً کم از کم ۹۹ فی صد مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہے، لہٰذا، کسی بیرونی قوم کے ساتھ جو معاہدات یہ حکومت طے کرے، وہ دراصل ہماری قوم کی طرف سے وکالتاً طے ہوں گے اور ہم سب، شرعاً و اخلاقاً، خدا اور خلق کے سامنے انھیں وفا کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔ جب تک ان لوگوں کو قوم کی نمایندگی کا منصب حاصل ہے، ہمارے افراد کو انفرادی طور پر، ان کے کیے ہوئے معاہدات کی ذمہ داری سے بری ہو جانے کا حق نہیں۔‘‘(مولانا مودودی کی تقاریر، مرتبہ: ثروت صولت۲/ ۱۱-۱۲)
اس حکومت کے بارے میں، ۱۹۴۸ء میں جماعت اسلامی کی راے، تقریباً وہی تھی جو آج مولانا گوہر رحمان صاحب کی موجودہ حکومت کے بارے میں ہے۔ چنانچہ اسی مسئلۂ کشمیر پر جماعت کے ترجمان روزنامہ ’’تسنیم‘‘ میں مولانا مودودی مرحوم کے ساتھ، ایک سوال و جواب یوں نقل ہوا ہے:
’’سوال: آپ تو اس حکومت کو شرعی حکومت ہی نہیں مانتے، پھر مسلمانوں پر ایک غیر شرعی حکومت کے طے کردہ معاہدات کی پابندی کیوں لازمی قرار دیتے ہیں؟
جواب: پاکستان کی حکومت، خواہ شرعی ہو یا غیر شرعی بہرحال، وہ سب مسلمانوں کے اپنے منتخب کردہ نمایندوں پر مشتمل ہے۔ ایسی حکومت جو بھی کام کرتی ہے، وہ قوم کی طرف سے کرتی ہے اور اس کے اعمال کے لیے پوری قوم خدا اور خلق کے سامنے ذمہ دار ہے...۔‘‘(مولانا مودودی کی تقاریر، مرتبہ: ثروت صولت۲/۱۱-۱۲)
ایوب خان مرحوم کے عہد میں جب جماعت اسلامی پر پابندی لگی تو اسی ملک کی عدالتوں سے انصاف کے لیے رجوع کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور حکومت میں ان سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیں اور انھی کی طرف سے یہ فیصلہ کیا بھی گیا۔ اس ملک کے موجودہ دستور پر ان کی جماعت نے دستخط کیے اور اس کی وفاداری کا حلف اٹھایا۔ خود مولانا اور ان کے ساتھی اسی قانون کے تحت انتخابات میں حصہ لیتے اور اسمبلی میں جا کر اس ملک کے آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کی جماعت اسی حکومت کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہے اور اسی کی اجازت سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ اس ملک کے تمام اداروں، پارلیمنٹ، عدلیہ وغیرہ او ر اس کے فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے، لہٰذا ہم جب آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں تو حکومت، اداروں، صدارتی آرڈی نینسوںاور دیگر فیصلوں کو تسلیم کرنے کا حلف اٹھاتے ہیں، لہٰذا اس سارے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے کیا یہ باتیں کہی جا سکتی ہیں:
oمولانا مودودی نے ایک غیر شرعی حکومت کے معاہدے کو سند جواز فراہم کی؟
o جماعت اسلامی نے اپنے تنازعات کے فیصلوں کے لیے طاغوت سے رجوع کیا؟
o ایک غیر اسلامی حکومت سے، ایک فرقے کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا؟
o مولانا اور جماعت کے دیگر ارکان نے طاغوت سے وفاداری کا حلف اٹھایا؟
oجماعت اسلامی نے غلبۂ دین کی جدوجہد کے لیے طاغوت سے اجازت طلب کی؟
o اور جماعت اسلامی نے اس ملک کی اسمبلیوں میں جا کر، اس طاغوتی حکومت کو چلانے میں تعاون کیا؟
یقیناّ، یہ بات درست نہیں ہے۔ ہم مولانا اور ان کی جماعت کے بارے میں قطعاً یہ راے نہیں رکھتے اور مذکورہ بالا اقدامات کو شرعی لحاظ سے غلط نہیں کہتے، لیکن اگر مولانا کی راے کے مطابق اس ملک کے نظام کو طاغوتی قرار دے دیا جائے تو وہ خود ہی فرمائیں کہ ان اقدامات کی کیا توجیہ کی جا سکتی ہے؟
اب ایک نظر برادر مسلم ملک ترکی پر بھی ڈالیے، جو صحیح معنوں میں ایک سیکولر ملک ہے اور جہاں ریاست کی سطح پر دین کی بالا دستی کو آئینی بنیادوں پر تسلیم نہیں کیا گیا۔ وہاں کی اسلامی تحریک اس ملک کے آئین کے تحت کام کرتی، انتخابات میں حصہ لیتی اور بلدیہ کا نظام چلاتی ہے۔ وہ اس ملک اور حکومت کی وفاداری کا عہد کیے ہوئے ہے۔ کیا مولانا یہ فتویٰ دیں گے کہ رفاہ پارٹی طاغوت کو سند جواز بخش رہی ہے؟۶؎
ان دلائل کی بنیاد پر ہم پورے شرح صدر اور ذمہ داری کے ساتھ یہ راے رکھتے ہیں کہ ’الجماعۃ‘ کے باب میں مولانا کی راے نظری پیمانے پر پوری اترتی ہے نہ عملی پیمانے پر۔ نقلاً ثابت ہے نہ عقلاً۔ رہی یہ بات کہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام میں اگر خرابیاں پیدا ہو جائیں تو اصلاح کی صورت کیا ہو گی؟ تو اس بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اللہ کے دین میں اس مقصد کے لیے احکام موجود ہیں اور ان کی روشنی میں لائحۂ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے یہ بات جان لینی چاہیے کہ رعایا اور حکومت کے تعلق کی اساس رضاے الٰہی ہے، یعنی رعایا اگر حکومت کی اطاعت کر رہی ہے تو یہ کوئی احسان نہیں ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر رعایا پر حکمرانوں کے جو حقوق بیان ہوئے ہیں، وہ بنیادی طور پر دو ہیں:یعنی اطاعت اور خیرخواہی۔ اطاعت کی اساس خود قرآن مجید نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ۔ (النساء۴:۵۹)
’’اے ایمان والو، اطاعت کرو اللہ کی، اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اصحاب امر کی۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان گنت فرمان، قرآن مجید کے اس حکم کی وضاحت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
دعانا النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فبایعنا فکان فیما اخذ علینا ان بایعنا علی السمع والطاعۃ فی منشطنا ومکرھنا وعسرنا ویسرنا۔ (مسلم، رقم ۳۴۲۷)
’’ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور آپ سے ہم نے بیعت کی تو ان باتوں میں جن کا ہم سے آپ نے عہد لیایہ بات بھی شامل تھی کہ ہم ہر حال میں، چاہے گوارا ہو یا ناگوار، ہم تنگی کی حالت میں ہوں یا کشادگی میں، اپنے امرا کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے۔‘‘
ہمارا دین یہ چاہتا ہے کہ ہم ہر معاملے میں اپنی اور دوسروں کی بھلائی چاہیں۔ اس ضمن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’دین خیرخواہی ہے، اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کے عوام کے لیے۔‘‘ (بخاری، کتاب الایمان)
خیرخواہی ایسی چیز ہے جس کے لیے خود انسانی فطرت میں بھی دلیل موجود ہے۔ جو اطاعت حکمرانوں سے تعلق خاطر کی بنا پر ہو اور جو مجبوراً ہو، دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دین کا مزاج یہ ہے کہ وہ فرد کے اندر تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے جس کا اظہار ظاہری اعمال میں ہوتا ہے، اس لیے کہ زبردستی کا تعلق کبھی پائدار نہیں ہوتا۔ بنیادی انسانی رشتوں سے لے کر حکمران اور رعایا کے تعلق تک، وہ اسی روح کو جاری و ساری دیکھنا چاہتا ہے۔ دیکھیے: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کس اسلوب میں اس تعلق کو نمایاں کیا ہے:
من بایع امامًا فاعطاہ صفقۃ یدہ وثمرۃ قلبہ فلیطعہ ان استطاع۔(مسلم،رقم ۲۴۳۱)
’’جس نے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیا اور اپنی متاع قلب اس کے حوالے کر دی، اسے چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق اس کی اطاعت کرتا رہے۔‘‘
اس اطاعت ، خلوص اور خیرخواہی کی اساس چونکہ رضاے الٰہی ہے، اس لیے جب حکمرانوں سے ایسے افعال سرزد ہوں جو اللہ کے احکام کے مطابق نہ ہوں تو اس اطاعت اور خیرخواہی کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں ایسا کرنے سے روکا جائے۔ روکنے سے مراد ان کی اطاعت سے نکل جانا نہیں ہے، بلکہ اس خاص امر میں انھیں خبردار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی طرف متوجہ کرنا ہے اور یہ کام امت کے علما کا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَلِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْٓااِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔(التوبہ۹:۱۲۲)
’’اور کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جا کر اپنی قوم کو خبردار کرتے، تاکہ وہ (آخرت کے عذاب سے) بچتے۔‘‘
یہ ’انذار‘ زندگی کے ہر طبقے کو کیا جائے گا اور اس میںیقینا اہل اقتدار بھی شامل ہیں۔ یہ کام امت میں ہمیشہ ہوا ہے اور اہل علم و بصیرت نے اپنے فہم اور ’تفقہ فی الدین‘ کی بنیاد پر ’انذار‘ کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ ہم یہاں چند مثالیں نقل کرتے ہیں:
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب حج تمتع کی ممانعت کا فتویٰ دیا تو خود ان کے صاحبزادے یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ ’نہ سنیں گے اور نہ مانیں گے‘ اور اس کی دلیل ان کے پاس یہ تھی کہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے، لہٰذا اس معاملے میں کسی دوسرے کی بات نہیں مانی جائے گی۔ عباسی خلفا نے جب یہ اعلان کیا کہ جو ان کی بیعت توڑے گا، اس کی بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی تو امام مالک نے اس حکم کے خلاف فتویٰ دیا۔ اس کے نتیجے میں انھیں کوڑے مارے گئے اور مزید رسوائی کے لیے انھیں اونٹ کی پیٹھ پر باندھ کر سربازار پھرایا گیا، مگر وہ بازاروں میں سے گزرتے ہوئے یہی کہتے رہے:
من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فانا مالک بن انس اقول ان الطلاق المکرہ لیس بشیٔ۔(سیر اعلام النبلاء ۸/ ۹۶)
’’جو مجھ کو جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا تو جان لے کہ میں ہوں مالک، انس کا بیٹا اور اس مسئلے کا اعلان کرتا ہوں کہ جبری طلاق کوئی چیز نہیں۔‘‘
امام احمد بن حنبل نے خلق قرآن کے مسئلے پر اپنے وقت کے مسلمان حکمرانوں کا فتویٰ قبول نہ کیا، سزا قبول کر لی، لیکن ان میں سے کوئی بھی فرد ایسا نہیں جس نے ’الجماعۃ‘ سے علیحدگی اختیار کی ہو یا حکمرانوں کو طاغوت قرار دے کر ان کی اطاعت سے خود نکلے ہوں یا لوگوں کو ایسی تلقین کی ہو۔ ان جلیل القدر ائمہ کا طرزعمل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ مسلمان رعایا کو اپنے حکمرانوں کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہمارے نزدیک اگر علما خلوص و خیرخواہی اور اطاعت کی بنیاد پر حکمرانوں کے غلط اعمال پر انھیں ٹوکیں، اصلاح کے جذبے سے انھیں حق کی دعوت دیں اور ان کے حریف بن کر کھڑے نہ ہوں تو یقینا اس کے نتیجے میں خیر برآمد ہو گا۔ ہماری اپنی تاریخ میں اس کی مثال موجود ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے بارے میں ہمارے مذہبی طبقے کی یہ متفقہ راے رہی ہے کہ وہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے اسلام دشمن، ظالم اور سیکولر حکمران تھے، لیکن انھی بھٹو صاحب کے ہاتھوں ۱۹۷۳ء کا متفقہ آئین منظور ہوا۔ جس میں قرآن و سنت کی بالا دستی کو قبول کیا گیا۔ یہ اقدام بہت حد تک ایک عالم دین مولانا ظفر احمد انصاری رحمہ اللہ کی کاوشوں کا مرہون منت ہے جو حکمرانوں کے ساتھ خیر کا تعلق رکھتے اور انھیں خیر ہی کی دعوت دیتے تھے۔ ان کی خیرخواہی چونکہ حکمرانوں پر واضح تھی، اس لیے وہ ایسے کام پر بھی مجبور ہوتے جن کے لیے ان کے دل ممکن ہے کہ آمادہ نہ ہوں۔ اس کے برعکس ، بھٹو صاحب کو طاغوت قرار دینے والے ان سے خیر کا کوئی کام نہ لے سکے۔
آج اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ حکمرانوں سے خیر کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، ان سے تعاون کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا اور دین و وطن کے مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں تبدیل کیا جائے تو اس کی مہذب صورت بھی موجود ہے۔ پاکستان ایک منظم معاشرہ ہے۔ یہاں اب حکومتیں عامۃ الناس کی مرضی سے بنتی اور ختم ہوتی ہیں۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ لوگوں کے پاس جائے، ان کے سامنے اپنا نقطۂ نظر رکھے اور پھر انتخابات کے وقت اس حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر عامۃ الناس اس کی بات نہ مانیں تو حکومت کا حق، بہرحال اسے ہی حاصل ہو گا جسے لوگوں کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو۔ آج کے متمدن معاشرے میں انتخابات یہ جاننے کا ایک معقول ذریعہ ہیں کہ لوگ کسے تخت حکومت پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ انتخابات کے طریقے کو خودمولانا گوہر رحمان صاحب بھی اپنی کتاب ’’اسلامی سیاست‘‘ میں اسلامی قرار دے چکے ہیں۔ اب، اگر لوگ انتخابات میں مذہبی جماعتوں پر اعتماد کرنے کے لیے آمادہ نہیں اور ایسے لوگوں کو منتخب کر دیتے ہیں جو کسی کے نزدیک سیکولر ہیں تو مسلمانوں کے اجتماعی فیصلے کو کالعدم قرار دینے کا کسی کو کوئی شرعی اختیار نہیں۔ اگر بارہ کروڑ۷؎ کی آبادی میں ایک شخص جسے دو یا تین فی صد لوگوں کی تائید حاصل ہے، کھڑا ہو جائے اور حکومت کو طاغوت قرار دے دے تو مولانا فرمائیں کہ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ اب اگر وہ یہ کہے کہ لوگ جاہل ہیں، دین کو نہیں سمجھتے تو اس کا صحیح طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ انھیں جہالت سے نکالا جائے اور دین سکھایا جائے ، نہ کہ ان کے اجتماعی فیصلے کو طاغوت قرار دے کر، انھیں فساد اور انارکی میں مبتلا کر دیا جائے۔
بدقسمتی سے ہمارے علما نے اپنی اصل ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ لوگوں کو انذار کریں، ان تک دین صحیح صورت میں پہنچائیں تاکہ وہ دین کے شخصی اور اجتماعی تقاضوں کو سمجھیں اور زندگی کے ہر معاملے میں فیصلہ کرتے وقت، اللہ کی رضا کو فوقیت دیں۔ وہ اس فطری راستے سے ہٹ کر سب سے پہلے حکومت کو بدلنا چاہتے ہیں، جبکہ انھیں معلوم ہے کہ موجودہ دور میں حکومت جب بھی راے عامہ کی تائید سے تبدیل ہو گی تو ایک ’طاغوت‘ کی جگہ دوسرا ’طاغوت‘ لے لے گا اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا، جب تک کہ عامۃ الناس کی فکری تطہیر نہیں ہو جاتی۔ ہمارے مذہبی طبقے کا موجودہ رویہ ایسا ہی ہے، جیسے کوئی بنیاد رکھنے سے پہلے دوسری منزل کی تعمیر کا خواب دیکھے اور جب ایسا نہ ہو پائے تو غصے میں راج اور مزدور کو الزام دے۔ ایسے خوابوں کی تعبیر کتنی بھیانک ہے، یہ جاننے کے لیے ہماری مذہبی جماعتوں کی ناکام انتخابی جدوجہد کا جائزہ کافی ہے۔
’الجماعۃ‘ پر اپنی بحث سمیٹتے ہوئے ہم اس حدیث کا ذکر کریں گے جو مولانا نے ’’جماعۃ المسلمین کا صحیح مفہوم‘‘ کے تحت بیان کی ہے۔ یہ روایت بخاری (کتاب الفتن) اور مسلم (کتاب الامارہ)، دونوں میں بیان ہوئی ہے۔ ہم یہاں اس کا ترجمہ نقل کر رہے ہیں:
’’حذیفہ فرماتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’خیر‘ کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں ’شر‘ کے بارے میں زیادہ سوال کیا کرتا تھا، اس ڈر کی وجہ سے کہ کہیں یہ شر مجھ پر نہ آجائے۔ چنانچہ میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ہم لوگ جاہلیت اور شر کی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ یہ خیرہمارے پاس لے آئے۔ کیا اس خیر کے بعد شر دوبارہ آئے گا؟ آپ نے فرمایا: ہاں آئے گا۔ میں نے کہا: اس شر کے بعد دوبارہ خیر آئے گا؟ فرمایا: ہاںآئے گا، مگر اس میں گدلا پن ہو گا۔ میں نے پوچھا: یہ گدلا پن کیسا ہو گا؟ فرمایا: ایسے لوگ آئیں گے جو میری سنت کے خلاف، قوم کی راہ نمائی کریں گے۔ تم ان میں اچھے کام بھی دیکھو گے اور برے کام بھی۔ میں نے کہا: کیا اس قسم کے خیر کے بعد شر آئے گا؟ فرمایا: ہاں ایسا شر آئے گا کہ جہنم کے دروازوں پر بلانے والے بیٹھے ہوں گے اور جو لوگ ان کی دعوت قبول کریں گے، وہ ان کو جہنم میں پھینک دیں گے۔ میں نے عرض کیا کہ ان کی کچھ صفات بتائیے۔ فرمایا: وہ ہماری ہی قوم میں سے ہوں گے اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے کہا: اگر یہ زمانہ مجھ پر آگیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہو۔ میں نے عرض کی کہ اگر مسلمانوں کی جماعت بھی نہ ہو، اور ان کا کوئی امام بھی موجود نہ ہو تو پھر کیا کروں؟ فرمایا: ان سارے فرقوں سے الگ ہو جاؤ، اگرچہ تمھیں کسی درخت کی جڑ کو دانتوں سے پکڑنا پڑے اور اسی حالت میں تمھیں موت آجائے۔‘‘(بخاری، رقم ۶۵۵۷؛مسلم، رقم ۳۴۳۴)
اس حدیث کی شرح میں مولانا نے تسلیم کیا ہے کہ یہاں ’جماعۃ المسلمین‘ (مسلمانوں کی جماعت) اور ’امام‘ سے مراد مسلمانوں کا نظم اجتماعی اور ان کا حکمران ہے، مگر اس میں وہ مزید ایک ایسی بات کہتے ہیں جو حدیث میں کہیں بیان نہیں ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’...جب بدعت و ضلالت کے غلبے کا دور آجائے اور ہر فرقہ، گروہ اور جماعت لوگوں کو اپنی طرف بلائے تو تم ان ائمۂ بدعت و ضلالت میں سے کسی کی دعوت قبول نہ کرو، اس لیے کہ یہ اسلام کے نام پر ضلالت کی دعوت ہو گی، بلکہ مسلمانوں کی اس جماعت کے ساتھ لگے رہو اور چمٹے رہو جو قرآن و سنت کا التزام کرنے والے امیر کی امامت پر مجتمع ہو، چاہے وہ صالحیت اور صلاحیت کے اعتبار سے اپنے وقت کا معیاری مسلمان ہو یا اس کے اندر کچھ خرابیاں بھی موجود ہوں، مگر جب تک اس حکمران نے طاغوت کی شکل اختیار نہ کی ہو اور قرآن و سنت سے منحرف نہ ہوا ہو، اس وقت تک اسی کا التزام کرنا دین کا تقاضا ہے، لیکن اگر ایسی صورت حال سے دوچار ہو گئے ہو کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظام درہم برہم ہو گیا ہو اور قرآن و سنت کی بالادستی قبول کرنے والی کوئی حکومت موجود نہ ہوجو قرآن و سنت کا التزام کرتی ہو اور تم اپنے اندر تنہا حالات کا مقابلہ کرنے یا جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو، بلکہ تمھارے اپنے دین و ایمان کو خطرہ درپیش ہو تو ایسے حالات میں، اپنے ایمان کے بے بہا خزانے کے تحفظ کے لیے، لوگوں سے الگ ہو کر کسی محفوظ جگہ میں بیٹھ کر ، زندگی کے باقی دن پورے کرنا زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (فاران۳۳)
اس شرح میں مولانا نے ’جماعۃ المسلمین‘ کی جو تعریف بیان کی ہے، وہ حدیث کے الفاظ میں کہیں نہیں ہے۔ اور یہ بات ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ نظم اجتماعی کے وجود کی علت انتشار سے بچانا ہے، نہ کہ ’اقامت دین‘۔’اقامت دین‘ صحیح تر الفاظ میں نفاذ شریعت، ایک ایسے نظام کے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ’اور اس نظام کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ایسی دینی جماعت بھی موجودنہ ہو جو قرآن وسنت کا التزام کرتی ہو اور تم اپنے اندر تنہا حالات کا مقابلہ کرنے یا جماعت بنانے کی قوت بھی نہ پاتے ہو‘۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ کے منہ میں اپنے الفاظ ڈالنے والی بات ہے۔ ’جماعۃ المسلمین‘ کی غیر موجودگی میں کیا کرنا چاہیے، اس کا جواب اس حدیث میں یہی ہے کہ تنہا زندگی گزاری جائے۔ جماعت سازی کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں، بلکہ اگر اس روایت پر تدبر کی نگاہ کی جائے تو یہ جماعت سازی کی ممانعت کرتی دکھائی دیتی ہے۔ مولانا نے اس کی شرح میںلکھا ہے: ’تم ان ائمۂ بدعت و ضلالت میں سے کسی کی دعوت قبول نہ کرو، اس لیے کہ یہ اسلام کے نام پر ضلالت کی دعوت ہو گی۔‘ اب ہمارے ہاں جو صورت حال ہے، وہ دیکھیے:دیوبندیوں کا خیال ہے کہ بریلوی بدعتی ہیں اور اس طرح ان کے راہنما ائمۂ بدعت ہوئے۔ اہل حدیث حضرات کا یہی خیال دیوبندیوں کے بارے میں ہے، یہاں ہر کوئی دوسرے کو بدعتی اور مشرک کہہ کر اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دیتا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہر مذہبی گروہ نے اپنی سیاسی جماعت بھی بنا رکھی ہے اور سب اپنے اپنے تصور کے مطابق ’اقامت دین‘ کر رہے ہیں۔ کیا ان میں سے ہر ایک ’الجماعۃ‘ کی برادر تنظیم ہے اور ان میں سے کسی نہ کسی کی رکنیت دین کا تقاضا ہے؟ ہماری دیانت دارانہ راے یہ ہے کہ یہ ’الجماعۃ‘ کی طرز پر تمام جماعتیں، یہاں غلبۂ دین کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کا خاتمہ دین کا تقاضا ہے، نہ کہ ان کے وجود کے لیے شرعی جواز فراہم کرنا۔ مولانا کے تصور کو مان لیا جائے تو یہاں ’ایک فرد ایک جماعت‘ کی عملی صورت سامنے آجائے گی اور غلبۂ دین کا خواب ، خواب ہی رہ جائے گا۔
اقامت دین کا مفہوم
مولانا گوہر رحمان صاحب کے مضمون کا تیسرا حصہ ’اقامت دین‘ سے متعلق ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اس بارے میں ہمارے نقطۂ نظر کو صحیح تناظر میں سمجھا ہی نہیں جا سکا۔ ہماری راے اگر درست سیاق و سباق میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی جائے تو شاید وہ اعتراضات پیدا ہی نہ ہوں جو مولانا نے اٹھائے ہیں۔
استاذ محترم ۸؎نے اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں’اقامت‘ کا مفہوم بیان کیا اور یہ واضح کیا ہے کہ سورۂ شوریٰ کی زیر بحث آیت میں ’اقامت‘ کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ مولانا، اگر دلائل کا جائزہ لیتے اور ان کا کوئی سقم بیان کرتے تو ہم جیسے طالب علموں کے لیے مفید ہوتا، لیکن انھوں نے ان دلائل پر کوئی کلام نہیں کیا، بلکہ اس کے بجاے سورئہ شوریٰ کی مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ’
اَقِیْمُوا الدِّیْنَ
‘ کا ایک مفہوم ’دین کو عملاً نافذ کرنا اور رائج کرنا‘ بھی بیان کیا ہے۔ اس بارے میں ہماری راے یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو کسی خطۂ زمین میں اقتدار حاصل ہے تو یہ دین کا تقاضا ہے کہ وہاں کے اجتماعی معاملات میں اللہ کا دین ہی غالب ہو۔ دیگر دلائل کے علاوہ دین کے کئی اجزا، جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا، قصاص، ذمیوں کے حقوق وغیرہ اس امر کی شہادت کے لیے کافی ہیں کہ اسلام کے پیش نظر ایک اجتماعی نظام برپا کرنا بھی ہے۔ لہٰذا جس طرح ایک عام فرد سے دین کا مطالبہ ہے کہ اس کی انفرادی زندگی میں اللہ کی حاکمیت قائم ہو، اسی طرح مسلمان ارباب اقتدار کے لیے لازم ہے کہ وہ ریاست و مملکت میں اللہ کی حاکمیت قائم کریں، یعنی وہاں کے اجتماعی معاملات اللہ کے دین کے تابع ہوں۔ اس باب میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ فرد کی حیثیت کی تبدیلی کے ساتھ، اس سے دین کے مطالبات بھی بدل جاتے ہیں۔ ایک عام آدمی سے دین کا جو مطالبہ ہے، وہ اس سے مختلف ہے جو کسی حکمران سے ہے، اور اس چیز کا تعلق ’اقامت ‘ سے نہیں ’الدین‘ سے ہے۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ’اقامت دین‘ کے نام سے فرائض اسلام میں ایک نئے فرض کا اضافہ کیا جائے۔۹؎ ہم یہاں جاوید احمد صاحب غامدی کی اس تحریر کا اقتباس نقل کر رہے ہیں جسے مولانا گوہر رحمان صاحب نے موضوع بحث بنایا ہے۔ اس سے امید ہے کہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی:
’’اس معنی۱۰؎ کی رو سے صاف واضح ہے کہ یہ دین کے فرائض میں سے ایک فرض اور اس کے احکام میں سے ایک حکم نہیں ہے کہ اسے ’فریضۂ اقامت دین‘ قرار دے کر فرائض دینی میں ایک فرص کا اضافہ کیا جائے، بلکہ پورے دین سے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے۔ ہر وہ چیز جو قرآن و سنت کی رو سے دین میں شامل ہے، آیۂ زیر بحث میں، ہمیں اس کو بالکل درست اور اپنی زندگی میں برقرار رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس ہدایت کا تقاضا ہے کہ عقائد و اصول، نمازو روزہ، حج و زکوٰۃ، حسن معاشرت ، اصلاح و دعوت، قانون و شریعت ، جہاد و قتال اور دوسرے تمام احکام میں سے جو چیز ماننے کی ہے اسے مانا جائے اور جو کرنے کی ہے، اسے کیا جائے، لیکن اس لیے نہیں کہ یہ تمام یا ان میں سے کوئی حکم لفظ ’
اَقِیْمُوْا
‘ کے مفہوم میں داخل ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ یہ سب قرآن مجید اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق ’الدین‘ میں شامل ہیں اور آیۂ زیر بحث میں ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ہم پورے دین کو ، ہر لحاظ سے ، درست اور اپنی زندگی میں برقرار رکھیں اور اس میں متفرق نہ ہو جائیں۔‘‘(برہان۱۹)
اس اقتباس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ یہاں دین کے نفاذ سے انکار مراد نہیں ، بلکہ اس تاویل سے اختلاف ہے جو سورئہ شوریٰ کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ چونکہ قطعی الدلالہ ہیں، لہٰذا قرآن کی تفسیر کرتے وقت لفظ کے وہی معانی مراد لینا چاہییں جو فی الواقع اس میں موجود ہیں۔ دین کا کوئی حکم اگر قرآن کے اس مقام سے اخذ کیا جائے، جہاں وہ اصلاً بیان نہیں ہوا تو اس سے قرآن بازیچۂ اطفال بن جائے گا اور تفسیر بالراے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ہمارے تفسیری لٹریچر میں اگر ایک مفسر دوسرے کی راے کہیں رد کرتا نظر آتا ہے تو اسی اصول پر ، تاہم یہ ضروری ہے کہ تائید یا تردید کسی دلیل پر مبنی ہو۔
غلبۂ دین کی آیات
اظہار دین یا غلبۂ دین کے باب میں ہماری راے یہ ہے کہ سورئہ صف اور سورئہ توبہ کی آیات۱۱؎ کا تعلق اللہ تعالیٰ کی اس سنت سے ہے جو اس نے قرآن مجید میں اپنے رسولوں کے حوالے سے ان الفاظ میں بیان کی ہے:
کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ ۔(المجادلہ۵۸: ۲۱)
’’اور اللہ نے یہ لکھ دیا کہ میں اور میرے رسول غالب رہیں گے۔ بے شک، اللہ قوت والا ، غلبے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں جو بات بطور اصول عمومی طور پر بیان کی گئی ہے، زیر بحث آیات میں وہی بات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بطور خاص کہی جا رہی ہے۔ قرآن مجید سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے خود انھی میں سے جن انسانوں کا انتخاب فرمایا ہے، انھیں دو طرح کے منصب عطا کیے ہیں، یعنی ان میں سے بعض نبی ہیں اور بعض رسول۔ اللہ کا ہر رسول نبی ہوتا ہے، لیکن یہ لازم نہیں کہ ہر نبی رسول بھی ہو۔ نبی اور رسول میں جہاں اور بہت سے امتیازات ہیں، وہاں ایک نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ رسول لازماً اپنی قوم پر غالب رہتا ہے۔ اس غلبے کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے کہ رسول کی مخاطب قوم اس پر ایمان لے آئے، اگر قوم بحیثیت مجموعی رسول کی تکذیب پر آمادہ رہے تو وہ عذاب الٰہی کی مستحق قرار پاتی اور زمین سے مٹا دی جاتی ہے۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ اگر رسول کی موت اس کی ہجرت کے قائم مقام ہو تو رسول کا یہ غلبہ اس کے اصحاب و اعوان کو حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ سیدنا مسیح علیہ السلام کے معاملے میں ہوا۔ گویا رسول کو بہر صورت غالب رہنا ہے، لیکن نبی کا معاملہ یہ نہیں۔ یہ ممکن ہے کہ قوم نبی کا انکار کر دے اور بعض صورتوں میں یوں بھی ہوا ہے کہ انبیا اپنی قوم کے ہاتھوں قتل بھی ہوئے۔۱۲؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ رسول تھے، اس لیے ان کے بارے میں اللہ کی یہ سنت برقرار رہی کہ انھیں غالب رہنا ہے۔ سورئہ صف میں اللہ کا یہی قانون بیان ہوا ہے۔ چونکہ اس قانون کا تعلق رسولوں کے ساتھ خاص ہے، اس لیے اس سے کوئی عمومی اصول اخذ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کی یہ آیت کسی غیر رسول کی جدوجہد براے غلبۂ دین کا ماخذ نہیں بن سکتی، لہٰذا اگر نبوت و رسالت کے اس اصولی فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس آیت پر غور کیا جائے تو یقینا وہ اشکال پیدا نہیں ہوتے جو مولانا گوہر رحمان صاحب نے بیان فرمائے ہیں۔ تاہم انھوں نے اس آیت کی تفسیر میںجو اعتراضات اٹھائے ہیں، اگر وہ رفع ہو جائیں تو شاید یہ مسئلہ مزید واضح ہو جائے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’اظہار دین ، یعنی اعلاے دین کو آیت میں ارسال رسول کی علت قرار دیا گیا ہے، یعنی اللہ نے اپنا رسول بھیجا ہی اس لیے ہے کہ وہ دین حق کو غالب کرے۔ تو کیا اس نے اپنا یہ رسول صرف سرزمین عرب کے لیے بھیجا تھا یا پوری دنیا کے لیے بھیجا تھا؟ اس آیت میں تو اس بات کی تصریح کیا، کوئی اشارہ بھی موجود نہیں ہے کہ دین حق صرف ادیان عرب پر غالب ہونے کے لیے آیا ہے، دنیا کے تمام ادیان پر غلبہ پانا اس دین کا اصل مقصد نہیں ہے۔ اس آیت کے سیاق و سباق اور قرآن کے نظائر سے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ ’الدین کلہ‘ میں ’الف لام‘ جنس کے لیے آیا ہے یا استغراق کے لیے ہے، مگر مراد دنیا کے سارے ادیان باطلہ ہیں، صرف عرب کے ادیان مراد نہیں ہیں۔
دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ ’وَلَوْکَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ‘ میں بنی اسماعیل ہی کے مشرکین مراد ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو دین حق کا غلبہ کیوں ناگوار تھا؟ جواب یہی ہو سکتا ہے کہ اس دین کا بنیادی عقیدہ توحید ہے جو مشرکین پر سخت ناگوار گزرتا ہے، خواہ وہ عرب کے مشرکین ہوں یا عجم کے ۔۔۔ بہرحال، لفظ ’المشرکون‘ کو اس دعوے کا قرینہ اور دلیل قرار دینا کہ ’الدین کلہ‘ سے عرب کے ادیان مراد ہیں، محض تکلف اور تصنع ہے۔‘‘ (فاران۲۵)
مولانا کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ آیت میں ’
الدِّیْنِ کُلِّہٖ
‘ سے سرزمین عرب کے ادیان مراد نہیں، بلکہ یہاں دنیا بھر کے ادیان کا ذکر ہے۔ اسی طرح ان کے نزدیک ’
الْمُشْرِکُوْنَ
‘ سے مشرکین بنی اسماعیل مراد لینا بھی محل نظر ہے۔ گویا، اگر یہاں یہ معلوم ہو جائے کہ اس آیت میں جس غلبے کا ذکر ہے، اس سے مراد عرب کے ادیان پر غلبہ ہے اور مشرکین سے مراد مشرکین عرب ہیں تو آیت کی وہ تفسیر متحقق ہو گی جو ’’برہان‘‘میں بیان ہوئی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا بڑا مقصد دین ابراہیمی کی تجدید اور احیا تھا اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھے، اس لیے سرزمین حرم کو مشرکین کی غلاظتوں سے پاک کرنا بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ چنانچہ سورئہ انفال میں ارشاد ہوا:
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ۔(۸:۳۹)
’’اور ان سے جنگ کرو، تاآنکہ فتنے کا قلع قمع ہو جائے اور سارا دین اللہ کا ہو جائے۔‘‘
مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’’دین‘ تمام تر اللہ کا ہو جائے، یعنی حرم کی سرزمین پراللہ کے دین کے سواکوئی اور دین باقی نہ رہے۔ اوپر ہم وضاحت کے ساتھ بیان کر چکے ہیں کہ بیت اللہ کی تعمیر ملت ابراہیم کے مرکز اور اس کے قبلہ کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ گھر اللہ واحد کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا اور اس کی تولیت کے حق دار وہ لوگ ٹھہرائے گئے جو ملت ابراہیم کے حامل اور نماز کے قائم کرنے والے ہوں۔ قریش نے ، جیسا کہ اوپر واضح ہوا، اس گھر کے تمام مقاصد برباد کرکے اس کو ایک بت خانہ بنا ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا کے مطابق جب آخری نبی اس قوم میں بھیجا اور اس نے لوگوں کو اصل ملت ابراہیم کی دعوت دی تو قریش کے مفاد پرست لیڈر، نبی اور اس کے ساتھیوں کے دشمن ہو گئے اور ان کو اس گھر سے روک دیا۔ حالاںکہ ، اس گھر کی تولیت کے اصل حق دار وہی تھے، نہ کہ قریش، جنھوں نے ملت ابراہیم کو چھوڑ کر دین شرک اختیار کر لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان غاصبوں اور خائنوں سے جنگ کرو اور یہ جنگ جاری رکھو، یہاں تک کہ سرزمین حرم پر اللہ کے دین یعنی اسلام کے سوا، جو ابراہیم کا دین تھا، کوئی اور دین باقی نہ رہ جائے۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں موکد فرمایا کہ اس سرزمین پر دو دین جمع نہیں ہو سکتے۔ اصلاً تو یہ حکم سرزمین حر م کے لیے ہے، لیکن کفر و شرک کے اثرات سے اس کی حفاظت بغیر اس کے ممکن نہیں کہ وہ پورا علاقہ کفر و شرک کی مداخلت سے پاک رہے جس میں حرم واقع ہے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ جس طرح مکہ حضرت ابراہیم کے زمانے سے محترم ہے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو محترم قرار دیا جس سے اس حکم کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا۔ یہ چیز مقتضی ہوئی کہ اس تمام علاقے سے غیر مسلم عناصر بے دخل کر دیے جائیں جس میں حرمین واقع ہیں۔ چنانچہ اس پورے علاقے سے کفار قریش کا تسلط بھی ختم کر دیا گیا اور پھر بتدریج یہود اور نصاریٰ بھی یہاں سے نکال دیے گئے۔‘‘(تدبر قرآن۳/ ۴۷۵-۴۷۶)
مولانا اصلاحی صاحب کا کہنا ہے کہ سورئہ بقرہ(۲) کی آیت ۱۹۲، سورئہ انفال ، سورئہ توبہ اور سورئہ صف میں ایک ہی بات بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ سورئہ توبہ(۹) کی آیت ۳۳ کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں:
’’...نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ سرزمین حرم کفر و شرک کی ہر آلایش سے پاک ہو جائے اور دین حق کے سوا کوئی اور دین، یہاں دین غالب کی حیثیت سے باقی نہ رہے تاکہ دعوت ابراہیمی کا یہ مرکز دعاے ابراہیمی کے بموجب تمام عالم کے لیے ہدایت اور روشنی کا سرچشمہ بن جائے۔ وہی بات یہاں فرمائی گئی کہ جس طرح یہ اہل کتاب اپنی پھونکوں سے خدا کے چراغ کو گل نہ کر سکیں گے، اسی طرح مشرکین عرب کی کوششیں بھی اس دین کو مغلوب نہ کر سکیں گی، بلکہ یہ ان کی تمام کوششوں کے علی الرغم اس سرزمین کے ہر دین پر غالب ہو کر رہے گا۔‘‘(تدبر قرآن۳/ ۵۶۴)
بعض قدیم مفسرین نے، اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے غلبے سے سرزمین عرب پر غلبہ مراد لیا ہے۔ امام رازی مختلف آرا نقل کرتے ہوئے ایک راے یہ بتاتے ہیں:
المراد لیظھر الاسلام علی الدین کلہ فی جزیرۃ العرب وقد حصل ذلک فانہ تعالٰی ما ابقی فیھا احدًا من الکفار۔(التفسیر الکبیر۱۶/ ۴۰)
’’اس سے مراد ہے جزیرۂ عرب کے تمام دینوںپر اسلام کو غالب کرنا اور یہ واقع ہو چکا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرب میں ایک کافر بھی باقی نہیں رکھا۔‘‘
’’الجامع لاحکام القرآن‘‘ میں یہ راے ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے:
اراد لیظھرہ علی الدین کلہ فی جزیرۃ العرب وقد فعل۔(۸/ ۱۲۲)
’’اللہ کا فیصلہ تھا کہ وہ جزیرئہ عرب میں دین کو غالب کرے گا اور اس نے ایسا کیا۔‘‘
’’البحر المحیط‘‘ میں درج ذیل الفاظ نقل ہوئے ہیں:
مخصوص بجزیرۃ العرب و قد حصل ذلک ما ابقی فیھا احدًا من الکفار۔(۵/ ۴۰۶)
’’(اظہار دین کا عمل) جزیرئہ عرب سے مخصوص ہے جو حاصل ہو گیا، اس طرح کہ وہاں کوئی کافر باقی نہ رہا۔‘‘
قرآن مجید کے براہ راست شواہد اور اہل علم کی اس تصدیق سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مذکورہ آیت میں اظہار دین سے مراد، عرب کے ادیان پر اسلام کا غلبہ تھا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اسی بات کا وعدہ تھاجو سورۂ نور میں بیان ہوا ہے:
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا۔(۲۴: ۵۵)
’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیسے ان سے پہلے لوگوں کو عطا کی تھی اور جس دین کو اس نے ان کے لیے پسند کیا، اس کو ان کے لیے جما کر رکھے گا اور ان کی حالت خوف کو امن میں بدل دے گا۔‘‘
یہاں جس وعدے کا بیان ہے، وہ خلفاے راشدین کے عہد میں پورا ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثرمفسرین نے اس آیت کو خلفاے راشدین کے دور کے لیے قرآنی دلیل قرار دیا ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے یہی استدلال کیا ہے۔ اسی طرح ’’تفسیر ابن عباس‘‘میں ’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘سے مراد صحابۂ کرام لیا گیا ہے۔
سرزمین عرب پر اسلام کے غلبے کے بارے میں، مسند احمد میں ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
کان اخر ما عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان قال: لا یترک بجزیرۃ العرب دینان۔(۶/ ۲۷۵)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت یہ تھی کہ جزیرئہ عرب میں دو مختلف دین نہ رہیں۔‘‘
مولانا سے ہماری طالب علمانہ گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں متعلقہ احادیث کو سمجھیں تو وہ بھی ان شاء اللہ اسی نتیجے تک پہنچیں گے کہ سورئہ صف میں جس غلبے کا ذکر ہے، وہ عرب کے ادیان پر اسلام کا غلبہ ہے۔ جب یہ بات متحقق ہو گئی تو اس سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں، ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ اس آیت میں جن مشرکین کی نا پسندیدگی کا ذکر ہے، وہ لازماً مشرکین عرب ہی ہیں۔
ہمارے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب احادیث کو اگر قرآن مجید کے تناظر میں سمجھا جائے تو اس سے، جہاں احادیث کی حجیت مستحکم ہوتی ہے، وہاں ارشادات پیغمبر کو ان کے صحیح محل میں سمجھنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ اس سے ایک طرف منکرین حدیث و سنت کے اعتراضات رفع کیے جا سکتے ہیں اور دوسری طرف صحیح اور موضوع روایات میں فرق بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ غلبۂ دین کی بحث کو اگر قرآن مجید بالخصوص سورئہ توبہ ، سورئہ انفال اور متعلقہ احادیث کی روشنی میں سمجھا جائے اور پھر اس فرق کو بھی ملحوظ رکھا جائے، جو قرآن نے نبی اور رسول کے مابین بیان کیا ہے، تو پھر آج کے دور میں غلبۂ دین کی جدوجہد اور اس غرض کے لیے قائم جماعتوں کے بارے میں قرآن مجید اور احادیث سے وہ استدلال نہیں کیا جا سکتا جو بالعموم کیا جاتا ہے۔
[اپریل ۱۹۹۶]
ــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ ماہنامہ فاران، جون ۱۹۹۵۔
۲؎ ’جماعت اسلامی‘، ہند کے اکابرین میں سے۔
۳؎ مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے اپنی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ میں شاہ صاحب کی اصل فارسی عبارت نقل کرتے ہوئے اس کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ یہ ترجمہ وہیں سے لیا گیا ہے۔
۴؎ یعنی مذکورہ کتاب میں۔
۵؎ المائدہ۵: ۱۔’ ’وعدوں کو پورا کیا کرو۔‘‘
۶؎ اب رفاہ کے ساتھ جسٹس پارٹی کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
۷؎ اب سولہ کروڑ۔
۸؎ جناب جاوید احمد غامدی ۔
۹؎ اقامت دین پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے مضمون:’’اقامت دین‘‘، معز امجد ،اشراق، فروری ۱۹۹۶، ۱۲-۳۴۔
۱۰؎ قائم رکھنا۔
ا۱؎ الصف ۶۱: ۹، التوبہ۹: ۳۳۔’ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔‘،(اللہ وہی ہے، جس نے اپنے رسول کو بھیجا، الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ وہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کر دے، گو مشرک کتنے ہی ناخوش ہوں)۔
۱۲؎ تفصیل کے لیے’’ اشراق‘‘ اکتوبر۱۹۸۸ کے شمارے میں محترم جاوید احمد غامدی کا مضمون ’’نبوت و رسالت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔