HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Author: Rehan Ahmed Yusufi

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

شریعت اور فقہ کا فرق

قرآن اور حدیث کے بعد فکر فراہی کی علمی خدمات کا تیسرا بڑا دائرہ اسلامی شریعت کا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ شریعت کی درست نوعیت اور اس مسئلے کو واضح کیا جائے جو شریعت کے حوالے سے پیدا ہوگیا ہے۔

دین اصل میں ایمان و اخلاق کی دعوت کا نام ہے جسے قرآن کریم عام طور پر ایما ن و عمل صالح سے تعبیر کرتا ہے۔ایمان اور اخلاق کو عملی زندگی کا ایک حصہ بنانے اور ان کے تقاضوں پر قائم رہنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان لانے والوں کو ایک شریعت، یعنی قانون بھی عطا کیا ہے۔ مثلاً ایمان کی یاددہانی اور اللہ کے حقوق کی ادائیگی کو جب عبادت کے ایک قانون میں ڈھالا گیا تو پنج وقتہ فرض نماز وجود میں آئی۔زنا کی اخلاقی نجاست سے اہل ایمان کو بچانے کے لیے مرد و زن کے اختلاط کے موقع پر ایک خاص قانون دیا گیا۔خاندان کے ادارے کوانتشار سے بچانے کے لیے میاں بیوی کے حقوق و فرائض کے حوالے سے ایک ضابطہ طے کردیا گیا۔معاشرے کو فساد سے بچانے کے لیے کچھ جرائم کی سزائیں مقرر کی گئیں۔

یہ اور ان جیسے اور بہت سے قوانین، وہ شریعت وجود میں لاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کے ذریعے سے ہمیں عطا کی ہے۔آج سے چودہ سو برس قبل جب یہ شریعت دی گئی تو اللہ تعالیٰ کو اس وقت بھی معلوم تھا کہ آنے والے دنوں میں انسانی زندگی اور علم و تمد ن میں کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں۔ چنانچہ شریعت دیتے وقت اس بات کا لحاظ کیا گیا تھا کہ اصل شریعت میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو آنے والے زمانے میں ناقابل عمل یا زمانے کے فکری و علمی معیارات کے لحاظ سے ناقص قرار پائے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ شریعت خود ایک معجزہ ہے جو زرعی دور کے ایک قبائلی سماج میں دی گئی ، مگر انڈسٹریل، بلکہ انفارمیشن ایج کے ایک مختلف اورجدیدزمانے میں بھی بغیر کسی تبدیلی کے قابل عمل ہے۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شریعت کی تفہیم اور اطلاق (Application)کا عمل شروع ہوا۔ یہ ایک بالکل فطری عمل تھا، اس لیے کہ شریعت کا قانون بہت مختصر اور صرف انھی معاملات میں دیا گیاتھا جن میں انسان خود اپنی عقل سے درست نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔ باقی زندگی کے دائرے میں انسانوں کو آزادی تھی کہ اپنے حالات کے اعتبار سے وہ اپنے لیے جوقانون چاہے بنائیں۔چنانچہ فقہا کی شکل میں قانون دانوں کا ایک گروہ پیدا ہواجو اپنے دور اور حالات کے اعتبار سے قانون سازی کرتا اور پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیتا تھا۔لوگ ان فقہا کے پاس جاتے تو وہ انھیں شریعت کے احکام سمجھاتے اور اس کی روشنی میں نئے مسائل کا حل بھی بتاتے۔ جدید مسائل کا یہ حل ان کی اپنی آرا اور اپنا فہم دین ہوتا تھا۔ان کا یہ کام ایک فقہی ذخیر ے کی شکل میں جمع ہونا شروع ہوگیا۔

چودہ صدیوں میں یہ ذخیرہ کئی مراحل سے گزر کر اب اسلامی قانون کے نام پر ہمارے ہاں موجود ہے۔آج جب علما یہ کہتے ہیں کہ کسی مسئلے میں شریعت کا فیصلہ یہ ہے تو اس سے مراد بالعموم یہ فقہی ذخیرہ ہوتا ہے، جیسا کہ ہم نے واضح کیا ہے کہ اس ذخیرے میں شریعت کے ساتھ ساتھ فقہا کا اپنا فہم، اپنی تحقیق اوروہ قوانین پائے جاتے ہیں جو انھوں نے اپنے زمانے کے حالات کے لحاظ سے مرتب کیے تھے ۔ظاہر ہے کہ یہ فقہی ذخیرہ آسمانی شریعت سے ایک اضافی چیز ہے، اس کا حصہ نہیں۔

فکر فراہی کے ائمہ کا تیسرا عظیم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف فقہ اور شریعت کے اس فرق کو واضح کیا، بلکہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اس شریعت کو بالکل الگ کرکے لوگوں کے سامنے پیش کردیا جو اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے انسانیت کو عطا فرمائی تھی۔استاذ گرامی جاوید احمد صاحب غامدی نے دین پر اپنی اور اپنے اساتذہ کی عمر بھر کی تحقیق کو اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں بیان کیا ہے۔ ا س کتاب کے بارہ ابواب ہیں جن میں سے دو ایمان و اخلاق ہیں اور باقی ۱۰ ابواب اسی شریعت کا بیان ہیں۔ ان ابواب میں عبادات، معاشرت، سیاست، معیشت، دعوت دین،جہاد، جرم و سزا،خورو نوش،رسوم و آداب،قسم و کفارۂ قسم کے حوالے سے شریعت کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ شریعت ہے جو قرآن و سنت میں بیان کی گئی ہے اور احادیث میں اس کی شرح و وضاحت ملتی ہے۔چنانچہ اس کتاب میں صرف قرآن و سنت اور احادیث کی روشنی میں شریعت کو بیان کیا گیا ہے۔

یہ کتاب اس حوالے سے اسلامی علوم کی روایت میں ایک انتہائی قیمتی اور گراں قدر اضافہ ہے کہ اس کتاب میں ایک طالب علم اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ پورادین ایک جگہ دیکھ سکتا ہے۔اس کتاب میں صرف اور صرف شریعت کا بیان ہے، جاوید صاحب ،ان کے اساتذہ یا کسی اور عالم کی فقہی آرا شامل نہیں۔اس شریعت کامطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ اپنی ذات میں ایک معجزہ ہے۔ یہ چند بنیادی اور اصولی قوانین پر مشتمل ہے جو معجزانہ حد تک متوازن ہیں۔ اس شریعت کا ایک ایک حکم تا قیامت قابل عمل ہے ۔ اس پر کوئی علمی، فکری اور عملی اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔

 

حدود آرڈی نینس

فکر فراہی کے ائمہ کی اس گراں قدرعلمی خدمت کے جو اثرات مترتب ہوئے ہیں، وہ ہمہ جہتی ہیں، تاہم اس تحریر میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم زیادہ تر انھی پہلووں کو واضح کررہے ہیں جن میں اسلام پر وارد ہونے والے کسی اعتراض کا جواب ،ان اصحاب علم کے کام کے ایک نتیجے کے طور پر مل رہا ہو۔ ایسا ہی ایک معاملہ حدود آرڈی نینس کا ہے۔ یہ قانون ضیاء الحق صاحب کے زمانے میں اسلامی قانون کے طور پر نافذ ہوا اور پہلے ہی دن سے ایک متنازع قانون بنا رہا۔ ملکی وبین الاقوامی طورپراس قانون پربہت سے اعتراضات کیے گئے۔ اختصار کے پیش نظر ہم صرف ایک اعتراض کو لے رہے ہیں، یعنی اس قانون کی رو سے قتل، زنا اور چوری وغیرہ کے معاملات میں عورتوں کی گواہی سرے سے قابل قبول نہیں۔

یہ ایک ایسی بات ہے جسے اسلام کی نسبت سے جب بیان کیا جاتا ہے تو ذہن میں کئی سوالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ایک عملی مثال سے اس مسئلے کی سنگینی کو یوں سمجھیں کہ کسی گھر میں کچھ مجرم گھس جائیں۔ وہ گھر کے سارے مردوں کو قتل کردیں۔ جوان لڑکیو ں کی آبروریزی کرکے انھیں بھی مار ڈالیں اور مال و اسباب لوٹ کر لے جائیں۔ ایسے واقعے کی گواہ اگر کچھ خواتین ہوں تو حدود آرڈی نینس کے مطابق ان کی گواہی ایسے جرائم میں قابل قبول نہیں۔ان کی گواہی قبول ہوگی اور مجرموں کو اگر کوئی سزا ملے گی تو ایساملکی قانون اور تعزیرات کے تحت ہوگا نہ کہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کردہ قانون کے تحت۔ظاہر ہے کہ یہ چیز ذہنو ں میں انتہائی سنگین نوعیت کے سوالات پیدا کردیتی ہے۔ یہ سوالات ایسے ہیں جن کو اسلام دشمنوں کا پروپیگنڈا قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ 

اس پورے معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ حدود آرڈی نینس کے نام سے جو قانون نافذ کیا گیا تھا، وہ اصل میں ایک فقہی قانون تھا۔ آج لوگوں پر شریعت اور فقہ کا وہ فرق واضح نہیں جو فکر فراہی کے ائمہ نے بیان کیا ہے ،اس لیے جو چیز اسلامی قانون کے نام پر ان کے سامنے آئی، انھوں نے اسے آسمانی شریعت سمجھ لیا۔ جن لوگوں نے یہ دیکھا کہ اس میں عورت کی گواہی قبول نہیں ہوتی، ان کے لیے یہ بات اسلام پر عدم اعتماد کا سبب بن گئی، جبکہ مذہبی طبقات کے جن صالحین نے اس کا دفاع کیا، انھوں نے اسے خدا کا قانون سمجھ کر اس کا دفاع کیا، حالانکہ اصل بات صرف اتنی ہے کہ یہ کوئی آسمانی قانون نہیں تھا۔ یہ قدیم فقہا کی آرا پر مبنی ایک قانون تھا۔ اپنے زمانے میں یہ قانون چل گیا، مگر دور جدید میں یہ ناقابل عمل تھا اور ناقابل عمل ہی ثابت ہوا۔

اسلامی شریعت اپنی اصل شکل میں آج ہمارے سامنے واضح ہے۔ اس میں قتل ،چوری وغیرہ کی بہت سخت سزائیں بیان ہوئی ہیں، لیکن ان کے معاملے میں گواہی کا کوئی ضابطہ بیان نہیں ہوا۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ایسا ہی ہونا بھی چاہیے تھا۔اس کا سبب یہ ہے کہ معاہدات وغیرہ کے حوالے سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ان پر گواہ اپنے اختیار سے منتخب کرلیے جائیں۔ اس سے قبل نظم قرآن کی وضاحت کرتے ہوئے ہم نے یہ بتایا تھا کہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بعض ہدایات بھی دیں، لیکن جرائم اور حادثات کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے واقع ہونے تک کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کا کون گواہ ہوگا۔ بنک میں ڈاکا، سڑک پر حادثہ، بازار میں قتل، گھر میں چوری اور دیگر جرائم کے وقت جنس، مذہب، عمر اور تعدادسے قطع نظرجولوگ وہاں موجود ہوں گے، وہ خود بخود گواہ بن جائیں گے، بلکہ دور جدید میں تو ویڈیو کیمرے، انگلیوں کے نشانات، میڈیکل رپورٹس، ڈی این اے ٹیسٹ،یہ سب جرم کے ثبوت کے لیے عام استعمال ہوتے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ایسے معاملات میں گواہوں پر جنس، مذہب، عمر اور تعداد کی کوئی بندش نہیں لگائی جاسکتی اور نہ دین نے ایسی کوئی پابندی لگائی ہے۔ جرم کے ثبوت اور گواہی کے ضابطے کے لیے ہر دور اور تمدن کے لحاظ سے معاملات کیے جاتے ہیں، جن کا فیصلہ اس زمانے کے ارباب حل و عقد، قانون ساز ادارے اور پارلیمنٹ کرتی ہے۔دین اس پر کوئی پابندی نہیں لگاتا۔

استاذ گرامی کی تحقیق کے مطابق اسلامی شریعت میں گواہی کا صرف ایک ضابطہ بیان ہوا ہے جو زنا اور قحبہ گری کے حوالے سے ہے، یعنی کسی پاک دامن مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگانے کے لیے ایک دو لوگوں کی گواہی،میڈیکل ٹیسٹ وغیرہ ،کچھ بھی قابل قبول نہیں، بلکہ اچھی شہرت کے کسی بھی شخص کے خلاف زنا کا مقدمہ درج کرانے کے لیے ضروری ہے کہ چار لوگ اس کے خلاف گواہی دیں۔اسی طرح کسی عام خاتون پر قحبہ گری کا الزام لگانے کے لیے بھی چار گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زنا کی سزا مقرر کرکے اس جرم کاارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اسی طرح چار گواہوں کی شرط لگاکر معصوم لوگوں کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے۔اس کے سوا اسلام میں گواہی کا اور کوئی ضابطہ بیان نہیں ہوا ہے۔

 

 

B