یہ اگست ۱۹۵۰ کی بات ہے، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کراچی دورے پر تشریف لے گئے۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ نے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ ترتیب دیا۔ ان دنوں سترہ اٹھارہ برس کا ایک نوجوان طالب علم، ناظم شہر تھا۔ اس تقریب میں جب وہ خطبۂ استقبالیہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہوا تو یہ جلسے کا اثر تھا یا مولانا کی شخصیت کا رعب کہ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور الفاظ اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ اس کیفیت نے اس نوجوان کو کچھ اس طرح اپنی لپیٹ میں لیا کہ اس کے لیے اپنی بات جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ یہ ادھورا خطبہ اس طالب علم کے ایک استاد پروفیسر جلیل الدین احمد صاحب کو مکمل کرنا پڑا۔ پھر معلوم نہیں کہ نوجوان نے اپنے رب سے کیا دعا مانگی کہ وہ کالج کے تقریری مقابلے میں اول آیا۔ اگلے ہی سال اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا اور جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوا تو اردو اور انگریزی کا اچھا مقرر اور جان دار مصنف تھا ـــ ہماری مراد نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان، مدیر ’’ترجمان القرآن‘‘ جناب خرم مراد صاحب سے ہے۔
جناب خرم مراد کی والدہ محترمہ کا تعلق بَنت سے تھا جو یوپی کے ضلع مظفر نگر کا ایک قصبہ ہے۔ ان کے والد محترم پیشے کے اعتبار سے سول انجینئر تھے اور ان کا خاندان بھوپال میں آبادتھا۔ خرم صاحب کی پیدایش بھی وہیں کی ہے۔ بھارت میں پاکستان کے پہلے ہائی کمشنر زاہد حسین مرحوم ان کے ماموں تھے۔ ۱۹۴۸ء میں خرم مراد صاحب کا خاندان کراچی آکر آباد ہو گیا۔ ۱۹۵۳ء میں انھوں نے سول انجینئرنگ میں بی ای کی ڈگری لی۔ ۱۹۵۷ء میں وہ امریکہ چلے گئے اور ۱۹۵۹ء میں ’یونیورسٹی آف منی سوٹا‘ سے ایم ایس کیا۔اور یہاں آکر ایک معروف تعمیراتی ادارے سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۶۵ء کے اوائل میں ان کے ادارے نے انھیں ڈھاکہ بھیج دیا، جہاں وہ ۱۹۷۱ء تک رہے۔ اس وقت مشرقی پاکستان کی سرزمین میدان جنگ بنی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کو مشرقی بازو سے ہاتھ دھونا پڑے۔ اور اس کے ہزاروں فوجی بھارت کی قید میں چلے گئے۔ بعض غیر فوجی بھی قیدی بنے اور اس میں خرم مراد صاحب بھی شامل تھے۔ ان کی اسیری کا یہ دور تین سال پر محیط ہے۔ رہائی کے بعد ایک ڈیڑھ سال انھوں نے کراچی میں گزارا۔ پھر ملازمت کے سلسلے میں انھیں ایران بھیج دیا گیا، جہاں وہ سال بھر رہے۔
جب سعودی حکومت نے حرم پاک کی توسیع کا ارادہ کیا تو یہ منصوبہ خرم مراد صاحب کی کمپنی کو دے دیا گیا اور ۱۹۷۵ء میں وہ سعودی عرب چلے گئے۔ ۱۹۷۷ء میں ملازمت کو خیر باد کہہ کر انھوں نے اپنے آپ کو اسلامی تحریک کے لیے وقف کر دیا۔ اور اسی سال لیسٹر، انگلستان منتقل ہو گئے جہاں ’اسلامک فائونڈیشن‘ کے ڈپٹی ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر رہے۔ بعد میں اس ادارے کے ٹرسٹی بنے اور ’’مسلم ورلڈ بک ریویو‘‘کے ایڈیٹر بھی۔ ۱۹۸۶ء میں انھوں نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ یہاں جماعت اسلامی لاہور کے امیر رہے اور پھر نائب امیر پاکستان ہوگئے۔ اگست ۱۹۹۱ میں خرم مرادنے ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھال لی۔ یہ تعلق انھوں نے آخری لمحے تک یوں نبھایا کہ جنوری ۱۹۹۷ کے ’اشارات‘ لکھ کر دنیا سے رخصت ہوئے۔
صفحۂ قرطاس پر چند جملوں میں سمٹی ہوئی یہ زندگی، درحقیقت ایک طویل داستان ہے جس میں علم، دعوت، سیاست اور تنظیم جیسے کئی ابواب شامل ہیں اور اس ساری داستان کا محور محض دو جذبے ہیں: رضاے الٰہی کا حصول اور غلبۂ دین کی انتہائی آرزو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پیشے کے اعتبار سے ایک سول انجینئر، دین کا داعی بنا اور اس کردار میں کچھ ایسے ڈوب گیا کہ آج اس کی پہچان انجینئر کی نہیں، تحریک اسلامی کے ایک قائد کی ہے۔ یہ تبدیلی کسی کے کہنے سے آئی ہے یا پھر یہ جذبہ ان کی فطرت میں ابتدا ہی سے ودیعت تھا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم خرم مراد صاحب کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں وہاں فطرت کا وہی اصول کارفرما دکھائی دیتا ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا ہے کہ:
مری مشاطگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو
کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
جناب خرم مراد کی والدہ ایک پڑھی لکھی دین دار خاتون تھیں اور جماعت اسلامی سے ہمدردی رکھتی تھیں۔ ان کی بڑی بہن بھی جماعت کے ساتھ لگائو رکھتی تھیں۔ وہ اپنی والدہ محترمہ سے بہت قریب تھے اور ان پر والدہ کی شخصیت کا اثر بھی بہت تھا، بلکہ درست تر الفاظ میں، وہ ان کے لیے مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس چیز نے انھیں دین سے بہت قریب کر دیا اور اسی جذبے کے تحت وہ دور طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہو گئے۔ دین کے ساتھ ان کی وابستگی ایک عشق میں ڈھل گئی۔ مولانا مودودی کے ساتھ تو محبت تھی ہی، ان کے علاوہ نام ور اہل علم کی اکثر تصانیف اسی عہد میں پڑھ ڈالیں جن میں مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا منظور نعمانی اور مولانا ابوالحسن علی ندوی وغیرہ شامل ہیں۔
۱۹۴۸ء میں ’الاخوان المسلمون‘ کے معروف رہنما سعید رمضان کراچی تشریف لائے۔ یہ ’اخوان‘ کے لیے شدید ابتلا کا دور تھا۔ چنانچہ انھیں ۱۹۵۰ء تک وہاں رکنا پڑا۔ وہ ایک دل کش شخصیت کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھے مقرر بھی تھے۔ خرم صاحب نے ان کی شخصیت سے خاصا اثر لیا۔ ڈاکٹر سعید رمضان مرحوم کے ساتھ اس تعلق کی وجہ سے انھیں معاصر اسلامی تحریکوں اور ان کے تربیتی نظام سے دلچسپی پیدا ہوئی۔ ۱۹۵۱ء میں جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ بنے تو اپنی نظامت کے دور میں انھوں نے تربیت کے نئے نئے طریقے متعارف کرائے اور اس ضمن میں ’اخوان‘ کے تربیتی نظام سے بطور خاص استفادہ کیا۔ شب بیداری کی روایت خرم صاحب کی قائم کی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور تجربہ ’’نظام الاسرہ‘‘ کا تھا جو اب متروک ہو چکا ہے۔ خرم مراد صاحب کی شادی بھی ایک دین دار خاتون سے ہوئی جو برصغیر کے معروف عالم دین کی پوتی ہیں۔ ان کے خسر ظہیر حسین مرحوم جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ معلو م ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں مشیت ایزدی کے تحت ایسے اسباب جمع ہوتے گئے جن کی وجہ سے دین کے ساتھ ان کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ ان کی فطری صالحیت اور صلاحیت اس چیز کو اپنے وجود میں جمع کرتی گئی اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم انھیں دین کے ایک خادم کی حیثیت سے یاد کررہے ہیں۔
اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے انھوں نے جو خدمات سر انجام دیں، وہ دعوتی بھی ہیں، علمی بھی اور تنظیمی بھی۔ خرم صاحب نے یہ سعی کی کہ ہر میدان میں نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ انھوں نے جس طرح مسائل اور معاملات پر ازسرنو غور کیا اور پھر جس طرح مسائل حل کرنے اور معاملات طے کرنے کی کوشش کی، اس کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تاریخ جماعت اسلامی کے پہلے صاحب فکر آدمی ہیں اور اگر فقہ کی اصطلاح مستعار لی جائے تو وہ جماعت اسلامی کے پہلے ’’مجتہد فی المذہب‘‘ ہیں۔
بحیثیت ایک عالم دین اور مفکر کے اگر ہم مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دینی خدمات پر نظر ڈالیں تو انھیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک کا تعلق ان کے فہم دین سے ہے اور دوسرے کا حکمت عملی سے۔ بطور ایک عالم دین مولانا نے دو کام کیے: ایک تو یہ کہ انھوں نے دین کی بحیثیت مجموعی ایک تعبیر کی اور عبادات، معاملات، فرد، اجتماع وغیرہ کا باہمی تعلق واضح کرتے ہوئے، یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ سب چیزیں کس طرح باہم مربوط ہیں اور اس دین کو ماننے والے ایک فرد کا نصب العین کیا ہے۔ مولانا مودودی کی اس فکر کا خلاصہ یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر مسلمان کا نصب العین اقامت دین ہے۔ اقامت دین سے مراد انفرادی اور اجتماعی معاملات میں غلبۂ دین ہے۔ اس غلبے کی جدوجہد ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ لازم ہے کہ اظہار دین کی یہ جدوجہد اجتماعی طور پر کی جائے، لہٰذا التزام جماعت بھی ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے جو اجتماعی نظم وجود میں آئے گا، اس پر ان ہدایات کا اطلاق ہو گا جو ’الجماعۃ‘ کے باب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہیں۔ جماعت اسلامی اس تعبیر دین کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے۔ جناب خرم مراد کو اس تعبیر دین سے پورا اتفاق تھا اور اس ضمن میں وہ مولانا مودودی کے ہم خیال ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ترجمان القرآن‘‘ اکتوبر ۱۹۹۲ کے ’اشارات‘ میں لکھتے ہیں:
’’اقامت دین فرض عین ہے اور اس کے لیے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ... سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس دور میں دعوت الی اللہ کی جو صدا بلند کی، اس میں یہی وہ دو بنیادی چیزیں تھیں، جن کے اوپر ایمان و یقین کا جذبہ، جن کا خواب، جن کے لیے شوق جستجو، جماعت اسلامی کے قالب میں ڈھل گیا۔ جماعت کو جو کچھ بقا و استحکام اور توسیع و تقویت نصف صدی پر محیط عرصہ میں نصیب ہوئی، وہ انھی دو چیزوں کی وجہ سے نصیب ہوئی اور اگر کچھ ضعف اور شکست و ریخت اس کے حصہ میں آئی وہ بھی بالعموم انھی کی وجہ سے... جماعت زندگی محض ایک دینی فریضہ ہی نہیں، بلکہ ایک منظم جماعت کے بغیر اقامت دین حق کا وہ عظیم الشان مقصد حاصل ہی نہیں ہو سکتا جو دراصل ایک نئے انسان، ایک نئی دنیا اور ایک نئی تہذیب کی تشکیل اور امامت عالم کا منصب سنبھالنے کا متقاضی ہے ... اسی لیے اسلام میں جماعت ایک عظیم، شان و مقام کی حامل ہوئی، اسی لیے نماز جیسی روحانی عبادت جو بندہ اور اس کے رب کے درمیان ملاقات و مناجات کا نام ہے، جماعت کے ساتھ فرض ہوئی، اسی لیے صدقہ و خیرات جیسے محبت الٰہی کے اظہار کو اجتماعی تحصیل و تقسیم کی شکل دی گئی، اسی لیے اطاعت الٰہی میں بھوکے پیاسے رہنے اور راتوں کو جاگنے کے لیے سب کو مجتمع کر دیا گیا، اسی لیے حج جیسی عشق و سرمستی سے لبریز عبادت کا نقطۂ کمال صرف ایک میدان میں اجتماع عام قرار پایا، اسی لیے کہا گیا کہ اسلام بغیر جماعت کے نہیں... کہا جا سکتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعتی زندگی کے بارے میں جو تفصیلی ہدایات دی ہیں، ان میں سے اہم ہدایات کا خلاصہ تین نکات پر مشتمل ہے اور انھی پر جماعت کی قوت اور زندگی کا انحصار ہے:۱۔ مقصد کے لیے مکمل یکسوئی اور اس کے ساتھ ایسی وابستگی اور محبت جو ہر وابستگی اور محبت پر حاوی ہو... ۲۔ مکمل اتحاد اور افتراق و تنازع سے اجتناب... ۳۔ سمع و اطاعت اور مشاورت۔‘‘
مولانا مودودی کی علمی خدمات کا دوسرا پہلو وہ ہے جس میں وہ تفسیر، حدیث، فقہ اور کلام وغیرہ کے مسائل پر اپنی راے دیتے ہیں۔ اس باب میں خرم مراد صاحب کا یہ کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اور اس کے متعلقین مولانا کی آرا کے پابند نہیں ہیں اور ان مسائل میں کسی بھی عالم دین کی راے کو اختیار کیا جا سکتا ہے۔ نظری بنیاد پر یہ بات اگرچہ پہلے بھی تسلیم کی جا تی تھی، لیکن عملاً ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا کہ جماعت یا اس کے نمایاں لوگوں نے مولانا مودودی کی کسی راے سے علانیہ اختلاف کیا ہو۔خرم صاحب جب ’’ترجمان القرآن‘‘ کے مدیر بنے تو انھوں نے اس نظری اور عملی تفاوت کو مٹانے کی کوشش کی۔ اور ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایسے مضامین بھی شائع ہونے لگے جن میں کوئی دوسری راے بھی پیش کی گئی تھی۔ مثال کے طور پر ’’ترجمان القرآن‘‘ میں ایک مستقل سلسلہ ’’فہم القرآن‘‘ کے عنوان سے شروع کیا گیا جس کے تحت چند منتخب آیات کی تفسیر میں مختلف مفسرین کی آرا بیان کر دی جاتی تھیں اور ان میں سے ایک راے مولانا مودودی کی بھی ہوتی تھی۔ خرم صاحب نے اس معاملے میں اپنا واضح نقطۂ نظر ایک استفسار کے جواب میں بیان کیا جو اگست ۱۹۹۴ کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اپریل ۱۹۹۴ میں سورئہ کوثر کی دوسری آیت کے تحت امام حمید الدین فراہی کی تفسیر شائع ہوئی جس میں امام نے صلوٰۃ اور قربانی کا مفہوم بیان کیا ہے۔ سائل کا کہنا تھا کہ امام موصوف کی راے مولانا مودودی سے مختلف ہے اور ’’ترجمان القرآن‘‘ چونکہ مولانا مودودی کے نظریات کا ترجمان ہے، لہٰذا اس میں ایسی مختلف آرا شائع نہیں ہونی چاہییں۔ اس پر خرم صاحب نے اپنے جواب میں جہاں اس غلط فہمی کو دور کیا کہ امام فراہی اور مولانا کی راے میں کوئی اختلاف ہے، وہاں یہ بھی لکھا:
’’’’ترجمان القرآن‘‘سید مودودی کی رہنمائی کی روشنی میں، اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کا ترجمان ہے۔ اسی طرح وہ دین کے بارے میں سید مودودی کی اس فکر کا ترجمان ہے کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، دین کا قیام مسلمانوں پر فرض ہے اور اس مقصد کے لیے اجتماعی جدوجہد ناگزیر ہے۔ یہی ان کی اصل فکر ہے۔ باقی معاملات میں ترجمان کے لیے رہنما اصول سید مودودی کی یہ فکر ہے کہ معیار حق صرف اللہ اور اس کے رسول ہیں اور کسی بھی انسان کی راے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تشکیل جماعت کے وقت ان کی یہ ہدایت بھی ہمارے لیے رہنما ہے کہ نہ جماعت ان کی تحقیق و راے پر پابندی عائد کرے اور نہ جماعت میں کوئی ان کی تحقیق و راے ماننے کا پابند ہو۔ سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں بھی ان کی راے یا تاویل سے مختلف آرا، ترجمان میں چھپتی رہی ہیں۔ اگر مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کی راے فی الواقع سید مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی راے سے متضاد ہوتی جب بھی ان کی راے کے ترجمان میں چھپنے سے ترجمان کی سید مودودی سے نسبت پر کوئی حرف نہ آتا۔‘‘ (رسائل و مسائل، اگست۱۹۹۴)
ان کے نزدیک مولانا مودودی کی فکر کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کو کسی ایک اجتہادی راے کا پابند نہ بنایا جائے، اگرچہ یہ راے مولانا مودودی ہی کی کیوں نہ ہو۔ ’’فکر مودودی کیا ہے؟‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’سید مودودی نے اپنی فکری خدمات پر فکر مودودی کی چھاپ لگنے کی شدت سے روک تھام کی اور ان کو معیار حق ماننے کا کسی کو پابند نہیں کیا تو صرف اس لیے کہ راہ خدا میں ان کے ہم سفر آنکھیں بند کرکے نہ چلیں۔ آج ان کی فکر کے صحیح وارث وہی ہو سکتے ہیں جو ان کی فکری خدمات کی روشنی میں ، اجتہاد و فکر سے کام لیں۔ ماضی کے اسیر نہ ہوں، حال کے مناسب طریقے اختیار کریں اور مستقبل کے نقیب بنیں، ٹھیک جس طرح انھوں نے اپنے زمانے میں کیا۔‘‘ (ترجمان القرآن،ستمبر۱۹۹۵)
دین پر غور و فکر کرتے ہوئے خرم مراد صاحب احکام کو دو حصوں میں تقسیم کرتے تھے: ایک منصوص اور دوسرے غیر منصوص۔ منصوص احکام میں ان کے نزدیک کوئی تغیر ہوسکتا ہے اور نہ کوئی دوسری راے قبول کی جا سکتی ہے۔ غیر منصوص احکام جو عام طور پر کسی مجتہد کی راے پر مبنی ہوتے ہیں، ان میں کوئی راے بھی قبول کی جا سکتی ہے۔ اس باب میں ان کا اپنا رجحان ’یسر‘ ،یعنی آسانی کی طرف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے امور میں علما کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے لیے آسانی پیدا کریں۔ ’’ترجمان القرآن ‘‘ میں، ’’رسائل و مسائل‘‘ کے تحت وہ خود جن استفسارات کے جواب دیتے تھے، ان میں یہ پہلو نمایاں ہوتا تھا۔
حکمت عملی کے ضمن میں ان کی راے یہ تھی کہ یہ زمان و مکان کے تابع ہے، لہٰذا اس میں کسی وقت بھی کوئی تبدیلی آ سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی راے یہ تھی کہ اگر انتخابات میں حصہ لینا ہے تو وہ لائحۂ عمل اختیار کیا جائے جو انتخابی ضرورت کے مطابق ہو۔ انتخابات میں جیتنے کے لیے شریک ہوا جاتا ہے، محض توسیع دعوت کے لیے انتخابات میںشرکت کوئی حکیمانہ بات نہیں۔ اسی طرح انتخابات کے معرکے میں ہتھیار، عوامی تائید ہے اور اس کے لیے محدود رکنیت کا اصول صحیح نہیں۔ ’اسلامی فرنٹ‘ کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی۔ چنانچہ اس کے قیام سے پہلے ’’ترجمان القرآن‘‘ فروری ۱۹۹۳ کے ’اشارات‘ میں لکھتے ہیں:
’’انتخابات کا مقصد تو ملک کی زمام کار سنبھالنا ہوتا ہے اور اس کی حقیقت ایک پر امن سیاسی جنگ کی ہے۔ اسی لیے ہم انتخابات میں شرکت کو ایک قسم کا جہاد سمجھتے بھی رہے ہیں اور کہتے بھی رہے ہیں۔ اس قسم کا ہر معرکہ جیتنے کے لیے ہی لڑا جاتا ہے، نہ کہ محض دعوت و تبلیغ کے لیے۔ ایسے معرکے میں فتح اور کامیابی ہی اصل دعوت ہے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں:
’’...ہر کامیابی کے لیے معرکہ کی مناسبت سے قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم نے انتخابات کا طریقہ اختیار کر لیا تو وہی قوت درکار ہے جس سے اس میں کامیابی ہو سکتی ہے۔ یہ قوت افرادی قوت اور عوامی حمایت و تعداد کی قوت ہے۔ اس قوت کو بحد استطاعت فراہم کرنے کی کوشش کرنا ’وَاَعِدُّوْالَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ‘ کے تحت ضروری ہے۔ اس قوت کی فراہمی کے لیے توسیع ناگزیر ہے۔ توسیع کی رفتار تیز ہو گی تو استحکام میں کمی آنا اور مجموعی معیار میں کمی آنا بھی ایک فطری بات ہے، اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں...۔‘‘
اسی طرح وہ اس بات کے بھی قائل تھے کہ جب اسلام کے سیاسی انقلاب کی بات کی جائے گی تو پھر دین کی ان تعلیمات کو نمایاں کیا جائے گا جن کا تعلق اجتماعیت کے ساتھ ہے، جیسے سماجی انصاف، بنیادی حقوق، عدل اجتماعی، ظلم کا خاتمہ وغیرہ۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ اسلامی انقلاب کو وہ ایک جاری عمل سمجھتے تھے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ کسی سرزمین پر اسلام کا سیاسی انقلاب آگیا تو پھر ایک مسلمان کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی، بلکہ ان کے نزدیک اس انقلاب کا استحکام، انفرادی او راجتماعی معاملات میں ایک خاص معیار کا حصول اور پھر اس کا استمرار، ایک مسلسل عمل ہے۔ ’اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکہ‘ کے اجتماعات میں انھوں نے جو لیکچر دیے، ان میں حکمت عملی کے مسئلے کو بطور خاص موضوع بنایا۔
۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۶ء تک وہ انگلستان میں رہے۔ اس قیام کے دوران میں انھوں نے اس سوال پر غور کیا کہ ایک غیر اسلامی ریاست میں دعوت دین کے لیے کام کا صحیح منہج کیا ہے۔ ان کا نتیجۂ فکریہ تھا کہ ایک داعی کو مقامی اور مہاجر، دونوں طرح کی آبادیوں کو اپنا مخاطب بنانا چاہیے۔ مقامی آبادی کو خطاب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ ان کی زبان اور ان کے لہجے میں، ان سے ہم کلام ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ انگریزی زبان میں مذہبی مسائل کو جس زبان اور اسلوب میں بیان کیا جاتا ہے، اسلام کی دعوت کو بھی اسی زبان اور اسلوب میں بیان کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ اسلام پر کچھ لکھنے سے پہلے انھوں نے انگریزی زبان کے مذہبی لٹریچر کا اس پہلو سے بطو رخاص مطالعہ کیا۔ ۱۹۷۷ء -۱۹۷۸ء میں ’اسلامک فائونڈیشن‘ نے عبداللہ یوسف علی صاحب کا ترجمۂ قرآن شائع کیاجس کے آغاز میں خرم صاحب کی ایک تحریر"The way to the Quran" شامل تھی۔ یہ غالباً ان کی پہلی باقاعدہ انگریزی تحریر ہے۔ بعد میں جب ان کے مطالعے اور مشاہدے میں اضافہ ہوا تو اسی عنوان کے تحت مطالعۂ قرآن کے آداب، مضامین وغیرہ کے بارے میں ایک مکمل کتاب لکھی جو ۱۹۸۵ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں انھوں نے ’’مجموعۂ تفاسیر فراہی‘‘، ’’تفہیم القرآن‘‘، ’’تدبر قرآن‘‘، ’’احیاء علوم الدین‘‘، ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘، ’’الفوز الکبیر فی اصول التفسیر‘‘ اور ’’الاتقان فی علوم القرآن‘‘ کو اپنا ماخذ قرار دیا۔ انھوں نے مولانا مودودی کی بعض کتب کے تراجم بھی کیے اور تدوین جدید بھی۔ ان میں ’’خطبات‘‘ ، ’’اسلام کا نظام حیات‘‘ اور ’’شہادت حق‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ اس ترجمے میں بھی ان کے حسن ذوق کا پورا اظہار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’شہادت حق‘‘ کا اس سے پہلے جو ترجمہ کیا گیا تھا، اس کا عنوان تھا:"Evidence of the Truth"خرم صاحب نے اس کا عنوان رکھا:"Witness Unto Mankind"جو ’’شہادت حق‘‘ کا درست ترجمہ ہے۔ اسی طرح ’’خطبات‘‘ کے لیے انھوں نے"Let us be Muslims"کا عنوان منتخب کیا۔ قیام انگلستان کے اس عرصے میں انھوں نے بچوں کے لیے بھی کتب لکھیں اور یہ ان کی دینی خدمات کا منفرد پہلو ہے۔ انھوں نے انبیاے کرام کے حالات و واقعات بڑے سہل انداز میں بیان کیے جو بچوں کے دینی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔
سیاسی مسائل پر بھی وہ اپنے انداز میں غور کرتے تھے اور ان معاملات میں بھی ان کی راے کچھ ضروری نہیں تھا کہ وہی ہو جو جماعت اسلامی کی پالیسی ہے۔ مثال کے طور پر جماعت نے مشرقی پاکستان میں فوجی اقدام کی حمایت کی تھی، لیکن خرم صاحب فوج کے کسی ایسے اقدام کے مخالف تھے۔ چونکہ انھوں نے کئی برس ڈھاکہ میں گزارے تھے، اس وجہ سے وہاں کے حالات کا براہ راست علم رکھتے تھے۔ اس پر آشوب دور میں وہ جماعت اسلامی، ڈھاکہ کے امیر بھی رہے۔ اسی عرصہ میں انھوں نے دعوتی ضرورت کے لیے بنگالی زبان بھی سیکھی اور بنگالیوں کے ساتھ ان کا ایک تعلق خاطر قائم ہو گیا تھا۔ گرم جوشی ان کے مزاج کا خاصہ تھی۔ چنانچہ وہ وہاں کی مقامی آبادی سے بھی بہت قریب ہو گئے تھے۔ وہ ان کی سوچ اور جذبات سے آگاہ تھے اور پاکستانی فوج کا وہ کردار ان کے نزدیک پسندیدہ نہیں رہا جو اس نے مشرقی پاکستان میں ادا کیا۔ بھارت کی قید میں چونکہ وہ ایک فوجی کیمپ میں رہے اور فوج کے افسران سے قریبی رابطہ رہا، اس لیے ذاتی تجربے کی بنیاد پر بھی ان کی راے یہ تھی کہ فوج میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جو حرص اقتدار میں مبتلا ہے، تاہم وہ عام فوجی جوانوں سے بہت محبت کرتے تھے اور قید کے دوران میں باقاعدگی سے انھیں درس قرآن دیتے رہے۔ شاید اسی پس منظر کی وجہ سے ان کی راے تھی کہ کسی فوجی انقلاب کے راستے سے اسلام نہیں آسکتا۔ چنانچہ ایک بھارتی جریدے ’’میزان‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک مرتبہ انھوں نے کہا:
’’میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اسلام کو فوجی حکومت کی قوت کے ذریعے عوام پر تھوپا نہیں جا سکتا، بلکہ اس کے لیے عوامی تحریک کی ضرورت ہے۔ اسلامی انقلاب صرف عسکری قوت کے بل پر جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ چنانچہ پاکستان میں قوت و اقتدار کے حامل ایک صدر پاکستان سے میں نے ایک دفعہ کہا تھا: ’’اگر اللہ تعالیٰ کو اسلام قوت کے ذریعے نافذ کرنا ہوتا تو وہ پیغمبر کی بجاے فیلڈ مارشل مبعوث کیا کرتا ۔‘‘ اگرچہ پیغمبروں نے ضرورت کی بنا پر تلوار بھی اٹھائی، مگر بنیادی طور پر وہ مبلغ اور داعی ہوا کرتے تھے۔‘‘ (خرم مراد،مسائل و افکار۱۶۹)
خرم مراد صاحب کی زندگی کا ایک اور نمایاں پہلو ان کی للہیت، خوف خدا اور تزکیۂ نفس کا جذبہ تھا اور دور طالب علمی ہی سے وہ مطالعۂ قرآن اور تزکیہ کے پہلو سے اپنے احباب میں ممتاز تھے۔ ’’ترجمان القرآن‘‘ میں انھوں نے ’’تزکیہ و تربیت‘‘کے عنوان سے ایک مستقل کالم شروع کیا اور اس کے لیے و ہ خود دینی لٹریچر میں سے ایسی چیزیں منتخب کرتے جو آخرت کی سوچ اور خوف خدا پیدا کرنے والی ہوں۔ جنوری ۱۹۹۴ کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں انھوں نے اسی کالم میں امام غزالی کی ’’احیا ء علوم الدین‘‘ کا ایک حصہ منتخب کیا اور پھر خود ہی اس کا ترجمہ بھی کیا۔ یہ ترجمہ بھی اتنا خوبصورت ہے کہ یہ تحریر دل کے تاروں کو چھوتی ہے۔ اپنے انتقال سے تقریباً گیارہ ماہ پہلے انھوں نے اپنے بچوں کے نام جو وصیت لکھی، وہ بھی اس کا واضح اظہار ہے کہ وہ کس طرح اللہ کا خوف دل میں لیے ہوئے تھے اور اسے عام کرنا چاہتے تھے۔ اپنے بچوں کو صبر اور اللہ کی رضاپر راضی رہنے کی تلقین کرتے ہوئے اس وصیت میں لکھتے ہیں:
’’جو چیزیں اللہ کو پسند نہیں، اس کو ناراض کرتی ہیں انھیں بھی یاد رکھنا اور بچنا ۔ یہ باتیں ایمان کے منافی ہیں۔
دل اور آنکھ تمھارے اختیارمیں نہیں ان کو روکنا اور تھامنا ضروری بھی نہیں، بلکہ یہ کیفیات ، اللہ کا عطیہ ہیں، لیکن زبان کو تھامنا ضروری ہے اور یہ تمھارے اختیار میں ہے۔کوئی ایسی بات نہ نکلے جو رضا بالقضا کے خلاف ہو۔ جزع و فزع نہ ہو، گلہ شکوہ نہ ہو، یاس و حسرت نہ ہو۔ یہی روش تمھاری طرف سے میرے لیے سب سے پہلا بیش قیمت ہدیہ ہو گا جو ان کٹھن مقامات پر میرے بہت کام آئے گا جن سے آنکھ بند ہوتے ہی مجھے دوچار ہونا پڑے گا۔ اور ان شاء اللہ تمھارے لیے بھی بے معنی اور لا حاصل کلمات کے مقابلے میں یہ طرزعمل زیادہ اجر کا باعث ہو گا۔
سب سے بڑھ کر اس بات کی نگہداشت کرنا کہ زبان سے کوئی لفظ حسرت کا ہرگز نہ نکلے، نہ دل کسی حسرت میں مبتلا ہو۔ یہ تو ہرگز نہ کہنا، نہ سوچنا، نہ سمجھنا کہ اگر ! کاش… ایسا ہوتا … ایسا نہ ہوتا تو یہ نہ ہوتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’(کاش، اگر) شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اے ایمان والو!(یہ کافروں کا قول ہے) تم ان کی طرح نہ ہو جائو، جنھوں نے کفر کیا اور سفر یا لڑائی میں مرنے والے پیاروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ : اگر (نہ جاتے) ہمارے پاس رہتے، تو نہ مرتے، نہ قتل کیے جاتے۔ ’لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسَرَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ‘۔ یہ باتیں تو اللہ کی طرف سے ان کے دلوں میں لا حاصل حسرت کی آگ بھڑکانے کے لیے ہیں۔ (آل عمران۱۵۶)…بار بار یاد رکھنا، خود کو، سب کو یاد دلانا کہ حکم، تدبیر اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔ اسباب جو نگاہوں سے نظر آتے ہیں، اس کی تدبیر کا ذریعہ ہیں۔ جو اللہ کی معرفت سے تہی دامن ہے، اس کی نگاہ انھی اسباب میں اٹک جاتی ہے۔‘‘
خرم مراد صاحب ۱۹۶۶ء سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ ان کا دو مرتبہ بائی پاس ہو چکا تھا۔ ان کے دل کا ایک والو مصنوعی تھا۔ جب ایک بار پھر اس عارضے نے شدت اختیار کر لی تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ تیسری بار ان کا آپریشن ہو۔ ان کے لیے یہ آپریشن جان لیوا ثابت ہوا اور ۱۹ دسمبر ۱۹۹۶ کو آپریشن کے دوران میں ان کا دل، جو اسلام اور امت کے غم میں دھڑکتا تھا، ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے اس بندے کی لغزشوں اور خطائوں سے درگذر کرے۔ ان کی مغفرت فرما کر ان کے درجات بلند کرے اور ان کے ساتھ اپنے ان جلیل القدر بندوں جیسا معاملہ کرے جو جب اس کے ہاں پہنچتے ہیں تو اس کی رحمت ان الفاظ میں انھیں مخاطب کرتی ہے:
’’اے نفس مطمئن، چل اپنے رب کی طرف، اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہو۔ شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔‘‘(الفجر۸۹: ۲۷-۳۰)
[فروری ۱۹۹۷]
____________