HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

احیاے امت کی کوششوں پر ایک نظر

  اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اس وقت جہاں کہیں بھی ہیں، بحیثیت قوم اور امت، کسی نہ کسی بحران میں مبتلا ہیں۔ اسلامی ممالک میں ان کے مسائل کی نوعیت کچھ اور ہے اور جہاں وہ اقلیت میں ہیں، وہاں انھیں دوسری طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔ اہل اسلام میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنھیں ان مسائل و مشکلات کا اندازہ ہے اور وہ اپنے طور پر امت کو ان بحرانوں سے نکالنے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی کوشش ہے جس کی تحسین ہی کی جانی چاہیے اور ایسے لوگ یقینا یہ حق رکھتے ہیں کہ اس کارخیر میں ان کی مدد کی جائے۔ ان کی امداد و تائید کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس سعی و جہد کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے انھیں ایسے امور کی طرف متوجہ کیا جائے جو ایک بہتر حکمت عملی کی تشکیل میں ان کے معاون ہوں۔

    ایسی تحریکوں کے لیے حکمت عملی کی جو اہمیت ہے، شاید محتاج بیان نہیں۔ کسی کام کے لیے جذبہ اور ارادہ اگر روح ہے تو حکمت عملی اور لائحۂ عمل اس کا جسم۔ روح کے بغیر اگر جسم مردہ ہے تو روح بھی اس وقت تک عالم موجود میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی، جب تک اسے جسم کا لباس میسر نہ ہو۔ لباس اگر رسم و رواج کے مطابق ہو تبھی بھلا لگتا ہے، ورنہ وہ مضحکہ خیز چیز بن کر جگ ہنسائی کا باعث ہوتا ہے۔ لہٰذا حکمت عملی اگر عملی مسائل و حالات سے ہم آہنگ نہ ہو تو کامیابی کے بجاے ناکامی اور تضحیک کا باعث بن سکتی ہے۔

   نو آبادیاتی عہد کے خاتمے کے بعد جب انسانی آزادی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تو اس سے استفادہ کرنے والوں میں مسلمان بھی شامل تھے۔ نئی جغرافی تقسیم کے تحت جو مملکتیں وجود میں آئیں، ان میں بہت سی ایسی بھی تھیں جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور ان نو آزاد ریاستوں کی سیاسی قیادت مسلمانوں کے ہاتھوں میں آ گئی۔ ان ممالک میں اقتدار بالعموم انھی لوگوں کے ہاتھ لگا جو مسلمان تو تھے ،لیکن اسلام سے ان کا فکری و عملی تعلق محض رسمی تھا۔ لہٰذا وہ ایسی ذمہ داریوں سے بے خبر تھے جو اس وقت ان پر بطور خاص عائد ہوتی ہیں جب کسی خطۂ زمین کا انتظام و اہتمام ان کے ہاتھ ہو۔ نو آبادیاتی دور یا عہد غلامی میں خود مسلمانوں کے اندر ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے مسلمانوں کی آزادی کے لیے شعوری کوششیں کیں۔ یہ کوششیں تین طرح کی تھیں: ایک تو یہ کہ کچھ لوگ اٹھے اور انھوں نے چاہا کہ بزور شمشیر غلامی کی زنجیروں کو کاٹ دیا جائے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں ابھرنے والی تحریک مجاہدین جو ۱۸۳۱ ء میں تمام ہوئی یا پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی۔ ایسے لوگوں کی قیادت روایتی علما کے ہاتھ رہی۔ دوسرا گروہ وہ تھا جس نے کوشش کی کہ مسلمانوں میں فکری و علمی بیداری پیدا ہو اور سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے آزادی حاصل کی جائے۔ ہندوستان ہی کی مثال لیجیے تو سر سید احمد خان اور مسلم لیگ کو اس انداز فکر کا نمایندہ کہا جا سکتا ہے۔اس تحریک کی قیادت ان لوگوں نے کی جو دین سے لگائو تو رکھتے تھے، لیکن ان کی تمام تعلیم و تربیت ان اداروں میں ہوئی، جو مغربی علوم اور نظام تعلیم کے حامل تھے۔ یہ دونوں تحریکیں یا ان کے اثرات کچھ نمایاں ہوئے تو ان کی خوبیاں اور خامیاں سامنے آنے لگیں۔ پھر ان کے امتزاج (synthesis)سے تیسری سوچ پیدا ہوئی جو مسلمانوں کی علمی اور سیاسی روایت سے آگاہی کے ساتھ ساتھ نئے افکار اور جدید انداز سیاست سے بھی واقفیت رکھتی تھی۔ اس فکر کے علم برداروں کے ہاں اپنی تہذیب اور روایت کے ساتھ عصبیت تو اسی طرح قائم رہی، جس طرح روایتی علما میں تھی لیکن جدید فکر و سیاست کے علم کے باعث انھوں نے عسکریت کے بجاے جمہوریت کی راہ اپنائی۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے دینی فکر و فلسفے کو نئے پیراہن میں پیش کیا۔ ہندوستان میں علمی سطح پر اس سوچ کا ظہور ’’ندوۃ العلما‘‘کی صورت میں ہوا اور عملی سیاست میں ’’جماعت اسلامی‘‘کی شکل میں۔ جمہوریت کے قائل ہونے کے باوجود یہ لوگ اپنے فکر و فلسفے کے اعتبار سے دوسرے طبقے سے یقینا مختلف لوگ تھے۔

    آزادی کے بعد مسلمان ممالک میں بالعموم اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ آیا جو دوسرے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ مسلمان تو تھے، لیکن جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ وہ اسلامی ریاست کے اصول و مبادی سے آگاہ نہیں تھے۔ اور انھوں نے مغربی طرز کی ریاست کو مثال قرار دیتے ہوئے ان نئی مملکتوں کا نظام چلانا چاہا۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کی ترقی اسی طرح ممکن تھی۔ تیسری سوچ کے حاملین ان نو آزاد ریاستوں میں حزب اختلاف کے طور پر سامنے آئے۔ اس طرح آزاد ہوتے ہی ایک نئی کشمکش کا آغاز ہوگیا۔ اس کشمکش نے بعد میں تصادم کی صورت اختیار کر لی۔ مصر اور پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں تو حکومت اور اسلامی تحریک کے مابین معاملہ سیاست کے دائرے ہی تک محدود رہا، لیکن مصر میں یہ پر تشدد تصادم میں بدل گیا اور کئی عظیم المرتبت مسلمان شخصیات اس کی نذر ہو گئیں۔

    پچیس تیس سال کے اس تجربے نے مسلمانوں میں اس پہلو سے بیداری پیدا کی کہ اسلامی ریاست یا نظام اسلام کا تصور مضبوط ہوا۔ اہل اسلام میں اپنے تشخص کا احساس پیدا ہوا اور ان کو یہ خیال ہوا کہ وہ ایک ایسے دین کے علمبردار ہیں جو مضبوط علمی بنیادیں رکھتا ہے، لہٰذا اسے ہی دنیا پر غالب ہونا چاہیے۔ اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جو یہ استحقاق رکھتی ہے کہ دنیا کا انتظام و اقتدار ان کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی حکمت عملی کا ناقدانہ جائزہ لینے کی ضرورت بھی محسوس کی۔ ان تحریکوں کوبنیادی طور پر یہ المیہ پیش آیا کہ ان میں پھر کوئی ایسی شخصیت پیدا نہیں ہو سکی جو علمی و عملی میدانوں میں مجتہدانہ بصیرت کی حامل ہو اور وقت کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر ایسی حکمت عملی مرتب کر سکے جس کو اپنا کر اسلامی تحریک اپنی پیش قدمی جاری رکھ سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سے قیمتی ماہ و سال جو تجربات کی نذر ہو گئے، ضائع ہونے سے بچ جاتے۔

    گذشتہ تجربات کی روشنی میں، اس وقت دنیا میں اسلامی تحریکیں دو طرح کے لائحۂ عمل اختیار کیے ہوئے ہیں: ایک تو یہ کہ قوت بازو کے ساتھ زمام کار چھین کر اقتدار پر قبضہ کیا جائے اور جہاں مسلمان مفتوح ہیں، وہاں جہاد و قتال کے ذریعے سے آزادی حاصل کی جائے۔ دوسرا نظریہ پرامن جدوجہد کاہے، یعنی سیاسی اور جمہوری انداز میں جدوجہد کرتے ہوئے خود مسلمان ممالک میں تبدیلی لائی جائے اور غلامی سے آزادی حاصل کی جائے۔ جہاں تک پہلی راے کا تعلق ہے تو اس کی تشکیل میں افغانستان کے جہاد کا ایک خاص کردار ہے، یہ جہاد بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں میں ایک جذبے کی بیداری کا باعث بنا۔ اتفاق سے ایک عالمی قوت کے مفادات بھی اس کے متقاضی تھے کہ وہ اس جہاد کی تائید کرے۔ اس وجہ سے جب دنیا بھر کے مسلمان افغانستان پہنچنا شروع ہوئے تو انھیں اس سفر میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ مسلمانوں کو اس جہاد میں کامیابی ہوئی جس کے نتیجے میں ایک عالمی قوت پسپا ہونے پر مجبور ہوئی۔ اس جنگ کی کامیابی میں جو دیگر عوامل کار فرما رہے، ان سے ہم دانستہ صرف نظر کرتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ اس معرکے میں سرخروئی نے مسلمانوں میں یہ اعتماد پیدا کیا کہ وہ بزورشمشیر ایک ماحول کو بدل سکتے ہیں۔ اس جہاد کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ روایتی مذہبی طبقے جو ایک عرصہ سے مسلمانوں کی اجتماعیت میں کوئی موثر کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے تھے، ان کا بھی احیا ہوا۔ پاکستان میں مولانا مودودی کی فکری مساعی اورجماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کے زیر اثر اگرچہ’’اسلامی انقلاب‘‘ اور’’اسلامی نظام‘‘ جیسی اصطلاحیں ان لوگوں کے ہاں پہلے ہی سے مستعمل تھیں، لیکن جہاد افغانستان سے ان میں اضافی طور پر جہاد کا وہ جذبہ بھی، ایک بار پھر پیدا ہوا جس کی نسبت سے وہ اپنے آپ کو سید احمد شہید ،شاہ اسماعیل یا مولانا محمود حسن کا جانشین کہتے ہیں۔

    افغانستان کا معرکہ جب ختم ہوا تو یہاں سے تربیت اور جذبۂ جہاد حاصل کرنے والے مسلمانوں نے یہ چاہا کہ وہ دیگر ایسے محاذوں پر سرگرم ہو جائیں، جہاں مسلمان مظلوم ہیں یا پھر غلام ہیں۔ چنانچہ کشمیر، فلپائن اور برما وغیرہ میں ان عسکری قوتوں کا احیا ہوا یا انھیں تقویت ملی جو قتال کو آزادی کا واحد راستہ سمجھتی ہیں۔ خود مسلمان ممالک کے اندر بھی یہ تحریک پیدا ہوئی کہ سیکولر حکمرانوں کو ہٹانے کی واحد صورت اب جہاد ہی ہے۔ مصر اور الجزائر وغیرہ میں تو یہ جہاد عملاً شروع بھی ہو گیا۔ پاکستان چونکہ ایک جمہوری معاشرہ ہے اور یہاں پر موجود اسلامی جماعتوں کو پچھلے تیس سالوں میں اپنی بات کہنے سے نہیں روکا گیا اور انھیں یہ حق حاصل رہا کہ وہ جمہوری طریقے سے اقتدار تک پہنچنا چاہیں تو ان کے لیے راستے کھلے ہیں، اس لیے پاکستان میں کسی عسکری جدوجہد کی کامیابی کا کوئی امکان پیدا نہ ہو سکا، تاہم یہاں احتجاجی سیاست کے ذریعے سے حالات کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کا جذبہ ضرور ابھرا۔

    پر امن اور سیاسی ذریعے سے تبدیلی کا راستہ ترکی، ملائشیا اور اب فلپائن میں اختیار کیا گیا۔ ترکی آئینی طور پر ایک سیکولر ملک ہے، لیکن وہاں کی اسلامی تحریک نے اس حقیقت کو قبول کرتے ہوئے جمہوری اور آئینی طریقے سے تبدیلی کی تحریک کا آغاز کیا۔ ملائشیا کی اسلامی تحریک کے ایک حصے نے جناب انور ابراہیم کی قیادت میں اپنے عہد کے سیاسی حقائق کو پیش نظر رکھ کر ایک مہم شروع کی۔ فلپائن میں مورو نیشنل لبریشن فرنٹ کے رہنما نور مپوری نے آزادی کے لیے تصادم کا طریقہ ترک کر دیا۔

    آج یہ دونوں طرح کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔ اور ان پر غور کر کے ہم بہتر طور پر یہ راے قائم کر سکتے ہیں کہ کس حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کے حصے میں کوئی خیر آیا اور کس لائحۂ عمل کا نتیجہ تباہی اور بربادی کی صورت میں نکلا۔ اور اگر مسلمان ان پر غور کریں تو وہ مستقبل میں ایسا راستہ اپنا سکتے ہیں جس سے جہاں وہ جانی اور مالی نقصان سے ممکن حد تک محفوظ رہیں، وہاں ان کے اندر اپنے مستقبل کے بارے میں امید بھی پیدا ہو۔

    جہاں تک جہاد کے نام پر قتال اور تصادم کی حکمت عملی کا تعلق ہے تو وہ پوری طرح ناکام رہی ہے۔ افغانستان میں معاملے کی نوعیت دیگر مقامات سے مختلف ہے۔ وہاں مسلمان کسی سے لڑنے نہیں گئے تھے، بلکہ ایک طاقت برہنہ جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے ان پر چڑھ دوڑی تھی۔ اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لیے برسرپیکار ہو جائیں۔ یہ ہر طرح سے ایک دفاعی اقدام تھا۔ پھر انھیں ایک عالمی قوت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کی تائید اور نصرت بھی حاصل تھی۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایک اسلامی ملک پاکستان ان کی پشت پر تھا ،جس کی حمایت جغرافی اعتبار سے انتہائی اہم تھی۔ افغانستان کے علاوہ جہاں کہیں مسلمانوں نے یہ چاہا کہ وہ قتال کے ذریعے سے اقتدار تک پہنچیں یا آزادی حاصل کریں،وہاں انھیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔

    فلپائن میں چوبیس سال تک یہ کوشش کی گئی کہ مسلمان لڑ بھڑ کر منڈانو (Mindanao)کو آزاد کرالیں، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اس دوران میں انھوں نے جہاں دیگر نقصانات اٹھائے، وہاں ایک لاکھ پچیس ہزار انسانی جانیں بھی گنوائیں۔ کشمیر میں پچھلے سات آٹھ سالوں۱؎ میں مسلمانوں نے جو دکھ اور صدمے اٹھائے ،وہ ناقابل بیان ہیں، لیکن اب بھی دور دور تک آزادی کی شمع روشن ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ دوسری طرف جہاں مسلمانوں نے پر امن جدوجہد کا راستہ اپنایا، وہاں وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اس منزل کے حصول کی امید ہو چلی ہے جسے وہ اسلامی انقلاب کہتے ہیں اور جس کا خواب وہ ایک مدت سے اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ترکی کو دیکھیے، وہاں کی رفاہ پارٹی نے تانسو چیلر صاحبہ کی حکومت کے خلاف ایک تحریک چلائی جس کے نتیجے میں انھیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ چیلر سیکولر نظریات رکھتی ہیں اور ان کا جھکائو ہمیشہ مغرب کی طرف رہا۔ اس کے علاوہ جب انھیں اقتدار سے علیحدہ کیا گیا تو اس کا جواز ان کی بدعنوانی کو بنایا گیا۔نئے انتخابات کے بعد انھوں نے یہ پوری کوشش کی کہ وہ ایک دوسری سیکولر جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں تاکہ رفاہ پارٹی ایوان اقتدار سے باہر رہ سکے جو انفرادی طور پر نئے پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستوں کی حامل تھی۔ وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہے، لیکن یہ چند روز ہی چل سکی۔ اس کے بعد رفاہ پارٹی نے انھی محترمہ سے مل کر حکومت بنائی جس کے نتیجے میں اسلامی تحریک کے اہم رہنما نجم الدین اربکان ترکی کے وزیراعظم بنے۔ نئی حکومت نے ان کی زیر قیادت جو اقدام کیے، ان میں سے ایک اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدہ بھی ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تجارت ہوگی اور ان کے عسکری ماہرین بھی ایک دوسرے کو فنی اور فوجی تربیت دیں گے۔۲؎

    اس بات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہ ماضی بعید میں رفاہ پارٹی کی حکمت عملی کیا رہی،اگر انھی چند اقدامات کو بنیاد بنایا جائے تو ایک پہلو سے ان پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے۔ ایک قیادت کو آپ حکومت سے الگ کرتے ہیں جو مسلمہ طور پر سیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ کرپٹ اور بددیانت بھی ہے اور جو اس بات کی پوری کوشش کرتی رہی کہ آپ کی اسلامی جماعت حکومت نہ بنا سکے اب اگر آپ انھی سے معاہدہ کرتے ہوئے، انھیں اپنی حکومت میں نائب صدر اور وزارت خارجہ کے عہدے پیش کرتے ہیں تو اسلامی تعلیمات کے تحت اس کا کیا جواز ہے ؟ پھر آپ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں، جبکہ وہ مسلمانوں کے نزدیک متفقہ طور پر ناجائز طریقے سے قائم کی گئی ایک غاصبانہ ریاست ہے۔

    لیکن اسے اب ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے، اربکان نے وزیر اعظم بننے کے بعد امت کی سطح پر بیداری اور تعاون کی ایک فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے انڈونیشیا، ایران، بنگلہ دیش ،ملائشیا ، مصر، لیبیا، نائیجیریا اور پاکستان کا دورہ کیا اور مسلمانوں کے مابین تعاون کے لیے راستہ ہموار کرنے کی سعی کی۔ امریکہ اور دیگر اقوام کی مخالفت کے باوجود وہ لیبیا گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر قذافی کی بے بصیرتی سے اس کا کوئی فائدہ نہ ہو سکا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ترقی یافتہ ممالک کی معاشی تنظیم جی- ۷(G-7)کی طرز پر مسلم ممالک کی معاشی تنظیم ڈی- ۸ (D-8)کا تصور دیا۔ جنوری ۱۹۹۷ میں جب ترکی میں آٹھ اسلامی ممالک کے وزراے خارجہ کی کانفرنس ہوئی تو انھوں نے اپنی تقریر میں مسلمان ممالک کے درمیان باہمی تجارت کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے عالمی تجارت میں ڈالر کی بالادستی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ ڈالر میں آخر اس کے علاوہ کیا خاص بات ہے کہ وہ ایک ملک کا سکہ ہے۔ اس سے قبل جب وہ ترکی کی ایوان صنعت و تجارت کے سیکرٹری جنرل تھے تو بھی انھوں نے یورپین اکنامک کیمیونٹی (EEC)کے ساتھ ترکی کی وابستگی پر تنقید کی۔۳؎ اب اگر اربکان زمینی حقائق کو تسلیم کرنے کے بجاے ان سے تصادم کی راہ اپناتے اور یہ اعلان کر دیتے ہیں کہ وہ سیکولر آئین کے تحت کسی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے یا پھر ایک سیکولر نظریات کی حامل جماعت سے تعاون نہیں کریں گے تو وہ اس منصب پر کسی طرح نہ پہنچ پاتے جہاں وہ آج بیٹھے ہیں اور مسلمان اس خیر سے محروم رہتے جو ان کی اس منصب آرائی سے وابستہ ہے۔

    اب ایک نظر ملائشیا پر ڈالیے ،بلا شبہ ،ملائشیا اس عہد میں معاشی طور پر ابھرتا ہوا ایک ملک ہے۔ گذشتہ آٹھ سال سے اس کی ترقی کی شرح میں مسلسل آٹھ فی صد اضافہ ہو رہا ہے جو چین کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ تسلیم کی جاتی ہے۔ بیس ملین آبادی کے اس ملک میں بے روز گاری براے نام ہے۔۱۹۹۷ء میں جب کو الالمپور میں سٹیٹ آئل کمپنی کی عمارت مکمل ہو گی تو یہ دنیا کی بلند ترین عمارت ہو گی۔ دریاے کلنگ کے کنارے تجارتی اغراض کے لیے جو عمارت تعمیرہو رہی ہے ،وہ دو کلو میٹر تک لمبی ہے اور اسے بھی دنیا کی طویل ترین عمارت ہونے کا اعزاز حاصل ہوگا۔ اسلامی علم و تحقیق کے اعلیٰ ادارے وہاں موجود ہیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے علاوہ عالمی ادارۂ فکراسلامی(IIIT)اور بین الاقوامی ادارہ براے اسلامی فکر و تہذیب (ISTAC) اس ضمن میں بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ یہ وزیر اعظم مہاتیر محمد کی قیادت کا ثمر ہے جو ۹۸۱ ۱ ء سے مسلسل تخت اقتدار پر فائز ہیں۔ یہ تب ہی ممکن ہو سکا کہ وہاں کی اسلامی تحریک کے ایک گروپ نے انور ابراہیم کی قیادت میں حکومت سے تصادم کے بجاے تعاون کا راستہ اپنایا اور وہاں سیاسی استحکام پیدا ہوا۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ انور ابراہیم وہاں کے ڈپٹی وزیر اعظم ہونے کے علاوہ سیاست میں مہاتیر محمد کے نائب ہیں اورگمان غالب یہی ہے کہ وہ سیاست اورحکومت دونوں جگہوں پر ان کے جانشین ہوں گے۔۴؎

    فلپائن میں مورو نیشنل لبریشن فرنٹ(MNLF)گذشتہ چوبیس سال سے حکومت کے ساتھ تصادم کی راہ اپنائے ہوئے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے، لیکن اب ان کے ایک گروہ کو یہ خیال ہوا کہ اس تصادم کا کوئی فائدہ نہیں۔ صدیوں پرانا قضیہ یوں حل ہونے کا نہیں۔ چنانچہ انھوں نے نورمپوری کی قیادت میں فلپائن کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ انڈونیشیا کے صدر سہارتو نے ثالث کا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں فریقین کے مابین ستمبر۱۹۹۶ میں ایک تاریخی معاہدہ طے پایا۔ اس معاہدے کے تحت فوری طور پر جنوبی فلپائن کونسل براے امن و ترقی کے قیام کا فیصلہ ہوا اور تین برس بعد اس خطے میں خود مختاری کے لیے لوگوں کی راے معلوم کی جائے گی۔ اس معاملے کو پوری طرح حل کرنے میں ابھی کچھ دشواریاں درپیش ہیں۔ مثال کے طور پر لبریشن فرنٹ کے تیس ہزار افراد کو ابھی غیر مسلح کرنا ہے۔ اسی طرح ان پانچ لاکھ مہاجرین کو دوبارہ آباد کرنا ہے جو مشرقی ملائشیا کے علاقے سباح میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

    ان دونوں طرح کے تجربات کو اگر سامنے ر کھا جائے تو صاف د کھائی دیتا ہے کہ عسکری جدوجہد کہیں بھی کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو سکی،۵؎ جبکہ پر امن اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر مرتب کی گئی حکمت عملی کے نتیجے میں اسلامی قوتیںمضبوط ہوئیں اور انھوں نے جہاں واضح پیش رفت کی ہے، وہاں جانی اور مالی ضیاع بھی کم ہوا ہے، اس لیے ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ کے احکام اورعقل و حکمت کی روشنی میں مسلمانوں کو ہر جگہ پر امن جدوجہد کی حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ اور زمینی حقائق کو کسی طرح نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

    اب اس نقطۂ نظر پر دو طرح کے اعتراضات ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ یہ مشورہ مصلحت پسندی پر مبنی ہے۔ دین چونکہ حق پسند ہے، اس لیے کسی مصلحت کو قبول نہیں کرتا۔ دوسرا اعتراض یہ ہو سکتا ہے کہ یہ سہل پسندی اور تن آسانی کا اظہار اور جدوجہد سے جان چھڑانے کا نسخہ ہے۔ اور اس فلسفۂ جہاد کے بھی خلاف ہے جس کے تحت مسلمانوں کو جان اور مال کے ساتھ مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہونے کوکہا گیا ہے۔

    جہاں تک پہلے اعتراض کا تعلق ہے تو جان لیجیے کہ دین کسی طرح مصلحت کے خلاف نہیں۔ مصلحت کا مفہوم یہ نہیں کہ آپ دین کو چھوڑ بیٹھیں یا کسی وقتی منفعت کے پیش نظر اس میں تحریف گوارا کر لیں۔ مصلحت یہ ہے کہ آپ اپنی قوت کا درست اندازہ لگائیں اور پھر اس کی رعایت رکھتے ہوئے وہ حکمت عملی ترتیب دیں جو آپ کے کام کو آگے بڑھا سکے۔ اس طرح آپ یہ بھی دیکھیں کہ موجودہ حالات میں وہ کیا امکانات ہیں، جنھیں آپ مثبت طورپر اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم جس چیز کی نفی کر رہے ہیں، وہ ایسا لائحۂ عمل ہے جس کے تحت مصنوعی طور پر ایک جذباتی فضا تیار کی جاتی اور پھر مسلمانوں کو کئی گنا بڑی قوت سے ٹکرا دیا جاتا ہے، جیسے کہیں چند سو افراد کلاشن کوفوں سے مسلح ہو کر کسی ریاست پر قبضے کے لیے یا آزادی کے لیے ٹکرا جائیں۔ اب ان کا یہ جو انجام ہو گا، اس کو سمجھنے کے لیے کسی حکمت لقمان کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح مخالف کی قوت کا جائزہ مقدار کے اعتبار ہی سے نہیں کمیت کے پہلو سے بھی لگانا چاہیے۔ اس کی برتری کا اصل راز کیا ہے۔ وہ آج اس مقام تک کیسے پہنچا کہ اس نے لوگوں کو اپنی ذہنی یا سیاسی غلامی میں لیا۔ آج تک ہماری عسکری جدوجہد اگر ناکام ہوتی رہی ہے تو اس کا بڑا سبب یہ بھی رہا کہ ہم نے محض جذبات کی قوت سے دنیا کو فتح کرنا چاہا اور اسے ہی جہاد کی صحیح تعبیر سمجھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ نے تحریک مجاہدین کی ناکامی کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:


’’...ان بزرگوں کے مقابلہ میں کئی ہزار میل دور سے آئے ہوئے انگریزوں کو کس قسم کی فوقیت حاصل تھی جس کی وجہ سے وہ تو یہاں جاہلی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ خود اپنے گھر میں اسلامی حکومت قائم نہ کر سکے ؟ اس کا صحیح جواب آپ نہیں پا سکتے، جب تک کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی کے یورپ کی تاریخ آپ کے سامنے نہ ہو۔ شاہ صاحب اور ان کے خلفا نے اسلام کی تجدید کے لیے جو کام کیا اس کی طاقت کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھیے اور دوسرے پلڑے میں اس طاقت کو رکھیے جس کے ساتھ ان کی ہم عصر جاہلیت اٹھی تھی تب آپ کو پورا اندازہ ہوگا کہ اس عالم اسباب میں جو قوانین کار فرما ہیں، ان کے لحاظ سے دونوں طاقتوں میں کیا تناسب تھا۔ میں مبالغہ نہ کروں گا، اگر یہ کہوں کہ ان دونوں قوتوں میں ایک تولے اور من کی نسبت تھی، اس لیے جو نتیجہ فی الواقع رونما ہوا اس کے سوا اور کچھ نہ ہو سکتا تھا۔
  جس دور میں ہمارے ہاں شاہ ولی اللہ صاحب، شاہ عبدالعزیز صاحب اور شاہ اسمٰعیل شہید پیدا ہوئے، اسی دور میں یورپ قرون وسطیٰ کی نیند سے بیدار ہو کر نئی طاقت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا اوروہاں علم و فن کے محققین مکتشفین اور موجدین اس کثرت سے پیدا ہوئے تھے کہ انھوں نے ایک دنیا کی دنیا بدل ڈالی۔...
پریس کے استعمال، اشاعت کی کثرت، اسالیب بیان کی ندرت، اور مشکل اصطلاحی زبان کے بجاے عام فہم زبان کو ذریعۂ اظہار خیال بنانے کی وجہ سے ان لوگوں کے خیالات نہایت وسیع پیمانے پر پھیلے۔ انھوں نے محدود افراد کو نہیں،بلکہ قوموں کو بحیثیت مجموعی متاثر کیا۔ ذہنیتیں بدل دیں، اخلاق بدل دیے، نظام تعلیم بدل دیا، نظریہ اور مقصد زندگی بدل دیا اور تمدن و سیاست کا پورا نظام بدل دیا۔
اسی زمانہ میں انقلاب فرانس رونما ہوا جس سے ایک نئی تہذیب پیدا ہوئی۔اسی زمانہ میں مشین کی ایجاد نے صنعتی انقلاب برپا کیا جس نے ایک نیا تمدن، نئی طاقت اور نئے مسائل زندگی کے ساتھ پیدا کیے۔ اسی زمانہ میں انجینئرنگ کو غیر معمولی ترقی ہوئی جس سے یورپ کو وہ قوتیں حاصل ہوئیں کہ پہلے دنیا کی کسی قوم کو حاصل نہ ہوئی تھیں۔ اسی زمانہ میں قدیم فن جنگ کی جگہ نیا فن جنگ، نئے آلات اور نئی تدابیر کے ساتھ پیدا ہوا۔ باقاعدہ ڈرل کے ذریعہ فوجوں کو منظم کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ جس کی وجہ سے میدان جنگ میں پلٹنیں مشین کی طرح حرکت کرنے لگیں اور پرانے طرز کی فوجوں کا ان کے مقابلہ میں ٹھہرنا مشکل ہو گیا۔ فوجوں کی ترتیب اور عساکر کی تقسیم اور جنگی چالوں میں بھی پیہم تغیرات ہوئے اور ہر جنگ کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اس فن کو برابر ترقی دی جاتی رہی۔ آلات حرب میں بھی مسلسل نئی ایجادیں ہوتی چلی گئیں۔ رائفل ایجاد ہوئی۔ ہلکی اور سریع الحرکت میدانی توپیں بنائی گئیں۔ قلعہ شکن توپیں پہلے سے بہت زیادہ طاقت ور تیار کی گئیں اور کارتوس کی ایجاد نے نئی بندوقوں کے مقابلہ میں پرانی توڑے دار بندوقوں کو بے کار کر کے رکھ دیا۔ اسی کا نتیجہ تھاکہ یورپ میں ترکوں کو اور ہندوستان میں دیسی ریاستوں کو جدید طرز کی فوجوں کے مقابلہ میں مسلسل شکستیں اٹھانی پڑیں اور عالم اسلام کے عین قلب پر حملہ کر کے نیپولین نے مٹھی بھر فوج سے مصر پر قبضہ کر لیا۔
معاصر تاریخ کے اس سرسری خاکہ پر نظر ڈالنے سے بآسانی یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ ہمارے ہاں تو چند اشخاص ہی بیدار ہوئے تھے، مگر وہاں قومیں کی قومیں جاگ اٹھی تھیں۔ یہاں صرف ایک جہت میں تھوڑا سا کام ہوا اور وہاں ہر جہت میں ہزاروں گنا زیادہ کام کر ڈالا گیا، بلکہ کوئی شعبۂ زندگی ایسا نہ تھا جس میں تیز رفتار پیش قدمی نہ کی گئی ہو۔ یہاں شاہ ولی اللہ صاحب اور ان کی اولاد نے چند کتابیں خاص خاص علوم پر لکھیں جو ایک نہایت محدود حلقے تک پہنچ کر رہ گئی، اور وہاں لائبریریوں کی لائبریریاں ہر علم و فن پر تیار ہوئیں جو تمام دنیا پر چھا گئیں اور آخرکار دماغوں اور ذہنیتوں پر قابض ہو گئیں۔ یہاں فلسفہ، اخلاقیات، اجتماعیات، سیاسیات اور معاشیات وغیرہ علوم پر طرح نو کی بات چیت محض ابتدائی اور سرسری حد تک ہی رہی جس پر آگے کچھ کام نہ ہوا، اور وہاں اس دوران میں ان مسائل پر پورے پورے نظام فکر مرتب ہو گئے۔ جنھوں نے دنیا کا نقشہ بدل ڈالا،یہاں علوم طبیعیہ اور قوائے مادیہ کا علم وہی رہا جو پانچ سو سال پہلے تھا، اور وہاں اس میدان میں اتنی ترقی ہوئی اور اس ترقی کی بدولت اہل مغرب کی طاقت اتنی بڑھ گئی کہ ان کے مقابلہ میں پرانے آلات و وسائل کے زور سے کامیاب ہونا قطعاً محال تھا۔
حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانہ میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الہٰ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انھوں نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا، شاہ عبدالعزیز صاحب کے زمانہ میں دہلی کا بادشاہ انگریزوں کا پینشن خوار ہو چکا تھا اور قریب قریب سارے ہی ہندوستان پر انگریزوں کے پنجے جم چکے تھے، مگر ان کے ذہن میں بھی یہ سوال پیدا نہ ہوا کہ آخر کیا چیز اس قوم کو اس طرح بڑھا رہی ہے، اور اس نئی طاقت کے پیچھے اسباب طاقت کیا ہیں۔ سید صاحب اور شاہ اسماعیل شہید جو عملاً اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اٹھے تھے، انھوں نے سارے انتظامات کیے، مگر اتنا نہ کیا کہ اہل نظر علما کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے۔ اس کے گھر میں کس نوعیت کے ادارات قائم ہیں، اس کے علوم کس قسم کے ہیں۔ اس کے تمدن کی اساس کن چیزوں پر ہے ۔اور اس کے مقابلے میں ہمارے پاس کس چیز کی کمی ہے۔ جس وقت یہ حضرات جہاد کے لیے اٹھے ہیں، اس وقت یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہ تھی کہ ہندوستان میں اصلی طاقت سکھوں کی نہیں، انگریزوں کی ہے اور اسلامی انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی مخالفت، اگر ہو سکتی ہے تو انگریز ہی کی ہو سکتی ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح ان بزرگوں کی نگاہ دور رس سے معاملہ کا یہی پہلو بالکل ہی اوجھل رہ گیا کہ اسلام و جاہلیت کی کشمکش کا آخری فیصلہ کرنے کے لیے جس حریف سے نمٹنا تھا اس کے مقابلہ میں اپنی قوت کا اندازہ کرتے اور اپنی کمزوری کو سمجھ کر اسے دور کرنے کی فکر کرتے۔ بہر حال، ان سے یہ چوک ہوئی تو اس عالم اسباب میں ایسی چوک کے نتائج سے وہ نہ بچ سکتے تھے۔‘‘( تجدید و احیائے دین۱۲۳-۱۲۸)

    آج ہم سمجھتے ہیں کہ معاملات اس سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں جن کا مولانا مودودی نے ذکر کیا ہے۔ ان لوگوں کی قوت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے جو آپ کے مدمقابل ہیں۔ لہٰذا آج عسکری جدوجہد کی بات کرنا اسی تحریک مجاہدین کے عہد میں زندہ رہنے کے مترادف ہے، اگر ان جیسی برگزیدہ ہستیاں قوانین فطرت کے تابع ہیں تو کسی دوسرے کے لیے استثنا کی آخر کیا دلیل ہوسکتی ہے ؟

    اب دوسرے اعتراض کی طرف آئیے۔ یہ واقعہ ہے کہ پر امن جدوجہد کہیں مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ اس میں بعض اوقات اس کا کوئی امکان نہیں ہوتاکہ آپ اپنی کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ اس میں آپ کو چند روزہ زندگی کا ایثار نہیں کرنا ہوتا، بلکہ برس ہا برس اس جدوجہد میں کھپا دینا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی گلیمر بھی وابستہ نہیں ہوتا، لہٰذا یہ کہنا کسی طرح صحیح نہیں کہ یہ کوئی آسان راستہ ہے۔ اس طرح اس راہ میں بھی جان اور مال کی قربانی دینا ہوتی ہے، لیکن پرامن جدوجہد کے راستے پر دی جانے والی جان اپنے اثرات کے لحاظ سے کہیں زیادہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ جب آپ مظلوم ہوتے ہیں تو دنیا کی نظریں آپ کی طرف اٹھتی ہیں اور ان لمحوں میں وہ آپ کی بات بہتر طو رپر سنتے اور سمجھتے ہیں جو دعوت کے فروغ کا باعث ہوتی ہے۔ الجزائر میں جب اسلامک فرنٹ نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور انھیں بالجبر اقتدار سے دور رکھا گیا تو دنیا بھر میں وہ مظلوم قرار پائے اور ان کے حق میں آوازیں بلند ہونے لگیں۔ خود امریکہ کے اندر اس پرشدید ردعمل ہوا۔ بد قسمتی سے مسلمان اس فضا کو اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکے۔ اور انھوں نے پر امن جدوجہد کے بجاے پر تشدد رویہ اپنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج وہ دنیا میں اس تائید و حمایت سے محروم ہو چکے ہیں جو انھیں چند سال پہلے حاصل تھی۔

    ’’اشراق‘‘ کے ان صفحات میں، ہم یہ عرض کرتے رہے ہیں کہ حکمت عملی کوئی منصوص معاملہ نہیں ہے۔ اس پر دوبارہ غور کیا جا سکتا ہے اور نظر ثانی بھی۔ یہ اس امت کے اہل علم و فضل کا کام ہے کہ وہ معاملات کو حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھیں تاکہ مسلمانوں کے لہو کی ارزانی اور ان کے جذبات کا استحصال ختم ہو۔ وہ اپنے عہد کے چیلنج کو سمجھیں اور اس زبان میں دنیا سے ہم کلام ہوں جو اس وقت بولی جا رہی ہے ــــــیہ علم کی زبان ہے ــــــ یہ حکمت کی زبان ہے ــــــیہ دوسروں کے مکرکے مقابلے میں اپنی تدبیر کی زبان ہے ـــــ یہ مشکلات میں راستہ بنانے کی زبان ہے ـــــ اورمسلمان اگر یہ بات سمجھیں تو وہ یقینا اس پیغام کے حامل ہیں جو پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام ہے۔ وہ اس ہدایت کے علم بردار ہیں جو تمام پیغمبروں کی دعوت پر محیط ہے اور بلاشبہ مسلمان ہی دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو عالم انسانیت کو یہ بتا سکتی ہے کہ آخری بار آسمان نے زمین سے کیا بات کی تھی۔

[جون ۱۹۹۷] ​

 ــــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

۱؎ اب بیس سال۔
۲؎ ۲۰۰۷ ء میں بھی ترکی میں اسلامی فکر رکھنے والے طیب اردگان اور ان کی جماعت حکمران ہے۔
۳؎ اسی تنظیم کا نیا نام یورپین یونین (EU)ہے۔
۴؎ بدقسمتی سے یہ توقع پوری نہ ہو سکی۔ مہاتیر محمد اور انور ابراہیم میں اختلافات پیدا ہوئے جنھوں نے تصادم کی شکل اختیار کر لی۔ اس تصادم کے نتیجے میں انور ابراہیم کو ابتلا سے گزرنا پڑا اور عملی سیاست میں بھی ان کا کردار قابل ذکر نہیں رہا۔
۵؎ ناکامیوں کے اس باب میں افغانستان اور عراق کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔