HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

پرویز صاحب کا فہم قرآن

دین اسلام میں قرآن مجید کو بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہے، اس لیے اس دین کے فہم کا سب سے زیادہ انحصار بھی اس کتاب کے فہم پر ہے۔ اگر قرآن حکیم کو صحیح اصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے تودین کی مجموعی تعلیمات کو جانا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ تو ممکن ہے کہ آدمی کسی جزوی مسئلے یا فروعی معاملے میں غلطی کا شکار ہو جائے، لیکن بحیثیت مجموعی وہ صراط مستقیم ہی پر رہتا ہے۔ ان اصولوں سے ہٹ کر اگر کسی اور راستے سے فہم قرآن تک رسائی کی سعی کی جائے تو منزل کبھی ہاتھ نہیں آتی۔ اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کسی ایک مسئلے میں صحیح راے قائم کر لیں، لیکن اس دین کا سراغ آپ کو کبھی نہیں مل سکتا جس کی اقامت کا مطالبہ قرآن مجید کرتاہے۔

    آج ہمارے معاشرے میں ایسے افراد موجود ہیں جن کا اصرار ہے کہ قرآن ہی ان کی فکر کا محورو مرکز ہے۔ انھوں نے قرآن مجید کو غلط اصولوں کی مدد سے سمجھنا چاہا۔ اس کوشش سے فہم قرآن کے دروازے تو ان پر نہ کھل سکے، البتہ ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

    اس فکر کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ دورجدید میں اس کی پیشوائی اور ترجمانی کا منصب جناب غلام احمد پرویز مرحوم کے ہاتھ رہا۔ انھوں نے اپنے آپ کو قرآن مجید کے ایک طالب علم کی حیثیت سے پیش کیا اور آخری لمحۂ حیات تک یہی کہتے رہے۔ انھوں نے آیات قرآنی کے جو مفاہیم و مطالب اخذ کیے، وہ ’’مفہوم القرآن‘‘، ’’لغات القرآن‘‘، ’’مطالب الفرقان‘‘ اور کئی دوسری کتابوں میں محفوظ ہیں۔ ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اصل چیز لفظ کا لسانی پس منظر ہے۔ وہ اسی دروازے سے کسی لفظ کے قصرمعانی میں داخل ہوتے ہیں۔ زبان کے بارے میں ان کا رویہ یہ ہے کہ وہ لفظ کے حقیقی و مجازی مفاہیم طے کرتے وقت، تشبیہ و تمثیل کے کسی اصول اور سلسلۂ کلام کی کسی ضرورت کا لحاظ نہیں رکھتے۔

    ہمارے نزدیک پرویز صاحب کی یہی بنیادی غلطی ہے جس کے سبب سے قرآن مجید کا اصل مدعا ان پر واضح نہ ہو سکا۔ قرآن عربی زبان میں ہے اور ادب کا ایک شاہکار ہے۔ اس کی تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ان قواعد و ضوابط کو ملحوظ رکھا جائے جن کا تعلق زبان اور ادب کے فہم سے ہے۔ پرویز صاحب نے اس بات کا اہتمام نہیں کیا۔ چنانچہ وہ تاویلات کا ایک طلسم ہوش ربا قائم کرنے میں تو کامیاب رہے، لیکن صحیح ’مفہوم القرآن‘ ان کی فہم سے باہر رہا۔ یہ بات اسی وقت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے جب زبان و ادب کے وہ بنیادی مسلمات ہمارے پیش نظر ہوں جن کا لحاظ فہم قرآن کے لیے ناگزیر ہے۔

    زبان اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا عطیہ ہے۔ جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے، وہ اس کی نطق و ادراک کی صلاحیت ہے۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آج کئی طرح کی زبانیں رائج ہیں۔ الفاظ کے اختلاف کے باوجود، اپنی اقدار کے اعتبار سے یہ بہت حد تک ایک جیسی ہیں۔ ہر زبان کی ابتدا اصوات سے ہوئی ہے۔ تہذیب کے آغاز سے پہلے صوتی تاثرات سے مختلف مفاہیم ادا کیے جاتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ آوازیں لفظوں میں ڈھلیں اور اس سے باضابطہ زبانیں وجود میں آئیں۔ چنانچہ آج ہم جو لفظ بولتے ہیں، اس کا ایک متعین مفہوم ہوتا ہے۔ لفظ کے کسی خاص مفہوم کا اطلاق اس کے استعمال سے طے ہوتا ہے، یعنی آج کسی لفظ کو سمجھنے کے لیے ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ ہمارے ماحول میں کس معانی میں مستعمل ہے۔ کوئی متکلم اس لفظ سے اپنے کلام اور تحریر میں کیا مفہوم مراد لیتا ہے۔ لہٰذا لفظ کا مطلب و مفہوم اس کے عرف استعمال سے متعین کیا جائے گا۔

    کسی لفظ کے بارے میں دوسری چیز اس کی لسانی تحقیق ہے۔ لفظ اصل میں کیاہے؟ اس کا مادہ کیا ہے؟ اس کی ابتدائی صورت کیا تھی؟ اور یہ کن مراحل سے گزرا ہے؟ اس ساری بحث کا تعلق علم لسانیات (linguistics) سے ہے۔ بعض اوقات ایک زبان میں کئی دوسری زبانوں کے الفاظ مستعمل ہوتے ہیں۔ لسانی تحقیق سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ کوئی لفظ کس زبان سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی طرح عربی زبان میں علم لسانیات کی مدد سے کسی لفظ کا مادہ معلوم کیا جاسکتا ہے۔ لفظ کی اس لسانی تحقیق سے اس کا مفہوم طے کرنا، استخراج معنی کا صحیح طریقہ نہیں۔ لفظ کے فہم کا تعلق اس کے استعمال ہی سے ہوتا ہے ۔ اب اگر کوئی شخص علم لسانیات کی مدد سے کسی لفظ کے معانی جاننے کی سعی کرے گا تو اس سے بے شمار مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ اور صحیح مطلب تک پہنچنا کبھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس بات کو ایک مثال سے بہتر سمجھا جا سکتا ہے۔ آج کے دور میں لفظ ’’شوربا‘‘ کا ایک مفہوم متعین ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ اس سے مراد کھانے کی ایک قسم ہے۔ اگر کوئی اپنے کھانے میں شوربے کے استعمال کا ذکر کرتا ہے تو مخاطب کے لیے مدعا پانا مشکل نہیں رہتا۔ اب ایک شخص لفظ ’’شوربا‘‘ کی لسانی تحقیق کرتا ہے کہ ’’شور‘‘ نمک کو کہتے ہیں اور ’’با‘‘ سے مراد پانی ہے۔ لہٰذا، شوربے کا مطلب ہو گا ’’نمکین پانی‘‘۔ اس تحقیق کی رو سے کھانے میں ’’شوربے‘‘ سے مراد ’’نمکین پانی‘‘ کا استعمال ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ لفظ کا یہ مطلب مراد لینے سے اس کا مفہوم بالکل بدل جائے گا۔ کلام میں شوربے کے وہی معانی مراد لیے جائیں گے جن کا تعین عرف عام کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ’’میں نے ٹیلی وژن خریدا‘‘ تو اس جملے میں کوئی ابہام نہیں۔ عصر حاضر میں ہر فرد اس سے باخبر ہے کہ ’’ٹیلی وژن‘‘ سے کیا مراد ہے؟ لیکن لغوی تحقیق کے مطابق ’’ٹیلی‘‘ کا مطلب ’’انتقال‘‘ کے ہیں اور ’’وژن‘‘ منظر کو کہتے ہیں۔ لہٰذا ’’میں نے ٹیلی وژن خریدا‘‘ سے مراد ’’میں نے انتقال منظر خریدا‘‘ ہوگا۔ یہ لسانی و لغوی تحقیق درست ہونے کے باوجود فہم کلام میں مانع ہے۔ اس میں ٹیلی وژن کے اس اصطلاحی مفہوم کو نظر انداز کر دیا گیا ہے جو متکلم کے پیش نظر ہے۔ اس بحث سے یہ واضح ہے کہ لفظ کے مفہوم کا تعلق اس کے استعمال سے ہے نہ کہ علم لسانیات سے۔

    زبان کے بارے میں دوسری چیز تشبیہ، استعارہ اور تمثیل وغیرہ کا استعمال ہے۔ ہرزبان اور ادب کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ بہت سی باتیں تشبیہ اور استعارے کے پیرائے میں بیان کی جاتی ہیں۔ کبھی کسی مدعا کو واضح کرنے کے لیے تمثیلی انداز اپنایا جا تا ہے۔ یہ چیز جہاں زبان و بیان کا حسن ہوتی ہے، وہاں مفہوم کے ابلاغ کو بھی آسان بنا دیتی ہے۔ تشبیہ و استعارے میں بہت سے الفاظ اپنے حقیقی معنوں سے ہٹ کر مجازاً استعمال کیے جاتے ہیں۔ جملے کا دروبست، قرینہ اور کلام کا سیاق و سباق اس بات کا تعین کرتا ہے کہ یہاں لفظ مجازی مفہوم میں استعمال ہوا ہے یا حقیقی معنوں میں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کہتا ہے: جب سے دوپہر کا کھانا کھایا ہے، سینے میں آگ لگی ہوئی ہے۔ دوسرا شخص کہتا ہے: گھر میں ایندھن نہیں تھا، چولھے میں آگ کیسے جلتی؟ ان دونوں جملوں کی ترکیب خود گواہ ہے کہ ’سینے کی آگ‘ اور ’چولھے کی آگ‘ کو ایک ہی مفہوم میں لینا ممکن نہیں۔ ’’آگ‘‘ کے مجازی اور حقیقی مفہوم کا تعین خود جملے نے کر دیاہے۔ اب اگر پہلے جملے میں ’’آگ‘‘ کو حقیقی معنوں میں لیا جائے تو ایک مضحکہ خیز صورت حال سامنے آتی ہے جسے ایک عام آدمی کا ذوق بھی گوارا نہیں کرتا۔ تمثیلی انداز کو جاننے کے لیے حضرت مسیح علیہ السلام کے مواعظ بہترین مثال ہیں جن کے بارے میں انجیل کا کہنا ہے کہ وہ بغیر تمثیل کے کچھ نہ کہتے تھے۔ انجیل ہی میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ایک دفعہ خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’...آسمان کی بادشاہی اس آدمی کی مانند ہے جس نے اپنے کھیت میں اچھا بیج بویا۔ مگر لوگوں کے سوتے میں اس کا دشمن آیا اور گیہوں میں کڑوے دانے بھی بو گیا۔ پس جب پتیاں نکلیں اور بالیں آئیں تو وہ کڑوے دانے بھی دکھائی دیے۔ نوکروں نے آکر گھر کے مالک سے کہا کہ اے خداوند کیا تو نے اپنے کھیت میں اچھا بیج نہ بویا تھا؟ اس میں کڑوے دانے کہاں سے آگئے؟ اس نے ان سے کہا یہ کسی دشمن کا کام ہے۔ نوکروں نے اس سے کہا تو کیا تو چاہتا ہے کہ ہم جا کر ان کو جمع کریں؟ اس نے کہا نہیں ایسا نہ ہو کہ کڑوے دانے جمع کرنے میں تم ان کے ساتھ گیہوں بھی اکھاڑ لو۔ کٹائی تک دونوں کو اکٹھا بڑھنے دو اور کٹائی کے وقت میں کاٹنے والوں سے کہہ دوں گا کہ پہلے کڑوے دانے جمع کرلو اور جلانے کے لیے ان کے گٹھے باندھ لو اور گیہوں میرے کھتے میں جمع کر دو۔‘‘(متی ۱۳: ۲۴-۳۰) ​

    اس تمثیل کی شرح میں انجیل ہی کا بیان ہے:

’’اس وقت وہ بھیڑ کو چھوڑ کر گھر میں گیا اور اس کے شاگردوں نے اس کے پاس آکر کہا کہ کھیت کے کڑوے دانوں کی تمثیل ہمیں سمجھا دے۔ اس نے جواب میں کہا کہ اچھے بیج کا بونے والا ابن آدم ہے۔ اور کھیت دنیا ہے او ر اچھا بیج بادشاہی کے فرزند اور کڑوے دانے اس شریر کے فرزند ہیں۔جس دشمن نے ان کو بویا وہ ابلیس ہے اور کٹائی دنیا کا آخر ہے اور کاٹنے والے فرشتے ہیں۔ پس جیسے کڑوے دانے جمع کیے جاتے اور آگ میں جلائے جاتے ہیں ویسے ہی دنیا کے آخر میں ہو گا۔ ابن آدم اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ سب ٹھوکر کھلانے والی چیزوں اور بدکاروں کو اس کی بادشاہی میں سے جمع کریں گے۔ اور ان کو آگ کی بھٹی میں ڈال دیں گے۔ وہاں رونا اور دانت پیسنا ہوگا۔ اس وقت راست باز اپنے باپ کی بادشاہی میں آفتاب کی مانند چمکیں گے۔ جس کے کان ہوں وہ سن لے۔‘‘(متی ۱۳: ۳۶-۴۳) 

    اس مثال سے یہ بات واضح ہے کہ اگر بات تمثیل کے لہجے میں ہوگی تو لفظوں کو حقیقی مفہوم میں نہیں لیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حقیقی مفہوم کو مجازی مراد لینے سے بھی بات کا مدعا بدل جاتا ہے۔ مثلاً، ایک شخص کہتا ہے: ’’میں ساجد اور عابد کے ساتھ بازار گیا۔‘‘ جملہ خود تعین کر رہا ہے کہ ساجد اور عابد معرفہ ہیں اور ان سے مراد خاص افرادہیں۔ یہ مفہوم مراد لینے سے جملے کا مدعا بالکل واضح ہے، لیکن اگر جملے کی ساخت اور اس ظاہری مفہوم کو نظرانداز کر کے لغت کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کچھ اس قسم کی صورت حال سامنے آئے گی۔ ’

سَاجِدٌ

‘، ’

سَجَدَ

‘ سے اسم الفاعل ہے اور اس کے معانی خاکساری کرنے والے کے ہیں، اسی طرح ’عابد‘ کا مطلب ’حریص ہونا‘ ہے۔ لہٰذا، جملے کا مطلب ہوگا: ’’میں ایک خاکسار اور ایک حریص آدمی کے ساتھ بازار گیا۔‘‘ لغت کے لحاظ سے تو یہ صحیح مفہوم ہے، لیکن کیا جملے میں یہی بات کہی گئی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ لہٰذا، کسی جملے یا عبارت کا مفہوم متعین کرتے ہوئے ضروری ہے کہ الفاظ کا حقیقی اور مجازی استعمال پیش نظر ہو۔

    زبان کے حوالے سے ایک اور اہم چیز اس کا عرف عام ہے، کیونکہ بات کے فہم کے لیے زبان کا عرف بھی جاننا لازم ہے۔ مثلاً، ’’لفظ‘‘ مصدر ہے۔ اسم فاعل اور اسم مفعول کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ مادے کی تحقیق کریں تو اس کا مطلب، ’پھینکی ہوئی چیز‘ ہے۔ لغت کو چونکہ اسی اصول پر ترتیب دیا جاتا ہے، اس لیے امام راغب کی ’’المفردات فی غریب القرآن‘‘ اور ’’مقاییس اللغہ‘‘ میں یہی مفہوم لیا گیا ہے، لیکن جب ’’لفظ‘‘ کسی تحریر یا گفتگو میں استعمال ہوگا تو اس کا وہی مطلب قبول کیا جائے گا جس کی اجازت زبان کا عرف دیتا ہے۔ یہ عرف زبان و معاشرے کا بھی ہوتا ہے اور کسی صاحب فن کا بھی۔ ’’خودی‘‘ کو سرسید جس مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو کلام اقبال میں پایا جاتاہے۔ سرسید کے نزدیک یہ ایک منفی جذبہ ہے، لیکن اقبال اس کو مثبت مفہوم میں لیتے ہیں۔

    زبان و ادب کے ان مسلمات کی روشنی میں قرآن مجید کو دیکھیے۔ قرآن مجید، عربی زبان میں ہے، ایک خاص قوم اس کا اولین مخاطب ہے۔ اس قوم کا اپنا ایک تہذیبی پس منظر، روایات، زبان اور ادب ہے۔ قرآن ان سے انھی کی زبان میں ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ قرآن کی بات پوری طرح سمجھتے ہیں۔ انھوں نے قرآن مجید کے پیغام کو ماننے سے انکار کر دیا، لیکن انھیں کسی لفظ کے مفہوم کے بارے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محض کتاب نہیں بھیجی، بلکہ ساتھ ایک رسول بھی مبعوث کیا جس کی سیرت قرآن کی تفسیر کرتی ہے۔ علاوہ ازیں قرآن مجید ایک کتاب ہے جس کی ترتیب من جانب اللہ ہے، لہٰذا اس کا ایک سیاق ہے، ایک سباق ہے۔ ان سب باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن مجید کا مدعا پانا ممکن نہیں۔

    آج کے دور میں قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے ضروری ہے کہ ان سب باتوں کا لحاظ رکھا جائے۔ ایک مفسر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ عرب معاشرے کی روایات، تاریخ عرب، عربی زبان اور اس کے مختلف اسالیب، جاہلی ادب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا گہرا مطالعہ اور ذوق رکھتا ہو۔ اسی طرح قرآن مجید کی یہ حقیقت کہ وہ ایک کتاب ہے اور اس کا یہ لفظ سیاق و سباق کے ایک نظم سے بندھا ہوا ہے، اس کے پیش نظر ہو۔

    پرویز صاحب نے قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہوئے، ان تمام باتوں کو نظر انداز کیا اور محض الفاظ کی لسانی تحقیق سے قرآن کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس سے قرآن مجید کی جو تصویر سامنے آتی ہے، وہ ایسی ہی ہے، جیسے کلام اقبال میں کوئی ’’خودی‘‘ کا لغوی مفہوم داخل کردے۔۱؎ اس سے اقبال کی وہ بات جو وہ لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں، وہ پس منظر میں چلی جائے گی اور ایک نیا مفہوم سامنے آجائے گا۔ اسی طرح پرویز صاحب نے فہم قرآنی کے جو نقوش قائم کیے ہیں، اس سے قرآن کا مدعا تو واضح نہیں ہوتا، البتہ ’’مفکرقرآن‘‘ کا نقطۂ نظر جانا جا سکتاہے جسے انھوں نے قرآن مجید کی ہر آیت کے تحت بیان کیا ہے۔ چنانچہ دیکھیے، سورۂ نمل کا وہ مقام جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے اس سورہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات، عصا اور یدبیضا کا تذکرہ اور اس پر لوگوں کے ردعمل کو بیان کیا گیا ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ لوگوں کے کفر کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ حقیقت ان کے لیے پردۂ راز میں ہوتی ہے، بلکہ ان کے انکار کی وجہ ان کا ظلم اور تکبر ہوتا ہے۔کچھ لوگوں کو جب اللہ تعالیٰ نعمتوں سے نوازتا ہے تو وہ ظلم و استکبار کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں انسانوں کا دوسرا طبقہ وہ ہے جس پر اللہ تعالیٰ کے انعامات کی بارش ہوتی ہے، اور وہ ردعمل کے طور پر اس کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ اور اسے اللہ ہی کا فضل قرار دیتے ہیں۔ اس معاملے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو مثال کے طورپر پیش کیاگیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی عظیم الشان سلطنت عطا فرمائی جس کی نظیر تاریخ انسانی میں کہیں دکھائی نہیں دیتی، مگر وہ اس پر متکبر نہیں ہوئے،بلکہ ان کا سر شکر گزاری کے جذبے کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں جھک گیا۔ قرآن مجید میں ان کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا:

وَحُشِرَ لِسُلَیْْمٰنَ جُنُوْدُہٗ مِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالطَّیْْرِ فَہُمْ یُوْزَعُوْنَ حَتّٰٓی اِذَآ اَتَوْا عَلٰی وَادِ النَّمْلِ قَالَتْ نَمْلَۃٌ یٰٓاَیُّہَا النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْْمٰنُ وَجُنُوْدُہٗ وَہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ۔(النمل ۲۷: ۱۷-۱۸)
’’اور سلیمان کے جائزے کے لیے اس کا سارا لشکر جنوں، انسانوں اور پرندوں سے اکٹھا کیا گیا اور ان کی درجہ بندی کی جارہی  تھی، یہاں تک کہ وہ چیونٹیوں کی وادی میں جا پہنچے۔ ایک چیونٹی نے کہا: اے چیونٹیو، اپنے سوراخوں میں گھس جائو کہ سلیمان اور اس کا لشکر تمھیں پامال نہ کر ڈالے اور انھیں اس کا احساس بھی نہ ہو۔‘‘

    غلام احمد صاحب پرویز ان آیات کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:

’’سلیمان کے لشکر میں شہروں کے مہذب باشندے، جنگلوں اور پہاڑوں کے دیوہیکل وحشی اور قبیلۂ طیر کے شاہ سوار سب شامل تھے۔ انھیں (کیمپوں میں) روک کر رکھا جاتا تھا تاکہ مناسب ٹریننگ اور تربیت سے، ان سے مفید کام لیے جائیں۔ (ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلیمان کو معلوم ہوا کہ سبا کی مملکت اس کے خلاف سرکشی کا ارادہ رکھتی ہے تو وہ بطور حفظ ماتقدم، اس کی طرف لشکر لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں وادیٔ نمل پڑتی تھی۔ ملک سبا کی طرح، اس مملکت کی سربراہ بھی ایک عورت تھی۔) جب اس نے اس لشکر کی آمد کی خبر سنی تو اپنی رعایا کو حکم دیا کہ وہ اپنے اپنے گھروں میں جا کر پناہ گزیں ہو جائیں۔ ایسانہ ہو کہ لشکر جرار اتنا معلوم کیے بغیر کہ تم اس کی دشمن کی قوم سے کسی قسم کا تعلق رکھتی ہو یا نہیں، تمھیں یوں ہی کچل ڈالے۔ (فوجیں یہی کچھ کرتی ہیں، ان کے راستے سے ہٹ جانا ہی قرین مصلحت ہوتاہے ۔)‘‘(مفہوم القرآن ۲/ ۸۶۴)

    پرویز صاحب نے یہاں جن، انس اور طیر کے معانی، بالترتیب، جنگلوں اور پہاڑوں کے دیو ہیکل وحشی، شہروں کے مہذب باشندے او رقبیلۂ طیر کے شاہ سوار،بیان کیے ہیں۔ اپنی لغوی تحقیق بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

’’... قرآن میں ’’جن وانس‘‘ سے مراد وحشی او رمتمدن انسان ہیں۔ انس جو مانوس تھے اور جن، جو وحشی او رغیر مہذب قبائل جنگلوں او رصحراؤں میں رہتے تھے۔‘‘ (لغات القرآن ۱/ ۴۴۷)

’’جن‘‘ اور ’’انس‘‘ عربی زبان کے معروف الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کا اطلاق دو مختلف مخلوقات پر ہوتا ہے۔ کلام میں اس بات کا کوئی قرینہ موجود نہیں کہ الفاظ کے معروف معانی سے صرف نظر کرتے ہوئے انھیں نسل انسانی کے دو گروہوں سے متعلق قرار دیا جائے، لیکن جب کوئی شخص لفظ کے عام استعمال سے متعین ہونے والے مفہوم سے انحراف ہی کا ارادہ کر لے تو پھر کسی لفظ کا کوئی مطلب بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں تضاد بیانی سے بچنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ پرویز صاحب بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے۔ چنانچہ وہ ’’مفہوم القرآن‘‘ میں، جس کا حوالہ اوپر گزرا ہے، ’الطیر‘ کا مطلب ’’ قبیلۂ طیر کے شاہ سوار‘‘ بیان کرتے ہیں او ردوسری جگہ ’’لغات القرآن‘‘ میں ’’تیز رفتار گھوڑے‘‘۔ وہ بیان کرتے ہیں:

’’

فَرَسٌ مُطَارٌ ــــ طَیَّارٌ

’’ہوشیار اور تیز رفتار گھوڑا۔‘‘سورئہ نمل میں ہے کہ حضرت سلیمان کے لشکر جن، انس اور طیر پر مشتمل تھے۔ جن سے مراد وحشی قبائل ہیں۔ انس مہذب آبادیاں۔ اور طیر تیز رفتار گھوڑے (رسالے)۔‘‘(لغات القرآن۳ /۱۱۰۵)

    لغت کے استعمال کا یہی مظاہرہ انھوں نے ’وادیٔ نمل‘ اور ’نملۃ‘ کا مفہوم طے کرتے ہوئے کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے:

’’...وادیٔ نمل چیونٹیوں کی جگہ نہیں،بلکہ ایک قبیلہ کے مسکن کا نام ہے۔ او رالنمل، اس قبیلہ کا نام۔ نملۃ: اس قبیلہ کی ایک عورت ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں عورتیں عام طور پر قبائل کی رئیس ہوتی تھیں، جیسا کہ ملکۂ سبا کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ یعنی یہ ان قبائل کا تمدن (matriarchal) تھا۔‘‘(لغات القرآن۴/ ۱۶۶۵)​

    یہاں ’

نملۃ

‘ سے وادیٔ نمل کی خاتون سربراہ مراد لینا ،کسی طرح ممکن نہیں۔ نمل عربی زبان میں اسم جنس ہے۔ اس سے کسی طرح قبیلہ مراد نہیں لیا جا سکتا۔ اور اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ نمل کسی قبیلے کا نام تھا تو اس قبیلے کی خاتون کے لیے ’

نملیۃ

‘ استعمال ہونا چاہیے نہ کہ ’

نملۃ

‘ ۔ اور اگر وہ اپنے قبیلے کی سربراہ تھی تو اسے معرفہ آنا چاہیے، جبکہ ’

نملۃ

‘ نکرہ ہے۔ گویا کسی زاویے سے بھی اس لفظ کا یہ مفہوم لینا ممکن نہیں۔

    پرویز صاحب کا یہ انداز تفسیر صرف سورۂ نمل ہی تک محدود نہیں، بلکہ انھوں نے پورے قرآن کو اسی انداز میں سمجھنے او رسمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اس اسلوب تفسیر سے قرآن مجید کا انداز خطابت اس کے محاسن او رخبردار کر دینے والا منفرد انداز کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا یہی وہ کلام ہے جس نے انسانی تاریخ کا نقشہ بدل دیا تھا؟

    سورۂ تکویر، قرآن مجید کے ان مقامات میں سے ہے، جہاں قیامت کا بیان ہوا ہے۔ اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس دن کا منظر کھینچا ہے جس دن یہ نظام کائنات لپیٹ دیا جائے گا۔ یہاں قرآن کا انداز رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ اسے پڑھتے ہوئے ایک صاحب دل پر جو کیفیت طاری ہوتی ہے، الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو خبر کے انداز میں مخاطب کرتے ہیں:

اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ۔ وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ۔ وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ وَاِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ وَاِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ وَاِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَاِذَا السَّمَآئُ کُشِطَتْ وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ وَاِذَا الْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَتْ۔(التکویر ۸۱: ۱-۱۴)
   ’’جبکہ سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور تارے بے نور ہو جائیں گے، اور پہاڑ چلا دیے جائیں گے اور دس ماہہ گابھن اونٹنیاں آوارہ پھریں گی، اور وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے اور سمندر ابل پڑیں گے، جبکہ نفوس کی جوڑیں ملائی جائیں گی، اور زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی! جبکہ اعمال نامے کھولے جائیں گے اور آسمان کی کھال کھینچ لی جائے گی، جبکہ دوزخ بھڑکا دی جائے گی اور جنت قریب لائی جائے گی۔ تب ہر جان کو پتا چلے گا کہ وہ کیا لے کر آئی ہے۔‘‘

    پرویز صاحب اس سورہ کا ترجمہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ (کسی آنے والے دور میں، جب انسانوں کے خود ساختہ نظام تمدن و معاشرت کی جگہ قرآنی نظام لے لے گا تو اس وقت کی انقلابی کیفیات سے متعلق یوں سمجھو کہ) ملوکیت کا نظام لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا اور ان کے اہالی موالی ( چھوٹی چھوٹی ریاستیں) سب جھڑ کر نیچے گر جائیں گے۔ ان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ ان کی قوت ماند پڑ جائے گی اور پہاڑوں جیسے محکم امراء ا و ررؤسا اپنی اپنی جگہ سے ہل جائیں گے۔ او رجن ذرائع رسل و رسائل (مثلاً اونٹوں) کو اس وقت اتنی اہمیت دی جا رہی ہے وہ سب بے کار ہو جائیں گے او روحشی اور نامانوس قومیں بھی اجتماعی زندگی کی طرف آتی جائیں گی۔ اور سمندروں میں آمد و رفت کا سلسلہ اتنا وسیع ہو جائے گا کہ ہر وقت بھرے بھرے دکھائی دیں گے۔ اور ان کے کناروں کی بستیاں بھی بڑی آباد ہو جائیں گی۔ اور اطراف و اکناف عالم کی آبادیاں ایک دوسرے کے ساتھ ملتی جائیں گی۔ جب ان لڑکیوں کے متعلق، جنھیں معاشرہ زندہ درگور کر دیتا ہے اور ان بے چاریوں کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا تو پوچھا جائے گا کہ انھیں بالآخر کس جرم کی پاداش میں ذبح کیا جاتا رہا؟ ( یعنی عورتوں کو ان کے حقوق دلائے جائیں گے)۔ اور اخبارات و رسائل جگہ جگہ پھیل جائیں گے۔ او راجرام فلکی پر پڑے ہوئے پردے، ایک ایک کر کے اٹھتے چلے جائیں گے( ان کے حالات دریافت کیے جائیں گے)۔
 ( تو اس وقت خداکے قانون مکافات کا عمل تیز تر ہو جائے گا، کیونکہ اس وقت آخر الامر وہ نظام متشکل ہو جائے گا جس میں ہر معاملہ انصاف اور قانون کے مطابق طے پائے گا۔ لہٰذا اس کی رو سے ) مجرمین کے لیے جہنم کے شعلے زیادہ تیزی سے بھڑک اٹھیں گے۔ اور اس نظام کی پابندی کرنے والوں کے لیے جنتی معاشرہ قریب تر لایا جائے گا، یعنی اس وقت ہر شخص اپنے اپنے عمل کے نتائج اپنے سامنے بے نقاب دیکھ لے گا۔‘‘ (مفہوم القرآن ۳/ ۱۴۱۸-۱۴۱۹)

    اگر سورۂ تکویر کی آیات کا یہی مطلب لیا جائے جو ’’مفہوم القرآن‘‘ میں بیان کیا گیا ہے تو قرآن مجید کے بارے میں کسی حسن ظن کا امکان باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید کی ان آیات میں اتنا اثر ہے کہ یہ ایک حساس آدمی کی قلبی کیفیات کو تبدیل کر دیتی ہیں۔ جرم کی طرف بڑھتے قدم رک جاتے ہیں۔ انسان نیکی کی طرف پیش قدمی کرتا ہے اور ان جملوں کا اثر قاری کی روح تک میں اتر جاتا ہے، لیکن پرویز صاحب کا ترجمہ درست تسلیم کر لینے سے، پڑھنے والے کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ اس کے دل کی دنیا بدلتی ہے اور نہ اس کا اثر اس کے اعمال پر ہوتا ہے۔ اور آدمی سوچتا ہے کہ کیا یہی وہ کلام ہے جسے سن کر لبید نے شعر کہنا ترک کر دیا تھا۔

    پرویز صاحب کے اس ترجمے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ باتوں سے، دانستہ دامن بچا کر گزرنا چاہتے ہیں۔ وہ قرآن کے منہ میں اپنی بات ڈالنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ، یہ تفسیر بالراے کی بدترین مثال ہے۔

    بعض لوگوں کے نزدیک پرویز صاحب کے فکر میں پائی جانے والی سب سے بڑی ضلالت ’’انکار حدیث‘‘ ہے، لیکن ہمارے نزدیک انھوں نے قرآن فہمی کے جو اصول متعین کیے ہیں، وہی ان کی گمراہی کا بنیادی سبب ہیں۔ قرآن مجید سے غلط استدلال کی وجہ سے انھوں نے بے شمار چیزوں کا انکار کیا۔ حدیث ، معجزہ، جنات وغیرہ کا شمار اسی فہرست میں ہوتا ہے۔ اگر وہ قرآن کو صحیح اصولوں کی بنیاد پر سمجھتے تو انھیں ان سب کا ثبوت قرآن ہی سے مل جاتا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور منصب رسالت کو ایک واضح اسلوب میںبیان کیا گیا ہے۔ ان تصورات کو جان لینے کے بعد ان چیزوں کے انکار کے لیے کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

[ستمبر۱۹۹۰] 

 ــــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

  ۱؎ کلام اقبال سے کلام اللہ کی تمثیل ابلاغ مدعا کے لیے ہے، ورنہ قرآن مجید کا مقام اس سے بلند تر ہے کہ اسے کسی انسانی کلام کی مثل قرار دیا جائے۔