ماچھی گوٹھ، اگرچہ پاکستان کا ایسا نمایاں شہر نہیںجو اپنی کسی انفرادی خصوصیت کی بنا پر کوئی شہرت رکھتا ہو، لیکن جماعت اسلامی کی تاریخ اس کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے۔ فروری ۱۹۵۷ میں اس مقام پر جماعت اسلامی کا کل پاکستان اجتماع ارکان منعقد ہوا۔ اس اجتماع سے قبل و بعد، واقعات کا ایک تسلسل ہے جو وقت کی سب سے بڑی اسلامی تحریک میں ایک بڑے انتشار کا باعث بنا۔ ان واقعات کی بنا پر وہ افراد جماعت سے الگ ہو گئے جو اپنی علمی و تحریکی حیثیت کی وجہ سے جماعت اسلامی کی صفوں میں نمایاں تر تھے۔ آج تینتیس سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی، اسلامی تحریکوں اور غلبۂ دین کی جدوجہد سے متعلق کسی شخص کو ان واقعات کا تذکرہ کچھ ایسے اداس کر دیتا ہے، جیسے غالب کو ذکر کلکتہ:
کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب انھی واقعات کے نتیجے میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئے۔ ان کے خیال میں جماعت اسلامی اپنے قیام کے اصل مقصد سے عملاً منحرف ہو گئی ہے، اس لیے انھوں نے قیام جماعت کے اصل مقصد کی تکمیل، یعنی اسلامی انقلاب کے لیے ایک نئی جماعت ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی جس کے وہ تا حیات امیر ہیں۔۱؎ ان کی کاوشوں کے جو نتائج اس دنیا میں متوقع ہیں، ان کے بارے میں تو کلام کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کا تعلق انسانی تدبیر سے ہے جو صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی۔ وہ اخلاص کے ساتھ اس جدوجہد میں مصروف ہیں تو دنیا کی کامیابی و ناکامی سے قطع نظر، آخرت میں ان کا اجر محفوظ ہے۔
اجتماع ماچھی گوٹھ اور اس سے متصل واقعات کا ذکر، ڈاکٹر صاحب کا پسندیدہ موضوع ہے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس موضوع پر سب سے زیادہ انھوں نے ہی لکھا ہے۔ ’’میثاق‘‘ کے جنوری اور مارچ ۱۹۹۰ کے شمارے انھی واقعات کے تذکرے پر مشتمل ہیں۔ ’’نقش غزل‘‘ کے عنوان کے تحت ، اپنے تجزیے میں ، ڈاکٹر صاحب نے ان واقعات سے بحث کی ہے جو ان کی دانست میں اس سانحے کا باعث بنے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے ان واقعات سے چند نتائج بھی اخذ کیے ہیں۔۲؎
جہاں تک ان واقعات کا تعلق ہے تو ہم اس معاملے میں فریق رہے ہیں، نہ کہ عینی شاہد۔ لہٰذا، ان کی روایت کے باب میں ہم اپنے حسن ظن ہی کا اظہار کر سکتے ہیں۔ البتہ، ہمیں ان نتائج کے بارے میں کچھ عرض کرنا ہے جو ڈاکٹر صاحب نے ان واقعات کے تحت بیان کیے ہیں یا جنھیں نظرانداز کیا ہے۔
اجتماعی معاملات میں اخلاقی اقدار کی اہمیت واضح ہے اور اگر معاملہ کسی اسلامی تحریک کا ہو تو یہ اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ ایک اسلامی جماعت کے قائد کی زندگی میں ایسے لمحات آ سکتے ہیں جب اس کی پسند اور اجتماعی ذوق میں مطابقت نہ ہو۔ اس کی انااور وقار ، جماعتی مفاد سے متصادم ہو۔ وہ مشرق کی جانب جانا چاہتا ہو اور جماعت کے قدم مغرب کی سمت اٹھ رہے ہوں۔یہ وقت ایک اسلامی تحریک کے راہنما کے لیے، بلاشبہ بہت کڑا ہوتا ہے۔ ایسے لمحوں میں وہ ، گویا ایک امتحان گاہ میں کھڑا ہوتا ہے، جہاں کامیابی کا مدار اس کے فہم و فراست اور بصیرت پر ہوتا ہے۔ اگر وہ اجتماعی ذوق کو اپنی پسند کے مطابق ڈھال لے اور جماعت کے قدم اسی سمت میں اٹھنے لگیں جس طرف وہ جانا چاہتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ اس کی بصیرت کا واضح ثبوت ہو گا، لیکن اگر نقطہ ہاے نظر کا اختلاف موجود رہے اور آراکے تضاد کو مٹانا ممکن نہ ہو تو جماعت کے مفاد اور مقصد کی لگن یہ تقاضا کرتی ہے کہ میر کارواں ذاتی انا اور پسند کی قربانی دیتے ہوئے جماعت کے ساتھ ہم قدم ہو جائے۔ اگر اس کی راے درست ہوئی تو قافلے والوں کو چند قدم چلنے کے بعد اپنی غلطی کا احساس ہو جائے گا۔ قائد تحریک کے پاس یہ موقع تو ہر حال میں ہوتا ہی ہے کہ وہ افراد کو غلطی کااحساس دلاتا رہے اور انھیں ہم نوا بنانے کی سعی کرتا رہے۔ اور اگر اجتماعیت کا فیصلہ درست ہو تو اسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی راے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے، اور اس بات کا امکان موجود ہے کہ جماعت اس کی غیر موجودگی میں بھی صحیح سمت میں محو سفر رہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی اسلامی تنظیم کا امیر اپنی راے پر بے جا اصرار کرنے والا اور جذباتی شخص ہو۔ جو اختلاف راے کو ذاتی دشمنی پر محمول کرتے ہوئے محاذ آرائی پر اتر آئے اور خامہ و نطق کی ساری صلاحیتیں اس کی تردید میں صرف کردے تو ایسے فرد کے ساتھ، پہلی بات تو یہ ہے کہ کوئی چند قدم چلنے پر بھی آمادہ نہیں ہو گا اور اگر نادانستگی میں وہ ایسا فیصلہ کر بیٹھے تو یہ ہم سفری چند قدم سے زیادہ نہیں ہو گی،الاّ یہ کہ ایک آدمی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو یا اسے امیر تنظیم کے پاس گروی رکھ دے۔
تنظیم اسلامی ، اگر جماعت اسلامی کے اس انجام کے نتیجے میں اٹھ رہی تھی تو ضروری تھا کہ اس پہلو پر بہت غور کیا جاتا تاکہ نئی اسلامی تحریک اس طرح کے کسی سانحے سے محفوظ رہے اور مثبت اقدار کو فروغ ملے، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اپنے لیے اسی روش کو پسند کیا جو ان کے بقول جماعت اسلامی کے زوال کا سبب بنی۔ آج ڈاکٹر صاحب سے علمی اختلاف کا مطلب ان سے ذاتی دشمنی ہے۔ اگر کوئی ان کی تحریک اور دعوت کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے کسی نقطۂ نظر پر نقد کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو ان پر اسلامی انقلاب کے اس ’’دشمن‘‘ کے خلاف، زبان و قلم کے ساتھ جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ اور یہ جہاد اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک ڈاکٹر صاحب کی ذات اور تنظیم کے بارے میں موجود حسن ظن پوری طرح ختم نہ ہو جائے۔ سندھ کے ایک نامور عالم دین،۳؎ اسلامی انقلاب کی تڑپ لیے ڈاکٹر صاحب کے قریب ہوئے ، لیکن ان کے دربار سے اٹھا دیے گئے، کیونکہ وہ ایک ایسے فرد سے ملتے تھے جو ڈاکٹر صاحب سے اختلاف کی جرأت کرتا ہے۔۴؎
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک جائزہ کمیٹی کے ارکان کے خلاف مولانا مودودی کے اقدام کی بنیاد ان کی ذاتی انا تھی اور یہی بات جماعت اسلامی میں انتشار کا سبب بنی۔ ’’وہ طریق کار کی تبدیلی کو اپنی ذاتی شکست تصور کرتے ہوئے ’’عزت نفس‘‘ کے تحفظ کے لیے مرنے مارنے پر تل گئے۔‘‘ اگر ڈاکٹر صاحب کی یہ راے درست ہے تو کیا ان کے درج بالا اقدامات کی اس کے علاوہ کوئی تعبیر ممکن ہے کہ وہ آج تک نادانستگی میں، اسلامی انقلاب سے زیادہ ذاتی انا کی جنگ لڑتے رہے ہیں؟
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بلاشبہ، اس صدی کے چند بڑے افراد میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی ذات کو ایک چیلنج کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ وہ ایک زمانے کو ساتھ لے کر چلنے کا حوصلہ ہی نہیں ، سلیقہ بھی رکھتے تھے، لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا ایک اقدام اتنے دور رس نتائج کا حامل ہوا کہ تحریک اسلامی کی تاریخ ہی بدل کر رہ گئی۔ کیا یہ نتیجہ کم سنگین ہے کہ وقت کا سب سے بڑا عالم قرآن جس نے جب بھی جماعت کے دفاع میں قلم اٹھایا تو اس کا لکھا حرف آخر ثابت ہوا، آج لاہور میں موجود ہوتے ہوئے جماعت سے یوں لا تعلق ہے، جیسے وقت کا پہیہ رفتار زمانہ سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ۵؎ اس بنا پر یہ کیسے ممکن تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے یہ اقدامات بے اثر ثابت ہوتے اور ان کے بطن سے کوئی نتیجہ جنم نہ لیتا۔ چنانچہ تنظیم اسلامی کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ کوئی صاحب علم و بصیرت ان کے مقصد سے اتفاق رکھتے ہوئے بھی ان کی ہم سفری پر آمادہ نہیں ہوا، اور اگر کوئی چند قدم چلا بھی ہے تو اسی نتیجے تک پہنچا ہے:
کہ میر کارواں میں نہیں ہے خوئے دلنوازی
علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب نے اپنا زیادہ وقت اور صلاحیتیں یہ ثابت کرنے میں صرف کر ڈالیں کہ ماضی کی چند شخصیات سے ان کا گہرا فکری تعلق ہے۔ ان کا خیال ہے کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی ، علامہ محمد اقبال اور ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، مولانا محمود حسن اور مولانا شبیر احمد عثمانی، امام حمید الدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے تنہا جانشین ہیں۔ یا پھر ’’اقامت دین کی جدوجہد‘‘ کا ثمروہ تعریفی خطوط ہیں جو شاید اس مفروضے کے تحت، بار بار ’’میثاق‘‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں کہ ’’اس قوم کو بھولنے کی عادت ہے‘‘ یہی ’’چند حسینوں کے خطوط، چند تصویر بتاں‘‘ ہیں جو ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی پندرہ سالہ کاوشوں کا حاصل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ مولانا مودودی، اگر جماعت اسلامی کی بنیاد ’’سمع و طاعت کی بیعت‘‘ پر رکھتے تو جماعت کبھی اس طرح کے بحران کا شکار نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اس طرح کی ممکنہ صورت حال سے بچنے کے لیے تنظیم اسلامی کی بنیاد سمع و طاعت کی بیعت پر رکھی ہے۔ ہمیں محترم ڈاکٹر صاحب کی اس راے سے پورا اتفاق ہے۔ شوکت تھانوی مرحوم کے ایک کردار قاضی صاحب کی اہلیہ ان کی حقہ نوشی سے نالاں تھیں اور قاضی صاحب کو گلہ تھا کہ وہ حقہ نوشی کے فوائد سے ’’کماحقہ‘‘ آگاہ نہیں ہے۔ ایک دفعہ انھوں نے یہ فوائد بیان کرتے ہوئے کہا: حقہ پینے والے کے گھر چوری نہیں ہوتی، اسے کتا نہیں کاٹتا اور وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ ان کی بیوی نے ان فوائد سے اتفاق کرتے ہوئے ان کی شرح یوں کی کہ حقہ نوش کے ہاں چوری اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ رات بھر کھانستا رہتا ہے۔ کتا اس لیے نہیں کاٹتا کہ ہمیشہ لاٹھی اس کے پاس ہوتی ہے جس کے سہارے وہ چلتا ہے اور بوڑھا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جوانی ہی میں مر جاتا ہے ـــــہمیں بھی ’’سمع و طاعت کی بیعت‘‘ کے فوائد سے انکار نہیں۔ مولانا مودودی، اگر جماعت اسلامی کی بنیاد اس نظریے پر رکھتے تو یقینا جماعت کی تاریخ میں کوئی ماچھی گوٹھ نہ ہوتا۔ پھر امین احسن آتے نہ عبدالغفار حسن،عبدالجبار غازی شامل ہوتے نہ عبدالرحیم اشرف۔ ظاہر بات ہے کہ کوئی صاحب علم و بصیرت شامل ہی نہ ہوتا تو اس کا اخراج کیسے ہوتا۔ کوئی اس کی عملی صورت دیکھنا چاہے تو تنظیم اسلامی کو دیکھ لے جس کی تاریخ میں کوئی ماچھی گوٹھ ہے اور نہ ہو گا۔ یہ سب ’’سمع و طاعت کی بیعت‘‘ ہی کا کمال ہے۔
جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ کے اس بڑے واقعے سے اجتماعی معاملات میں مشاورت کی اہمیت بھی پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ اگر صاحبان راے کے مشورے شامل حال رہیں اور ان کا احترام بھی کیا جائے تو اس کے نتائج ہمیشہ خوش گوار رہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے اصحاب سے مشورہ کیا ۔ اور ان کی راے کے مطابق اقدام کیا، الاّ یہ کہ کسی امر کا فیصلہ وحی کے ذریعے سے کر دیا گیا ہو۔ وحی کا سلسلہ بند ہو جانے کے بعد اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ تمام اجتماعی معاملات کے فیصلے اصحاب الراے کی شوریٰ میں کیے جائیں۔ اس روش سے انحراف کا صرف ایک مطلب ہے کہ آپ کبھی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ جماعت اسلامی سے انخلا کے باب میں ڈاکٹر صاحب کا اصل مقدمہ یہ ہے کہ اس وقت انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، جبکہ مولانا مودودی اس کے بر خلاف راے رکھتے تھے۔ڈاکٹر صاحب اس راے میں تنہا نہیں تھے، بلکہ شوریٰ کے کئی صاحبان بصیرت افراد کی راے بھی یہی تھی۔ یہاں ڈاکٹر صاحب امیر جماعت کے مقابلے میں شوریٰ کے ارکان کی راے کو صائب قرار دے رہے ہیں۔ جس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ امیر کو شوریٰ کی راے کا پابند ہو جانا چاہیے، لیکن تنظیم اسلامی کی بنیاد رکھتے وقت وہ مولانا مودودی کے اس اقدام کو درست تسلیم کرتے ہیں جو اس وقت ان کے نزدیک قابل گرفت تھا، یعنی شوریٰ محض مشورہ دینے والا ایک ادارہ ہے جو عملاً امیر تنظیم کی جیب میں ہے، حالانکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ جیسا صاحب علم و فضل، شوریٰ کی راے سے بے نیاز نہیں ہو سکتا تو اس دور میں کسی دوسرے فرد کے لیے اس کی گنجایش کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ تاہم مولانا مودودی کے اس اقدام کو زیادہ سے زیادہ اجتہادی غلطی کہا جا سکتا ہے، اس میں ان کی ذات، نیت اور اخلاص میں شک کرنے کا کوئی قرینہ موجود نہیں۔
ایک عمارت اگر ہماری نظروں کے سامنے گرتی ہے اور ہم اس کی جگہ نئی عمارت کھڑی کرنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ ان عوامل کا کھوج لگایا جائے جو اس کے گرنے کا سبب بنے۔ تعمیر نو کرتے ہوئے اگر ان عوامل کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ایک مستحکم عمارت بنانا ممکن نہیں رہتا۔ غلبۂ دین کے لیے کسی جدوجہد کا آغاز کرتے وقت ہمارے نزدیک ان پہلووں پر غور ضروری ہے جن کا تذکرہ ہم نے سطور بالا میں کیا ہے۔ علاوہ ازیں، اگر ایک وقت میں کئی قوتیں ایک مقصد کے لیے سرگرم عمل ہوں تو ان کے مابین تعاون کی فضا ضروری ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب، اگر جماعت اسلامی سے اپنے انخلا کے اسباب پر کچھ لکھنا چاہتے تھے تو انھیں اس کا حق حاصل تھا اور یہ کوئی ایسا قابل مذمت اقدام بھی نہیں، لیکن ان کے لیے زیادہ مناسب ہوتا کہ وہ اسے پروپیگنڈے کا ذریعہ بنانے کے بجاے، اس موضوع پر الگ سے ایک کتاب لکھ دیتے۔ اسی طرح کسی کی راے سے اختلاف بھی کوئی جرم نہیں، لیکن اس معاشرے میں مولانا مودودی جیسے خادم دین کی شخصیت ہی کو ساقط الاعتبار ثابت کرنے کا اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں ہو سکتا کہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور اس کے دوسرے لوگ بھی اپنا وقار کھو بیٹھیں اور لوگ ان کی باتوں کو تفنن طبع کے لیے سنا کریں۔ کراچی کے ایک ہفت روزے نے ڈاکٹر صاحب کے فرمودات کو جس رنگ میں پیش کیا ہے، وہ اس بات کا ایک ثبوت ہے۔
اب جبکہ اس موضوع پر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا ۶؎موقف پوری طرح سامنے آ گیا ہے، مناسب ہے کہ جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر بھی واضح ہو جائے جو اس معاملے کی فریق ثانی ہے۔ اس کے بعد ہی ان واقعات کے بارے میں ایک بے لاگ راے قائم کرنا ممکن ہو سکے گا۔ جماعت اسلامی کے احباب سے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ محض واقعات و حقائق کے بیان ہی پر اکتفا کریں گے۔ کسی فرد کی راے یا اقدام کی غلطی واضح کرنا ضروری ہے، لیکن ہم اس پر نفاق یا فسق کا فتویٰ لگانے کے مجاز نہیں، الاّ یہ کہ اس کے دل کا حال ہم پر پوری طرح کھل جائے۔ اور علیم بذات الصدور تو اللہ ہی کی ذات ہے۔
[اگست ۱۹۹۰]
ــــــــــــــــــــــــــ
۱؎ اب انھوں نے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کی امارت اپنے صاحبزادے کو سونپ دی ہے۔
۲؎ یہ مضامین ’’تاریخ جماعت اسلامی کا ایک گم شدہ باب‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔
۳؎ مولانا وصی مظہر ندوی۔
۴؎ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس کا تذکرہ اپنی کتاب ’’جماعت شیخ الہند سے تنظیم اسلامی تک‘‘ میں کیا ہے۔
۵؎ مولانا امین احسن اصلاحی ۔
۶؎ جماعت اسلامی میں روداد لکھنے کا سلسلہ ماچھی گوٹھ کے حادثے کے بعد طویل عرصہ منقطع رہا جس کے باعث اس باب میں جماعت کا نقطۂ نظر سامنے نہیں آ سکا۔ اب اس سلسلے کا دوبارہ آغاز ہوا ہے، لیکن اس حادثے کا اس تفصیل اور وضاحت سے ذکر نہیں جس کا یہ واقعہ مستحق ہے۔