HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

روایت پسندی، جدیدیت اور فراہی مکتب

  مذہب کی ابدی تعلیمات اور زندگی کے بدلتے حالات میں مطابقت کی تلاش، مذہبی علما کا ایک مستقل وظیفہ رہا ہے۔ ہر مذہب اگرچہ ایک الہامی بنیاد کے دعوے کے ساتھ جنم لیتا ہے جو زمان ومکاں سے ماورا ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود اس کا ایک دور آغاز ہوتا ہے اور وہ بالعموم کسی داعی اول سے منسوب ہوتا ہے ۔ جب ایک مذہب خاص جغرافی حدود اور عہد سے نکلتا ہے تو پھر اہل مذہب کو دوسرے ادوار اور مقامات سے تطبیق پیدا کرنے کے لیے خصوصی سعی کرنا پڑتی ہے۔ اس مسئلے کا ایک عمومی حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ چند رسوم پر مذہب کا اطلاق کرتے ہوئے اسے فرد اور اس کے خالق کا معاملہ قرار دے دیا گیا ہے۔ انسان چونکہ ہمیشہ کسی ایسی مافوق الفطرت ہستی پر ایمان رکھتا رہا ہے جو اس کے نزدیک خالق کا ئنات ہے اور اس کی عبادت کرتا رہا ہے ، اس کے لیے کچھ مراسم عبودیت کا قائل رہا ہے۔ یہ تصورچونکہ زمان ومکاں سے ماورا ہے اور مذہبی رسوم کوکسی عقلی توجیہ کا محتاج نہیں سمجھا گیا، اس لیے اسے ہر دور میں نبھانا اس کے لیے مشکل نہیں رہا۔ مسئلہ چونکہ معاشرت اور اجتماعی زندگی کی تشکیل میں پیدا ہوتا ہے، اس لیے اس تعبیر کے تحت اسے مذہب کے دائرے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ آج کا سب سے بڑا مذہب عیسائیت ہے۔ سیکولرازم، یعنی یہ کہ مذہب فرد کا شخصی معاملہ ہے اور اسے اجتماعی زندگی سے کوئی سروکار نہیں، اب ویٹی کان کی سطح پر اختیار کیا گیا ایک مذہبی موقف ہے۔

    مطابقت کے اس چیلنج کا سامنا اسلام کے ماننے والوں کو بھی ہوا۔ اسلام جب عرب کی حدود سے نکلا اور گزرتے وقت کے ساتھ دوسرے فلسفہ ہاے حیات سے انھیںسابقہ پیش آیا تو بہت سے اہل علم نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ وہ اسلام کو اس عہد کے علمی و فکری پیمانے پر پورا اترنے والے ایک تصور حیات کے طور پر پیش کریں۔مسلمان بحیثیت مجموعی کبھی اس کے قائل نہیں رہے کہ مذہب کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا جائے، بلکہ ان کا یہ دعویٰ رہا ہے کہ ایک ہیئت اجتماعی کی تشکیل میں بھی اسلام اسی طرح رہنما ہے، جس طرح کہ وہ فرد کے انفرادی مذہبی اعمال کی تنظیم میں اس کی رہنمائی کرتا ہے۔سیکولر ازم مغرب کے خاص حالات میں جنم لینے والا ایک تصور ہے جس کاگہرا تعلق کلیسا کے رویے سے تھا اور اس کی تاریخ چند صدیوں سے زیادہ نہیں۔ مسلمان معاشروں میں یہ تقسیم تو واضح رہی کہ مذہبی علما اور فقہا امور سلطنت اور حکومت سے ہمیشہ دور رہے اور سیاسی معاملات میں وہی لوگ سامنے آتے رہے جو اس کے لیے طبعی میلان رکھتے تھے۔ اس سے تقسیم کار کا اصول تو متعین ہوتا ہے، لیکن فرد اور اجتماعیت کی دوئی کا نہیں۔

    بیسویں صدی میں نو آبادیاتی دور کے خاتمے پر جب مسلمان معاشروں کی تشکیل نو کا آغاز ہوا تو مطابقت کی یہ ضرورت ایک بار پھر نمایاں ہوئی۔ اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں دو نقطہ ہاے نظر پیدا ہوئے۔ ایک کو ہم روایت پسندی (Traditionalism) کہتے ہیں اور دوسرے کو جدیدیت پسندی (Modernism)۔ مسلمانوں کے دور انحطاط میں جب اجتماعی زندگی کی باگ ڈور ان کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہی، اہل علم میں یہ احساس پیدا ہوا کہ دین کی حفاظت کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے کہ اس علمی روایت کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھا جائے اور اسلاف سے دین کے عنوان سے جو کچھ ہم کو پہنچا ہے، اسے آنے والی نسلوں کو منتقل کر دیا جائے۔ تاریخی تناظر میں بلاشبہ، یہ ایک بڑی خدمت تھی، تا ہم اس کا ایک نقصان ہوا اوروہ یہ کہ اس روایت کی حفاظت کے دوران میں یہ خیال بھی مستحکم ہوا ہے کہ اس پوری روایت کی حیثیت دین کی ہے جس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، اگر ہمیں اس دور نو میں اپنی اجتماعیت کی تشکیل جدید کرنی ہے تو یہ روایتی علم اس کے لیے کفایت کرتا ہے ۔ جدیدیت پسندوں (Modernists) کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ یہ قدیم علم نئے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم فکر اسلامی کی تشکیل نو کریں۔ انسان کا فکری ارتقا جن نئی تبدیلیوں کو بیان کر رہا ہے ، ضروری ہے کہ دین ان کو اپنے دامن میں سمونے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرے، اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو بطور تصور حیات (Worldview) اس کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر قومی ریاست (Nation-State)اس جدیدیت کا ایک ثمر ہے تو ہمیں دین کا ایک ایسا تصور پیش کرنا ہو گا جو ایک ریاست کے قیام کو ایک دینی مطالبے کے طور پر پیش کرے۔ اسی طرح اگر سائنسی غورو فکر کے نتیجے میں انسان نے کچھ نئی چیزیں دریافت کی ہیں تو ہمیں دینی ماخذ کی ایسی تعبیر سامنے لانا ہو گی جو ان سے مطابقت رکھتی ہو۔

    اس روایت اور جدت پسندی نے اپنا اپنا صغریٰ کبریٰ ترتیب دیا اور دین پر غورو فکر کے کچھ اصول مرتب کیے۔ آج دین کے حوالے سے جو علمی و فکری کام ہو رہا ہے، وہ انھی اصولوں کے تحت ہورہا ہے۔ اگر ہم روایت پسندوں کے افکار کو سمجھنا چاہیں تو جزئیات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے تین گروہ سامنے آتے ہیں: ایک وہ جوکسی خاص فقہ کے ماننے والے ہیں، جیسے احناف یا شوافع۔ ان کے ہاں دین پر تدبر کے حوالے سے اس قدیم فقہی ذخیرے کو مرکزیت حاصل ہے جو دوسری اور تیسری صدی ہجری میں مرتب ہوا۔ وہ انھی فقہی آرا اور نقلی علم کی بنیاد پر قرآن کو سمجھتے ہیں اور روایت پیغمبر علیہ السلام کو بھی۔ دوسرا گروہ سلفی یا اہل حدیث کہلاتا ہے ۔ اس گروہ کے نزدیک فہم دین میں اصل اہمیت روایت پیغمبر کی ہے۔ اگر کسی روایت کے بارے میں قدیم محدثین کے اصولوں کے مطابق یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کی نسبت ثابت ہے تو پھر وہی فہم دین کی اساس ہے۔ ایسی روایت فی نفسہٖ حجت ہے اور اس کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر و تاویل کی جائے گی اور دیگر فقہی وعلمی ذخیرے کوپرکھا جائے گا ۔ تیسرا گروہ اہل تشیع کا ہے۔ اس کا امتیاز تاریخ ہے جس میں واقعۂ کربلا کو مرکزیت حاصل ہے۔ یہی تاریخ قرآنی آیات کا مفہوم طے کرتی ہے، اس کی روشنی میں احادیث کو سمجھا جائے گا اور اسی سے دینی رویوں کا تعین ہو گا۔

    جدیدیت پسندوں کو ہم تفہیم مدعا کے لیے دو گروہوں میں تقسیم کر سکتے ہیں: ایک وہ جس کے لیے دین سنجیدہ تحقیق کا موضوع رہا ہے جس کی دین کے مآخذ تک براہ راست رسائی ہے اور جو مسلمانوں کی قدیم علمی روایت سے اچھی طرح واقف ہے۔اس گروہ میں ہم برصغیر سے علامہ اقبال اور ڈاکٹر فضل الرحمٰن جبکہ عرب دنیا سے محمد عبدہ یا رشید رضا کو شامل کر سکتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو علم کی عصری روایت سے مرعوبیت کے زیر اثر دین کی نئی تعبیر کرتا ہے، لیکن رسوخ فی العلم نہیں رکھتا۔ قرآن مجید اس کے ہاں اس طرح مقام تدبر نہیں ہے جس طرح کہ ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کی علمی روایت سے بھی اسے کما حقہ آشنائی نہیں ہے، تا ہم ایک جوش و جذبہ ہے کہ دین کو علم کے عصری پیمانوں کے مطابق ثابت کر دیا جائے۔ اگر علم جدید یہ کہتا ہے کہ ثابت شدہ وجودو ہی ہے جس کی تصدیق حواس خمسہ کریں تو دینی مطالبات میں کسی ایسے وجود پر ایمان شامل نہیں ہونا چاہیے جو اس علمی پیمانے پر ثابت نہیں ہے۔ اس گروہ میں ہم سرسید احمد خان اور ان کے متاثرین کو شامل کر سکتے ہیں۔

    دین پر غور و فکر کے حوالے سے ایک تیسرا منہج وہ ہے جس کی ابتدااس دور جدید میں امام حمید الدین فراہی (۱۸۶۱ء - ۱۹۳۱ء) سے ہوتی ہے۔ اس کو آگے بڑھانے میں امام امین احسن اصلاحی کی علمی مساعی کا خاص حصہ ہے اور اس وقت پاکستان اور بھارت میں ’’المورد‘‘ اور ’’مدرسۃ الاصلاح‘‘ سمیت بہت سے ادارے اور افراد اسی منہج کے مطابق دین کی تعبیر و تشریح کی خدمت، حسب توفیق و استطاعت سرانجام دے رہے ہیں۔ چند نتائج فکر میں مماثلت یا پھر سطحی معلومات پر انحصار کی وجہ سے بعض محققین اور معترضین اس گروہ کو جدیدیت پسندوںمیں شامل کرتے ہیں، اس لیے ضرورت ہے کہ اس فرق کو بالوضاحت بیان کر دیا جائے جو دین پر غورو فکر کے حوالے سے روایت کے علم برداروں، جدیدیت پسندوں اور مکتب فراہی میں موجود ہے۔

    جدیدیت پسندوں کے نزدیک فہم دین کا اصل تناظر زمانی ہے۔ ایک جدید اسکالر اپنے عہدکے فکری رویوں کو سامنے رکھتے ہوئے دین کی تعبیر کرنا چاہتا ہے۔ اس بنیادی ضرورت کے تحت اس نے فہم دین کے جو اصول وضع کیے ہیں، ان میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ قرآن کا ایک زمانی تناظر(Context) ہے جسے اس کے متن(Text) کے فہم میں بنیاد کی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن کانزول تدریجاً ہوا ہے اور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جن ادوار سے گزرتی رہی، قرآن اس کے مطابق نازل ہوتا رہا، اس لیے قرآن کے اس تناظر کو احکام کے تعین میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر یہ مقدمہ درست ہے تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ زمانی تناظر کے بدل جانے کے بعد متن کی تفہیم نو ہو۔ جوامر آفاقی اور ناقابل تسخیر ہے، وہ ان احکام کے پس منظر میں موجود بنیادی خیال ہے۔ اس تصور کے تحت قرآن مجید نے زمانۂ نزول کے تناظر کو سامنے رکھتے ہوئے بعض متعین احکامات دیے۔ آج کے دور میں قرآن سے وابستگی کا مطلب یہ ہو گا کہ اس بنیادی خیال کو سامنے رکھتے ہوئے ان مخصوص احکام کی تفہیم نو کی جائے۔ تفہیم نو سے مراد ان کی نئی صورت گری ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام نے جو فیصلے کیے، ان کی نوعیت بھی یہی ہے۔ قرآن و سنت مستقل ماخذ ہیں، لیکن اس سے مراد ان میں دیے گئے احکام کی لفظی اتباع نہیں، بلکہ اس روح کی اتباع ہے جس کے تحت یہ فیصلے دیے گئے۔ اگر ہم ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو جدیدیت کا نمایندہ قرار دیں تو ان کے ہاں اس نقطۂ نظر کی تائید میں نظائر تلاش کیے جاسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر فضل الرحمن کے نزدیک قرآن مجید بنیادی طور پر قانون کی کتاب نہیں، بلکہ اصلاً یہ کتاب ہدایت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی درحقیقت انسانیت کے لیے اخلاقی مصلح تھے۔ قرآن نے اگر کہیں قوانین بیان کیے ہیں تو وہ دراصل اسی اخلاقی تعمیرکے لیے تھے اور وہ دین کا بہت مختصر حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک یہ قدیم فقہا کی بنیادی غلطی ہے کہ انھوں نے قرآن کو قانون کی کتاب سمجھا اور اس کی روشنی میں اس کی آیات کی تعبیر کی۔قرآن کی ان قانونی ہدایات کو جو اصلاً تعمیر اخلاق کے لیے ہیں، دو سطحوں پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک مطلوب (Ideal) اور دوسری حالات پر منحصر (Contingent)۔ جہاں تک مطلوب سطح کا تعلق ہے، یہ نزول وحی کے زمانے میں قابل حصول ہو سکتی ہے اور نہیں بھی۔ حالات پر منحصر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دور کے حالات میں کیا حل ممکن تھا۔ احکام قرآنی کے عہد نزول سے متعلق ہونے سے مراد یہ ہے کہ خاص حالات میں درپیش کسی مسئلے کاکیا ممکنہ حل تجویز کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب کسی مثالی حل کا بیان نہیں، بلکہ ایک ممکنہ حل تجویز کرنے کے ساتھ اس بات کی ترغیب دینا ہے کہ مسلمانوں میں، بہرحال مثالی حل کی تلاش اور طلب موجود رہنی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اس بات کی صحیح تفہیم کے لیے تاریخی نقد (Historical Criticism) کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں وہ تعددازواج کی مثال پیش کرتے ہیں۔ ان کی تعبیر کے مطابق قرآن کے نزدیک مثالی حل(Ideal) یہی ہے کہ ایک بیوی اور خاوند کے ساتھ معاشرت کی بنیاد رکھی جائے۔ تا ہم قرآن جس معاشرے میں نازل ہو رہا تھا، اس میں یہ روایت موجود تھی۔ اس سے حالات پر منحصر (Contingent)حل یہ تجویز کیا گیاکہ چار بیویوں کی اجازت ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن کے نزدیک ہمارے فقہا سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے حدود، عائلی قوانین اور معاملات سے متعلق ان احکام کو مطلوب (Ideal) سمجھا جو حالات پر منحصر(Contingent) تھے۔ مسلمانوں کے قدیم علمی ذخیرے میں سے ڈاکٹر صاحب جس بات کی تحسین کرتے اور اسے درست سمجھتے ہیں، وہ تفسیری ادب میں اسباب نزول کا بیان ہے۔ تاہم ان کا اعتراض یہ ہے کہ جس بات کو مفسرین نے آیات قرآنی کے تاریخی پس منظر کے طور پر قبول کیا ہے، اسے فقہا نے استنباط احکام کے وقت پیش نظر نہیںرکھا اور ان سے ابدی احکام اخذ کیے ۔ اس ساری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے فہم میں تاریخی تناظر (Historical Context) کا لحاظ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام معاشرے کی اخلاقی تعمیر کو مطلوب(Ideal) سمجھتا ہے اور اس کے حصول کے لیے قرآن نے بعض احکامات بیان کیے ہیں جن میں دور نزول کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہ اخلاقی تعمیر آج بھی مطلوب ہے، تا ہم اس کے لیے ان احکام کا اسی طرح اختیار کرنا ضروری نہیں۔

    ڈاکٹر فضل الرحمٰن سنت کو بھی قرآن کے ساتھ لازم مانتے ہیں اور ان لوگوں پر تنقید کرتے ہیں جو سنت کا بطور ماخذ قانون انکار کرتے ہیں۔تاہم ان کا تصور سنت عمومی تصور سے بہت مختلف ہے۔ ان کے نزدیک سنت کے دو پہلو ہیں: ایک پیغمبرانہ سنت (Prophetic Sunna) اور دوسری سنت بطور ایک جاری و زندہ عمل(Living Sunna)۔ پیغمبرانہ سنت کا مسمیٰ اسوۂ حسنہ (The Ideal Legacy of Prophetic Sunna) ہے، جبکہ زندہ سنت سے مراد اس اسوۂ حسنہ کی رہنمائی میں ابتدائی مسلمان معاشرے کا وہ طرز عمل ہے جو اس نے اپنے عہدکے چیلنجوں اور تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے اختیار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرز عمل پر بحیثیت مجموعی سنت کا اطلاق ہوتا ہے اور یہ سلسلہ بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا۔ تا ہم اس عمل کو اسوۂ حسنہ سے مربوط کرنے کے لیے اجماع سے قانونی جواز عطا کیا گیا۔ اس طرح اجماع نے سنت کا تعین کیا نہ کہ خبر واحد نے۔ بعد کے ادوار میںجب احادیث کے حق میں بڑے پیمانے پر ایک تحریک اٹھی تو اس سے سنت اور اجماع کا یہ بنیادی تعلق مجروح ہوا ۔ اسی طرح اسوۂ حسنہ اور زندہ سنت کا فرق بھی باقی نہیں رہا اور حدیث و سنت کو باہم مترادف الفاظ قرار دے دیا گیا۔ یہ کام زیادہ تر دوسری اور تیسری صدی ہجری میں ہوا جس میں بنیادی کردار امام شافعی کے علمی کام کا ہے۔

    اس نظام فکر کے تحت قرآن مجید کے فہم میں جس تناظر (Context) کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، وہ خارج میں ہے، یعنی ہم جس دور میں قرآن کی آیات کی تشریح کر رہے ہیں، اس دور کا علم اور انسانی عقل دراصل یہ تناظر متعین کرے گا۔ یہی معاملہ سنت اور احادیث کی تفسیر کا بھی ہے۔ علامہ اقبال کے خطبات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اس نظام فکر کو درست سمجھتے ہیں، اگرچہ یہ بات ان کے ہاں اس وضاحت کے ساتھ نہیں آئی جس طرح کہ یہ ڈاکٹر فضل الرحمن کے ہاں موجود ہے۔ مثال کے طور پر ان کے عہد میں چونکہ سائنسی تحقیق کا طریقہ علمی حقائق کی دریافت کا مستند ذریعہ شمار ہوتا تھا ، اس لیے وہ مذہب اور سائنس میں تطبیق پیدا کرتے ہوئے یہ راے رکھتے ہیں کہ مذہبی اور سائنسی اعمال مختلف طریقۂ کار اختیار کرتے ہیں، مگر مقاصد میں یکساں ہیں۔ اسی بنا پر ڈاکٹر منظور احمد کا ’’خطبات‘‘ پر تبصرہ یہ ہے کہ ان کا مرکزی خیال ’’جدید فکر کی مدد سے مذہب کا جواز مہیا کرنا ہے‘‘۔۱؎ اسی احساس کے تحت اقبال خطبات میں شریعت کے ابدی اور عارضی احکام میں امتیاز کے مسئلے کو اٹھاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس پیغمبر کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، وہ ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالم گیر شریعت کی تشکیل کے لیے ان سے تمہید کا کام لیتا ہے ’’لیکن ایساکرنے میں اگرچہ وہ انھی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوع انسانی کی حیات اجتماعیہ میں کارفرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کے مخصوص حالات کے مطابق بھی کرتا ہے، لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں، جیسے تعزیرات، ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آیندہ نسلوں کے لیے واجب ٹھہرایا جائے۲؎۔‘‘ اسی خطبے میں اقبال نے قانونی اورغیر قانونی احادیث میں تقسیم کی جو بات کی ہے، اس کا تناظر بھی یہی ہے کہ دین کے کون سے احکام ابدی ہیں اور کون سے وقتی؟

    اب جہاں تک تفہیم دین کے فراہی مکتب فکر کا تعلق ہے تو وہ اساسی طور پر روایت اور جدیدیت پسندوں سے ایک بالکل مختلف جگہ پر کھڑا ہے۔ روایت پسندوں سے اس کا بنیادی اختلاف یہ ہے کہ ان کے کسی گروہ کے ہاں قرآن مجید کو وہ مرکزی حیثیت حاصل نہیں جس کا وہ مستحق ہے۔ کہیں فقہا کا فہم اس پر حاکم ہے اور کہیں روایت حدیث۔ اس مکتب فکر کا کہنا یہ ہے کہ دین کے عنوان سے جو چیز بھی پیش کی جائے گی، اس پر قرآن مجید کی حکومت ہونی چاہیے۔ یہ کسی فرد کا قول ہے یا کسی قول کی پیغمبرانہ نسبت، اس کی صحت اور صحیح مفہوم کا تعین قرآن مجید کرے گا نہ کہ معاملہ اس کے برعکس ہوگا۔ اسی طرح سنت یہاں مستقل بالذات ماخذ دین ہے اور اس سے مراد’’ دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے۳؎۔‘‘ اس کا ماخذامت کا اجماع اور تواترعملی ہے۔ یہ ایک دلچسپ امر ہے کہ روایت پسندوں کے ہاں علمی سطح پر بالعموم یہ دونوں باتیں تسلیم کی جاتی ہیں، یعنی قرآن کی حاکمیت اور امت کے اجماع اورعملی تواتر سے سنت کا تعین، لیکن عملاً معاملے کی نوعیت اس کے برعکس ہے۔ قرآن پر حدیث اور فقہ کی حکومت اگر ایک امر واقعہ ہے تو خبر واحد سے سنت کی تعیین کے بھی ان گنت مظاہر موجود ہیں۔

    جدیدیت پسندوں سے اس مکتب فکر کے اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ فراہی منہج میں بلاشبہ قرآن مجید کے فہم میں تناظر(Context) کی حیثیت بنیادی ہے، لیکن جدیدیت پسندوں کے برخلاف یہ خارج میں نہیں، بلکہ قرآن مجید کے اندر موجود ہے۔ قرآن مجید کی آیات اور سورتوں کا بلاشبہ ایک تناظر(Context) ہے، لیکن اس کا تعین متن (Text)خود کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید کے بعض احکام ایک خاص تاریخی تناظر (Historical Context)میں نازل ہوئے، لیکن یہ تناظر شان نزول کی روایت یا کسی دوسرے خارجی ذریعے سے متعین نہیں ہو گا، بلکہ قرآن کا داخلی نظم اس کو بیان کرے گا۔ قرآن مجید کی ایک ترتیب نزولی ہے اور اس کا تعلق دور نبوت کے ساتھ ہے۔ یہ ترتیب اسی عہد کے لیے احکام کی زمانی حکمت کو بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید کی دوسری ترتیب وہ ہے جس کے تحت اس وقت یہ مصحف ہمارے پاس موجود ہے۔ امت کا اجماع ہے کہ یہ ترتیب تو قیفی ہے اور ظاہر ہے کہ خالی از حکمت نہیں۔ آج ہمارے لیے یہی ترتیب حجت ہے۔ اس کے تحت قرآن مجید کی آیات کا سیاق وسباق یہ متعین کردیتا ہے کہ قرآن کا کون سا حکم ابدی ہے اور کون سا عہد رسالت کے ساتھ خاص ہے۔

    یہ مکتب فکر نظم کے ساتھ قرآن مجید کی زبان اور اس کے داخلی نظائر کو بھی کتاب اللہ کے فہم میں اساسی اہمیت دیتا ہے۔ محترم جاوید احمد صاحب غامدی کے الفاظ میں’’قرآن جس زبان میں نازل ہوا ہے، وہ ام القریٰ کی عربی معلی ہے جو اس کے دور جاہلیت میں قبیلۂ قریش کے لوگ بولتے تھے۔‘‘ اس بات کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیںکہ ’’ اس کتاب کا فہم اب اس زبان کے صحیح علم اور اس کے صحیح ذوق ہی پر منحصر ہے، اور اس میں تدبر اور اس کی شرح وتفسیر کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی اس زبان کا جید عالم اور اس کے اسالیب کا ایسا ذوق آشنا ہو کہ قرآن کے مدعا تک پہنچنے میں کم سے کم اس کی زبان اس کی راہ میں حائل نہ ہوسکے۴؎۔‘‘ اسالیب سے آگاہی کا مطلب یہ ہے کہ ہر مقام پر خطاب کا رخ متعین کیا جائے۔یعنی یہ جانا جائے کہ کہاں اس کے مخاطب مسلمان ہیں، کہاں مشرکین اور کہاں کوئی اور۔ اسالیب قرآن کو اچھی طرح سمجھے بغیر اس کا تعین آسان نہیں ہوتا۔ اسی طرح خاص وعام میں امتیاز بھی اسلوب سے متعلق ایک اہم امر ہے۔تیسری اہم بات تفسیر آیات بالآیات ہے۔ قرآن مجید اگر کہیں ایک بات اجمالاً بیان کرتا ہے تو کسی دوسرے مقام پر خود ہی اس کی تفصیل کردیتا ہے، اس لیے اس مکتب فکر کے نزدیک قرآن کی کسی آیت کے فہم کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود قرآن ہی کو مقام تدبر سمجھا جائے۔

    فہم قرآن کے ان اصولوں کے تقابل سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فراہی مکتب فکر کہاں اور کس طرح روایتی اور جدید طریقوں سے مختلف ہے۔ فہم کے اس اختلاف سے نتائج فکر پر کیا اثرپڑتا ہے، اس کو ہم دو مثالوں سے واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

    سورۂ انفال (۸)کی آیات۶۷-۶۸ کی ایک تفسیر وہ ہے جو روایتی تفسیری کتب میں بیان ہوئی ہے اور ایک تفسیر امام امین احسن اصلاحی نے کی ہے۔ تفسیری آرا میں یہ فرق فہم قرآن کے اصولوں کے اطلاق کا نتیجہ ہے۔

    روایتی مکتب فکر کی نمایندہ تفسیر ’’معارف القرآن ‘‘میں ان آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا گیا ہے:

’’نبی کو نہیں چاہیے کہ اپنے ہاں رکھے قیدیوں کو جب تک خوب خونریزی نہ کرلے ملک میں، تم چاہتے ہو اسباب دنیا کا، اور اللہ کے ہاں چاہیے آخرت اور اللہ زور آور ہے حکمت والا۔ اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔‘‘(۴/ ۲۸۱)

    روایتی مفسرین کے ہاں ان آیات کے مخاطب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام ہیں۔ اس راے کو اختیار کرنے کا سبب ان روایات پر انحصار ہے جو ان آیات کے شان نزول کے طور پر بیان کی جاتی ہیں۔جنگ بدر کے قیدیوں کے بارے میں مسلمانوں میں یہ اختلاف ہوا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیاجائے۔ حضرت ابوبکرصدیق کی راے تھی کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر فاروق کی راے ان کے قتل کے حق میں تھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر کی راے کو قبول فرمایا۔ اس روایت کو قبول کرنے کے بعد روایتی اہل تفسیر نے ان آیات کا مخاطب صحابۂ کرام کو قرار دیا۔ مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

’’’

تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا

‘ میں ان صحابۂ کرام کو خطاب ہے، جنھوں نے فدیہ لے کر چھوڑنے کی راے دی تھی۔اس آیت میں بتلایا گیا کہ آپ حضرات نے ہمارے رسول کو نامناسب مشورہ دیا۔‘‘ (معارف القرآن۴/ ۲۸۴)    

    مفتی صاحب اس کی مزید وضاحت اس طرح کرتے ہیں:

’’بعض روایات حدیث میں ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عذاب الٰہی بالکل سامنے آ چکا تھا۔ اللہ نے اپنے فضل سے روک دیااور اگر عذاب آجاتا تو بجز عمر بن خطاب اور سعدبن معاذ کے کوئی اس سے نہ بچتا۔‘‘(معارف القرآن۴/ ۲۸۵)

    یہ دو صحابہ وہ تھے جنھوں نے قیدیوں کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

    جدید اہل علم کے پہلے گروہ کی کوئی تفسیر ہماری نظر سے نہیں گزری۔ البتہ، سرسید احمد خان نے مذکورہ بالاتفسیر سے جو اختلاف کیا، وہ ان کے الفاظ میں اس طرح ہے:

’’فدیہ لینے پر خدا نے اپنی ناراضی ظاہر کی، کیونکہ وہ لوگ بغیر لڑنے کے پکڑے گئے تھے، اس لیے لڑائی کے قیدی جن سے فدیہ لیا جاسکتا تھا نہیں تھے۔اسی بنا پر خداکی ناراضی ہوئی اور خدا نے فرمایا ’

مَاکَانَ...

‘ جن لوگوں کی یہ راے ہے کہ ان کے قتل نہ کرنے پر خداکی ناراضی ہوئی تھی، کسی طرح پر صحیح نہیں ہوسکتی، اس لیے کہ خدا تعالیٰ نے جب ان کا قیدی جنگ ہونا ہی قرار نہیں دیا تو ان کے نہ قتل ہونے پر، کیونکرناراضی ہوسکتی تھی۔‘‘ (تفسیر القرآن ۸۱۸)

    فراہی مکتب فکر کے نمایندہ مفسر امام امین احسن اصلاحی کے نزدیک ان آیات کا ترجمہ درج ذیل ہے:

’’کوئی نبی اس بات کا روادار نہیں ہوتا کہ اس کو قیدی ہاتھ آئیں، یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ملک میں خونریزی برپا کردے۔ یہ تم ہو جو دنیا کے سروسامان کے طالب ہو، اللہ تو آخرت چاہتا ہے اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی، اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آدھمکتا۔‘‘(تدبر قرآن۳/ ۵۱۰)​

    امام اصلاحی کے نزدیک ان آیات کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نہیں، بلکہ قریش ہیں۔ اب دیکھیے کہ وہ اپنے اصولوں کے اطلاق سے کس طرح اس راے تک پہنچے:

’’۱۔ ’

ماکان

‘ کا اسلوب بیان الزام اور رفع الزام، دونوں کے لیے آتا ہے، اس لیے سب سے پہلے اس اسلوب بیان کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی تاویل کرنا چاہیے۔
۲۔یہ بات کہ اس موقع پر یہ الزام کے لیے ہے یا رفع الزام کے لیے، اس کا تعین موقع ومحل اور آیات کے سیاق و سباق سے ہوگا۔
۳۔قرآن مجید نے یہی اسلوب سورۂ آل عمران (آیت۱۶۱) میں اختیار کیا ہے۔ تمام اہل تاویل کا اتفاق ہے کہ وہاں یہ رفع الزام کے لیے آیا ہے۔
۴۔’

تریدون عرض...

‘ کا مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا سیدنا صدیق اکبر جیسی عظیم المرتبت شخصیات کو قرار دینا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ ان کے الفاظ میں ’’بالفرض اس آیت کا مخاطب دل پر جبر کرکے نبی اور صدیق کو تھوڑی دیر کے لیے کوئی مان بھی لے تو اس کے بعد جو آیت آرہی ہے اس کا مخاطب نبی اور صدیق کو ماننے کے لیے کوئی دل و جگر کہاں سے لائے۔‘‘‘‘(تدبر قرآن ۳/ ۵۱۱)

    اگلی آیت کے الفاظ ہیں’’اگر اللہ کا نوشتہ پہلے سے موجود نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی، اس کے باعث تم پر ایک عذاب عظیم آدھمکتا۔‘‘

    اس تقابل سے چند باتیں واضح ہورہی ہیں:

۱۔اصول فہم کے اختلاف سے نتائج فکر میں اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ اگر کہیں نتائج فکر میں یکسانیت ہے تو یہ محض اتفاق ہوگا۔

    ۲۔روایتی طریقۂ تفسیر میں حاکمیت روایت کی ہے نہ کہ قرآن کی۔ اگر قرآن کی حاکمیت ہوتی تو قرآن کے الفاظ کو معیار مان کر روایات کی صحت وضعف کا فیصلہ کیا جاتا۔ اس کے برخلاف روایت کو معیار مانتے ہوئے آیات کی ایسی تاویل گوارا کرلی گئی جس کے لیے صحابۂ کرام کو کم از کم اس موقع پر مطعون ٹھہرادیا گیا ۔روایت کی حاکمیت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ سورۂ آل عمران کی تفسیر میں جب کوئی اس طرح کی روایت نقل نہیں ہوئی تو’ ماکان‘ کے اسلوب کو رفع الزام کے لیے مان لیا گیا اور یہاں روایت کی حکومت اس تاویل کے راستے میں حائل ہوگئی۔

    دوسری مثال چوری کے بعض مجرموں کے بارے میں سیدنا عمر فاروق کے بعض فیصلے ہیں جن کے تحت انھوں نے مجرموں کوہاتھ کاٹنے کی سزائیں نہیںدیں۔ جدیدیت پسندوں کے نزدیک یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدود کی سزائیں ابدی نہیں اور مسلمانوں کا نظم اجتماعی اس میں تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس ضمن میں جاوید احمد صاحب غامدی کا موقف یہ ہے کہ حدود کی سزا ئیں ابدی ہیں۔ سیدنا عمر فاروق نے قرآن کے کسی حکم میں تبدیلی نہیں کی، بلکہ قرآن کے منشا کے عین مطابق سزا دیتے وقت مجرموں کے حالات کی رعایت کو ملحوظ رکھا۔ ان کی اس راے کی بنیاددو دلیلوں پر ہے:

    ۱۔ قرآن مجید نے جن جرائم کی متعین سزا بیان کی ہے، وہ ان جرائم کے لیے زیادہ سے زیادہ سزائیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زیادہ سزا نہیںدی جا سکتی۔ اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتا کہ کم سزا ممکن نہیں ہے۔

    ۲۔اگر مجرم کے حالات کسی رعایت کے متقاضی ہیں تو اسے کم سزا بھی دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید نے یہ اصول ان لونڈیوں کی سزا میں بیان کیا ہے جن سے زنا کا جرم سرزد ہوجائے۔ چونکہ ان کی عصمت کو وہ حفاظتی حصار میسر نہیں ہے جو ایک آزاد عورت کو ہو سکتا ہے، اس لیے وہ اس جرم کے لیے اس سزا کے نصف کی حق دارہیں جو ایک آزاد عورت کو دی جائے گی۔

    یہاں ہمیں جدید اہل علم اور فراہی مکتب فکر کے مابین نتائج فکر کے اعتبار سے جزوی نوعیت کا اتفاق نظر آتا ہے، لیکن بالبداہت واضح ہے کہ دونوں کے ہاں نصوص کی تفسیر کے اصول بالکل مختلف ہیں۔

    ہم نے اس مضمون میں کسی مکتب فکر کا محاکمہ نہیں کیا، اس سے صرف یہ بیان کرنا مطلوب ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں فہم دین کے اعتبارسے بحیثیت مجموعی تین نقطہ ہاے نظر موجود ہیں۔ ہرمکتب فکر کی بات کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس بنیادی فرق کو ملحوظ رکھا جائے جو ان کے بنیادی اصولوں میں موجود ہے۔

دبستان فراہی اور حدیث و سنت ـــــ ایک توضیح​    

مئی ۱۹۹۱ کے ’’ اشراق‘‘ میں محترم نسیم ظہیر اصلاحی کا ایک مضمون ’’ مولانا فراہی کا طریقۂ تفسیر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ تحریرماہنامہ ’’ الرشاد‘‘ اعظم گڑھ، بھارت میں چھپنے والے ایک مضمون کے جواب میں لکھی گئی جس میں مولانا فراہی کی فکر او رانداز تفسیر کے حوالے سے چند خلاف واقعہ باتیں کی گئی تھیں۔ چنانچہ فاضل مضمون نگار نے بالکل آغاز ہی میں یہ سطور لکھ کر نفس مضمون واضح کر دیا تھا کہ:

’’’’ الرشاد‘‘ جیسے موقر علمی رسالہ میں مولانا فراہی علیہ الرحمۃ سے متعلق اتنے غلط اور بے بنیاد خیالات کی اشاعت سے مولانا اور ان کے تلامذہ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس لیے وضاحتاً، درج ذیل معروضات پیش کی جا رہی ہیں تاکہ حقیقت حال منقح ہو کر سامنے آ جائے۔‘‘(ماہنامہ اشراق، مئی ۱۹۹۱،۴۲)

’’ الرشاد‘‘ کے مضمون میں دبستان فراہی پر جو الزامات لگائے گئے تھے، ان کا مرکزی خیال حدیث و سنت کے بارے میں اس حلقے کا نقطۂ نظر ہے۔ معترض کا کہنا تھا کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی تحریروں سے حدیث کے بارے میں تشکیک کا ذہن پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ اس بنا پر مولانا امین احسن اصلاحی نے ’’ تدبر قرآن‘‘ میں آثار و احادیث سے بہت کم استفادہ کیا ہے۔ اور مزید یہ کہ وہ پورے ذخیرۂ احادیث کو تفسیری روایات ہی پر قیاس کرتے ہیں۔ محترم نسیم ظہیر اصلاحی صاحب نے بہت خوبی کے ساتھ مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کی تحریروں سے ان الزامات کی تردید کر دی تھی اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور ارشادات کے ساتھ مولانا فراہی کو جو تعلق خاطر تھا، اس کو بھی نمایاں کر دیا تھا۔ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد کسی انصاف پسند آدمی کے لیے اس کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی کہ وہ مولانا فراہی یا اس دبستان کے کسی فرد کو ان الزامات کا مصداق قرار دے، لیکن چونکہ ہمارے معاشرے میں انصاف اور دیانت کاخون کرنے کی روایت بہت عام ہے، اس لیے اس کو نبھاتے ہوئے ماہنامہ ’ ’ طلوع اسلام‘‘ نے اپنے جولائی ۱۹۹۱ کے شمارے میں، اس مضمون سے وہ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے، جن کی تردید ہی اس تحریر کے منصہ شہود پر آنے کا سبب بنی تھی۔

    ماہنامہ ’’ طلوع اسلام‘‘ لاہور، غلام احمد صاحب پرویز کی فکر کا علم بردار ہے۔ ان کے نزدیک حدیث و سنت ہدایت کا کوئی مستقل ماخد نہیں ہے۔ یہ فکر پرویز صاحب کی زندگی میں کچھ عرصے کے لیے ہمارے علمی حلقوں میں زیر بحث رہی، لیکن اپنے کمزور استدلال کی بنا پر مستقل جگہ بنانے میں ناکام رہی۔ یہی سبب ہے کہ آج کے عہد میں یہ ایک متروک نقطۂ نظر ہے جسے پرویز صاحب کے بعد کسی نمایاں صاحب علم نے اختیار نہیں کیا۔ جولائی ۱۹۹۱ کے شمارے میں مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ پر لگائے جانے والے مذکورہ بالا الزامات کو نقل کر کے انھوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے ذخیرۂ احادیث سے لا تعلقی کی جو روش پرویز صاحب نے اختیار کی اس میں وہ تنہا نہیں، بلکہ اس معاملے میںان کے ہم نواؤں میں مولانا فراہی بھی شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے رویے کو علم اور دیانت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا۔

    ہمارے اس معاشرے میں جہاں اس طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں ایک دوسرا گروہ بھی موجود ہے جو عمل سے زیادہ رد عمل پر یقین رکھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دین میں اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ رویہ قابل قدر ہے، اگر کسی واقعہ کی بنیاد پر ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہے۔ یہ گروہ فتنوں ہی کی تلاش میں لگا رہتا ہے۔ اگر کہیں فتنہ موجود نہیں ہے تو پہلے پوری کوشش سے کسی فکر یا خیال کو فتنہ قرار دیا جاتا ہے اور پھر اس کی تردید کے لیے مہم کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ گویا پہلے بت تراشتے ہیں، پھر بت شکنی کے لیے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اس طرح اپنے تئیں سنت ابراہیمی زندہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس کام کے لیے کسی مطالعہ یا تحقیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ تحقیق ایک مثبت کام ہے اور وہ منفی کام کے عادی ہیں۔ فکر فراہی کچھ عرصے سے ایسے افراد کی زد میں بھی ہے۔ یہ گروہ بھی ارباب ’’ طلوع اسلام‘‘ کی طرح اپنی بات دبستان فراہی کے منہ میں ڈالتا ہے اور ان کو منکر حدیث قرار دے کر میدان جہاد میں نکل پڑتا ہے۔

    مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہ نے آج سے قریباً ایک صدی پہلے تدبر قرآن کے لیے جن اصولوں کی نشان دہی کی تھی، وہ عہد حاضر میں ایک علمی تحریک کی بنیاد قرار پائے ہیں۔ اس فکر میں اس قدیم ذوق کے لیے کوئی جگہ نہیں جو محض راوی کو ثقہ قرار دے کر پیغمبر کی طرف جھوٹ کی نسبت کو گوارا کر لیتا ہے اور نہ اس جدید فکر کے لیے کوئی گنجایش ہے جو پیغمبر کے افعال و ارشادات سے بے نیاز ہو کر ہدایت سے محروم ہو گیا ہے۔ یہاں کا پہلا اصول یہ ہے کہ قرآن مجید کو ’’ میزان‘‘ اور ’’ فرقان‘‘ قرار دے کر کسی چیز کے دین ہونے کا فیصلہ کیا جائے:

’’ قرآن مجید کی۵؎ یہ حیثیت ہے جو اس نے خود اپنے لیے ثابت قرار دی ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر ہم بطور اصول کہتے ہیں کہ دین میں ہر چیز کے رد و قبول کا فیصلہ اب اس کی آیات بینات ہی کی روشنی میں ہو گا۔ ایمان و عقیدہ کی ہر بحث اس سے شروع ہو گی اور اسی پر ختم کر دی جائے گی۔ ہر وحی، ہر الہام، ہر القا، ہر تحقیق اور ہر راے کو اس کے تابع قرار دیا جائے گا، اور اس کے بارے میں یہ حقیقت تسلیم کی جائے گی کہ بو حنیفہ و شافعی، بخاری و مسلم، اشعری و ماتریدی اور جنید و شبلی، سب پر اسی کی حکومت قائم ہے اور اس کے خلاف ان میں سے کسی کی کوئی چیز بھی قبول نہیں کی جاسکتی۔‘‘ (ماہنامہ اشراق، مئی ۱۹۹۱،۳۳)

    اسی طرح یہ بات بھی بطور اصول قبول کی گئی ہے کہ انسانی زندگی کی تعبیر کے لیے اللہ کے رسول کی سنت ثابتہ ہی نمونہ ہے او رقرآن فہمی کے لیے یہ ایک بنیاد ہے:

’’ جہاں تک قرآن مجید کی اصطلاحات کا تعلق ہے، مثلاً صلوٰۃ، زکوٰۃ، صوم، حج، عمرہ، قربانی، مسجد حرام، صفا مروہ، سعی، طواف وغیرہ، تو ان کی تفسیر میں نے سو فی صدی سنت متواترہ کی روشنی میں کی ہے اس لیے کہ قرآن مجید اور شریعت کی اصطلاحات کا مفہوم بیان کرنے کا حق صرف صاحب وحی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ہے۔ آپ جس طرح اس کتاب کے لانے والے تھے، اسی طرح اس کے معلم اور مبین بھی تھے، اور یہ تعلیم و تبیین آپ کے فریضۂ رسالت ہی کا حصہ تھی۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یہ بات قطعیت کے ساتھ معلوم ہو کہ فلاں اصطلاح کا یہ مطلب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ سو جہاں تک معروف دینی اصطلاحات کا تعلق ہے یہ سوال کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ اس قسم کی ساری اصطلاحات کا حقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنت متواترہ کے اندر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اور یہ سنت متواترہ بعینہٖ انھی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قرآن مجید ثابت ہے۔ امت کے جس تواتر نے قرآن کریم کو ہم تک منتقل کیا ہے، اسی تواتر نے دین کی تمام اصطلاحات کا عملی مفہوم بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر فرق ہے تو یہ فرق ہے کہ ایک چیز قولی تواتر سے منتقل ہوئی ہے، دوسری چیز عملی تواتر سے۔ اس وجہ سے اگر قرآن مجید کو ماننا ہم پر واجب ہے تو ان ساری اصطلاحات کی اس عملی صورت کو ماننا بھی واجب ہے جو سلف سے خلف تک بالتواتر منتقل ہوئی ہے۔ ان کی صورت میں اگر کوئی جزوی قسم کا اختلاف ہے تو اس اختلاف کی دین میںکوئی اہمیت نہیں ہے۔پانچ وقت کی نمازیں سب جانتے اور مانتے ہیں اور اسی قطعیت کے ساتھ جانتے اور مانتے ہیں جس قطعیت کے ساتھ قرآن کو جانتے اور مانتے ہیں۔ رہا بعض جزوی امور میں کوئی فرق تو یہ فرق کوئی اہمیت رکھنے والی شے نہیں ہے۔ اس طرح کے معاملات میں دلائل کی روشنی میں جس پہلو پر بھی جس کا اطمینان ہو اس کو اختیار کر سکتا ہے۔
منکرین حدیث کی یہ جسارت کہ وہ صوم و صلوٰۃ، حج و زکوٰۃ اور عمرہ و قربانی کا مفہوم بھی اپنے جی سے بیان کرتے ہیں اور امت کے تواتر نے ان کی جو شکل ہم تک منتقل کی ہے اس میں اپنی ہواے نفس کے مطابق ترمیم و تغیر کرنا چاہتے ہیں، صریحاً خود قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ جس تواتر نے ہم تک قرآن کو منتقل کیا ہے اسی تواتر نے ان اصطلاحات کی عملی صورتوں کو بھی ہم تک منتقل کیا ہے۔ اگر وہ ان کو نہیں مانتے تو پھر خود قرآن کو ماننے کے لیے بھی کوئی وجہ باقی نہیں رہ جاتی۔ اصطلاحات کے معاملے میں تنہا لغت پر اعتماد بھی ایک بالکل غلط چیز ہے۔ صوم و صلوٰۃ کا لغت میں جو مفہوم بھی ہولیکن دین میں ان کا وہی مفہوم معتبر ہو گا جو شارع نے واضح فرمایا ہے۔‘‘(تدبر قرآن ۱/ ۲۹)

    قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ نقطئہ نظر رکھنے والے کسی گروہ سے متعلق کیا ادنیٰ سا بھی شبہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کا فکر پرویز اور منکرین حدیث سے کوئی تعلق ہے؟ لیکن اس کے باوجود کوئی فرد اسے ’’ انکار حدیث کا جدید روپ‘‘ قرار دے کر اس سے مثبت یا منفی، حسب خواہش، تاثر لینا چاہے تو اسے اپنے رویہ پر غور کرنا چاہیے کہ علم و دیانت کی دنیا میں اس کا کیا مقام ہو سکتا ہے، لیکن دل اگر خدا کے خوف سے خالی ہو جائیں تو پھر قلم یا زبان کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ تاہم وہ دن ضرور آنے والا ہے جب عالم کا پروردگار، سب انسانوں کو جمع کرے گا اور سب کاسچ اور جھوٹ ظاہر ہو جائے گا۔

[جنوری ۲۰۰۷، اکتوبر ۱۹۹۱] 

 ــــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

۱؎ اقبال شناسی۔

۲؎ الاجتہاد فی الاسلام۔

۳؎ جاوید احمد غامدی،میزان۱۴۔

۴؎ جاوید احمد غامدی، میزان ۱۶۔

۵؎ یعنی یہ کہ وہ کسوٹی اور معیار ہے۔