HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Khurshid Nadeem

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

پروفیسر طاہر القادری کی سیاسی تحریک

  پاکستان کے مذہبی گروہوں میں بریلوی مکتبۂ فکر کو ایک واضح عددی برتری حاصل ہے، لیکن جمہوری طرز کی اس مملکت میں ان کی اس افرادی قوت سے کبھی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا۔ شاہ احمد نورانی صاحب کی صورت میں، کچھ عرصہ قبل، اس طبقے کو ایک ایسی قیادت میسر آئی جس نے انھیں سیاسی طور پر منظم کیا، لیکن دو تین انتخابات گزرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

    اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن سب سے بڑا سبب میر کارواں میں خوئے دلنوازی کی عدم موجودگی قرار پایا۔ چنانچہ اس طبقے کے لوگ کسی ایسے فرد کی راہ تک رہے تھے جو ان کے تن مردہ میں زندگی کی لہر دوڑا دے۔ اب پروفیسر طاہر القادری صاحب نے یہ کام اپنے ذمہ لے لیا ہے اور منصب قیادت نئے ہاتھوں میں منتقل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔

    ۱۹۸۵ء کے اواخر میں جب ’’ادارہ منہاج القرآن‘‘ کا قیام عمل میں آیا اور درس قرآن اور درس تصوف کے سلسلوں کا آغاز ہوا تو ایک عام آدمی اس بات سے بے خبر تھا کہ اس سلسلہ کا اختتام ایک سیاسی جماعت کے قیام پر ہو گا۔ اگرچہ خواص کو بڑی حد تک اس کا اندازہ تھا۔ اس سیاسی جماعت کا مقصد غلبۂ دین یا اسلامی انقلاب قرار پایا ہے۔

    پروفیسر طاہر القادری صاحب اگرچہ اسی فکر کے مالک ہیں جس کا بریلوی مکتبۂ فکر ، اجتماعی صورت میں علم بردار ہے، لیکن چونکہ پرانی شراب نئے استدلال کے خوبصورت پیالوں میں پیش کی جا رہی ہے، اس لیے اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ دین دار طبقہ جو کسی بھی مسلک سے متعلق نہیں ہے، اس نشے کا عادی ہو جائے جس سے نکال کر عالم ہوش میں لانے کے لیے احیاے دین کے علم بردار ہمیشہ اپنا خون جگر جلاتے رہے ہیں۔

    ہماری ان سطور کے مخاطب اس دین دار طبقے کے علاوہ وہ احباب بھی ہیں جو غلبۂ دین کے لیے پہلے سے سرگرم عمل ہیں اور جن کی دیانت دارانہ مساعی کے باوجود اسلامی انقلاب کا سورج طلوع ہوتا نظر نہیں آتا۔ چنانچہ یہ ان کی ناکامی کا نتیجہ ہے کہ اس نعرے اور مشن کے ساتھ کئی جماعتیں قائم ہو کر پذیرائی حاصل کر رہی ہیں جس کے وہ کبھی بلاشرکت غیرے علم بردار تھے۔ اور آج ہم ان سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ:


خیال و شعر کی دنیا میں جان تھی جن سے
فضائے فکر و عمل ارغوان تھی جن سے
وہ جن کے نور سے شاداب تھے مہ و انجم
جنون عشق کی ہمت جوان تھی جن سے
وہ آرزوئیں کہاں سو گئی ہیں میرے ندیم؟

  پروفیسر طاہر القادری صاحب نے غلبۂ دین کے لیے جو حکمت عملی اختیار کی ہے، اس کے پانچ مراحل ہیں: یعنی دعوت ، تنظیم، تربیت، تحریک اور انقلاب۔ پہلے لوگوں کو ایک فکر کی دعوت دی گئی، پھر متاثرین کو ایک تنظیم کے تحت منظم کیا گیا۔ منظم ہونے والے افراد کی تربیت کا اہتمام کیا گیا اور پھر ان تربیت یافتہ افراد کے ساتھ عوامی سطح پر ایک تحریک کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں انقلاب آئے گا جو کہ گوہر مراد ہے۔ اس ترتیب کے مطابق سیاسی جماعت کا قیام، اس حکمت عملی کا چوتھا مرحلہ ہے جس کے بعد اسلامی انقلاب ناگزیر ہے جو ان کے تخمینہ کے مطابق ۲۰۰۰ء تک برپا ہو جائے گا۔۱؎

    ہمارے خیال میں اس حکمت عملی کے تحت کچھ اور ہو تو ہو، لیکن اسلامی انقلاب کا ،بہرحال کوئی امکان نہیں۔۲؎ وہ اس لیے کہ اسلامی انقلاب کے وہ بنیادی تقاضے جن کو نبھائے بغیر غلبۂ دین ممکن نہیں، ان کا اس ساری حکمت عملی میں سرے سے تذکرہ ہی نہیں۔

    تجدید دین کے بغیر اسلامی انقلاب یا غلبۂ دین کا تصور ہی محال ہے۔ دین کو جب تک شرک، بدعت اور معاشرے میں پھیلی ہوئی دوسری غلاظتوں سے پاک نہ کر دیا جائے، اس کا غلبہ بے معنی ہے۔ عامۃ الناس کا وہ مسلک جو معاشرے میں رائج ہے، اگر اس کا نفاذ مطلوب ہے تو اس سے لادینی نظام بہتر ہے جس کے تحت کم از کم عقل و خرد کو مخاطب تو کیا جا سکتا ہے۔ ہماری تاریخ میں جب بھی اس کام کا بیڑا اٹھایا گیا تو اس کا آغاز تجدید دین کے کام ہی سے کیا گیا۔ کئی لوگوں نے اپنی زندگیاں اسی کام میں کھپا دیں، لیکن غلبۂ دین کے لیے کسی عملی اقدام سے گریز کیا۔آج اگر تاریخ میں امام ابن تیمیہ یا امام شاطبی کے مقام کا تعین کیا گیا ہے تو آخر کس بنا پر؟ ظاہر ہے تجدید دین کا ہی یہ عظیم کام تھا جس کے لیے امام ابن تیمیہ کو پابجولاں کیا گیا اور ان کا جنازہ بھی زندان ہی سے نکلا۔ہماری تاریخ کے ماضی قریب میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے جماعت اسلامی کی صورت میں غلبۂ دین کی جس تحریک کا آغاز کیا تھا، اس کے اولین دور میں زیادہ توجہ تجدید دین ہی کے کام کو دی گئی۔ چنانچہ آپ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تصانیف دیکھ لیں،’’تفہیمات‘‘ ہو یا ’’تنقیحات‘‘، ’’رسائل و مسائل‘‘ ہو یا ’’خلافت و ملوکیت‘‘، یہ عین ممکن ہے کہ آپ کو ان کی آرا سے اختلاف ہو، لیکن ان پر اجتہادی رنگ کے غلبے کا انکار ممکن نہیں۔ اسی طرح ان کے ابتدائی رفقاکے ہاں بھی یہی سوچ نمایاں رہی۔مولانا امین احسن اصلاحی کا سارا کام اٹھا کے دیکھ لیں، یہی رنگ جاری و ساری ہے۔ ان کے اس کام میں ’’تدبر قرآن‘‘ کو وہ نمایاں حیثیت حاصل ہے کہ امت کی پوری تاریخ میں اس کی مثال موجود نہیں ــــــیہ سارے لوگ اس بات سے پوری طرح با خبر تھے کہ غلبۂ دین کے لیے، پہلے دین کو ان آلایشوں سے پاک کرنا ناگزیر ہے جو معاشرے کے مذہبی کردار کا حصہ بن چکی ہیں۔ اگر وہی دین نافذ کرنا مطلوب ہوتا جس کے تحت اللہ تعالیٰ نے اپنی معاونت کے لیے بہت سے ’’اولیا‘‘ بنا رکھے ہیں جس کے تحت فرید الدین لوگوں کو جسمانی اسباب کے بغیر اولاد دیتے اور حضرت علی اس دور میں ـخود جسمانی طور پر آ کر اپنے چاہنے والوں کی معاونت کرتے ہیں تو مجتہدین امت کو اتنی تکلیف اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر تو دین اکبر بھی گوارا ہونا چاہیے، لیکن ایسا نہیں ہوا، بلکہ ان بزرگوں نے دین کے چہرے کو ان آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے ہر مشکل گوارا کی ــــــ جب اس روش سے انحراف کیا گیا تو ناخوش گوار نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ مشاہدہ یہی ہوا کہ جب سیاسی مصلحتیں بھی تجدید دین پر غالب آنا شروع ہوئیں، اسلامی انقلاب کی منزل دور سے دور تر ہوتی گئی۔ جماعت اسلامی کا المیہ اس کی واضح مثال ہے۔ تجدید دین کی بنیاد پر برپا ہونے والی اس تحریک کے ابتدائی دور کا یہ عالم تھا کہ معاشرے کے بہترین لوگ، علم و تقویٰ میں جن کا ثانی اس دور میں ملنا محال تھا، سب اسی پرچم تلے جمع تھے اور اس کا اعتراف ان لوگوں کو بھی ہے جن کا شمار جماعت اسلامی کے شدید ناقدین میں ہوتا ہے، لیکن زمانے کی آنکھ نے دیکھا کہ جب سیاسی مجبوریوں نے غلبہ پانا شروع کیا تو معیار بدلنے لگے اور صورت حال یہ ہوئی کہ :

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا​

    اگرچہ یہ سب کچھ غلبۂ دین کے جذبے کے تحت ہوا اور اخلاص کے ساتھ یہ چاہا گیا کہ اسلامی انقلاب کی وہ منزل جو دور نظر آ رہی تھی، کچھ قریب آجائے۔ اسی خیال کے تحت سیاسی مصلحتوں کو اختیار کیا گیا۔ تجدید کے کام پر سیاسی کام کو مقدم کیا گیااور نعیم صدیقی صاحب کی اصطلاح کے مطابق دینی سیاست پر سیاسی دیانت داری غالب آتی گئی۔ یہ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج جماعت اسلامی کے پاس سیاسی میدان میں تو ایک جوان قیادت موجود ہے جس کی صلاحیتوں اور آرا پر کوئی سیاسی حکمت عملی ترتیب دینے کے لیے انحصار کیا جا سکتا ہے، لیکن مولانا مودودی کے تجدیدی کام کو آگے بڑھانے کے لیے کسی مرد آزاد کا سراغ نہیں ملتا۔ تحریری سطح پر جو کام ہوا ہے، وہ محض مولانا مودودی کی کہی ہوئی باتوں کی تکرار ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ان میں انشا پردازی کے وہ نمونے اور دل میں گھر کر جانے والا وہ استدلال و اسلوب باقی نہیں رہا جو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ خاص تھا۔ یہ جماعت اسلامی کی اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ آج مختلف قوتوں کے تعاون سے وہ ملک کے جزوی حصے میں ایک تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئی ہے، لیکن کیا اس میں اسلامی انقلاب کی کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے جو جماعت اسلامی کے اکابر کے پیش نظر تھا؟ اس سوال کے جواب کے لیے حالات کا ایک سرسری مشاہدہ کفایت کرتا ہے۔۳؎

    اس ساری گفتگو سے یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ محض مقدم و موخر کی تبدیلی سے منزل کتنی دور ہو جاتی ہے، لیکن اگر آپ کی حکمت عملی کی لفظی تصویر میں بھی ’’تجدید دین‘‘ کی کسی ترکیب کا گزر تک نہیں تو آپ اپنی جدوجہد کی کامیابی کو غلبۂ دین قرار دینے کا حق کیسے رکھتے ہیں؟ یہ وہ صورت حال ہے جو پروفیسر طاہر القادری صاحب کے معاملے میں درپیش ہے۔ ان کا دین وہی دین ہے جو معاشرے کی ایک عظیم اکثریت کا دین ہے۔ وہی سلسلۂ تصوف و سلوک ہے جو اسلام کے متوازی ایک دین ہے۔ اس دین کے تحت ملک در ملک سفر کے لیے کسی پاسپورٹ، ویزے کی ضرورت نہیں صرف مرشد کی نظرکرم کون و مکان کے فاصلوں کو سمیٹ دیتی ہے۔اگر آپ یہ دین اختیار کر لیں تو قبر مسجد بن جاتی ہے اور منکر نکیر کسی سوال و جواب کی ضرورت نہیں سمجھتے۔۴؎

    ظاہر ہے یہ دین کا وہ تصور ہے جس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر دینی جماعتیں اپنے فرائض سے غافل نہ ہوتیں تو اس فکر کی پذیرائی کے اسباب پیدا نہ ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نئی سیاسی جماعت کے قیام سے سب سے زیادہ متاثر جمعیت علماے پاکستان ہو گی جو کہ سیاسی میدان میں بریلوی مکتبۂ فکر کی نمایندگی کی دعوے دار ہے۔ چنانچہ ان کی طرف سے ردعمل اخبارات میں مسلسل چھپ رہا ہے۔ جمعیت علماے پاکستان نے اس نئی سیاسی جماعت کے قیام کو ’’سواداعظم اہل سنت‘‘ میں تقسیم کی کوشش قرار دیا ہے اور پروفیسر صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اگر سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو ان کی جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن دوسرے غیر تربیت یافتہ اور دین کا خام تصور رکھنے والے لوگ بھی اس سحر میں گرفتار ہو سکتے ہیں۔

    پروفیسر صاحب کی فکر کا ایک اور پہلو جو زیادہ نمایاں ہونے کی وجہ سے زیادہ خطرناک بھی ہے، ان کا الہامی اور بشارتی پہلو ہے۔ ’’نابغۂ عصر‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مضمون جو ان کی اکثر کتابوں میں دیباچے کی حیثیت سے شامل ہے، کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پروفیسر صاحب کی پیدایش سے پہلے نہ صرف اس ولادت کی بشارت دی گئی، بلکہ نام کا انتخاب بھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہوا۔ یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا ،بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہا۔ چنانچہ جب پروفیسر صاحب کی عمر تیرہ برس کی ہوئی تو آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں آپ کے والد گرامی کو حکم دیا کہ ’’طاہر کو ہمارے پاس لائو۔‘‘ ’’محمد طاہر نامی اس تیرہ سالہ نوجوان کی بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ حاضری کس قدر عجیب تھی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بلاوے کا مقصد پورا ہونے کی بشارت بھی خود ہی مرحمت فرما دی۔ محمد طاہر کو دودھ کا بھرا ہوا ایک مٹکا عطا کیا اور اسے ہر ایک میں تقسیم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ یہ حاضری کی مکمل قبولیت اور اپنی خصوصی عنایات و نوازشات کی خوش خبری تھی ‘‘(نابغۂ عصر)۔ یہ دودھ کا پیالہ وہ تحریک منہاج القرآن ہے جس کے چوتھے مرحلے پر اس نئی سیاسی جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے۔ روحانی فیض کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے بھی براہ راست رابطہ ہے جو تادم حاضر قائم ہے۔ آج اگر انھوں نے شیخ طاہر علائو الدین الگیلانی القادری سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت کی ہے تو ’’سیدنا غوث الاعظم‘‘ کی روحانی ہدایت کے تابع ہو کر جو ایک استخارے کے نتیجے میں نصیب ہوئی۔

    اس سیاسی جماعت کے قیام سے پہلے پروفیسر طاہر القادری صاحب نے مدینہ اور بغداد کا ایک سفر کیا۔ اس سفر کی غرض و غایت انھوں نے اپنے خطبۂ جمعہ میں یہ ارشاد فرمائی کہ چونکہ اس تحریک کا آغاز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق کیا گیا تھا، اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ یہ فیصلہ کن قدم اٹھانے سے پہلے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخ عبدالقادر جیلانی سے اجازت لے لی جائے۔ چنانچہ ان دو بزرگوں نے نہ صرف اس کی اجازت دی، بلکہ جماعت کے نام کی منظوری بھی عطا فرمائی۔

    آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لطف و کرم کا یہ سلسلہ صرف پروفیسر صاحب کی ذات تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے آپ کے والد گرامی بھی ان کی عنایتوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ اور یہ بزرگ اپنی وفات کے صدیوں بعد جسمانی طور پر آ کر ان کی داد رسی کرتے رہے ہیں۔

    مذہبی دنیا میں لوگوں کے جذباتی استحصال کا یہ طریقہ اگرچہ نیا نہیں، لیکن سیاسی دنیا میں یہ اس نوعیت کی پہلی کوشش ہے۔ مذہبی لوگوں نے اپنے آپ کو خدا کا قریبی اور واسطہ ثابت کرکے ہمیشہ سادہ لوح انسانوں کا استحصال کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ مذہبی معاملات میں لوگوں پر ہمیشہ قرآن و سنت اور عقل و استدلال کے دروازے بند رکھے گئے، لیکن سیاسی میدان میں اس مکتبۂ فکر کے لوگوں نے بھی اس طرح کی کوئی کاوش نہیں کی۔ یہ غالباً دنیا کی پہلی سیاسی جماعت ہے جس کا آغاز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا اور اس کے مختلف مرحلوں کی منظوری بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا کی۔ صحابۂ کرام کے دور میں بھی اس کی کوئی مثال موجود نہیں کہ رسول اللہ نے اپنی رحلت کے بعد براہ راست کسی معاملے میں کوئی مداخلت فرمائی ہو۔ صحابۂ کرام میں بے شمار معاملات میں اختلاف پیدا ہوا۔سقیفۂ بنی ساعدہ میں نزاع پیدا ہوئی۔ لشکر اسامہ کی روانگی کے معاملے میں دو آرا پیدا ہوئیں۔ مرتدین سے جہاد کے مسئلہ میں جھگڑا پیدا ہوا، لیکن ہر مسئلہ کو شوریٰ کے اصول کے مطابق باہمی مشورے کی بنیاد پر حل کیا گیا اور اگر کسی کے موقف کو صحیح مانا گیا تو محض اس کے استدلال کی بنیاد پر۔ کسی نزاع میں کسی صحابی نے یہ نہیں کہا کہ ’’صاحبو! لڑتے کیوں ہو! تم سب خاموش ہو جائو۔ ابھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا لیتے ہیں۔ وہ خود ہی فیصلہ کر دیں گے۔‘‘ یا ’’مزار شریف پر حاضری دے کر راہنمائی حاصل کر لیتے ہیں۔‘‘ یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی مسئلہ کے حل کے لیے اور کسی ریاستی معاملے کے سلجھائو کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے براہ راست مداخلت کی ہو،بلکہ ہمیشہ یہی ہوا کہ اختلافی مسائل کے لیے قرآن کے اس ارشاد کہ ’’جب تمھارے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو۔‘‘ اور رسول اللہ کے اس فرمان ’’میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت۔ تم جب تک ان پر قائم رہو گے بھٹکو گے نہیں‘‘ کی طرف رجوع کیا گیا اور انھی دو مآخذ کی بنیاد پر اجتہاد کیا جاتا رہا۔

    علاوہ ازیں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیاسی جماعت کے قیام کا حکم دیں، اس کے نام کی منظوری دیں اور اس کی حکمت عملی کے مختلف مراحل کے لیے اوقات کا تعین بھی فرمائیں تو ایک مسلمان کے پاس اس بات کا کیا جواز ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس جماعت سے الگ بھی رکھے اور ساتھ ہی اسلام کا بھی نام لیوا ہو ــــ جو جماعتیںپہلے سے اسلام کی بنیاد پر قائم ہیں، اس برہان کے آجانے کے بعد ان کے وجود کی کیا حیثیت ہے؟ پروفیسر طاہر القادری صاحب ایسے فرد اور جماعت کے لیے کیا فتویٰ صادر فرمائیں گے؟

    یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاملے میں کوئی ہدایت فرمائیں یا کوئی نصیحت کریں تو اصطلاحاً وہ حدیث ہے۔ اس حوالے سے ادارہ منہاج القرآن کے قیام کا حکم ہو یا ’’طاہر کو ہمارے پاس لائو‘‘ جیسا کوئی جملہ آپ نے ارشاد فرمایا ہو تو وہ حدیث قرار پائے گا۔ اب یہ کام اصحاب جرح و تعدیل کا ہے کہ وہ فوراً ان روایات کی طرف توجہ دیں اور ان کے مقام کے تعین کے بعد انھیں صحاح ستہ میں کہیں جگہ دیں۔ علامہ طاہر القادری صاحب کی ثقاہت پر انگلی اٹھانا چونکہ ممکن نہیں، لہٰذا مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھیں صحیحین میں درج کرنا چاہیے تاکہ آنے والے دور کے لوگ اس ’’علمی سرماے‘‘ سے محروم نہ رہ پائیں۔ اسی ضمن میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اگر کوئی فرد زبانی یا عملی طور پر ان احادیث سے انکار کر دے تو اس ’’منکر حدیث‘‘ کے لیے کیا حکم ہے؟

    یہ سارے مسائل پیدا ہونے کی وجہ دراصل یہ ہے کہ پروفیسر صاحب نے اپنے فکر کی بنیاد قرآن و سنت اور استدلال کے بجاے بشارتوں اور الہام پر رکھی ہے۔ الہام و بشارت چونکہ وحی کے قائم مقام متصور ہوتے ہیں، اس لیے یہ امکان ہی رد کر دیا جاتا ہے کہ کوئی فرد کسی بات کے لیے کسی دلیل کا طالب ہو۔

    قرآن مجید نے اپنی بات منوانے کے لیے اس طرح کا طریقہ کبھی اختیار نہیں کیا کہ صرف وحی ہونے کی بنا پر اپنی آیات ماننے کا مطالبہ کیا ہو، بلکہ ہمیشہ لوگوں کی عقل اور اذہان پر دستک دے کر اپنی سچائی کو ثابت کیا ہے۔ لوگوں نے جب قرآن کو انسانی کلام قرار دیتے ہوئے اس کے غیرانسانی کلام ہونے کا انکار کیا تو قرآن نے جواب دیا کہ اچھا ٹھیک ہے۔ اگر یہ انسانی کلام ہے تو تم بھی تو انسان ہو۔ اس جیسی ایک سورہ ہی بنا لائو۔ لوگوں نے قادر مطلق کے وجود کا انکار کیا تو قرآن نے انفس و آفاق میں پھیلی ہوئی آیات کی طرف ان کی توجہ دلائی۔ قرآن نے کبھی اپنے اس استحقاق کو استعمال نہیں کیا کہ چونکہ وہ وحی الٰہی ہے، لہٰذا سوال مت کرو اور چپ چاپ تسلیم کر لو۔

    اس طرح قرآن مجید نے یہ اصول طے کر دیا کہ بات ہمیشہ دلیل و برہان ہی کی بنیاد پر مانی جائے گی۔ تمھاری عقل جب اس اصولی بات کو تسلیم کر لے کہ اللہ کا رسول اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا تو اس کی اس بات کو بھی تسلیم کرو جس کی مصلحت تمھاری سمجھ میں نہ آ رہی ہو۔ بہت جلد تم اس کی منطق جان جائو گے، جیسے صلح حدیبیہ کے موقع پر ہوا۔ اس بات کا مقدمہ بھی دراصل استدلال کی بنیاد پر قائم ہے چونکہ ایک فرد کے من جانب اللہ ہونے کے عقلی دلائل فراہم کیے جا چکے ہیں، لہٰذا اس بات کو دل میں جگہ نہ دو کہ وہ امت کے کسی اجتماعی معاملے میں محض اپنی راے سے کوئی فیصلہ دے گا۔

    اس لیے کوئی فرد، اگر اپنی بات کسی استدلال کے بجاے الہام و بشارت کی بنیاد پر منوانا چاہتا ہے تو قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔ اسی طرح رسالت کا جو تصور اس صورت حال کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اس کا اسلام کے تصور رسالت سے دو ر کا بھی تعلق نہیں۔ اور رسول اللہ کی طرف اس طرح کی حکایتوں کا انتساب بھی منصب رسالت کے شایان شان نہیں۔ یہ تو کبھی ممکن ہی نہیں ہوا کہ رسول کی زبان سے کوئی بات نکلے اور وہ پوری نہ ہو، وہ تو زمین پر اللہ کی آخری حجت۵؎ ہے۔ اور یہ ان کے مقام سے فروتر بات ہے کہ ان کی وفات کے بعد اس طرح کے معاملے میں انھیں ملوث کیا جائے جس کے لیے آپ کے پاس کوئی عقلی دلیل موجود نہیں۔ معلوم نہیں عشق رسول کا دم بھرنے والوں کے ذہن میں عظمت رسول کا یہ پہلو کیوں نہیں آتا؟

    ہماری اس تحریر کے مخاطب، جیسا کہ آغاز میں گزارش کی گئی ہے، دو طبقوں کے لوگ ہیں: ایک تو وہ لوگ جو قرآن اور اسلام کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک کو قبول کرتے ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے اس کا ساتھ دینے کو آمادہ ہو جاتے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ جو دین اسلام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہیں، لیکن وقت اور زمانے کے ساتھ اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔

    عام دین دار طبقے سے ہم عرض کریں گے کہ اگر اسلام اور قرآن کے نام پر کوئی شخص ان کو پکارتا ہے تو اس کی آواز وہ ضرور سنیں، لیکن یہ معلوم کرنے کی کوشش بھی کریں کہ آخر خود قرآن اس معاملے میں کیا کہتا ہے؟ ان کو اپنا تعلق قرآن وسنت سے براہ راست قائم کرنا چاہیے۔ قرآنی تعلیمات ان کے سامنے ہیں اور عقل و خرد کی دولت ان کے پاس ۔ اگر وہ یہ روش اپنا لیں تو یقین رکھیں کہ قرآن ہدایت طلب کرنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ ان کو یقین رکھنا چاہیے کہ دین کا اتنا حصہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے جس کے نتیجے میں صراط مستقیم پر چلا جا سکے۔ معاملات زندگی میں اگر وہ تحقیق کرکے مسلک اعتدال اپنا سکتے ہیں تو دین میں کیا امر مانع ہے؟

    غلبۂ دین کے لیے منظم و متحد احباب کو بھی توجہ فرمانی چاہیے کہ امت مسلمہ میں جب کبھی ایسے فتنے سر اٹھانے لگیں جن سے دین کی اصل صورت مسخ ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کی صورت حال میں ان کے فرائض کیا ہیں۔ صرف اسلام کے لیبل کی وجہ سے دست تعاون بڑھانا چاہیے یا مصلحتوں کو بالاے طاق رکھتے ہوئے تجدید و احیاے دین کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہمارے اسلاف کی سنت یہی ہے کہ انھوں نے موخر الذکر طریقے ہی کو ترجیح دی ہے۔ کسے معلوم نہیں کہ قافلۂ حق کے یہ سخت جاں مسافر اگر ہر وقتی ضلالت کو قبول کر لیتے تو زمانے کا اقتدار ان کے قدموں کے نیچے ہوتا، لیکن ہمیشہ مشکل راستے کا ہی انتخاب کیا گیا، اس لیے کہ یہ حقیقت ان کی بصیرت سے پوشیدہ نہیں تھی کہ اس کے سوا چارہ کوئی نہیں۔

    ہمارے ان احباب کو اپنی ذمہ داریوں کا خیال کرنا چاہیے اور وہ لٹریچر جسے وہ توسیع دعوت کے لیے دوسروں کو پڑھاتے ہیں، کبھی خود اس کی دوبارہ ورق گردانی کریں تو یقینا انھیں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے اس مفہوم کے حامل الفاظ ملیں گے کہ وہ قوم کتنی احمق ہے جس کی بغل میں عصاے کلیمی ہے، لیکن وہ جادوگروں کی لاٹھیوں اور رسیوں سے ڈر رہی ہے۔

    ہم نے اپنا نقطۂ نظر بالصراحت پیش کر دیا ہے ۔ ہم اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ کسی کی تذلیل کا سامان کریں، لیکن جس بات کو حق سمجھتے ہیں، اس کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں۔

فقیہ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

[جون ۱۹۸۹] ​

 ــــــــــــــــــــــــــ

B

حواشی :

۱؎ واضح رہے کہ یہ تحریر جون ۱۹۸۹ میں لکھی گئی تھی۔
۲؎ وقت اس تجزیے کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر چکا ۔ اب سیاسی جدوجہد کا باب تمام ہو چکا اور پروفیسر صاحب کی ساری جدوجہد اپنے مخصوص تصور دین کی اشاعت پر ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے شیخ الاسلام کا لقب بھی اختیار کر لیا ہے۔
۳؎ یہاں پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کے تحت قائم ہونے والی صوبائی حکومت کا ذکر ہے جس کے سربراہ میاں نوازشریف تھے۔ یہی تجربہ بعد میں مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل کی صورت میں دہرایا گیا جس کے نتیجے میں صوبہ سرحد میں ایک حکومت قائم ہو گئی، جماعت اسلامی جس کا فعال حصہ تھی۔ دونوں اتحادوں کی حکومت کے نتائج ایک سے رہے۔
۴؎ ان مقامات کے لیے ماہنامہ ’’قومی ڈائجسٹ‘‘ اپریل ۱۹۸۹ میں پروفیسر طاہر القادری صاحب کی ایک مجلس کی روداد ملاحظہ فرمائیں۔
۵؎ تفصیل کے لیے’’ اشراق‘‘ اکتوبر۱۹۸۸ کے شمارے میں محترم جاوید احمد غامدی کا مضمون ’’نبوت و رسالت‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔